پاکستان کے کتنے سابق جرنیلوں اور اہل خانہ کی آف شور کمپنیاں نکلیں؟

نیوز ڈیسک

کراچی : تحقیقاتی صحافیوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے اتوار کو ’پنڈورا پیپرز‘ کے نام سے ایک جامع تحقیق شائع ہوئی ہے. اس رپورٹ میں دنیا بھر کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ شخصیات کے آف شور مالیاتی رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے

پنڈورا پیپرز کے نام سے سامنے آنے والی آئی سی آئی جے کی رپورٹ  میں جہاں پاکستان کے کئی سیاست دانوں کے نام آئے ہیں ، وہیں عسکری اور سول سرونٹس، تاجروں اور بینکروں کے نام سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے، جن کی تعداد سات سو زائد ہے

آئی سی آئی جے کے پنڈورا پیپرز میں آف شور اثاثوں سے منسلک پاکستان کے کچھ سابق فوجی افسروں کے نام بھی نظر آتے ہیں۔

خیال رہے کہ پنڈورا پیپرز میں موجود تفصیلات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی، جبکہ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے پاکستان سے شامل کیے گئے صحافی بھی اپنی ‘مخصوص’ رپورٹنگ کے لیے مشہور ہیں

پینڈورا پیپرز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے سابق مشیر جنرل (ر) شفاعت اللہ شاہ کی اہلیہ فریحہ شاہ نے 2007ع میں ایک آف شور ٹرانسیکشن کے ذریعے لندن میں بارہ لاکھ ڈالرز مالیت کا اپارٹمنٹ خریدا تھا

یہ جائیداد فریحہ شاہ کو ایک آف شور کمپنی کے ذریعے منتقل کی گئی تھی، جس کے مالک ایک امیر کاروباری شخصیت اکبر آصف ہیں، جن کے لندن اور دبئی میں ریستوراں ہیں

رپورٹ کے مطابق اکبر آصف بھارتی فلم ڈائریکٹر کے آصف کے صاحب زادے ہیں۔ اکبر نے ایک مرتبہ لندن کے ہوٹل میں مشرف سے ملاقات کے دوران ان سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان میں بھارتی فلموں پر چالیس سال سے لگی پابندی اٹھا دیں، جس کے بعد صدر مشرف نے بھارتی فلموں سے پابندی اٹھا لی تھی

لیک دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ آصف نے آف شور کمپنیوں کی مدد سے لاکھوں ڈالرز کا پراپرٹی پورٹ فولیو بنا لیا تھا

انہی میں سے ایک آف شور کمپنی طلحہ لمیٹڈ، جو برٹش ورجن آئی لینڈز (بی وی آئی) میں رجسٹر ہوئی تھی، لندن کا مذکورہ اپارٹمنٹ فریحہ شاہ کو منتقل کرنے کے لیے استعمال ہوئی

طلحہ نے 2006ع میں مالیاتی علاقے کنری وارف میں ایک اپارٹمنٹ خریدا تھا، جس کے بعد کمپنی کی ملکیت فریحہ شاہ کو منتقل ہو گئی

جنرل شاہ نے آئی سی آئی جے کو اپنے ردعمل میں بتایا کہ انہوں نے لندن کا مذکورہ اپارٹمنٹ ریئل سٹیٹ فرمز کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کرنے والے اپنے ایک سابق فوج دوست کی مدد سے خریدا

ان کا کہنا تھا کہ اس خریداری میں ان کا آصف سے کوئی ذاتی تعلق نہیں تھا۔ ان کے مطابق : ’یہ اپارٹمنٹ میں نے اپنی اہلیہ کے نام اس لیے کیا، کہ میرے نام پر پہلے سے جائیداد تھی اور مجھے ٹیکس کٹوتی کے معاملات میں توازن لانا تھا۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ فریحہ کبھی آصف سے نہیں ملیں اور وہ بھی ان سے صرف ایک مرتبہ ملے تھے۔

اس کے علاوہ پنڈورا پیپرز میں سابق وزیر اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل راجہ نادر پرویز کا بھی نام آیا ہے۔ پیپرز کے مطابق وہ بی وی آئی میں رجسٹرڈ کمپنی انٹرنیشنل فائنانس اینڈ ایکوپمنٹ لمیٹڈ کے مالک تھے

لیک دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ کمپنی بھارت، تھائی لینڈ، روس اور چین میں مشینری اور متعلقہ کاروبار کرتی تھی

ریکارڈز بتاتے ہیں کہ راجہ نادر پرویز نے 2003ع میں کمپنی میں اپنے شیئرز ایک ٹرسٹ کو منتقل کر دیے تھے، جس کے تحت متعدد آف شور کمپنیاں ہیں

رپورٹ کے مطابق راجہ نادر پرویز حکومت پاکستان میں متعدد اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں

آئی سی آئی جے نے ان کا موقف جاننے کے لیے سوالات بھیجے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا

اسی طرح ایک نام میجر جنرل (ر) نصرت نعیم کا بھی سامنے آیا ہے، جو آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل کاؤنٹر انٹیلیجنس کے عہدے پر رہ چکے ہیں

ان کے متعلق پنڈورا پیپرز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد 2009ع میں ان کی ایک بی وی آئی کمپنی ’افغان آئل اینڈ گیس لمیٹڈ‘ بنی تھی

اس حوالے سے جنرل (ر) نصرت نے موقف اپنایا ہے کہ یہ کمپنی ان کے ایک دوست نے بنائی تھی اور انہوں نے اس کمپنی کے ذریعے کوئی مالی لین دین نہیں کیا

بعد میں اسلام آباد پولیس نے ان پر سترہ لاکھ ڈالرز کی ایک سٹیل مل خریدنے کی کوشش میں فراڈ کا الزام عائد کیا تھا۔ یہ کیس بعد ازاں بند کر دیا گیا

پنڈورا پیپرز میں تین مزید سینیئر عسکری شخصیات کے قریبی رشتہ داروں کی آف شور کمپنیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ ان میں عمر اور احد خٹک شامل ہیں، جو پاکستان فضائیہ کے سابق سربراہ عباس خٹک کے بیٹے ہیں

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ عمر اور احد خٹک نے 2010ع میں ’فیملی بزنس‘ کے طور پر اسٹاک، بانڈز، میوچل فنڈز اور ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے بی وی آئی میں ایک کمپنی رجسٹر کی تھی

ان دونوں بھائیوں کی طرف سے بھی آئی سی آئی جے کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جواب نہیں دیے گئے

اس رپورٹ کے مطابق ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کی بیٹی شہناز سجاد احمد کو آف شور ٹرسٹ کے ذریعے جائیداد وراثت میں ملی تھی. یہ آف شور کمپنی لندن میں ہیرڈز کے قریب نائٹس برج میں دو اپارٹمنٹس کی مالک ہے، جو 1997ع اور 2011ع میں خریدے گئے

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کی بیٹی شہناز سجاد نے 2003ع میں اپنی بیٹیوں کے لیے ”ٹیکس ہیون“ سمجھے جانے والے علاقے گارنسے میں ایک ٹرسٹ قائم کیا تھا

شہناز سجاد کے والد فیلڈ مارشل ایوب خان کے قریبی تھے۔ شہناز سجاد نے بھی اس معاملے میں اپنا موقف نہیں دیا

پنڈورا پیپرز میں شامل ایک اور نام صوبہ پنجاب کے سابق گورنر جنرل (ر) خالد مقبول کے داماد احسن لطیف کا بھی ہے، جو بی وی آئی میں ایک کمپنی ”ڈائیلان کیپیٹل“ کے مالک نکلے ہیں

پاکستان میں پنڈورا پیپیرز پر تحقیق کرنے والے صحافی عمر چیمہ نے اتوار کی رات دستاویزات شائع ہونے کے بعد مقامی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں بتایا کہ احسن لطیف کے مطابق یہ کمپنی جائیداد کا کاروبار کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، لیکن بعد میں اس کے ذریعے روس سے ایل پی جی درآمد کی گئی. انہوں نے واضح کیا کہ اس درآمد سے ہونے والی آمدنی بیرون ملک رہے گی جس سے وہ بعد میں پاکستان سے باہر ہی مزید سرمایہ کاری کریں گے

اسی طرح جنرل (ر) افضل مظفر کے بیٹے حسن مظفر بھی بی وی آئی میں ’کریک گروتھ کیپیٹل ہولڈنگ لمیٹڈ‘ کے مالک رہے ہیں

عمر چیمہ کے ہمراہ پنڈورا پیپیرز پر تحقیق کرنے والے صحافی فخر درانی کا کہنا ہے کہ این ایل سی اسکینڈل میں کچھ فوجی افسران کو سزائیں ہوئی تھیں، جن میں سے ایک جنرل (ر) مظفر بھی تھے۔ ان پر چونکہ مالیاتی کرپشن ثابت نہیں ہوئی تھی، لہٰذا انہیں مختصر سزا دی گئی تھی

فخر درانی کے مطابق متحدہ عرب امارات میں کمپنی کے نام پر ایک میڈیکل سینٹر تھا

حسن مظفر نے آئی سی آئی جے کے رابطے پر بتایا کہ یہ کمپنی کچھ پارٹنرز نے میڈیکل سینٹر کے لیے مل کر بنائی تھی۔ لیکن بعد میں نقصان ہونے پر کمپنی اور میڈیکل سینٹر ختم کر دیا گیا

انہوں نے واضح کیا کہ کمپنی کی آمدنی میں خاندان کے کسی فرد کا حصہ نہیں تھا۔ وہ یو اے ای میں رہتے ہیں اور یہیں اپنی آمدنی سے سب کچھ بنایا

لیک دستاویزات میں ایک نام سابق سیکریٹری دفاعی پیداوار لیفٹننٹ جنرل (ر) تنویر طاہر کی اہلیہ زہرہ تنویر کا بھی ہے، جو بی وی آئی کمپنی انر پلاسٹکس لمیٹڈ کی شیئر ہولڈر تھیں. مقامی چینل جیو نیوز کے مطابق یہ آف شور کمپنی پاکستان میں ڈیکلیئر ہے اور اس میں کوئی غیر قانونی ذریعہ آمدنی نہیں ہے.

مزید خبریں:

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close