سندھ: گندم کے ریکارڈ میں مبینہ فراڈ، چوری سے اربوں روپے کا نقصان!

ویب ڈیسک

قلتِ خوراک ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ افریقہ کے ممالک میں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہاں خوراک کی قلت کا سامنا رہتا ہے مگر پاکستان جیسے زرخیز ملک اور جہاں ایک طویل نہری نظام موجود ہو اور صحرا نہ ہونے کے برابر ہوں، وہاں خوراک کی قلت جیسے مسائل سمجھ سے بالاتر ہیں

لیکن اس کی وجہ سمجھنا اس قدر بھی مشکل نہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ سندھ کے محکمہ خوراک کے عہدیداروں کی ’غفلت‘ سے نہ صرف بڑے پیمانے پر گندم خراب ہو گئی بلکہ 2022 کے دوران بارشوں سے گوداموں میں گندم خراب ہونے کا جو ریکارڈ پیش کیا تھا، وہ بھی غلط نکلا ہے۔ غلط اعداد و شمار کی وجہ سے قومی خزانے کو 3 ارب 22 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے

رپورٹ کے مطابق سندھ کے مختلف گوداموں سے پچھلے برسوں میں 3 لاکھ 79 ہزار 62 گندم کی بوریاں چوری کی گئی تھیں، بوریوں کی مالیت 3 ارب روپے سے زائد بنتی ہے جبکہ محکمہ خوراک کے کرپٹ ملازمین کی جانب سے 2022کی بارشوں کا غلط فائدہ اٹھایا گیا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ خوراک کے اہلکار گندم کی چوری اور اسمگلنگ میں براہ راست ملوث ہیں، چوری ہونے والی گندم کی جگہ خراب گندم میں مٹی اور پتھر ملا کر ریکارڈ پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔

مزید بتایا گیا ہے کہ محکمہ خوراک کے ملازمین نے قومی خزانے کو 3 ارب 22 کروڑ کا نقصان پہنچایا اور اسی طرح محکمہ خوراک کے ضلعی افسران مارکیٹ میں فروخت ہونے والی چوری شدہ گندم کی بوریوں کا حساب دینے میں بھی ناکام رہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نگراں وزیر اعلیٰ کے حکم پر نئے چئیرمین نے معائنہ ٹیم کے رکن علی گل سنجرانی کی سربراہی میں مکمل تحقیقاتی رپورٹ وزیراعلیٰ کو بھجوانے کی منظوری دی تھی۔

رپورٹ کے مطابق متعلقہ حکام نے 3 لاکھ79 ہزار گندم کی بوریاں چوری کر کے اوپن مارکیٹ میں بیچ دیں، حیدرآباد ریجن کے گوداموں سے 78 ہزار گندم کی بوریاں غائب ہیں، سکھر ریجن کے گوداموں سے 26 ہزار بوریاں، جبکہ لاڑکانہ ریجن کے گوداموں سے 63 ہزار بوریاں غائب ہوئیں

اعداد و شمار میں واضح کیا گیا ہے کہ شہید بینظیر آباد (نواب شاہ) ریجن سے 4 ہزار 500 بوریاں اور کراچی ریجن کے گوداموں سے 2 لاکھ گندم کی بوریاں غائب ہیں، جبکہ محکمہ خوراک کے اہلکاروں نے چالاکی سے پرانی بوسیدہ اور پرانی گندم میں مٹی اور پتھر بھر دیے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چوری شدہ گندم کی جگہ تعداد غلط طریقے سے برابر کی گئی ہے، تحقیق کرنے والے حکام نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گوداموں میں ذخیرہ شدہ گندم کا ذخیرہ دو سال پرانا ہے، جبکہ بارشیں 16 ماہ قبل ہوئی تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گندم چوری کر کے منڈی میں فروخت کی گئی تھی۔

حکام نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ گندم کے تھیلے خراب گندم اور مٹی سے بھرے ہوئے تھے اور محکمہ خوراک کے حکام نے بارشوں سے گندم کی خرابی سے متعلق تحقیقاتی ٹیم کو آگاہ نہیں کیا، اہلکاروں نے اپنی دستاویزات میں گندم کی خرابی کا انکشاف بھی کیا ہے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ گندم فراڈ میں ملوث محکمہ خوراک کے اہلکاروں سے گندم کی فروخت سے حاصل کیے گئے اربوں کی رقم برآمد کی جائے اور ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گندم اس قدر خراب ہے کہ خطرناک مواد اور بدبو کی وجہ سے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کے استعمال کے قابل بھی نہیں ہے، خراب گندم کو فوری تلف کیا جائے کیونکہ گندم کی بدبو سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔

چیئرمین شکیل احمد مگنیجو نے تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو بھجوانے کی منظوری دے دی ہے جبکہ صوبائی وزیر جام خان شورو مذکورہ معاملے سے مکمل طور پر ’لاعلم‘ نکلے اور ان کا کہنا تھا کہ معلومات حاصل کر کے جواب دیا جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close