پاکستان کا دو تہائی حصہ کیوں زلزلے کے خطرے کا شکار؟

نیوز ڈیسک

کراچی : بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں 7 اکتوبر کو علی الصبح آنے والے زلزلے کے متعلق زلزلہ پیما مرکز اسلام آباد کے ڈائریکٹر زاہد رفیع کا کہنا ہے کہ زلزلے سے زیادہ نقصانات کی ممکنہ طور پر تین وجوہات ہو سکتی ہیں، جس میں سب سے پہلی وجہ یہ تھی کہ یہ زلزلہ رات کے وقت آیا، جس وقت عموماً لوگ اپنے گھروں کی چھتوں تلے سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کو محفوظ مقام تک پہنچنے کا موقع نہیں ملتا ہے

دوسری وجہ ہرنائی میں کچے گھروں کی موجودگی اور زلزلے سے بچاؤ کے مناسب انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ہے

یہ 5.9 کی شدت کا زلزلہ تھا جبکہ اس کی گہرائی صرف 15 کلو میٹر تھی۔ کم گہرائی کی وجہ سے بھی زمین کے اوپر زلزلے کے جھٹکے زیادہ محسوس کیے جاتے ہیں

زاہد رفیع کے مطابق اتنی کم گہرائی میں کوئی بھی زلزلہ 5.9 کا ہو تو اس کو کافی شدید سمجھا جاتا ہے

زاہد رفیع کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ بلوچستان اور ہرنائی ہی فالٹ لائن پر ہیں، بلکہ پاکستان کا دوتہائی حصہ فالٹ لائنز پر واقع ہے. یہاں پر کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پر زلزلہ آ سکتا ہے۔ اس کے نقصانات سے بچاؤ کے لیے لازمی ہے کہ انفراسٹریکچر کی تعمیر زلزلہ پروف ہو

پاکستان میں اب تک جتنے بھی زلزلے آئے ہیں، ان میں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے

جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد باقاعدہ طور پر بلڈنگ کوڈ تیار کیے گئے

ان قواعد کے مطابق یہ باقاعدہ طے ہوا تھا کہ اب آئندہ ایسی عمارتوں کے نقشے پاس نہیں ہوں گے، جو کہ زلزلے سے محفوظ نہ ہوں

زاہد رفیع بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ زلزلوں سے نقصان سے بچنے کے لیے یہ لائحہ عمل پورے ملک میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ بلڈنگ کوڈز پر عمل ہونے سے جانی و مالی نقصان کم کیا جا سکتا ہے

سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ فالٹ لائن پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کا دو تہائی علاقہ ممکنہ طور پر زلزلے کے خطرے میں رہتا ہے

جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا بڑا حصہ انڈین پلیٹ پر واقع ہے، جبکہ یہاں سے یوریشین (یورپ اور ایشیا) اور عرب پلیٹیں بھی گزرتی ہیں

فالٹ لائن کا مطلب زیرِ زمین پلیٹوں کا ٹوٹ کر مختلف حصوں میں تقسیم ہو جانا ہے جو زمین کے نیچے حرکت کرتے رہتے ہیں اور یہ حصے دباؤ جمع کرتے رہے ہیں

پھر ایک ایسا موقع آتا ہے جہاں پر ان کو کسی مقام پر اپنا دباؤ نکالنے کا موقع ملتا ہے، تو پھر اس مقام پر زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ کبھی زیادہ شدت کے ہوتے ہیں اور کبھی کم

پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے، جہاں یہ یوریشین پلیٹ سے ملتی ہے۔ یوریشین پلیٹ کے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کا عمل لاکھوں سال سے جاری رہا ہے

ہمالیہ کا وجود بھی لاکھوں سال پہلے زیرِ زمین پلیٹوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ اب بھی ہمالیہ متحرک ہے اور یہ ہر سال ایک سینٹی میٹر بڑھ رہا ہے

▪️کون سے علاقے زیادہ خطرے کا شکار ہیں؟

جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے ملک کو زلزلوں کے حوالے سے چار زونز میں تقسیم کر رکھا ہے

زون ون میں زلزلے کے امکانات کم سمجھے جاتے ہیں۔ زون ٹو میں زلزلے کے کچھ امکانات سمجھے جاتے ہیں اور ان میں پنجاب کے میدانی علاقے اور وسطی سندھ شامل ہیں

زون تھری میں زلزلے کے کافی زیادہ امکانات سمجھتے جاتے ہیں۔ ان میں کراچی، بلوچستان، اسکردو، سوات، پشاور، میدانی ہمالیہ کے علاقے آتے ہیں

جبکہ زون فور کے اندر انتہائی خطرے کا شکار علاقوں میں پوٹھوہار، کشمیر، ہزارہ، شمالی علاقہ جات، کوئٹہ اور ہمالیہ کے پہاڑی علاقے آتے ہیں

▪️زلزلے کی شدت کیسے ناپی جاتی ہے؟

زلزلے کی شدت کو ناپنے کے لیے کچھ عرصہ قبل تک تو صرف ریکٹر سکیل استعمال کیا جاتا تھا، تاہم اس کی مدد سے بڑے زلزلوں کی صحیح شدت ناپنے میں ناکامی کے بعد اب مومنٹ میگنیچیوڈ اسکیل زیادہ استعمال کیا جاتا ہے

زلزلے کی شدت ایک سے دس کے درمیان متعین کی جاتی ہے۔ اگر زلزلہ ایک سے تین کی شدت کا ہو تو معمولی کہلاتا ہے۔ تین سے سات تک درمیانہ جبکہ سات سے زیادہ کا زلزلہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے

زلزلے کی شدت ناپنے کے لیے جو معیار استعمال کیا جاتا ہے، وہ لوگریتھمک ہوتا ہے یعنی ایک درجے کا فرق شدت میں دس گنا اضافہ لاتا ہے

مثال کے طور پر اگر زلزلے کی شدت اسکیل پر پانچ ہو، تو یہ چار شدت کے زلزلے سے دس گنا زیادہ طاقتور ہوگا اور اس میں 31 گنا زیادہ توانائی کا اخراج ہو گا

دوسری طرف زلزلے کو زمین میں اس کی گہرائی سے بھی ناپا جاسکتا ہے

اگر زلزلہ 50 کلومیٹر تک ہو تو اسے شیلو یا کم گہرائی، 50 سے 300 کلومیٹر تک انٹرمیڈیٹ یا درمیانی گہرائی اور 300 کلومیٹر سے زیادہ ہو تو اسے ڈیپ یا انتہائی گہرائی میں آنے والا زلزلہ شمار کیا جاتا ہے

ہرنائی میں آنے والا زلزلہ بھی شیلو ٹائپ کا زلزلہ تھا، جس کے باعث اس کی کافی شدت محسوس کی گئی.

مزید خبریں:

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close