دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت کرنا کتنا خطرناک کام ہے۔ میں نے کئی سیاست دانوں، فلاحی کارکنوں اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں کی خود اعتمادی کو حیرانگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یہ لوگ اپنے بھرپور اعتماد کے باعث دوسرے انسانوں کو اپنی عادات و اطوار، نظریات اور طرزِ زندگی کو بدلنے پر راغب کر دیتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ سوچتے ہوئے دوسروں کو نصیحت کرنے سے احتراز کیا ہے، کہ جب تک انسان اپنی ذات کو اچھی طرح نہیں جانتا، تو کسی اور کو اچھی طرح جاننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہم اپنے ہمسایوں کے خیالات اور جذبات کو نہیں جانتے، ان کا صرف اندازہ لگاتے رہتے ہیں۔ ہر انسان اپنے تنہائی کے گنبد میں مقید ہے اور دوسرے قیدی انسانوں سے ملنے والے چند روایتی اشاروں سے ہم مختلف معنی اخذ کرتے ہیں اور حرفِ مدعا پوری طرح نہیں سمجھ پاتے۔ زندگی ایک ایسی چیز ہے جو ہم صرف ایک بار گزارتے ہیں۔ اس کی بعض غلطیاں ناقابلِ تلافی ہوتی ہیں، جن کا بوجھ ہم اپنے کندھوں پر اٹھائے عمر بھر چلتے رہتے ہیں۔
ایسے حالات میں میرا کسی کو یہ مشورہ دینا، کہ وہ اپنی زندگی کس طرح گذارے، ایک بہت مشکل کام ہے! زندگی کا کاروبار اتنا مشکل ہےکہ اوروں کو نصیحت کرنا تو اپنی جگہ ، کئی دفعہ مجھے اپنے بارے میں فیصلہ کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کیفیات اور خیالات کے باوجود کئی دفعہ زندگی کے راستے پر میری کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی تھی، جو آغازِ سفر میں ہی راہ کھو بیٹھے تھے۔ جن کے ارادے متزلزل تھے اور ذہنوں پر دھند چھائی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے مجھ سے جب رہنمائی چاہی، تو میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی منزل کی طرف اشارے کردیے تھے… ان میں سے نہ جانے کتنے لوگ میرے مشوروں کی وجہ سے اپنی منزلوں پر پہنچ گئے تھے اور کتنے بھٹک گئے۔
صرف ایک شخص کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اسے صحیح مشورہ دیا تھا۔ یہ میری جوانی کے دنوں کی بات ہے جب میں لندن میں وکٹوریہ اسٹریٹ کے قریب ایک درمیانے درجے کے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ ایک شام کو جب میں اپنے کام سے فارغ ہو کر آرام کرنے والا تھا کہ گھنٹی کی آواز آئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک اجنبی تھا۔ اس نے میرا نام پوچھا اور جواب سننے کے بعد کہنے لگا:
”کیا میں اندر آسکتا ہوں؟“
”یقیناً“ میں نے جواب دیا
میں اسے اندر لے آیا اور بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کی۔ وہ کچھ گھبرایا سا لگ رہا تھا۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کیا۔ سگریٹ جلاتے ہوئے وہ کچھ کانپ رہا تھا. اسی دوران اس کا ہیٹ گر پڑا۔ میں نے ہیٹ کو دوسری کرسی پر رکھنے کی پیشکش کی تو اس نے خود ہی ہیٹ اٹھا کر کرسی پر رکھ دیا، لیکن وہ اتنی بدحواسی کا شکار تھا کہ ایسا کرتے ہوئے اس کی چھتری گر پڑی
”مجھے امید ہے کہ آپ نے میری اس بے وقت کی دخل اندازی پر برا نہیں مانا ہوگا“
اس نے بولنا شروع کیا
”میرا نام اسٹیفنز ہے اور میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ آپ کا تعلق بھی طب سے ہے، ہے نا…؟“
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، لیکن میں پریکٹس نہیں کرتا…“
”جی جی… میں جانتا ہوں.. میں نے پچھلے دنوں آپ کی وہ کتاب پڑھی ہے، جو آپ نے اسپین کے بارے میں لکھی ہے۔“
”وہ کوئی اتنی اچھی کتاب تو نہیں..“
”بہرحال.. آپ اسپین کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں۔ میرے علم میں کوئی اور شخص نہیں، جو اسپین کے بارے میں اتنی معلومات رکھتا ہو۔ اس لیے مجھےامید ہے کہ آپ میرے چند سوالات کا جواب دے سکیں گے۔“
”بڑی خوشی سے..“
وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا۔ پھر اس نے بے خیالی میں ہیٹ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اسے سہلانے لگا۔ جیسے وہ سوال کرنے کے لیے اپنی ہمت کو یکجا کر رہا ہو۔
”مجھے اُمید ہے کہ آپ کی طبیعت پر ایک اجنبی کا اس طرح بے تکلف ہونا گراں نہ گذرے گا“ وہ کھسیانی سی ہنسی ہنسا ”آپ فکر نہ کریں میں آپ کو اپنی داستانِ زندگی نہیں سناؤں گا۔“
جب کوئی شخص مجھے یہ کہتا ہے، تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ وہی کرے گا، جس کی وہ تردید کر رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ مجھے ناگوار نہیں گزرتا، بلکہ ایک عجیب طریقے سے میں اسے پسند کرتا ہوں..
وہ گویا ہوا ”میرا بچپن میری دو خالاؤں کے ساتھ گزرا تھا۔ میں پوری زندگی کہیں نہیں گیا۔ کہیں سیر و سیاحت کےلیے قدم نہیں اٹھایا۔ میری شادی کو چھ برس گزر چکے ہیں۔ میں کیمبرول کی ڈسپنسری میں بطور میڈیکل افسر کے کام کر رہا ہوں۔ میں اس روزانہ کے معمول سے تنگ آچکا ہوں اور باقی زندگی اسی ڈگر پر نہیں گزارنا چاہتا…“
اس کی گفتگو میں، انداز میں، فقروں میں، میں نے ایک شدت محسوس کی۔ وہ شخص آہستہ آہستہ میری توجہ کا مرکز بن رہا تھا۔ وہ چھوٹے قد کا بھاری بھرکم انسان تھا، جس کی عمر تیس برس کےقریب ہوگی۔ اس کا چہرہ سرخ تھا اور اس کی آنکھیں چھوٹی، گہرےرنگ کی، لیکن بہت چمکدار تھیں۔ اس نے نیلا سوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کی پتلون کے تھیلا نما گھٹنے اور کوٹ کی ڈھیلی ڈھالی جیبیں اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ وہ ان کپڑوں کو کافی عرصہ سے پہن رہا ہے.
”میری زندگی کا ہر نیا دن پچھلے دن کی طرح ہوتا ہے، جس میں نیا کچھ نہیں ہوتا… تمہارا کیا خیال ہے، کوئی انسان اپنی ساری زندگی کے شب و روز اس طرح گذار سکتا ہے؟“
”یہ روزی کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔“ میں نے جواب دیا
”یہ بات تو ٹھیک ہے، لیکن مجھے پیسوں کی کمی نہیں۔“
”میں ابھی تک یہ سوچ رہا ہوں کہ تم مجھ سے ملنے کیوں آئے ہو؟“
”دراصل میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا اسپین میں ایک انگریز ڈاکٹر کی کوئی مانگ ہے یا نہیں؟“
”اسپین کیوں؟“
”پتہ نہیں.. میرا اسپین جانے کو دل چاہتا ہے۔“
”تم بخوبی واقف ہو کہ وہاں کارمن جیسی جنت نہیں ہے۔“
”ٹھیک ہے، لیکن وہاں سورج کی روشنی فراواں ہوگی، بہت سی تفریح، بہت سے رنگین مناظر اور تازہ ہوا.. میں تم سےصاف صاف کیوں نہ پوچھوں.. میں نے سنا ہے کہ سیول کے علاقے میں کوئی انگریز ڈاکٹر نہیں ہے۔ کیا تمہارے خیال میں، میں اس علاقے میں اپنی روزی کمانےکا بندوبست کرسکوں گا؟ کیا ایک غیر یقینی مستقبل کے لیے ایک محفوظ اور مستقل ملازمت چھوڑ دینا دانش مندانہ اقدام ہے؟“
”اس بارے میں تمہاری بیوی کا کیا خیال ہے؟ “
”وہ چلنے کے لیے تیار ہے۔“
”آپ ایک بہت بڑا جوا کھیل رہے ہیں۔“
”جانتا ہوں… اسی لیے میں آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں۔ آپ کہیں گے چلے جاؤ، تو چلا جاؤں گا.. آپ کہیں گے نہیں جاؤ، تو یہیں رہوں گا“
وہ مجھے اپنی گہری چمکیلی آنکھوں سے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ وہ سنجیدہ ہے۔ میں چند لمحوں کے لیے سوچ میں پڑ گیا
”یہ تمہارے پورے مستقبل کا سوال ہے۔ اس لیے فیصلہ تمہیں خود کرنا چاہیے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر تمہیں دولت کی ہوس نہیں اور سکون اور خوشی کے متلاشی ہو تو چلے جاؤ.. وہاں تمہیں پیسے کم ملیں گے، لیکن خوشیاں زیادہ.. تم روکھی سوکھی کھاؤ گے، لیکن زندگی خوشی سے گزارو گے“
وہ رخصت ہوا۔ میں ایک دو دن اس کے بارے میں سوچتا رہا، اس کے بعد بھول گیا۔ اس واقعہ کو طویل عرصہ گزر گیا اور اس کی یادیں بھی میرے ذہن سے محو ہوگئیں۔
طویل عرصے کے بعد، تقریباً پندرہ برس کے بعد مجھے اتفاقاً سیول Seville جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک دن میری طبیعت ناساز تھی۔ میں نے ہوٹل کے ایک کارکن سے پوچھا،
”کیا اس علاقے میں کوئی انگریز ڈاکٹر ہے؟“
اس نے مجھے ڈاکٹر کے گھر کا پتہ بتایا اور میں ٹیکسی لے کر اس کے گھر پہنچا۔ وہاں سے ایک چھوٹے قد کا بھاری بھرکم مرد نکلا، مجھے دیکھ کر وہ قدرے ہچکچایا
”کیا آپ مجھ سے ملنے آئے ہیں؟“ وہ بولا ”میں انگریز ڈاکٹر ہوں۔“
میں نے اپنی طبیعت کی ناسازی کا ذکر کیا۔ وہ مجھے اندر لے آیا۔ وہ ایک ہسپانوی طرز کا معمولی سا گھر تھا۔ ایک طرف برآمدہ تھا اور دوسری طرف اس کا مطب۔ اس کے مطب میں کتابیں، ڈاکٹری کا سامان اور کچھ لکڑیاں بکھری ہوئی تھیں. وہ منظر ایک مریض کو حیران کرنے کے لیے کافی تھا۔ جب وہ دوا تجویز کرچکا، تو میں نے پوچھا ”آپ کی فیس کتنی ہے؟“
”کچھ نہیں..“
”ایسا کیوں؟“ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا
”آپ شاید مجھے بھول گئے! آپ ہی کے مشورے سے تو میں یہاں آکر آباد ہوا تھا۔ میری زندگی میں خوشگوار تبدیلوں کا سبب آپ ہی ہیں۔ میرا نام اسٹیفنز ہے۔“
مجھے پھر بھی کچھ یاد نہ آیا۔ پھر اس نے سارے واقعے کی تفصیل بتائی اور میرے ذہن پر ماضی کے دھند لے نقوش ابھرنے لگے
”میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ کیا میری آپ سے پھر ملاقات ہوگی یا نہیں.. اور کیا میں آپ کا شکریہ ادا کرسکوں گا۔ آپ میرے محسن ہیں۔“
”اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کامیاب رہے…!“
میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ موٹا اور گنجا ہوچکا تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں خوشی کی مسکراہٹ اور چہرے پر پُر مزاح شگفتگی رقصاں تھی۔ اس نے ہسپانوی طرز کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے اور ہسپانوی طرز کا ہیٹ پہن رکھا تھا
میں سوچنے لگا کہ اس کو میں اپنا اپنڈکس کا آپریشن تو نہیں کرنے دوں گا، لیکن اس کے ساتھ وقت گزارنے میں خوشی محسوس کروں گا
”مجھے یقین ہے تم شادی شدہ تھے۔“ میں نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا
”ہاں لیکن میری بیوی کو اسپین پسند نہ آیا.. وہ واپس کیمبرول چلی گئی.. وہ وہاں زیادہ خوش تھی۔“
”یہ سن کر افسوس ہوا۔“
اس کی آنکھوں میں مسکراہٹ ایک دفعہ پھر رقصاں ہوئی۔
”انسان کو زندگی میں بہت سے متبادل مل جاتے ہیں۔“ وہ بڑبڑایا
اس کا فقرہ ابھی ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ایک درمیانی عمر کی خوبصورت ہسپانوی عورت دروازے میں داخل ہوئی. اس نے ہسپانوی زبان میں کچھ کہا۔ اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ گھر کی مالکہ ہے
پھر وہ اٹھا اور مجھے الوداع کہتے ہوئے گویا ہوا۔ ”تم نے مجھے لندن میں بتایا تھا کہ اگر میں یہاں آیا تو غربت کی زندگی گزاروں گا، لیکن خوش رہوں گا۔ تمہاری پیشن گوئی بالکل درست تھی۔ میں غریب ہوں اور ہمیشہ غریب رہوں گا لیکن میں زندگی کی رنگینیوں سے اتنا لطف اندوز ہو رہا ہوں، اتنا پُرسکون اور خوش ہوں کہ کسی بادشاہ سے بھی اپنی زندگی بدلنا پسند نہیں کروں گا۔“
برطانوی ادیب، ڈرامہ نگار اور کہانی نویس
سمرسٹ ماہم ۔1874ع تا 1965ع
ولیم سمرسٹ ماہم (Somerset Maugham) 25 جنوری1874ء کو پیرس میں پیدا ہوئے. ان کے والد برطانوی حکومت کے سفیر تھے. سمرسٹ ماہم نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ کالج کے دور میں ہی کہانیاں لکھیں، صرف 23 برس کی عمر میں اس کا پہلا ناول لیزا آف لیمبتھ Liza of Lambeth، جو 1897ع میں چھپا اور ہاتھوں ہاتھ بکا، تو انہوں نے طب کے پیشے کو خیرباد کہہ کر ادب کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور بے شمار ناول، ڈراما، کہانیاں، فلموں کے سکرپٹ لکھے اور بے شما دولت کمائی. انہیں بیسویں صدی کا سب سے مالدار مصنف کہا جاتا ہے۔ 1930ع کی دہائی میں وہ یورپ اور امریکا کا سب سے زیادہ مہنگا مصنف تھا۔ اس کی کہانیوں اور ناولوں نے فلمی دنیا میں بھی تہلکہ مچائے رکھا ہے اور 35 سے زائد فلمیں اس کی کسی نہ کسی کہانی یا ناول پر بنیں. 1947ع سے اس کے نام سے ”سمرسٹ ماہم ایوارڈ“ بھی جاری ہے، جو ایسے فکشن لکھنے والوں کو دیا جاتا ہے، جن کی عمر 35 سال سے کم ہو. 91 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے تقریباً ایک سو کے قریب ناول، ڈرامے اور کہانیاں لکھیں۔ ماہم 91 برس کی عمر میں 16 دسمبر 1965ء کو نائس، فرانس میں انتقال ہوا. مندرجہ بالا کہانی The Happy Man کا ترجمہ ہے.