کیلیفورنیا : کئی عشرے قبل ایک معدن کی پیشگوئی کی گئی تھی، جو اب زمین کی چھ سو ساٹھ کلومیٹر گہرائی سے دریافت ہوئی ہے
اس معدن کے آثار ایک ہیرے کے اندر ملے ہیں، جو اس سے قبل پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ اس معدن کو ’ڈیوموآئٹ‘ کا نام دیا گیا ہے
اگرچہ اس کی ملتی جلتی قسم دنیا میں ملتی ہے، لیکن ڈیوموآئٹ زمین کی گہرائی میں بلند درجہ حرارت اور دباؤ کے تحت تشکیل پاتی ہے
افریقی ملک بوٹسوانہ سے ملنے والے اس ہیرے کے اندر سیاہ معدن کے چھوٹے ٹکڑے پھنسے ہیں، جن کی تلاش ایک عرصے سے جاری تھی
تحقیقی ٹیم کے سربراہ اور نواڈا یونیورسٹی میں ارضیاتی کیمیا کے سربراہ اولیور شونر نے اسے ڈیوموآئٹ کا نام دیا ہے۔ یہ کیلشیئم سیلیکیٹ CaSiO3 پر مشتمل ہوتی، ہے لیکن اس میں یورینیئم، تھوریئم اور پوٹاشیئم کے تابکار ہم جا (آئسوٹوپس) موجود ہو سکتے ہیں
نظری طور پر 1967 میں اس معدن (منرل) کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ ماہرین نے اس کا مقام زمین کی گہرائی یعنی مینٹل کو قرار دیا گیا جہاں درجہ حرارت بلند اور دباؤ غیر معمولی ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مینٹل زمینی قشر (کرسٹ) اور قلب (کور) کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس طرح ڈیوموآئٹ کو سمجھ کر خود ہم زمینی ساخت، پلیٹ ٹیکٹونکس اور ارضیات کو جان سکتے ہیں
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ معدن خاص حالات کے تحت 660 سے 2700 کلومیٹر گہرائی میں تشکیل پاتی ہے، جہاں حرارت اور دباؤ کا راج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ایک ہیرے کے اندر دیکھا گیا ہے، جو بلند درجہ حرارت پراپنا وجود برقرار رکھتا ہے
اگرچہ کیلشیئم سلیکیٹ پیرووسکائٹ تجربہ گاہ میں بنایا گیا ہے، لیکن قدرتی طور پر پہلی مرتبہ اسے دیکھا گیا ہے
واضح رہے کہ 1987ع میں اس ہیرے کو بوٹسوانہ کی ایک کان سے برآمد کیا گیا تھا، لیکن وہ مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی پہنچا، جہاں کئی برس تک اس پر تحقیق کی گئی اور 11 نومبر کو اس کا اعلان ایک تحقیقی مقالے کی صورت میں کیا گیا
پہلے اسے لیزر سے چھیدا گیا تو اندر کیلشیئم کے آثار ملے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ کیلشیئم سلیکیٹ ہے اور آخرکار معلوم ہوا کہ یہ کرسٹل حقیقت میں کیلشیئم سلیکیٹ پیرووسکائٹ ہے۔ زمینی مینٹل کا پانچ سے سات فیصد حصہ اسی معدن پر مشتمل ہو سکتا ہے
واضح رہے کہ یہ دریافت سیکڑوں میل کی گہرائی میں نہیں ہوئی ہے، بلکہ ہیرے کی ایک کان سے ملی ہے اور خیال ہے کہ یہ کسی عمل کی بدولت اوپر تک پہنچا ہوگا.