پنڈولے کا پیالہ
طالبِ علمی کے زمانے میں کھانے کے معاملے میں بڑے نفاست پسند تھے۔ دو پیازہ گوشت، لہسن کی چٹنی، سری پائے، کلیجی، گُردے، کھیری اور مغز سے انہیں بڑی کراہت آتی تھی۔ دسترخوان پر ایسی کوئی ڈش ہو تو بھوکے اٹھ جاتے۔ اس ”وزٹ“ میں ایک جگہ میرے اعزاز میں دعوت ہوئی تو بھنا ہوا مغز بھی تھا۔ صاحب! لہسن کا چھینٹا دے دے کے بھونا جائے اور پھٹکیوں کو گھوٹ دیا جائے تو ساری بساند نکل جاتی ہے، بشرطیکہ گرم مصالحہ ذرا بولتا ہوا اور مرچیں بھی چہکا مارتی ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انہوں نے بھی کھایا اور منغض نہ ہوئے۔ میں نے پوچھا، حضرت، یہ کیسی بد پرہیزی؟ بولے جو سامنے آ گیا، جو کچھ ہم پر اترا، کھا لیا۔ ہم انکار کرنے، منھ بنانے والے کون۔
پھر کہنے لگے ”بھائی تم نے وہ بھکشو والا قصہ نہیں سنا؟ بھکشو سے سات برس بھیک منگوائی جاتی تھی تاکہ انا کا پھن ایڑیوں تلے بالکل کچل جائے۔ اس کے بغیر آدمی کچھ پا نہیں سکتا۔ کاسۂ گدائی کو مہاتما بدھ نے تاجِ سلطانی کہا ہے۔ بھکشو کو اگر کوئی ایک وقت سے زیادہ کھانا دینا بھی چاہے، تب بھی وہ قبول نہیں کر سکتا۔ اور جو کچھ اس کے پیالے میں ڈال دیا جائے، اسی کو بے چون و چرا کھانا اس پر فرض ہے۔ پالی کی قدیم روایات میں آیا ہے کہ پنڈولے نامی ایک بھکشو کے پیالے میں ایک کوڑھی نے روٹی کا ٹکڑا ڈالا۔ ڈالتے وقت اس کا کوڑھ سے گلا ہوا انگوٹھا بھی جھڑ کر پیالے میں گر پڑا۔ پنڈولے کو دونوں کا سواد ایک سا لگا۔ یعنی کچھ نہیں۔“ صاحب وہ تو قصہ سنا کر سر جھکائے کھانا کھاتے رہے، مگر میرا یہ حال کہ مغز تو ایک طرف رہا، میز پر رکھا ہوا سارا کھانا زہر ہو گیا۔ صاحب، اب ان کا ذہن پنڈولے کا پیالہ ہو گیا ہے۔
مُلا بھکشو
لڑکی کی خودکشی والا واقعہ 1953ء کا بتایا جاتا ہے۔ سنا ہے اس دن کے بعد سے وہ مستغنی الاحوال ہو گئے اور پڑھانے کا معاوضہ لینا ترک کر دیا۔ تیس سال ہو گئے۔ کسی نے کچھ کھلا دیا تو کھا لیا، ورنہ تکیہ پیٹ پر رکھا اور گھٹنے سکیڑ، دونوں ہاتھ جوڑ کے انہیں دائیں گال کے نیچے رکھ کے سو جاتے ہیں۔ کیا کہتے ہیں اس کو؟ جی، foetal posture اردو میں اسے جنم آسن، کوکھ آسن کہہ لیجیئے۔ مگر مجھے آپ کی اس فرائیڈ والی تاویل سے قطعی اتفاق نہیں۔ آپ خود بھی تو اسی طرح کنڈلی مار کے سوتے ہیں۔ مگر سبب اس کا تپسیا نہیں، السر ہے۔ مُلا عاصی بھکشو کہتے ہیں کہ بھگوان بدھ بھی داہنے پاؤں پر بایاں پاؤں اور سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر داہنی کروٹ سوتے تھے۔ اسے سنگھ شیا کہتے ہیں۔ بھوگ بلاسی یعنی اہلِ ہوس اور عیاش بائیں کروٹ سوتے ہیں۔ اسے کام بھوگی شیا کہتے ہیں۔ یہ مجھے انہی سے معلوم ہوا کہ بدچلن آدمی فقط سونے کے آسن سے بھی پکڑا جا سکتا ہے۔ بہرکیف، اب عالم یہ ہے کہ جو کسی نے پہنا دیا پہن لیا۔ جو مل گیا، کھا لیا، جس سے ملا، جیسا ملا، جب ملا۔ جہاں تھک گئے وہیں رات ہو گئی۔ جہاں پڑ رہے، وہیں رین بسیرا۔ تن تکیہ من بسرام۔ چار چار دن گھر نہیں آتے۔ مگر کیا فرق پڑتا ہے۔ جیسے کنتھا گھر رہے ویسے رہے بدیس (نکما خاوند گھر رہے یا پردیس برابر ہے)۔ خدا بھلا کرے ان کے چیلوں کا۔ وہی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ ایسے محبتی، خدمتی شاگرد نہیں دیکھے۔ مُلا ایک دن ہاتھ کا پیالہ سا بنا کر کہنے لگے، بس مٹھی بھر دانوں کے لیے بنجارا کیسا گھبرایا، کیسا بولایا پھرتا ہے۔ ہرکس و ناکس پہ اگر یہ بات کھل جائے کہ زندگی کرنا کتنا سہل ہے تو یہ سارا کارخانہ ٹھپ ہو جائے۔ یہ سارا پاکھنڈ (بکھیڑا، دکھاوے کی عبادت)، یہ سارا آڈمبر (نمائش، تصنع، دکھاوے کے تکلفات) پل بھر میں کھنڈت ہو جائے۔ ہر آدمی کا شیطان اس کے اپنے اندر ہوتا ہے.. اور خواہش اس شیطان کا دوسرا نام ہے۔ انسان اپنی خواہشوں کو جتنی بڑھاتا اور ہشکارتا جائے گا، اس کا من اتنا ہی کٹھور اور اس کی زندگی اتنی ہی کٹھن ہوتی چلی جائے گی۔ ڈائنا سور (Dinosaur) کا ڈیل جب اتنا بڑا ہو گیا اور کھانے کی خواہش اتنی شدید ہو گئی کہ زندہ رہنے کے لیے اسے چوبیس گھنٹے مسلسل چرنا پڑتا تھا تو اس کی نسل ہی extinct (معدوم) ہو گئی۔ کھانا صرف اتنی مقدار میں جائز ہے کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہے۔ جسم فربہ ہوگا تو نفس کا موٹا ہونا لازمی ہے۔ میں نے آج تک کوئی لاغر مولوی نہیں دیکھا۔ بھرے پیٹ عبادت اور شب زندہ داری اور خالی پیٹ عیاشی نہیں ہو سکتی۔
یہ کہتے ہوئے وہ میز پر سے اپنے تالیف کردہ بودھ منتروں کا قلمی نسخہ اُٹھا لائے اور اس کے دیباچے سے اشلوک پڑھنے والے لہجے میں لہک لہک کر اقتباس سنانے لگے:
”بودھی ستوا نے بھگوان سچک سے کہا کہ اے اگی ویسن! جب میں دانتوں پر دانت جما کر اور اور تالو کو زبان لگا کر دل و دماغ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا تھا تو میری بغلوں سے پسینا چھوٹنے لگتا تھا۔ جس طرح کوئی بلوان کسی کمزور آدمی کا سر یا کندھا پکڑ کر دباتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح میں اپنے دل و دماغ کو دباتا تھا۔ اے اگی ویسن، اس کے بعد میں نے سانس روک کر تپسیا کرنا شروع کی۔ اس سمے میرے کانوں سے سانس نکلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوہار کی دھونکنی جیسی۔ یہ آوازیں بہت تیز تھیں۔ پھر اے اگی ویسن، میں سانس روک کر اور کانوں کو ہاتھوں سے دبا کر تپسیا کرنے لگا۔ ایسا کرنے سے مجھے یوں لگا جیسے کوئی تلوار کی تیز نوک سے میرے ماتھے کو چھلنی کر رہا ہے۔ پھر بھی اے اگی ویسن، میں نے اپنی تپسیا جاری رکھی۔
”اے اگی ویسن، تپسیا اور فاقے سے میرا شریر (جسم) بدن بدن کمزور پڑتا گیا۔ آستک ولی کی گانٹھوں کی طرح میرے شریر کا جوڑ جوڑ صاف دکھائی دیتا تھا۔ میرا کولھا سوکھ کر اونٹ کے پاؤں کی مانند ہو گیا۔ میری ریڑھ کی ہڈی سُوت کی تکلیوں کی مال کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ جس طرح گرے ہوئے مکان کی بلیاں اوپر نیچے ہو جاتی ہیں، میری پسلیوں کی بھی وہی دِشا (کیفیت) ہو گئی ہے۔ میری آنکھیں کسی گہرے کنویں میں ستاروں کے عکس کی طرح اندر کو دھنس گئیں، جیسے کچا کڑوا کدو کاٹ کر دھوپ میں ڈال دیتے سے سوکھ جاتا ہے، ویسے ہی میرے سر کی چمڑی سوکھ گئی ہے۔ جب پیٹ پر ہاتھ پھیرتا تھا تو میرے ہاتھ میں ریڑھ کی ہڈی آ جاتی تھی۔ اور جب پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا تو ہاتھ پیٹ کی چمڑی تک پہنچ جاتا تھا۔ اس طرح میری پیٹھ اور پیٹ برابر ہو گئے تھے۔ شریر پر ہاتھ پھیرتا تو بال جھڑنے لگتے تھے۔“
فلیس مِنی ! فلیس مِنی!
یہ پڑھنے کے بعد قدرے توقف کیا۔ آنکھیں موند لیں۔ میں سمجھا دھیان گیان کے غوطہ میں چلے گئے۔ ذرا دیر بعد آنکھیں بس اتنی کھولیں کہ پلک سے پلک جدا ہو جائے۔ اب وہ دھیان کی ساتویں سیڑھی پہ جھوم رہے تھے۔ ہاتھ کا چلو بنا کر کہنے لگے ”ایک پیاس تو وہ ہوتی ہے جو گھونٹ دو گھونٹ پانی پینے سے بجھ جاتی ہے۔ اور ایک تونس ہوتی ہے کہ جتنا پانی پیو پیاس اتنی ہی بھڑکتی جاتی ہے۔ ہر گھونٹ کے بعد زبان پر کانٹے پڑتے چلے جاتے ہیں۔ آدمی آدمی پر منحصر ہے۔ کسی کو کایا موہ، کسی کو زر، زمین کی پیاس لگتی ہے۔ کسی کو علم اور شہرت کی۔ کسی کو خدا کے بندوں پر خدائی کی.. اور کسی کو عورت کی پیاس ہے کہ بے تحاشا لگے چلی جاتی ہے۔ یہ پیاس دریاؤں، بادلوں اور گلیشروں کو نگل جاتی ہے اور سیراب نہیں ہوتی۔ انسان کو دریا دریا، سراب سراب لیے پھرتی ہے۔ بجھائے نہیں بجھتی۔ العطش، العطش، پھر ہوتے ہوتے یہ ان بجھ پیاس خود انسان ہی کو پگھلا کے پی جاتی ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ ”جب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اس نے کہا، ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے۔ جو اس کا پانی پیے گا۔ وہ میرا ساتھی نہیں۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے۔ ہاں ایک آدھا چلو کوئی پی لے تو پی لے۔ مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔ پھر جب طالوت اور اس کے اہل ایمان ساتھ دریا پار کر کے آگے بڑھے تو انہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔“ (البقرۃ 33)۔ سو اس دریا کنارے ہر ایک کی آزمائش ہوتی ہے۔ جس نے اس کا پانی پی لیا اس میں بدی کے مقابلے کی طاقت نہ رہی۔ فلیس مِنی، فلیس منیِ، پس جیت اس کی اور نجات اس کی جو بیچ دریا سے پیاسا لوٹ آئے۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے، بس اسی کارن مُلا بھکشو کہلاتے ہیں۔ زبان و بیان بالوں سے بھی زیادہ کھچڑی اور عقائد ان سے زیادہ رنگ برنگے۔ صوفیوں کی سی باتیں کرتے کرتے یکایک سادھو کا برن لے لیتے ہیں۔ الفاظ کے سر سے دفعتاً عمامہ اُتر جاتا ہے اور ہر شبد، ہر انچھر کے جٹائیں نکل آتی ہیں۔ آبِ زم زم سے وضو کر کے بھبھوت رما لیتے ہیں۔ ابھی کچھ ہیں ابھی کچھ۔ کبھی آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ بھٹک کے کہاں سے کہاں جا نکلے:
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترکِ اسلام کیا
اور کبھی ایسا محسوس کراویں گے گویا گوتم بدھ نے برکش تلے اپنی سمادھی چھوڑ کر احرام باندھ لیا ہے۔ مگر کبھی ایک نقطے اور نکتے پر جمتے نہیں۔ ٹڈے کی طرح ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پر پھُدکتے رہتے ہیں۔ میں نے ایک دن چھیڑا کہ مولانا، بعض فقیہوں کے نزدیک مرتد کی سزا قتل ہے۔ اشارہ سمجھ گئے۔ مسکرا دیئے۔ کہنے لگے، سوچنے کی بات ہے۔ جس نے پہلے ہی خودکشی کر لی ہو اسے سُولی پہ لٹکانے سے فائدہ؟
تمام چہرے ہیں میرے چہرے، تمام آنکھیں ہیں میری آنکھیں
اپنے تمام خلوص اور تپاک کے با وصف وہ مجھے خاصے بے تعلق نظر آئے۔ ایک طرح کو درویشانہ استغناء آ گیا ہے۔ رشتوں میں بھی۔ ایک دن کہنے لگے کہ کوئی شے ہو یا شخص، اس سے ناتا جوڑنا ہی دکھ کا اصل سبب ہے۔ پھر انسان کی سانس چھوٹی اور اُڑان اوچھی ہو جاتی ہے۔ انسان جی کڑا کر کے ہر چیز سے ناتا توڑ لے تو پھر دُکھ سُکھ کے بے انت چکر سے باہر نکل جاتا ہے۔ پھر وہ شاد رہتا ہے، نہ ناشاد.. مسرور نہ مغموم :
عیش و غم در دل نمی استد، خوشا آزادگی،
بادہ و خونابہ یکسانست در غربالِ ما
(غالب کہتا ہے، عیش اور غم دونوں ہمارے دل میں نہیں ٹھہر پاتے۔ ہماری آزاد منشی کے کیا کہنے، ہماری چھلنی کے لیے شراب اور خون دونوں برابر ہیں۔ یعنی دونوں چھن کے نکل جاتے ہیں۔)
مگر یہ بے نیازی ”بیدلی ہائے تمنا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق“ والی منزل سے ماورا نظر آتی ہے۔ میری واپسی میں دو دن رہ گئے تو میں نے چھیڑا۔ ”مولانا، یہاں بہت رہ لیے۔ جورو نہ جاتا، کانپور سے ناتا۔ اب میرے ساتھ پاکستان چلو۔ سب یار دوست، سارے سنگی ساتھی وہیں ہیں۔“
”پرکھوں کے ہاڑ ہڑواڑ (ہڈیاں اور خاندانی قبرستان) تو یہاں ہیں۔“
”تم کون سے ان پر فاتحہ پڑھتے ہو یا جمعرات کی جمعرات پھولوں کی چادر چڑھاتے ہو جو چھوٹنے کا ملال ہو۔“
اتنے میں ایک چتکبری بلی اپنا بچہ منھ میں دبائے ان کے کمرے میں داخل ہوئی۔ نعمت خانے میں بند کبوتر سہم کر کونے میں دبک گیا۔ بلی کے پیچھے ایک پڑوسی کی بچی مینا کا پنجرہ ہاتھ میں لٹکائے اور اپنی گُڑیا دوسری بغل میں دبائے آئی اور کہنے لگی کہ صبح سے ان دونوں نے کچھ نہیں کھایا۔ بولتے بھی نہیں۔ دوا دے دیجیئے۔ انہوں نے بیمار گڑیا کی نبض دیکھی۔ اور مینا سے اسی کے لہجے میں بولنے لگے تو ذرا دیر بعد مینا ان کے لہجے میں بولنے لگی۔ انہوں نے ایک ڈبے میں سے لیمن ڈراپ نکال کر بچی کو دی۔ اس نے اسے چوسا تو گڑیا کو آرام آ گیا۔ وہ مسکرا دیے۔ پھر بحث کا سرا وہیں سے اٹھایا جہاں سے بلی، بچی اور مینا کی اچانک آمد سے ٹوٹ گیا تھا۔ مجھ سے کہنے لگے ”یہاں میں سب کے دکھ درد میں ساجھی ہوں۔ وہاں میری ضرورت کس کو ہو گی؟“ وہاں مجھ سا غریب اور کون ہوگا۔ یہاں مجھ سے بھی غریب ہیں:
صد رفیق و صد ہمدم پر شکستہ و دل تنگ،
داورا، نمی زیبد بال و پر بمن تنہا
(یعنی میرے سب رفیق اور سب ہمدم پُرشکستہ اور دل تنگ ہیں۔ اے خدائے عادل، مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ تنہا میرے ہی بال و پر ہوں)
”بندہ خدا، ایک دفعہ چل کے تو دیکھو۔ پاکستان کا تمہارے ذہن میں کچھ عجیب سا نقشہ ہے۔ وہاں بھی دُکھی بستے ہیں۔ ہماری خاطر ہی چلو۔ ایک ہفتے کے لیے ہی سہی۔“
”کون پوچھے گا مجھ کو میلے میں؟“
”تو پھر یوں سمجھو کہ جہاں سبھی تاج پہنے بیٹھے ہوں، وہاں ننگے سر، خاک بسر آدمی سب سے نمایاں ہوتا ہے۔“
خدا جانے سچ مچ قائل ہوئے یا محض زچ ہو گئے۔ کہنے لگے ”برادر میں تو تمہیں دانہ ڈال رہا تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ ہماری چھتری پہ آن بیٹھو۔ خیر چلا تو چلوں۔ مگر خدا جانے ان کبوتروں کا کیا ہوگا۔“
”اس کا انحصار خدا پر نہیں بلی کی نیت پر ہے مگر سنو، تم خدا کے کب سے قائل ہو گئے؟“
”میں نے تو محاورتاً کہا تھا۔ سامنے جو جامن کا پیڑ دیکھ رہے ہو، یہ میرے دادا نے لگایا تھا۔ جس سمے پو پھٹتی ہے اور اس کھڑکی سے صبح کا ستارہ نظر آنا بند ہو جاتا ہے یا جب دونوں وقت ملتے ہیں اور شام کا جھٹ پٹا سا ہونے لگتا ہے تو اس پر بے شمار چڑیاں جی جان سے ایسے چہچہاتی ہیں کہ دل کو کچھ ہونے سا لگتا ہے۔ اس جامن کی دیکھ بھال کون کرے گا؟“
”اول تو اس بوڑھے جامن کو تمہاری اور بدھ ازم کی ضرورت نہیں، گوبر کے کھاد کی ضرورت ہے۔ دوم، تمہیں التباس ہوا ہے۔ مہاتما بدھ کو نروان جامن کے نیچے نہیں، پیپل تلے حاصل ہوا تھا۔ بفرض محال تم پشو پکشی اور پیڑ کی سیوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تو کراچی کے لاغر گدھوں اور لاہور کی اپر مال کے جامنوں کی رکھوالی کر کے شوق پورا کر لینا۔ جامنوں کے پکنے سے پہلے ہی نسینیاں (سیڑھیاں) لگ جاتی ہیں۔ زندہ دالانِ لاہور پرائے درختوں کے پھل کانپور والوں کی طرح دور سے پتھر مار مار کے نہیں توڑتے۔ رسان سے درخت پر چڑھ کے یا سیڑھی لگا کے توڑ توڑ کے خود کھاتے ہیں اور رکھوالوں کو کھلاتے ہیں۔
”میں آؤں گا۔ لاہور ایک دن ضرور آؤں گا۔ مگر کبھی اور..“
”ابھی میرے ساتھ چلنے میں کیا قباحت ہے؟“
”ان بچوں کا کیا ہوگا؟“
”ہونا کیا ہے۔ بڑے ہو جائیں گے۔ تمہیں کوئی miss نہیں کرے گا۔ آخر کو تم مر گئے، تب کیا ہوگا؟“
”تو کیا ہوا۔ یہ بچے۔ اور بچوں کے بچے تو زندہ رہیں گے۔ سینوں میں اُجالا بھر رہا ہوں۔ مر گیا تو ان کے منھ سے بولوں گا۔ ان کی اوتار آنکھوں سے دیکھوں گا۔“
(بشارت کی زبانی یہ کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے)
پسِ نوشت۔۔۔ لو وہ بھی ہارٹ اٹیک میں گئے!
3 دسمبر 1985ء کو طلوع آفتاب سے ذرا پہلے جب ان ہی کے الفاظ میں، جامن پر چڑیاں اس طرح چہچہا رہی تھیں، جانو جی جان سے گزر جائیں گی، مُلا عبدالمنان عاصی کا حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال ہو گیا۔ محلے کی مسجد کے پیشِ امام نے کہلا بھیجا کہ ملحد کی صلٰوۃ الجنازہ جائز نہیں۔ جس کے وجود ہی کے آنجہانی قائل نہ تھے۔ اس سے رحمت و بخشائش کی دعا کیا معنی؟ بڑی دیر تک جنازہ جامن کے نیچے پڑا رہا۔ بالآخر ان کے ایک عزیز شاگرد نے امامت کے فرائض انجام دیے۔ سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ تجہیز و تکفین سے پہلے ان کے بلیک بکس کا تالا معززینِ محلہ کی موجودگی میں کھولا گیا۔ اس میں اسکول کی کاپی کے ایک صفحے پر پنسل سے لکھی ہوئی تحریر ملی، جس پر نہ تاریخ تھی نہ دستخط۔ لکھا تھا کہ پسِ مردن میری جائیداد منقولہ و غیر منقولہ (جس کی مکمل فہرست اور احوال ہم پچھلے صفحات میں دے چکے ہیں) نیلام کر کے کبوتروں کے لیے ٹرسٹ بنا دیا جائے۔ یہ احتیاط رکھا جائے کہ کوئی گوشت خور ٹرسٹی (متولی) مقرر نہ ہو۔ یہ بھی لکھا تھا کہ مجھے کانپور میں دفن نہ کیا جائے۔ لاہور میں ماں کے قدموں میں لٹا دیا جائے۔
(اختتام)
-
قصہ دو شہر – 1
-
قصہ دو شہر – 2
-
قصہ شہر دو – 3
-
شہر دو قصہ – 4
-
قصہ دو شہر – 5
-
قصہ دو شہر – 6
-
قصہ دو شہر – 7
-
قصہ دو شہر – 8
-
قصہ دو شہر – 9