بھارتی خاندان نے پندرہ سال اپنی کھوئی بائیک کو تلاش کرنے میں لگا دیے!

ویب ڈیسک

کرناٹک – ناراینپپا سری نواسن اور ان کا خاندان مسلسل پندرہ سال تک اپنی کھوئی ہوئی بائیک کی کھوج میں لگا رہا

کیونکہ ناراینپپا سری نواسن کے لیے ان کی پیاری سیاہ رنگ کی رائل اینفیلڈ ایک موٹر سائیکل سے کہیں زیادہ تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کا بیٹا ارون نوے کی دہائی کے وسط میں موٹر سائیکل کے گم ہو جانے کے بعد اسے پندرہ سال تک ڈھونڈتا رہا

خاندان کے سربراہ سری نواسن کی عمر پچھتر برس ہے، وہ کہتے ہیں کہ بلٹ بائیک اس وقت مہنگی آتی تھی، بینک نے مجھے پوری رقم بطور قرض دی تھی تاکہ میں اسے خرید سکوں

یہ سنہ 1970ع کی دہائی تھی اور انہوں نے اس موٹرسائیکل کو خریدنے کے لیے اُس وقت چھ ہزار چار سو روپے قرض لیے تھے، جو آج کے حساب سے تقریباً تین لاکھ روپے یعنی چار ہزار ڈالر بنتے ہیں

ان دنوں یہ ایک بڑی قیمت تھی، کیونکہ اس وقت دنیا کے لیے بھارتی مارکیٹ نہیں کھلی تھی اور سری نواسن جیسے خریداروں کے پاس بہت کم آپشن تھے

رائل اینفیلڈ، جو اپنے ایگزاسٹ کی ’ڈگ، ڈگ‘ کی آواز کے لیے مشہور ہے، اس وقت بہت سے لوگوں کے لیے اسے خریدنا کسی خواب سے کم نہیں تھا

سری نواسن نے جب یہ بائیک خریدی تو وہ چوبیس سال کے تھے، یہ دو دہائیوں تک ان کے پاس رہی۔ وہ کسانوں کو بینک قرضوں کی سہولت فراہم کرنے والے زرعی افسر کی نوکری کرتے تھے اور اسی وجہ سے وہ جنوبی ریاست کرناٹک کے طول و عرض میں جاتے رہے۔ اسی ریاست میں ان کی رہائش بھی تھی۔ یہ بائیک ان راستوں پر ان کی ہمسفر تھی

ان کے اڑتیس سالہ بیٹے ارون سری نواسن، جو ایک سافٹ ویئر انجینئر ہیں، بتاتے ہیں ”میں اور میری بہنیں اس موٹر سائیکل پر پلے بڑھے ہیں۔ یہ ہمارے خاندان کی پہلی گاڑی تھی۔“

لیکن پھر سنہ 1995ع میں سری نواسن کے بینک نے انہیں کرناٹک کے شہر منی پال سے شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر لکھنؤ منتقل کر دیا، جہاں وہ اپنی رائل اینفیلڈ ساتھ نہیں لے جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے اسے اس شرط پر اپنے ایک دوست کو بیچ دیا کہ جب دوست کو اس کی ضرورت نہ ہوگی، تو وہ اسے واپس خرید لیں گے

شو مئی قسمت.. اس کے اگلے ہی سال وہ موٹر سائیکل ان کے دوست کے گھر سے چوری ہو گئی۔ سری نواسن نے فوری طور پر تھانے میں شکایت درج کرائی، لیکن انہیں اس کا کوئی سراغ نہیں ملا

انہوں نے بتایا کہ ان تمام برسوں میں وہ ہمیشہ یہ سوچتا رہتا تھا کیا ان کی موٹر سائیکل اب بھی ملک کے کسی کونے میں موجود ہوگی؟

اس دوران ان کے بیٹے کو موٹر سائیکل کی کہانیاں سنائی گئی۔ ارون کہتے ہیں کہ ’ہماری ہمیشہ سے ہی یاد تھی کہ گھر میں ایک موٹر سائیکل کھڑی رہا کرتی تھی۔‘

آخر کار ان کا خاندان پھر واپس کرناٹک پہنچا۔ اب وہ ریاست کے دارالحکومت بنگلور میں رہتے ہیں اور جب بھی سری نواسن سڑک پر کسی ’بلٹ‘ کو دیکھتے، تو وہ اپنی کھوئی ہوئی موٹر سائیکل کی یاد میں کھو جاتے

انہوں نے کہا کہ ’میرا بیٹا جب چھوٹا تھا تو اسے اس موٹر سائیکل پر سوار ہونے میں مزہ آتا تھا۔‘

ان کے لیے موٹر سائیکل سے بہت سی یادیں جڑی ہوئی تھیں۔ اس لیے انہوں نے کبھی یہ امید نہیں چھوڑی کہ شاید وہ اسے کسی دن بنگلور کی سڑکوں پر دیکھ لیں

ارون کہتے ہیں کہ ’اگر میں ان کے ساتھ گاڑی چلا رہا ہوتا تو میں جان بوجھ کر (کار) سست کر دیتا تاکہ انھیں آگے بلٹ بائیک نظر نہ آئے۔‘

ارون کا کہنا ہے کہ بلٹ کے ایگزاسٹ کی خصوصی آواز پر ان کے والد کے کان کھڑے ہو جاتے اور وہ قریب سے گزرنے والی تمام بائیکس کے درمیان اپنی بلٹ کو پہچاننے کی کوشش کرتے اور پھر جب انھیں احساس ہوتا کہ یہ ان کی پرانی بائیک نہیں تو وہ مایوس ہو جاتے

آخر کار پرانی گاڑیوں سے لگاؤ رکھنے والے ارون نے اس بائیک کو تلاش کرنے کا فیصلہ کر لیا

انہوں نے سنہ 2006ع میں اپنی تلاش شروع کی، جب وہ بائیس برس کے تھے

ارون نے کہا کہ ’میرے پاس اب بھی میرے والد کی پرانی کار ہے اور میرے چچا کی سنہ 1960ع کی کار بھی ہے۔ ہمارے پاس گھر میں تقریباً چھ سے سات گاڑیاں کھڑی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں”صرف ایک چیز لاپتہ تھی، رائل اینفیلڈ موٹر سائیکل..“

انہوں نے اپنی اس تلاش کی شروعات منی پال سے کی، جہاں انہوں نے گیراج کے مالکان سے بات کی، لیکن وہ زیادہ کچھ نہیں بتا سکے، جبکہ موٹر سائیکل کے متعلق علاقائی ٹرانسپورٹ کے دفاتر یا مقامی پولیس تھانوں میں بھی کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں تھا

وہ کہتے ہیں کہ پھر ریاست کا ٹرانسپورٹ آفس ڈجیٹل ہو گیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ کرناٹک میں رجسٹرڈ گاڑیوں سے منسلک تمام ڈیٹا اب آن لائن دستیاب ہوگا

لہٰذا سنہ 2021ع کے اوائل میں گاڑی کے رجسٹریشن نمبر اور انشورنس کی تفصیلات کا استعمال کرتے ہوئے ارون نے رائل اینفیلڈ کا پتہ لگانا شروع کیا

کئی مہینوں تک ٹرانسپورٹ دفاتر کے چکر لگانے کے بعد وہ بالآخر یہ پتا لگانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ بائیک اب میسور ضلع کے ایک کسان کی ملکیت ہے

انہوں نے اس کسان کو فون کیا اور بتایا کہ وہ اپنے والد کو خوش کرنے کے لیے موٹر سائیکل کی تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ کسان نے اسے ایک ڈیلر سے خریدا تھا، جس نے اسے پولیس کی جانب سے چوری شدہ یا لاوارث گاڑیوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے کی جانے والی نیلامی سے خریدا تھا

ڈیلر نے اس موٹر سائیکل کو اٹھارہ سو روپے میں خریدا اور کسان کو پینتالیس ہزار روپے میں فروخت کیا

ارون کا کہنا ہے کہ کسان شروع میں موٹر سائیکل دینے کے لیے راضی نہیں تھا

ارون نے بتایا کہ ’مجھے اس کے لیے ایک لاکھ روپے سے زیادہ ادا کرنا پڑے۔‘

آخر کار جب انہوں نے اپنے والد کو خوشخبری کے ساتھ فون کیا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا

اس طرح رائل اینفیلڈ پچھلے سال اپنے پرانے مالک سری نواسن کے گھر واپس آئی، یعنی گمشدگی کے پندرہ سال بعد..

سری نواسن نے یہیں پر بس نہیں کی، بلکہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اس بائیک کی مکمل جانچ پڑتال بھی کی کہ آیا یہ وہی بائیک ہے، جو انہوں نے تقریباً پچاس سال پہلے خریدی تھی؟

انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں آیا کہ یہ میری ہی ہے۔ میں نے اپنے پاس موجود پرانے رجسٹریشن کارڈ سے اس کا چیسس نمبر چیک کیا‘ اور پھر گھر والے باری باری موٹر سائیکل پر بیٹھے

انہوں نے پرجوش انداز میں کہا کہ ’ایک بلٹ موٹرسائیکل چلانے کے لیے میرا قد چھوٹا ہے، لیکن یہ بہت آرام دہ تھی اور میں نے وہی سکون محسوس کیا۔ یہ ایک اور تصدیق تھی کہ موٹر سائیکل واقعی میری ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ”ایسا لگ رہا تھا کہ ہمارا گمشدہ گھوڑا خود ہی واپس آ گیا ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close