قتل یا خودکشی؟

آگاتھا کرسٹی

”قتل یا خودکشی“ دراصل آگاتھا کرسٹی کی کہانی The Market Basing Mystery کا ترجمہ ہے، جو 1923ع میں لکھی گئی اور 1974ع میں آگاتھا کرسٹی کی کہانیوں کے مجموعے Poirot’s Early Cases میں شایع ہوئی تھی. ہرکوئل پائرو، اگاتھا کرسٹی کا لکھا باکمال اور معروف ترین فکشن کردار تھا، بیلجئم سے تعلق رکھنے والا ایک پرائیویٹ جاسوس، جو شرلاک ہومز کی طرح جرائم کی پُراسرار وارداتیں نہایت ذہانت سے حل کرنے میں ماہر تھا۔ یہ کردار پچپن سال تک اگاتھا کرسٹی کے ناولوں کی زینت بنتا رہا اور تینتیس ناولوں کا مرکزی کردار رہا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ جب ایک ناول Curtain میں اس کردار کا خاتمہ ہوا تو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے پہلے صفحے پر اس فرضی کردار کی موت پر تعزیتی مضمون چھپا۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا فکشن کردار ہوگا، جس کی موت پر نیویارک ٹائمز جیسے مؤقر اخبار نے تعزیتی کالم چھاپا ہو۔ یہ کہانی کوئل پائرو کے ابتدائی کارناموں میں سے ایک ہے.

’’دیہات جیسی پرفضا جگہ اور کوئی نہیں….‘‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے انسپکٹر جَیپ نے اطمینان بھرا سانس لیتے ہوئے کہا

میں نے اور ہرکیول پائرو نے اس خیال کی پرزور تائید کی

انسپکٹر کی تجویز یہ تھی کہ ہم ہفتے کے آخری دو دن دیہاتی قصبے مارکیٹ بیسنگ میں گزاریں۔ ہم نے اس تجویز کو اپنے دل کی آواز خیال کیا تھا

جیپ کو علم نباتات سے گہرا شغف تھا۔ ڈیوٹی سے فارغ ہو کر وہ مختلف پودوں اور پھولوں کی تحقیقات میں لگ جاتا۔ شاید اس کا یہی شوق اسے دیہات کی طرف راغب رکھتا تھا

اتوار کی صبح ہم قصبے کی سرائے کے برآمدے میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ انڈے اور تلا ہوا گوشت بہت ہی عمدہ تھا. انسپکٹر جیپ نے کہا ”میرا ارادہ ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد دیہات میں ایک چھوٹا سا مکان خرید لوں اور جرائم کے ماحول سے دور زندگی بسر کروں۔‘‘

ہرکیول پائرو نے توس کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے کہا ’’لیکن جرائم کے لیے کوئی خاص جگہ متعین نہیں ہے۔‘‘

میں نے دو شعر گنگنا کر پڑھے، جن میں خرگوش کی ظاہری خوبصورتی اور غلیظ عادتوں کا ذکر تھا، اور پھر کہا ’’میں آپ کے ساتھ ہوں مسٹر پائرو! آپ اپنے بارے میں فیصلہ کریں.‘‘

پائرو نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’آدمی کو اپنا پیٹ اتنا نہیں بھرنا چاہیے کہ دماغ کام کرنے سے انکار کردے۔‘‘

جیپ بولا ’’میں بہرحال یہ خطرہ مول لوں گا، خدا کے فضل سے میرا معدہ بھی کافی حجم رکھتا ہے اور ویسے مسٹر پائرو آپ بھی تو اچھے خاصے تنو مند نظر آتے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے سرائے کی ویٹرس کو دو آدمیوں کے لیے مزید انڈے اور گوشت کا آرڈر دیا

اسی لمحے ایک قد آور شخص دروازے میں داخل ہوتا نظر آیا۔ یہ کانسٹیبل پولارڈ تھا، وہ بےتکلفی کے انداز میں بولا ’’حضرات تکلیف کے لیے معافی چاہتا ہوں، لیکن اس وقت مجھے انسپکٹر صاحب کی رہنمائی کی سخت ضرورت ہے…‘‘

’’میں رخصت پر ہوں۔‘‘ جیپ نے جلدی سے کہا۔ ’’مجھے اس وقت کسی کام سے سروکار نہیں، ویسے آپ فرمائیں معاملہ کیا ہے….؟‘‘

’’لے ہاؤس کے ایک مکین نے اپنے سر میں گولی مار کر خودکشی کرلی ہے جناب!‘‘ پولسرڈ نے لجاجت کے سے انداز میں کہا

’’دوسرے اس کے بارے میں ضروری کارروائی کرلیں گے۔‘‘ جیپ نے بےحسی سے کہا۔ ’’میرا خیال ہے قرض یا کسی عورت سے معاشقہ وغیرہ اس کا باعث ہوگا۔ افسوس ہے پولارڈ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔‘‘

’’بات یہ ہے جناب کہ وہ خود کو اس طرح گولی نہیں مار سکتا۔‘‘ ڈاکٹر گائلز کا یہی خیال ہے۔‘‘ پولارڈ نے کہا

’’خود کو گولی نہیں مار سکتا تھا! کیا مطلب….؟‘‘ جیپ نے پولارڈ کی طرف گہری نظروں سے دیکھا

’’ڈاکٹر کا یہی کہنا ہے جناب!‘‘ پولارڈ نے دوبارہ کہا ’’وہ کہتا ہے کہ یہ ناممکن ہے، اگرچہ وہ سخت مخمصے میں ہے، کیونکہ کمرے کا دروازہ اندر سے مقفل تھا اور کھڑکیاں بھی بند تھیں، تاہم اس کا کہنا تھا کہ متوفی خودکشی کا ارتکاب نہیں کرسکتا تھا۔‘‘

’’پھر تو معاملہ واقعی الجھا ہوا ہے!‘‘ جیپ نے انڈوں اور گوشت کا آرڈر کینسل کر دیا اور چند منٹ بعد ہم سب تیزی سے ’’لے ہاؤس‘‘ کی طرف رواں دواں تھے

جَیپ راستے میں کانسٹیبل سے حالات پوچھتا جاتا تھا اور وہ اسے بتا رہا تھا: ’’متوفی کا نام والٹر پروتھرو تھا۔ وہ درمیانی عمر کا ایک خلوت پسند انسان تھا۔ آٹھ سال پیشتر مارکیٹ بیسنگ میں ’’لے ہاؤس‘‘ کرائے پر لے کر رہائش پذیر ہوا۔ یہ ایک قدیم اور خستہ عمارت ہے، جو رفتہ رفتہ منہدم ہوتی جارہی ہے۔ وہ اسی عمارت کے ایک کمرے میں رہائش پذیر تھا۔ اس کے امور خانہ داری کی نگران مس کلیگ تھی، جسے وہ ساتھ لایا تھا۔ وہ ایک معمر، سنجیدہ اور باوقار عورت ہے، جس کے بارے میں بستی کے لوگ اعلیٰ رائے رکھتے ہیں۔ وقوعہ کے دن لندن سے آئے ہوئے دو مہمان مسٹر اور مسز پارکر اس کے ساتھ دوسرے کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس صبح مس کلیگ نے والٹر کو آواز دی تو کوئی جواب نہ ملا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ یہ دیکھ کر اسے خطرے کا احساس ہوا اور اس نے پولیس کو بلانے کے لیے فون کیا۔ میں اور ڈاکٹر گائلز فوراً موقع پر پہنچ گئے اور خواب گاہ کا دروازہ توڑ ڈالا… ہم نے دیکھا مسٹر پروتھرو کی نعش فرش پر پڑی تھی۔ اس کے سر میں گولی کا زخم تھا اور داہنے ہاتھ میں پستول….. یہ واضح طور پر ایک خودکشی کا کیس تھا، لیکن نعش کا معائنہ کرکے ڈاکٹر گائلز نے مجھے اپنی اس رائے سے آگاہ کیا کہ اس شخص نے خودکشی ہرگز نہیں کی۔“

کانسٹیبل کی بات ختم ہوئی تھی کہ ہم ’’لےہاؤس‘‘ پہنچ گئے۔ یہ ایک وسیع اور ویران مکان تھا، جس کے چاروں طرف ایک بےرونق باغ تھا۔ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف خود رو پودے اُگے ہوئے تھے

سامنے کا دروازہ کھلا ہوا تھا، جس سے گزر کر ہم ہال میں پہنچ گئے اور وہاں سے ایک چھوٹے نشست کے کمرے میں داخل ہوئے. کمرے میں چار افراد موجود تھے۔ ایک مرد بھڑکیلا لباس پہنے ہوئے تھا اور اس کا چہرہ بےکشش تھا۔ اس کے علاوہ دو عورتیں تھیں۔ ایک عورت، جو شکل صورت کے اعتبار سے معزز نظر آتی تھی، کچھ متفکر تھی۔ دوسری عورت صاف سیاہ لباس پہنے سب سے الگ کھڑی تھی۔ اس کے بارے میں میں نے اندازہ لگایا کہ وہ گھر کی منتظمہ ہے۔ چوتھا ایک قدآور شخص تھا، جو شوخ رنگ کا سوٹ پہنے ہوئے تھا اور جس کے چہرے پر فراست اور لیاقت کے آثار نمایاں تھے

’’ڈاکٹر گائلز!‘‘ کانسٹیبل نے کہا ’’یہ سراغ رساں انسپکٹر مسٹر جَیپ ہیں اور ان کے ہمراہ ان کے دو دوست ہیں“

ڈاکٹر نے ہماری پذیرائی کی اور ہمیں مسٹر اور مسز پارکر سے متعارف کرایا، پھر ہم اس کے ساتھ زینے کے راستے اوپر گئے۔ جَیپ کے اشارے پر پولارڈ نیچے ہی رہا، گویا اس کو گھر کے افراد کی نگرانی کرنا تھی۔
گیلری سے ہو کر ہم ایک ایسے کمرے کے سامنے پہنچے، جس کا ٹوٹا ہوا دروازہ کمرے کے اندر کی طرف گرا پڑا تھا۔ نعش اب تک فرش پر پڑی تھی

متوفی مسٹر پروتھرو درمیانی عمر کا آدمی تھا۔ اس کی ڈاڑھی اور کنپٹیوں کے بال سفید ہونے لگے تھے

جَیپ آگے بڑھا، نعش کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہا ’’آپ نے اس کو اسی حالت میں کیوں نہ رہنے دیا، جس میں کہ اسے پایا گیا تھا….؟‘‘

ڈاکٹر نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا ’’ہم نے اس کو واضح طور پر خودکشی کا کیس سمجھا تھا۔ یہ تو گمان بھی نہ تھا کہ اسے قتل کیا گیا ہوگا‘‘

جَیپ نے کہا ’’گولی بائیں کان کے پیچھے سے سر میں داخل ہوئی ہے۔‘‘

’’جی بالکل یہی صورت ہے اور صاف ظاہر ہے اس کے لیے یہ گولی خود چلانا ناممکن تھا۔ اس کے لیے اسے اپنا ہاتھ سر کے گرد موڑنا پڑتا، جبکہ اضطراری حالت میں آدمی ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔‘‘ ڈاکٹر نے رائے ظاہر کی

جَیپ نے کہا ’’آپ نے پستول اس کے ہاتھ میں دیکھا تھا۔ وہ پستول کہاں ہے….؟‘‘

ڈاکٹر نے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’لیکن یہ اس کی انگلیوں کی گرفت میں نہ تھا.. میرا مطلب ہے، ہاتھ میں تو تھا، لیکن انگلیاں اس کے گرد لپٹی ہوئی نہ تھیں۔‘‘

’’آپ کا مطلب ہے بعد میں وہاں رکھا گیا….؟‘‘ جیپ نے کہا

’’یہ بات بالکل واضح ہے‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے پستول اٹھا کر دیکھا ’’صرف ایک کارتوس چلا ہوا ہے۔‘‘

’’اگرچہ ہم انگلیوں کے نشانات تلاش کریں گے، لیکن ڈاکٹر گائلز! مجھے اندیشہ ہے کہ اس کوشش سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ ویسے اس کو مرے کتنا وقت گزر چکا ہے….؟‘‘

’’گزشتہ رات یہ حادثہ رونما ہوا ہے۔ میں بالکل صحیح وقت کا تعین نہیں کرسکتا، جیسا کہ سراغ رسانی کی کہانیوں میں ہوشیار ڈاکٹر کرتے ہیں۔ اندازاً اس کو مرے ہوئے کم و بیش بارہ گھنٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘

اس وقت تک پائرو نے گفتگو میں حصہ نہ لیا تھا۔ وہ کبھی کبھی اس طرح سانس لیتا، گویا کچھ سونگھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے بھی سونگھنے کی کوشش کی، مگر ہوا صاف تھی اور کسی قسم کی بُو محسوس نہ ہوتی تھی، پھر بھی وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد مشکوک انداز میں سونگھنے کی کوشش کرتا، گویا اس کی حساس قوت شامہ کوئی ایسی بُو محسوس کرتی ہو، جو میں محسوس نہ کر سکا تھا

جَیپ نعش کے پاس سے ہٹ گیا، تو پائرو اس کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس کی توجہ نعش کی آستین میں اڑسے ہوئے رومال کی طرف تھی۔ آنجہانی پروتھرو گہرے سلیٹی رنگ کا لاؤنچ سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ ذرا دیر بعد پائرو اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے دماغ میں کوئی الجھن ہے۔

جَیپ نے ٹوٹا ہوا دروازہ اٹھانے کے لیے پائرو کو مدد کے لیے بلایا ۔ وہ وہاں سے ہٹا تو میں نعش کے قریب بیٹھ گیا اور آستین سے رومال نکال کر بغور دیکھا۔ یہ ایک سادہ سفید کیمرک Cambric کا رومال تھا، اس پر کوئی نشان یا دھبہ نہ تھا۔ میں نے رومال دوبارہ آستین میں رکھ دیا اور کھڑا ہوگیا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ پائرو کو اس رومال میں کیا خاص بات نظر آئی تھی

دروازہ اٹھانے کے بعد جَیپ نے چابی تلاش کی، لیکن نہ ملی۔ وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولا
’’اس سے بات صاف ہو گئی، کھڑکی بند ہے… اور اس کی چٹخنی چڑھی ہوئی ہے.. قاتل دروازے کے راستے واپس گیا اور اس کا تالا لگا کر چابی ساتھ لے گیا.. یہ طریقہ اس نے اس خیال سے اختیار کیا کہ پروتھرو کے بارے میں سمجھا جائے کہ اس نے اندر سے دروازے کا تالا لگا کر خود کو پستول سے ہلاک کیا ہے۔ کیوں مسٹر پائرو، کیا آپ کو میرے اس خیال سے اتفاق ہے….؟‘‘

’’ہاں میں اتفاق کرتا ہوں، لیکن میرے نزدیک یہ بات مشکل نہ تھی کہ چابی دروازے کے نیچے سے اندر ڈال دی جاتی۔ ایسا کیا جاتا، تو عام تاثر یہ ہوتا کہ چابی تالے سے نیچے گر گئی ہے۔‘‘

’’اوہ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ ہر شخص ایسا ہی تیز فہم ہوگا، جیسے کہ آپ ہیں۔ مسٹر پائرو! اگر آپ جرائم پیشہ ہوتے، تو بڑے ہی خطرناک ثابت ہوتے۔ کچھ اور ارشاد….؟‘‘

پائرو کسی گہرے خیال میں گم تھا۔ اس نے جَیپ کی طرف دھیان نہ دیا۔ وہ نعش کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا ’’میرا خیال ہے یہ شخص تمباکو نوشی بکثرت کرتا تھا۔‘‘

یہ بات ٹھیک تھی، کیونکہ آتش دان میں اور آرام کرسی کے پاس رکھی ہوئی ایش ٹرے میں بڑی تعداد میں سگریٹ کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے

جَیپ نے جھک کر ایش ٹرے کو دیکھا اور کہا ’’رات اس نے تقریباً بیس سگریٹ پیے ہوں گے۔ وہ سب ایک ہی قسم کے ہیں، لیکن مسٹر پائرو اس سے کوئی نتیجہ تو اخذ نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ کثرت سے سگریٹ پیتے ہیں۔‘‘

’’میں نے یہ تو نہیں کہا کہ اس سے کچھ نتیجہ نکلتا ہے۔‘‘ پائرو نے آہستہ سے کہا

’’اہا!‘‘ جَیپ نے زور سے کہا ’’یہ کیا ہے….؟‘‘ اس نے جھپٹ کر ایک چمکدار چیز نعش کے پاس سے اٹھالی.. یہ ایک ٹوٹا ہوا کف لنک cuff-link تھا۔ وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا ’’ڈاکٹر گائلز! میں شکر گزار ہوں گا، اگر آپ نیچے جاکر گھر کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون کو اوپر بھیج دیں.. اس کے علاوہ آپ اور پولارڈ اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ پارکر جوڑا کہیں رفوچکر نہ ہوجائے!‘‘

ڈاکٹر نے قدرے سوچ کر جواب دیا ’’نہیں! وہ برآمدے میں کھڑے رہے تھے، صرف میں اور پولارڈ کمرے میں داخل ہوئے تھے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس کیس میں ملوث نہیں ہیں۔‘‘

’’کیا آپ کو اس کا پورا یقین ہے….؟‘‘

’’بالکل۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر نیچے چلا گیا

’’میں حیران ہوں کہ اس شخص کو کس نے قتل کیا! بظاہر گھر میں مقیم تین افراد میں سے ایک نے… گھر کی منتظمہ پر مشکل سے ہی شبہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس کے پاس آٹھ سال سے تھی اور اسی عرصے میں جب بھی وہ چاہتی، اپنے مالک کو ہلاک کرسکتی تھی۔ رہ گئے یہ پارکر، تو مجھے یہ اچھے لوگ معلوم نہیں ہوتے۔‘‘ جَیپ نے غیر متوقع طور پر رائے ظاہر کی

اس موقع پر ہاؤس کیپر مس کلیگ بھی آگئی۔ وہ ایک دبلی پتلی عورت تھی۔ اس کے بالوں پر سفیدی آچکی تھی اور سیدھی مانگ اس کے چہرے پر خاصی بھلی لگ رہی تھی۔ اس وقت وہ پرسکون اور سنجیدہ تھی

جَیپ کے سوالات کے جواب میں اس نے بتایا کہ وہ چودہ سال سے متوفی کے ساتھ رہ رہی ہے۔ مرحوم ایک فیاض اور ہمدرد شخص تھا۔ اس نے مسٹر اور مسز پارکر کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ تین روز پیشتر وہ اچانک یہاں پہنچے تھے۔ ان کے آنے سے مالک مکان خوش نہیں ہوا تھا۔ ٹوٹے ہوئے کف لنک کے بارے میں اس نے بتایا کہ یہ مسٹر پروتھرو کا نہیں۔ اس بارے میں اسے پکا یقین تھا

جب اس سے پستول کے بارے میں پوچھا گیا، تو اس نے کہا ’’میرا خیال ہے کہ مسٹر پروتھرو کے پاس اس قسم کا پستول تھا اور وہ اسے بہت حفاظت سے تالے میں بند رکھتا تھا۔‘‘

پستول چلنے کی آواز کے بارے میں اس نے بتایا ’’میں نے فائر کی آواز نہیں سنی، مگر یہ بات تعجب خیز نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک بہت بڑا مکان ہے۔‘‘

پروتھرو کی عادات اور معمولات کے بارے میں اس نے کہا ’’میں نہیں کہہ سکتی کہ مسٹر پروتھرو کس وقت سونے کے لیے لیٹے۔ میں ساڑھے نو بجے کے قریب اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوئی، تو اس وقت مسٹر پروتھرو اپنے بستر پر لیٹے ہوئے نہ تھے۔ ان کی یہ عادت نہیں تھی کہ وہ رات کو فوراً سونے کے لیے لیٹ جائیں۔ عموماً نصف شب تک بیٹھے مطالعہ کرتے اور سگریٹ پیتے رہتے تھے۔ وہ کثرت سے تمباکونوش کرتے تھے۔‘‘

پائرو نے اس مرحلے پر سوال کیا ’’آپ کے صاحب کھڑکی بند کرکے سوتے تھے یا اسے کھلا رہنے دیتے تھے….؟‘‘

مس کلیگ نے قدرے توقف کے بعد جواب دیا ’’کھڑکی عموماً کھلی رہتی تھی.. کم از کم اس کا اوپر کا حصہ تو ضرور کھلا رہتا تھا‘‘

’’لیکن اس وقت یہ کھڑکی بند ہے۔ کیا آپ یہ وضاحت کر سکتی ہیں….؟‘‘ پائرو نے سوال کیا

’’نہیں! ہو سکتا ہے تیز ہوا سے بند ہوگئی ہو!‘‘

جَیپ نے اس سے چند اور سوال پوچھے اور پھر جانے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد اس نے مسٹر اور مسز پارکر سے علیحدہ علیحدہ سوالات کیے

مسز پارکر ہسٹیریا زدہ نظر آتی تھیں۔ ان کی آنکھیں اشک آلود تھیں… مسٹر پارکر بپھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے کف لنک کے بارے میں بتایا کہ یہ ان کا نہیں ہے۔ لیکن اس سے پیشتر چونکہ مسز پارکر تسلیم کر چکی تھیں کہ یہ کف لنک ان کے شوہر کا ہے، لہٰذا یہ انکار کچھ سود مند نہ تھا۔ جَیپ نے انہیں شک بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کے نزدیک ان کے خلاف وارنٹ حاصل کرنے کا کافی مواد موجود تھا

جَیپ نے پولارڈ کو نگرانی کے لیے چھوڑا اور جلدی سے قصبے میں پہنچ کر ہیڈ کوارٹرز سے بذریعہ ٹیلیفون رابطہ قائم کیا، میں اور پائرو ٹہلتے ہوئے سرائے میں واپس آگئے

’’آپ غیر معمولی طور پر خاموش ہیں۔ کیا اس کیس میں آپ کی دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے….؟‘‘ میں نے پائرو سے سوال کیا

’’نہیں…. مجھے اس کیس سے بےحد دلچسپی ہے، لیکن اس میں میرے لیے کچھ الجھن بھی ہے۔‘‘

’’آپ کے نزدیک شاید مقصد قتل غیر واضح ہے….؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ پارکر ایک برا آدمی ہے۔ اس کے خلاف کیس خاصا مضبوط ہے۔ بیشک قتل کا مقصد ابھی تک واضح نہیں، مگر یہ بعد میں واضح ہو جائے گا۔‘‘

’’آپ کی نظر میں کوئی نمایاں بات نہیں آئی، جس کو جَیپ نے نظر انداز کردیا ہو….؟‘‘ پائرو نےسوال کیا

میں نے اس کی طرف تجسس بھری نظروں سے دیکھا اور حیران ہو کر سوال کیا ’’مسٹر پائرو! آپ کی نظر میں کون سا پوشیدہ نکتہ ہے، جس تک جَیپ جیسے جہاندیدہ افسر کی نگاہ نہ پہنچ سکی….؟‘‘

’’متوفی کی آستین میں کیا چیز تھی….؟‘‘

’’اوہ! وہ رومال!‘‘ مجھے یاد آیا کہ پائرو نے متوفی کے رومال کو خاص طور پر دیکھا تھا۔
’’بالکل ٹھیک! وہ واقعی ایک رومال تھا، صرف رومال، لیکن میں سمجھتا ہوں وہ اس کے سوا اور کچھ بھی تھا۔‘‘

’’جہاز ران رومال بالعموم آستین ہی میں رکھتے ہیں مسٹر پائرو!‘‘ پائرو نے متفکرانہ انداز میں کہا

’’مثلا….؟‘‘ میں استفسار کیا

’’مثلاً، میرا ذہن بار بار سگریٹ کے دھوئیں کی بُو کی طرف منتقل ہوتا ہے۔‘‘

’’لیکن مجھے اس کی کوئی بُو محسوس نہیں ہوئی!‘‘ میں نے تعجب کے انداز میں کہا

’’اور میرے دوست، نہ مجھے محسوس ہوئی۔‘‘ پائرو نے تمسخر کے انداز میں کہا

’’بہرحال میں اس کے بارے میں سوچ ضرور رہا ہوں۔‘‘ اس کے چہرے پر غور و فکر کے گہرے تاثرات تھے.
________

ابتدائی عدالتی کارروائی دو روز بعد ہوئی۔ اس عرصے میں کچھ اور شہادت مہیا ہوئی تھی۔ ایک آوارہ گرد شخص نے بیان دیا تھا کہ وہ دیوار پھلانگ کر ’’لے ہاؤس‘‘ کے باغ میں داخل ہوا تھا, جہاں وہ اکثر شب باشی کیا کرتا تھا اور اس نے رات کے بارہ بجے کے قریب مکان کی پہلی منزل سے دو آدمیوں کے جھگڑنے کی بلند آوازیں سنی تھیں۔ ایک آدمی رقم کا مطالبہ کر رہا تھا اور دوسرا غصے بھری آواز میں رقم دینے سے انکار کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی مسٹر پروتھرو تھے، جن کو وہ اچھی طرح جانتا تھا

مسٹر پارکر کو اس نے دیکھنے کے بعد شناخت کیا تھا اور بہت تعین سے بتایا تھا کہ دوسرے صاحب یہی تھے!

اس شہادت کی رو سے یہ بات ایک طرح سے پایہ ثبوت کو پہنچ چکی تھی کہ مسٹر اور مسز پارکر لے ہاؤس میں بلیک میل کرنے کی غرض سے آئے تھے۔

مقدمے کے ریکارڈ پر یہ بات بھی آئی کہ متوفی پروتھرو کا اصل نام وینڈوور تھا اور کافی عرصہ پہلے وہ بحریہ میں لیفٹیننٹ تھا۔ 1910ع میں ’’میری تھوٹ‘‘ نامی کروزر جہاز کو تباہ کرنے میں اس نے عملی طور پر حصہ لیا تھا اور اپنے اس جرم کو چھپانے کے لیے نام بدل کر رہ رہا تھا۔ یہ سمجھا گیا کہ پارکر، وینڈوور کے اس جرم سے آگاہ تھا اور اس کے پاس اس غرض سے آیا تھا، تاکہ اپنی خاموشی کی قیمت وصول کرے۔ جھگڑے کے دوران میں وینڈوور نے اپنا پستول نکالا۔ لیکن پارکر نے یہ پستول اس سے چھین کر اسے ہلاک کر دیا اور بعد میں اس بات کی کوشش کی کہ اس واقعے کو خودکشی تصور کیا جائے

عدالت کی یہ کارروائی سننے کے بعد ہم اپنی رہائش گاہ پر آئے، تو پائرو نے رقعہ بھیج کر مقتول کی خادمہ مس کلیگ کو بلوایا۔ وہ آئی تو میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ معمول کے خلاف وہ پرسکون نہ تھی۔ وہ زور زور سے سانس لے رہی تھی، گویا دوڑتی ہوئی وہاں پہنچی ہے۔ جب اس نے پائرو کی طرف دیکھا، تو اس کی آنکھوں میں خوف کے آثار تھے۔

”میڈم بیٹھ جائیے!‘‘ پائرو نے نرمی سے کہا۔ ’’میرا اندازہ درست تھا۔ کیا ایسا نہ تھا….؟‘‘
جواب میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

’’آپ نے ایسا کیوں کیا….؟‘‘ پائرو نے ملائمت سے کہا

’’میں اس سے بہت محبت کرتی تھی.. جب وہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا، تو میں اس کی نرس تھی.. خدا کے لیے مجھ پر رحم کریں۔‘‘

’’مجھ سے جو کچھ بھی ممکن ہوسکا میں کروں گا، لیکن آپ جانتی ہیں کہ میں یہ نہیں کرسکتا کہ ایک بےقصور آدمی کو پھانسی پاتے ہوئے دیکھوں، اگرچہ وہ ایک غنڈہ ہی ہو!‘‘

اس نے مدہم آواز میں کہا ’’شاید میں بھی ایسا نہیں چاہتی۔ بہرحال جو کچھ مناسب ہو وہ کریں۔‘‘ پھر وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی

’’کیا اس نے قتل کا ارتکاب کیا ہے….!؟‘‘ میں نے حیرانی کے عالم میں پوچھا

پائرو نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا ’’بلکہ آنجہانی والٹر پروتھرو نے خود ہی اپنے آپ کو ہلاک کیا ہے۔ کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ اس نے رومال دائیں ہاتھ کی آستین میں رکھا ہوا تھا۔ اس بات سے میں سمجھ گیا کہ وہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے کا عادی تھا. مسٹر پارکر سے سخت جھگڑا کرنے کے بعد اسے یقین ہوگیا تھا کہ اس کے جرم کا راز فاش ہوجائے گا…. اس لیے اس نے خودکشی کرلی.. صبح کو حسب معمول مس کلیگ کمرے میں آئی، تو اس نے کمرے میں اس کو مردہ حالت میں دیکھا.. اور جیسا کہ اس نے ابھی بیان کیا، وہ متوفی کو بچپن سے چاہتی تھی، لہٰذا یہ دیکھ کر اسے پارکر جوڑے پر سخت غصہ آیا جو اس شرمناک سانحے کا باعث بنا تھا.. وہ ان کو قاتل سمجھتی تھی اور پھر اس کو یکبارگی ان سے انتقام لیے کا خیال آیا، چنانچہ اس نے کھڑکی بند کرکے چٹخنی لگا دی اور ٹوٹا ہوا کفلنک، جو اسے نیچے کسی کمرے سے ملا تھا، وہاں ڈال دیا اور کمرے سے باہر آکر اس نے کمرہ مقفل کردیا۔‘‘

’’لیکن تم نے یہ ساری باتیں کس طرح معلوم کرلیں….؟‘‘ میں نے حیران ہو کر سوال کیا

’’یہ تو کوئی الجھا ہوا معاملہ نہ تھا، اگر کھڑکی بند رہی ہوتی اور اتنی تعداد میں سگریٹ پیے جاتے، جتنے سگریٹوں کے ٹکڑے کمرے میں ملے ہیں، تو کمرے میں تمباکو کی بُو ہوتی، لیکن کمرے کی فضا بالکل پاک تھی۔ اس سے مجھے فوراً یہ اندازہ ہوگیا کہ کمرے کی کھڑکی رات بھر کھلی رہی تھی۔ اسے صبح کے وقت بند کیا گیا، چنانچہ مس کلیگ نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ کھڑکی اس نے بند کی تھی اور اس کا مقصد خودکشی کے اس کیس کو قتل کی واردات ثابت کرنا تھا۔“

پائرو کے اس تجزیے کو عدالت نے بھی تسلیم کیا اور خودکشی کا کیس قرار دے کر ملزموں کو بری کر دیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close