”یوم خواتین“ : حیدرآباد کی شبو دادا، قمبر شہدادکوٹ کی بے بی باگڑی، چہکان کی فاطمہ اور یوکرین کی زوینیسلاوا

نیوز ڈیسک

کراچی – دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج 8 مارچ کو خواتین کے بین الاقوامی دن کی مناسبت سے مختلف ریلیاں اور پروگراموں کا انعقاد کیا گیا

سرکاری سطح پر پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی نے اداروں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا، جہاں ’نیشنل جینڈر پالیسی 2022‘ متعارف کراوائی گئی

پاکستان کے تمام شہروں میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ریلیاں نکالی گئیں، جن میں نسبتاً اس بار گزشتہ چند برسوں کے برعکس صورتحال نظر آئی

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں منعقد کی جانے والی ریلی کے منتظمین کے مطابق اس سال عورت مارچ کا بڑا مطالبہ مزدوری کے عوض ملنے والی اجرت میں اضافہ تھا

دوسری جانب عورت مارچ لاہور کے منتطمین نے ریلی کے شرکاء کے لیے ہدایات جاری کیں کہ وہ ’برائے مہربانی اپنے پوسٹر پر ایسی تصاویر اور زبان استعمال کرنے سے گریز کریں جو کسی کی مذہبی، نسلی، قومی، صنفی یا جنسی جذبات کو مجروح کرے۔‘

بہرحال خلیل قمر اور ماروی سرمد کو لڑتا ہوا چھوڑیے، ”میرا جسم، میری مرضی“ اور ”اپنا کھانا خود گرم کرو“ کو ایک طرف رکھ دیجیے اور یہ چار خبریں پڑھ لیجیے

سائیکل کے ٹائروں کو پنکچر لگانے والی شبنم عرف شبو دادا

حیدرآباد کے علاقے سحرش نگر کی شبنم خاصخیلی عرف شبو دادا اپنے گھر کی کفالت، محلے کے بچوں کی سائیکلوں کے پنکچر لگا کر کرتی ہیں

شبنم عرف شبو دادا کا کہنا ہے”میں پچھلے پندرہ سال سے اپنے گھر کے دروازے کے باہر سائیکلوں کے پنکچر لگانے کا کام کر رہی ہوں“

شبنم کے شوہر دمے کے مرض میں مبتلا ہیں، جس کے باعث وہ کوئی مشقت والا کام کرنے سے قاصر ہیں۔ شبنم کو ٹائر کے پنکچر اور سائیکلوں کی مرمت کا بنیادی کام ان کے شوہر نے ہی سکھایا ہے

شبنم نے بتایا ”پہلے تو میرے پاس اپنے بیٹے کی ایک سائیکل تھی، جسے میں نے محلے کے بچوں کو کرائے پر دینا شروع کیا. بعد میں ایک سائیکل کباڑی سے خرید لائی، جس کی مرمت بھی میں نے خود کی اور اس کو بھی کرائے پر دینا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ میرے کام میں الله نے برکت ڈالی اور اب میرے پاس چار سائیکلیں ہیں، جو میں کرائے پر دیتی ہوں“

شبنم عرف شبو دادا اپنے بائیں ہاتھ میں مردوں والی اسپورٹس گھڑی پہنتی ہیں، جس میں ڈیجٹس کے ذریعے ٹائم نظر آتا ہے۔ محلے کے بچے جب ان سے سائیکل لینے آتے ہیں تو وہ ان کے بائیں یا دائیں ہاتھ پر ٹائم لکھ دیتی ہیں اور بعد میں جب وہ بچہ واپس آتا ہے تو جتنی دیر کے لیے سائیکل اس کے پاس تھی، اس حساب سے اس سے پیسے وصول کرتی ہیں

شبنم نے اپنے مردوں جیسے نام کے حوالے سے بتایا: ’دادا کا لفظ تو عمر میں بڑوں کے لیے عام استعمال کیا جاتا ہے۔ میرا نام شبنم تھا، جسے محلے کے بچوں نے بگاڑ کر ’شبو‘ کر دیا اور پھر اس میں ’دادا‘ کے لفظ کا اضافہ بھی کر ڈالا‘

چھوٹے بچے شبنم کو چاچی، خالا، شبو دادا جیسے ناموں سے پکارتے ہیں۔ شبنم نے اپنے گھر کے باہر دکان پر ایک عدد اسنوکر اور ایک عدد ٹیبل فٹ بال بھی رکھا ہوا ہے، جس پر بھی اہلِ محلہ کا رش دکھائی دیتا ہے اور اس سب سے ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے

شبنم کے دو بیٹے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا انٹر، جبکہ دوسرا دسویں جماعت میں زیر تعلیم ہے اور ان دونوں کی پڑھائی کا خرچہ بھی شبنم سائیکلیں کرائے پر دے کر یا ان کے پنکچر لگا کر نکالتی ہیں

شبنم نے اپنی دکان اور کام کی نوعیت کے بارے میں بتایا ”شروع میں کافی لوگ آتے تھے، جو مجھے کہتے تھے کہ تم ایک عورت ہو اور عورت کو گھر میں بیٹھنا چاہیے۔ جس پر میں ان سے کہتی تھی کہ میرے دو چھوٹے بچے ہیں، میرا شوہر دمے کی بیماری میں مبتلا ہے۔ اگر میں اپنے گھر کی دیکھ بھال کے لیے باعزت طریقے سے روزگار کماتی ہوں تو پھر اس میں کیا حرج ہے“

شبنم کا ماننا ہے کہ کسی کہ سامنے ہاتھ پھیلانے سے اچھا ہے کہ کوئی بھی چھوٹا موٹا ہی، مگر کام کیا جائے، جس سے آپ باعزت طریقے سے دو وقت کی روٹی حاصل کر سکیں

برادری کے لیے اسکول کھولنا جنگ لڑنے جیسا تھا: بے بی باگڑی

صوبہ سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ کی بے بی باگڑی اپنی برادری کے بچوں اور خواتین کا مستقبل بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہیں

ایک جانب وہ سات سال سے اپنے برادری کے بچوں کے لیے اسکول چلا رہی ہیں، تو دوسری جانب انہوں نے ایک سال پہلے خواتین کو سلائی سکھانے کے لیے ووکیشنل سینٹر بھی کھولا ہے

بے بی باگڑی کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2015ع میں ’سنت ہیرا لال کمیونٹی اسکول‘ قائم کیا، جس میں باگڑی برادری کے تین سو بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں

انہوں نے بتایا ”یہ اسکول قائم کرنے کے لیے ہمیں سماج میں ایسی زندگی گزارنی پڑی، جو جنگ لڑنے کے مانند تھی، بہت تکلیفیں برداشت کیں۔“

بے بی باگڑی کہتی ہیں ”یہ اسکول شہر کے سیاسی و سماجی لوگوں کی مدد سے قائم ہوا۔ اسکول کے فرنیچر، بچوں کے یونیفارمز، کتابیں یا دیگر ضروریات کے لیے فیسبک پر پوسٹ کرتے ہیں تو کافی لوگ تعاون کرتے ہیں“

ان کے مطابق باگڑی برادری کو سندھ میں نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اس وجہ سے انہیں مواقع نہیں ملتے

انہوں نے کہا ’اکثر بچے بھیک مانگتے ہیں یا جوتے پالش کرتے ہیں۔ اب قمبر شہر کے یہ تمام بچے ہمارے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان میں سے کوئی بھیک نہیں مانگتا‘

بے بی باگڑی نے بتایا کہ اسکول کے لیے پلاٹ اور عمارت بھی عطیات سے ممکن ہوئی

اسکول کے ساتھ بے بی باگڑی نے برادری کی عورتوں کے روزگار کے لیے سلائی مرکز کھولا ہے، جس میں ان کے مطابق پچیس سے تیس عورتیں سلائی کا ہنر سیکھ کر کام کرتی ہیں

انہوں نے کہا کہ ’ہماری برادری کی خواتین گھر گھر بھیک مانگتی تھیں تو معاشرہ انہیں برا بھلا کہتا تھا، پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایسا کام کیا جائے جس سے وہ باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے میں نے ایک سال قبل ’پریت ووکیشنل سینٹر‘ کی بنیاد ڈالی۔‘

ان کے خیال میں سماج جو انہیں نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے اسے اپنی تعلیم اور ہنر سے ختم کیا جا سکتا ہے

وہ کہتی ہیں ”اس مشن کو آگے لے جا کر قمبر شہر میں کالج اور یونیورسٹی بنانے کی کوشش کریں گی، جس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ’ہمارے بچے اپنے ملک اور برادری کے لیے خدمات سر انجام دیں“

ان سب کاموں میں بے بی باگڑی کے شوہر پردیسی بھی بھرپور ساتھ دیتے ہیں

بے بی باگڑی کے مطابق ان کے شوہر موٹر سائیکل پر کباڑ خریدنے اور بیچنے کا کام کر کے گھر چلاتے ہیں اور انہیں اس کام میں بہت سپورٹ کرتے ہیں

بے بی باگڑی ان ذمہ داریوں کے علاوہ اپنی برادری کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بھی کوشش کرتی ہیں

ان کے مطابق لڑائی جھگڑے، پولیس تھانے، ہسپتال یا روڈ راستوں کے مسائل پر وہ جدوجہد کرتی ہیں

وہ اپنی برادری میں چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادیاں نہ کرنے کے بارے میں لیکچر دیتی ہیں۔ ’ضروری نہیں کہ ہمارے بڑے بزرگ جو کام کرتے رہے وہ ہم بھی کریں‘

بے بی باگڑی اپنےکام سے بہت خوش ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہیں، کیوں کہ اب اسکول اور سلائی مرکز کے ماہانہ اخراجات پورے نہیں ہو رہے

ان کے مطابق ماہانہ اخراجات کا بندوست بڑی مشکل سے ہوتا ہے، ڈر ہے کہیں یہ کام رک نہ جائے

لیکن اس کے باوجود پر عزم بے بی باگڑی اپنے شہر قمبر کے علاوہ پورے سندھ میں اپنی برادری کے لیے ایسے ہی اسکول اور ووکیشنل سینٹر کھولنا چاہتی ہیں

وہ کہی ہیں ”یہ سب اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب اخراجات وغیرہ کے مسائل حل ہو جائیں اور زیادہ لوگ تعاون کریں۔“

ڈی آئی خان کی کمہاروں کی بستی جو خواتین کے بل بوتے پر چل رہی ہے

مٹی کے برتن بنانا عموماً مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے لیکن خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک گاؤں میں تقریباً ہر گھر میں خواتین مٹی کے برتن بنانے کے پیشے سے وابستہ ہیں

اگرچہ مٹی کے برتنوں کے استعمال کا رواج آج کل کم ہوگیا ہے، لیکن اس کے باوجود چہکان گاؤں کی بیشتر خواتین نے اس فن کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ مٹی کا کاروبار ان خواتین کا خاندانی کاروبار ہے

چہکان سے تعلق رکھنے والی ہر بچی جب چھ سال کی عمر کو پہنچتی ہے، تو اسے اپنے اس خاندانی کاروبار میں شامل کر لیا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ جب سے بچی ہوش سنبھالتی ہے تو خود ہی شوقیہ ہاتھ بٹانا شروع کر دیتی ہے

چہکان کی یہ بستی ’کمہاروں کی بستی‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، جس میں تقریباً ہر گھر کی خواتین اس کام سے منسلک ہیں۔ یہ خواتین پورا سال اور ہر موسم میں اس کاروبار کو وقت دیتی ہیں۔ کوئی برتنوں کو لیپ دیتی، کوئی برتنوں کو سخت کرتی ہے، کوئی برتنوں کو کوٹتی ہے، تو کوئی برتنوں کو بڑا کرتی ہیں

مرد دن کی روشنی میں اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں مگر ان خواتین کی رات بھر ان برتنوں پر نظر ہوتی ہے، جو انہوں نے سوکھنے کے لیے باہر صحن میں ترتیب دیے ہوتے ہیں کہ کہیں بارش آگئی تو ان کے تمام برتن گیلے ہو جائیں گے

گرمیوں کے موسم میں ان کمہار خواتین کا کاروبار زیادہ چلتا ہے۔ چنانچہ یہ خواتین دوپہر کی تپتی دھوپ میں زیادہ برتن بناتی ہیں تاکہ زیادہ کمائی کی جا سکے

فاطمہ بی بی بھی ان کمہار خواتین میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’اس کاروبار میں ہمارے مرد بھی ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں پر ہم عورتوں کا اس کاروبار کو چلانے میں زیادہ ہاتھ ہے۔ اگر ہم عورتیں کاروبار میں ہاتھ نہ بٹائیں تو ان کے لیے یہ کاروبار چلانا خاصہ مشکل ہوجائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان پر کام کرنے سے کوئی پابندی نہیں بلکہ مرد انہیں سراہتے ہیں اور مدد بھی کرتے ہیں۔ ’ہم یہ مشقت والا کام باآسانی کر لیتے ہیں، کیونکہ عورت کمزور نہیں بلکہ طاقتور ہوتی ہے اور کوئی بھی کام یا ذمہ داری سرانجام دے سکتی ہے۔‘

عمران کمہار برادری کے رہنما ہیں اور خود بھی اس کاروبار میں بھر پور ہاتھ بٹاتے ہیں

انہوں نے بتایا کہ کمہار برادری میں تقریباً تیس سے پینتیس گھرانے ایسے ہیں، جو مٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں

عمران کہتے ہیں ”ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ ہمارا کاروبار ان خواتین کے تعاون سے چل رہا ہے۔ اگر یہ خواتین ہمارے ساتھ کاروبار میں ہاتھ نہ بٹائیں تو ہمارا کاروبار بہت متاثر ہوتا ہے“

روس کے خلاف لڑائی میں اپنا حصہ ڈالتی یوکرینی خواتین

مغربی یوکرین کے شہر لویو کی خواتین، جو آج کل کیموفلاج جال بنانے میں مصروف ہیں

یوکرین پر روسی حملے بعد سینکڑوں افراد کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے باوجود یوکرینی شہریوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈال رہا ہے، جس میں خواتین بھی سرفہرست ہیں

جہاں کئی یوکرینی خواتین ہتھیار اٹھا کر حملہ آور روسی افواج کے جنگ لڑ رہی ہیں، وہیں مغربی یوکرین کے شہر لویو کی خواتین آج کل کیموفلاج جال بنانے میں مصروف ہیں، جس کا مقصد روس کے خلاف لڑائی میں اپنے ملک کے فوجیوں کو محفوظ رکھنا ہے

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک تہہ خانے کو پروڈکشن سینٹر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یہ خواتین کپڑے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ایک فریم پر باندھ دیتی ہیں تاکہ فوجی گاڑیوں، سامان اور اہلکاروں کو ڈھانپنے کے لیے جال بنایا جاسکے

لویو شہر اپنے فن تعمیر اور ثقافتی ورثے کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ گذشتہ ماہ 24 فروری کو روسی حملے کے آغاز کے بعد سے اس شہر میں ایک درجن سے زیادہ مرتبہ فضائی حملے کے سائرن بج چکے ہیں، تاہم یہاں اب تک بمباری نہیں ہوئی ہے

اس پروڈکشن سینٹر میں کام میں مصروف زوینیسلاوا میلنیک نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ یوکرین کی مسلح افواج کے لیے کیموفلاج جال بنانے آئی ہیں

ان کا کہنا تھا ”ہمارے مردوں اور محافظوں کو ان کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک جتنی ہو سکے مدد کر رہا ہے اور ہم حمایت کے لیے سب کے شکر گزار ہیں۔‘

لیڈیا ڈیویڈا نامی خاتون نے بتایا: ’ہم فوجی گاڑیوں اور یہاں تک کہ فوجیوں کو ڈھانپنے کے لیے کیموفلاج جال بناتے ہیں تاکہ وہ ڈرون اور فوجی طیاروں سے پوشیدہ اور زندہ رہیں۔ یہ جال فوجیوں ٹینکوں اور مختلف فوجی گاڑیوں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ ہمارا فرض ہے۔ وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ وہ ہمارے لیے جانیں قربان کرتے ہیں۔ اگر ہم کچھ کرسکتے ہیں اور ایک چھوٹا سا کام کرکے ان کی مدد کر سکتے ہیں تو یہ ہمارا فرض ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close