ماحولیاتی تباہی کے اثرات اور کراچی

حفیظ بلوچ

آج پوری دنیا میں ماحولیاتی تباہی کو لے کر انوائرمنٹ سائنس کے ماہرین الارم کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں. ماحولیاتی آلودگی، سمندری آلودگی، جنگلوں کی کٹائی، شہروں سے درختوں کی کٹائی اور جنگلی حیات کو درپیش مسائل کے وجہ سے سائنس دان دنیا کی بڑی طاقتوں سے ماحولیاتی تباہی کو کنٹرول کرنے اور قوانین بنانے اور ان پہ عمل کرنے پر زور دے رہے ہیں. پوری دنیا کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی، ایکو سسٹم کی تباہی کو نہ روکا گیا تو دنیا کو مستقبل قریب میں کس طرح  قدرت کے قہر کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یورپ سے لے کر امریکا اور امریکا سے لے کر افریقہ اور ایشیا تک انوائرمنٹ اسپیشلسٹ ماحولیاتی تباہی پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور ہم تیسری دنیا کے باسی اسی آگ کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھ تاپ رہے ہیں. اپنے شہر کراچی کو ہی لے لیجیے، پورے کراچی کے انفراسٹرکچر تباہ کر کے شہر قائد کو بلڈر مافیا کے حوالے کر دیا گیا ہے، اور یہی بلڈر مافیا عام غریب لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر ندی نالوں میں ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا رہے ہیں۔ پورے کراچی میں درخت ناپید ہوتے جا رہے ہیں. قدرتی جنگلات کا خاتمہ تو کب کا کر دیا گیا تھا، اب کنکریٹ کے جنگل سے فطرت کی تباہ کاریوں کو دعوت دی جا رہی ہے. کراچی میں بڑھتی گرمی، بےوقت کی بارشیں، مون سون کے موسم میں حد درجہ کم بارشیں.. یہ سب تباہی کا پیش خیمہ ہیں ۔ پہلے جہاں ساحل کی ٹھنڈی ہوائیں گرمیوں میں زندگی کو سہل بناتی تھی، اب وہیں ہیٹ اسٹروک کے خوف سے گرمیوں میں لوگ سہمے رہتے ہیں ـ
جہاں پہلے زراعت ہوتی تھی اب وہاں بڑے بڑے ہاؤسنگ پراجیکٹ لانچ ہو رہے ہیں، زرعی علاقوں میں گوٹھوں اور آبادیوں کے ساتھ فیکٹریاں بنائی جا رہی ہیں۔ یہ بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے، اے ایس ایف سٹی اور بہت سارے دیگر پراجیکٹ جو کراچی کے ایکو سسٹم کو تباہ کر دیں گے، یہ زرعی علاقوں میں موجود بڑی بڑی فیکٹریاں کراچی کا دم گھونٹ دیں گی. آخر  یہ کون لوگ ہیں اور م کس کی اجازت سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں؟ کیا دنیا میں انوائرمنٹل الارم پاکستان اور کراچی کے اس حصے پر لاگو نہیں ہوتا!؟ پاکستان تو پابند ہے ماحولیاتی تحفظ کا، ہم بھی دنیا کا حصہ ہیں، پھر کیوں کراچی کے انوائرمنٹ اور ایکو سسٹم کو تباہ کیا جا رہا ہے؟ کیوں آخر یہ عام لوگوں کے دشمن ہو گئے ہیں؟ ذرا سوچیے کہ کراچی کے ماحولیات کو بلڈر مافیا تباہ کر رہا ہے اور ہم چپ رہ کر  اپنا ہی مستقبل داؤ پہ لگا رہے ہیں.. آخر کیوں ہم اس مسئلے پر آواز نہیں اٹھاتے؟ اگر آج ہم ان پیسوں کے پجاریوں کو نہیں روکیں گے، تو اگلے دس سالوں میں ہمارے ایک نسل ہسپتالوں میں ہوگی اور  باقیوں کی کمر ٹوٹ جائے گی ان کے علاج و تیمارداری میں۔۔۔

کراچی کی پوری آبادی کتنی ہے.. ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ انسانوں کا یہ شہر، جس تیزی سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے آئندہ چند سالوں میں یہ فگر ڈبل بھی ہو سکتے ہیں، اب ایک منٹ ٹھہریئے.. کیا کراچی شہر کی بڑھتی آبادی کو مینج کرنے کے لیئے ریاست پاکستان کے پاس کوئی پلاننگ ہے؟  کیا کراچی کا کوئی ماسٹر پلان ایگزسٹ کرتا ہے؟ بدقسمتی سے نہیں! شہر قائد کو بلڈر مافیا کے حوالے کر کے جو چاہے جہاں چاہے چند روپے دے کر اپنا پراجیکٹ لانچ کر سکتا ہے ـ کیا کسی نے سوچا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کا شہر کراچی سانسیں کس طرح لے رہا ہے؟ یا بڑھتی آبادی کے بوجھ تلے دھنسا ہوا میرا شہر زندہ کیسے رہ پائے گا؟

کسی بھی شہر کو زندہ رکھنے کے لیئے اس کے آکسیجن کا خیال کیا جاتا ہے، جس سے وہ شہر سانسیں لے سکے ـ اور وہ آکسیجن کیا ہیں؟ درخت، پارکس، کھیل کے میدان اور جتنا بڑا شہر اس کے مطابق اس کے چاروں جانب اتنا بڑا گرین بیلٹ زون، جہاں پہاڑ ہوں، ندیاں ہوں،  درخت ہوں، ہریالی ہو، باغات ہوں، زراعت ہو.. جس سے شہر کو تازہ ہوا ملے، اور کراچی میں یہ سب ناپید ہے! کراچی کے گرد موجود زرعی علاقے اور کھیرتھر کے فاریسٹ اس شہر کے لیے پھیپھڑوں کی مانند ہیں، اور ان پھیپھڑوں کو بلڈر مافیا کا کورونا وائرس چاٹ رہا ہے!

کراچی کے اندر درختوں کی کمی ہے، پارکس کی کمی ہے، گراؤنڈز کی کمی ہے ـ بس بلڈر مافیا اور ان کے کنکریٹ کے جنگل ہیں ـ کراچی کے پاس کیا نہیں ہے؟  خوبصورت ساحل ہے، جسے برباد کیا جا رہا ہے، ساحل کے خوبصورت تمر کے جنگلات، جو ساحل اور متصل علاقوں کو سمندری طوفان سے بچانے کے لیے آڑ کا کام کرتے ہیں، تیزی سے ختم کیے جا رہے ہیں. خوبصورت جزائر بلڈر مافیاز کے حوالے کیئے جا رہے ہیں، ساحل کی خوبصورت زمین، جو کراچی کو آکسیجن مہیا کر سکتی ہے، مگر اس کے قدرتی حسن کو ماند کیا جا رہا ہے، ہر روز ایک نئے پراجیکٹ کی نوید سنائی جاتی ہے ـ جس سے اس ساحل کے قریب ساحل کے نگہباں ماہی گیر عدم تحفظ کا شکار ہیں ـ یاد رہے یہی ماہی گیر ساحل کا حسن ہیں ـ اگر یہاں کنکریٹ کے جنگل بنائے گئے، تو اس کے اثرات کراچی پر بہت بھیانک ہوں گے.

کراچی کا مضافات جو حب ندی سے شروع ہو کر ملیر کے اطراف جو کہ ابراھیم حیدری، گھگھر پھاٹک، درسانہ چھنہ، کوٹیرڑو، کاٹھور، کونکر گڈاپ سے لے کر کھیرتر نیشنل پارک کے پہاڑی سلسلے تک پھیلا ہوا ہے اور جو کراچی کو حقیقی معنوں میں آکسیجن مہیا کرتا تھا، ایک طرف کھیرتھر نیشنل پارک کا پہاڑی سلسلہ، مون سون کی برساتوں میں وہاں سے بہہ کر پانی کراچی کے زمین کو سیراب کرتی بہت ساری ندیاں، ایک طرف لیاری ندی، دوسری طرف ملیر ندی جو لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں گراتی تھیں، لیاری ندی تو پہلے ہی تباہ کیا جا چکا ہے، اب وہ ندی مکمل طور پر سیورج نالے میں تبدیل ہو چکی ہے، اور رہی ملیر ندی تو بحریہ ٹاؤن کراچی اور ڈی ایچ اے کی برکت سے آئندہ دس سالوں کے بعد یہ بھی سیوریج نالے میں تبدیل ہو جائیں گی.. اس کا نتیجہ کراچی کے زیر زمین پانی کے مکمل کی صورت میں برآمد ہوگا ـ
کراچی کے مضافات میں سرسبز شاداب باغات، چراگاہیں اور ان میں بسنے والے جفاکش کسان اور مزدور ـ یہ سب کراچی کے اطراف کو بہت خوبصورت بناتے تھے، وہ ایک طرف کراچی کے ماحولیاتی سسٹم اور کراچی کے ایکو سسٹم کو مضبوط بنائے ہوئے تھے، تو دوسری طرف اس شہر کو تازہ سبزیوں اور پھل بھی مہیا کر رہے تھےـ مگر پچھلے چالیس سالوں میں کراچی کی تیزی سے بڑھتی آبادی، بغیر کسی ماسٹر پلان کے، بغیر کسی پلاننگ صرف رشوت اور غیر قانونی طور پر بلڈر مافیا کے ہاتھوں کراچی شہر کو سونپنے سے جو تباہی ہوئی ہے اس کے اثرات اب آنا شروع ہو چکے ـ اور اگر یہ اسی طرح چلتا رہا، بلڈر مافیا کو لغام نہیں دی گئی، کراچی کا کوئی ماسٹر پلان بنا کے لاگو نہیں کیا گیا، تو کراچی ایک جہنم میں ڈھلتا جائے گا!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close