ماسی زینی، مولانا ہدایت، گوادر کے مچھیرے، بڑے سیاسی بت اور گوادر کے بلدیاتی انتخابات

ویب ڈیسک

گوادر سے لگ بھگ چوبیس کلو میٹر دور سربندن ساحل سمندر کے قریب مچھیروں کی چھوٹی سی بستی ہے۔ پولیو کے باعث ایک پاؤں سے معذور محمد مصری یہاں پرچون کی چھوٹی سی دکان کے مالک ہیں۔ محمد مصری نے زندگی میں پہلی بار اتوار کو بلوچستان میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور ضلع کی سب سے مضبوط شمار ہونے والی چار جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کہدہ پرویز عصا کو شکست دی، جس کے والد اور بھائی اس سے پہلے ڈسٹرکٹ کونسل چیئرمین رہ چکے ہیں

محمد مصری نے یہ الیکشن گوادر میں ابھرنے والی ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کے پلیٹ فارم سے لڑا۔ صرف ڈیڑھ سال قبل وجود میں آنے والی اس تحریک نے بلدیاتی انتخابات میں چار جماعتی اتحاد کے مضبوط امیدوار کو شکست دے کر ایسے کئی اپ سیٹ کئے اور گوادر میں میونسپل کمیٹیوں اور یونین کونسل کی کل 148 نشستوں میں سے 64 پر کامیابی حاصل کرکے ضلع کی سب سے بڑی قوت بن کر ابھری

محمد مصری کا کہنا ہے ”میرے مد مقابل امیدوار کو بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام ف اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی حمایت حاصل تھی۔ ان کے پاس سرمایہ بھی تھا اور الیکشن لڑنے کا تجربہ بھی لیکن ہمارے پاس انتخابی مہم، پوسٹرز اور بینرز چَھپانے کے لیے پیسے تک نہیں تھے۔ لیکن لوگوں نے چالیس سالوں سے آزمائے ہوئے لوگوں کے بجائے ہمیں موقع دیا کیونکہ حق دو تحریک نے انہیں نئی امید دلائی ہے“

صرف محمد مصری ہی نہیں،
حق دو تحریک کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے والے بیشتر امیدوار انہی کی طرح غیر معروف اور مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں

اس تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کہتے ہیں ”ہمارے بہت سے کامیاب امیدوار ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں نہ صرف پہلی بار انتخاب لڑا بلکہ کئی ایک نے تو اس سے پہلے کبھی ووٹ بھی نہیں ڈالا تھا“

مولانا ہدایت الرحمان کا مزید کہنا تھا ”ہمارے امیدواروں میں کوئی جوس بیچنے والا ہے، کوئی پی سی او چلاتا ہے، کوئی ماہی گیری تو کوئی مزدوری کرتا ہے۔ مگر انہوں نے بڑے بڑے برج الٹ دیئے۔ کئی دہائیوں سے ایم این اے اور ایم پی اے رہنے والے خاندان اور سرمایہ کاروں اور کارخانوں کے مالکان کو شکست دی“

انہوں نے کہا ”ہمارے امیدوار ناتجربہ کار تھے، انہوں نے غلطیاں بھی کیں، انہیں انتخابی داؤ پیچ کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا لیکن عوام ہمارے ساتھ تھے اس لیے ہمیں کامیابی ملی“

ان دنوں ’حق دو تحریک‘ کی یہ حیران کن انتخابی کارکردگی نہ صرف بلوچستان بھر میں بلکہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پاکستان کے دیگر حصوں کے سیاسی حلقوں میں بھی بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ضلع میں دہائیوں سے سرگرم جماعتوں کی جانب سے چھوڑا گیا سیاسی خلا اس نئی تحریک نے پُر کیا ہے

گوادر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ناصر سہرابی سمجھتے ہیں ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کی کامیابی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، جس میں سب سے بڑی وجہ عوامی اور حقیقی مسائل پر کھل کر بات کرنا ہے

ان کا کہنا ہے کہ گوادر میں سی پیک اور چینی ماہرین کی آمد کے بعد امن وامان کے خدشات کی وجہ سے سکیورٹی کے سخت اقدامات سے مقامی لوگوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے، انہیں جگہ جگہ چیک پوسٹوں پر تنگ کیا جا رہا تھا، ماہی گیروں کے لیے سمندر میں جانا مشکل بنا دیا گیا، بارڈر ٹریڈ پر رکاوٹوں اور ٹرالرنگ کی وجہ سے مقامی لوگوں اور چھوٹے ماہی گیروں کا روزگار متاثر ہوا۔ ان مسائل کو نظر انداز کیا گیا تو لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا گیا ایسے میں ڈیڑھ دو سال پہلے مولانا ہدایت الرحمان نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو لوگوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔اس طرح گوادر کو حق دو تحریک کا آغاز ہوا۔
مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور وہ اس جماعت کے صوبائی جنرل سیکریٹری بھی ہیں، لیکن وہ جماعت اسلامی کے بجائے حق دو تحریک کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں“

ناصر سہرابی کے بقول حق دو تحریک نے گوادر کے لوگوں کے حقیقی مسائل پر نہ صرف مؤثر طریقے سے آواز اٹھائی بلکہ ایک ماہ سے طویل عرصہ تک دھرنا بھی دیا اور شہر کی تاریخ میں خواتین کا سب سے بڑا جلسہ کیا

انہوں نے کہا ”لوگ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے مؤثر احتجاج کے نتیجے میں ہی ان کے مسائل کسی حد تک حل ہوئے، انہیں ریلیف ملا اس لیے انہوں نے روایات سے ہٹ کر حق دو تحریک سے وابستہ نئے لوگوں کا انتخاب کیا“

ان کا کہنا ہے کہ اس تحریک نے اسٹیٹس-کو کو بھی چیلنج کیا ، لوگ گوادر میں قوم پرست جماعتوں کے چہرے کے طور پر پہچاننے والی شخصیات کو بھی اسٹیٹس-کو کا حصہ اور دہائیوں سے حل نہ ہونے والے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، اس لیے انہوں نے اسٹیٹس-کو مسترد کیا

گوادر کے صحافی نور محسن کا کہنا ہے کہ حق دو تحریک کی کامیابی میں سب سے اہم کردار خواتین کا ہے۔ ’ضلع میں انتخابات کے دوران خواتین کے جلسے تو نہیں ہوئے مگر ماسی زینی جیسی تحریک سے وابستہ متحرک خواتین نے گھر گھر جاکر مہم چلائی، امیدواروں کے لیے خصوصی نغمے بنائے اور خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لئے باہر نکلنے پر قائل کیا‘

تجزیہ کار ناصر سہرابی کے مطابق ماسی زینب گوادر پورٹ کے قریب ماہی گیروں کی بستی میں رہتی ہے، جہاں کے لوگ ٹرالرنگ اور سکیورٹی کے نام پر سختیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اس لیے اس نے احتجاج اور اب بلدیاتی انتخابات میں مؤثر کردار ادا کیا

ان کا کہنا ہے کہ حق دو تحریک کی عوامی پذیرائی کا باقی سیاسی جماعتوں کو بھی پہلے سے اندازہ تھا اس لئے ماضی میں سخت سیاسی حریف ہونے کے باوجود انہوں نے ان انتخابات میں حق دو کے خلاف چار جماعتی اتحاد بنایا، اگر یہ جماعتیں اتحاد نہ بناتیں تو شاید ان کی پوزیشن اس سے بھی خراب ہوتی

ناصر سہرابی کا کہنا ہے کہ پہلے یہ تحریک اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی، اب ان کی آزمائش شروع ہوگی۔ لوگوں نے انہیں جتنا بھاری مینڈیٹ دیا ہے اتنی ہی زیادہ ان سے توقعات بھی وابستہ کی ہیں ۔ اب ان پر کارکردگی دکھانے کا دباؤ ہوگا اور اداروں کو چلانے کا تجربہ نہ ہونا ، بلدیاتی اداروں کے پاس اختیارات اور فنڈز کی کمی جیسی بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔‘

مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ صوبے کا بلدیاتی نظام کھوکھلا ، انتظامی اور مالی طور پر کمزور ہے اور اوپر (صوبائی ) حکومت بھی مخالف ہے، اس لیے ڈیلیور کرنا آسان نہیں ہوگا. ہم بلدیاتی اداروں کے مالی اور انتظامی اختیارات کی جنگ لڑیں گے اور ضرورت پڑی تو پھر دھرنا دیں گے

’میں خود میئر کا امیدوار نہیں بلکہ ایک تعلیم یافتہ امیدوار کو گوادر کا میئر منتخب کرائیں گے اور پسنی میں بھی آزاد امیدوار وں کی حمایت سے اپنا میئر لانے کی کوشش کریں گے۔‘

مولانا ہدایت کہتے ہیں ”ہمارے نومنتخب لوگ نا تجربہ کار ضرور ہیں مگر نالائق نہیں، تعلیم یافتہ اور عوام کی خدمت کے لئے پرعزم ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close