”بس تھوڑا سا پٹرول“ چوری کے شبہے میں تشدد سے ہلاکت، 14 ملزمان گرفتار

ویب ڈیسک

صوبہ پنجاب کے شہر گجرانوالہ میں ایک شخص پر چوری کا الزام لگا کر تشدد کرکے ہلاک کیے جانے کے واقعے میں ملوث 14 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے

واضح رہے کہ گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہے، جس میں ایک شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس وڈیو میں موجود مبینہ چور کو اتنا مارا گیا کہ وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا

جبکہ ڈائریکٹر پبلک رلیشن پنجاب کے بقول یہ وڈیو اس شخص کی نہیں ہے، بلکہ کچھ سال پرانی وڈیو ہے جسے وائرل کیا جا رہا ہے

لیکن ایسا نہیں کہ گجرانوالہ میں ایک شخص کو چوری کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ نہیں ہوا

یاد رہے کہ گجرانوالہ پولیس کے مطابق تھانہ اروپ نگر کی حدود میں گذشتہ روز یعنی پیر کو محمد اشرف نامی شخص کو موٹرسائیکل چوری کے الزام میں کچھ لوگوں نے ایک شخص کو اس قدر نشانہ بنایا کہ اس کی حالت غیر ہو گئی جب پولیس اسے ہسپتال لے کر پہنچی تو وہ جانبر نہ ہو سکا

ایف آئی آر کے مطابق: گشت پر موجود ایک اے ایس آئی کو 15 پر کال موصول ہوئی کہ ایک فلنگ سٹیشن پر لوگوں نے ایک موٹر سائیکل چور پکڑا ہوا ہے

اے ایس آئی موقع پر پہنچے تو اس شخص کو چھڑایا، جس کی حالت غیر تھی۔ اس شخص کو سرکاری گاڑی پر ڈی ایچ کیو منتقل کیا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا

گھوڑے شاہ کے رہائشی محمد اشرف کباڑ کا کام کرتے تھے۔ وہ شہر کے مختلف علاقوں سے اسکریپ اکٹھا کرتے اور اُنھیں بیچ کر گزر بسر کرتے اور یہی ان کا کُل ذریعہ معاش تھا

منگل کو محمد اشرف معمول کے مطابق کباڑ کا سامان خرید کر اپنی دکان کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک ان کی موٹر سائیکل میں پیٹرول ختم ہو گیا اور یہیں سے ان کی بدقسمتی کا آغاز ہو گیا

اسی مقدمے کی دوسری ایف آئی آر بھی تھانہ اروپ نگر میں مقتول محمد اشرف کے بھائی کی مدعیت میں درج کی گئی ہے

محمد اشرف کے بھائی شوکت علی کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے بھائی کباڑ کا کام کرتے ہیں۔ اٹھائیس سالہ اشرف پیر کی سہ پہر ڈیڑھ بجے پنڈی بائے پاس سے آرہا تھا، جب اس کی موٹر سائیکل میں پیٹرول ختم ہو گیا اور وہ قریبی فلنگ اسٹیشن پر اپنی موٹر سائیکل پیدل چلا کر لے گیا

دوسری ایف آئی آر میں ان کے بیان کے مطابق وہ اور ان کے کزن رفیق بھی پیچھے ہی تھے جب وہ دونوں بھی فلنگ اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں سے چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں دیکھا تو اشرف کو وہاں کھڑی ایک مزدا کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور اس کو مارا جارہا تھا

شوکت کے مطابق اشرف کو جوتوں، اور مکوں ٹھڈوں اور آہنی راڈ سے مارا جا رہا تھا

انہوں نے اسے بچانے کی کوشش کی مگر انہیں لوگوں نے آگے جانے نہیں دیا اور پھر کچھ لوگ اشرف کو وہاں موجود ایک دفتر میں لے گئے اور وہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا

ایف آئی آر کے مطابق اسی دوران وہاں پولیس آگئی اور ملزمان اشرف کو وہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اشرف کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکا

محمد اشرف کے بھائی شوکت علی نے پولیس کو بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے بتایا کہ اُن کے بھائی نے پیٹرول پمپ کے احاطے میں اپنی موٹر سائیکل کھڑی کی اور باتھ روم کی طرف چلے گئے

جب وہ واپس آئے تو وہاں چار پانچ موٹر سائیکلیں کھڑی تھیں۔ محمد اشرف نے شاید غلطی سے اپنی موٹر سائیکل کے بجائے کسی دوسری موٹر سائیکل کو ہاتھ لگایا تو وہاں کھڑے افراد نے چور چور کہہ کر اُنھیں دبوچ لیا اور مارنا پیٹنا شروع کر دیا

محمد اشرف نے لوگوں سے کہا کہ اُن کی موٹر سائیکل بھی وہیں کھڑی ہے لیکن کسی نے ان کی بات نہ مانی۔ اس دوران قریبی ٹائر شاپ سے مزید لڑکے وہاں آ گئے اور اُنہوں نے بھی محمد اشرف پر تشدد کرنا شروع کر دیا

محمد اشرف کے بھائی شوکت علی کا سوال ہے کہ ’کیا چور شناختی کارڈ لے کر سڑکوں پر گھومتے ہیں، میرا بھائی بیگناہ تھا‘

ایک اور بیان کے مطابق اشرف کی موٹر سائیکل کا جب پٹرول ختم ہوا تو وہ فلنگ اسٹیشن پر گیا لیکن اس وقت اس کی جیب میں پیسے نہیں تھے

اشرف نے پٹرول کے لیے فلنگ اسٹیشن والوں سے درخواست کی کہ وہ اتنا سا پٹرول دے دیں کہ وہ گھر تک جا سکے لیکن انہوں نے انکار کر دیا جس کے بعد اشرف سے غلطی یہ ہوئی کہ وہاں کھڑی ایک مزدا گاڑی جو پنکچر لگوا رہی تھی اس کے ڈرائیور سے پیٹرول کی درخواست کی جس پر ڈرائیور نے کہا اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اشرف نے کہا کہ وہ خود تھوڑا سا پٹرول نکال لیتا ہے جس پر وہاں موجود افراد نے اشرف پر تشدد شروع کر دیا

ایف آئی آر کے مطابق پیٹرول پمپ کے ملازمین، وہاں موجود ڈرائیورز اور قریبی دکانوں کے لڑکوں نے کسی بات کی تصدیق کیے بغیر محمد اشرف کو بری طرف تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس دوران وہ کہتے رہے کہ وہ چور نہیں ہیں۔ پھر زخمی اشرف کو مزدا وین کے ساتھ باندھ دیا گیا اور سب لڑکے باری باری جوتوں، مکوں، آہنی راڈوں اور لاتوں سے ان پر تشدد کرتے رہے

’نیم بے ہوش ہو جانے پر کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ ڈرامے کر رہا ہے، پھر محمد اشرف کے ہاتھ پیر باندھ دیے گئے اور ان کو گھسیٹتے ہوئے پیٹرول پمپ کے دفتر کے اندر لے گئے جہاں پمپ مالک کے موجودگی میں ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔‘شوکت علی بے بتایا کہ اس دوران وہاں موجود کسی شہری نے ریسکیو 15 پر اطلاع کر دی کہ ہم نے چور پکڑا ہے، آ کر اسے گرفتار کر لیں

تھانہ اروپ کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر وحید اللہ اور دو کانسٹیبل وہاں پہنچے۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اے ایس آئی نے کوئی تحقیق کیے بغیر زخمی اشرف کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا اور گالیاں دیں۔ اشرف نے پولیس اہلکاروں کی بھی منت سماجت کی لیکن ان کی بات نہیں سُنی گئی

پولیس اہلکاروں نے اشرف کو پولیس وین میں ڈالا اور ہسپتال لے جانے کے بجائے تھانے لے گئے جہاں وہ گاڑی میں ہی تڑپتے رہے اور پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے

اب پولیس نے تشدد کے الزام میں 14 شہریوں کو حراست میں لے لیا ہے جن میں اس پیٹرول پمپ کا مالک بھی شامل ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا جبکہ فرائض سے غفلت برتنے اور مشتعل افراد کے ہاتھوں زخمی شہری کو بروقت ہسپتال نہ پہنچانے پر تین پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی الگ سے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ گوجرانوالہ پولیس کے سربراہ سید حماد عابد نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری جائے وقوعہ پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے کی گئی اور ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مقتول کباڑ کا کام کرتا تھا اور اس کا کوئی کریمینل ریکارڈ بھی نہیں ملا

اس واقعے کے حوالے سے تھانہ اروپ نگر کے ایس ایچ او اور مقدمے کے مدعی گوہر عباس بھٹی سے رابطہ کرنے پر انہوں نے تبادلے کا کہہ کر بیان دینے سے انکار کر دیا، جبکہ تعینات ہونے والے نئے ایس ایچ او سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ انہیں چارج سنبھالے چند گھنٹے ہوئے ہیں، اس لیے وہ تفصیل نہیں جانتے

پولیس اہلکاروں کی مبینہ لاپرواہی پر ایس ایچ او اروپ کی مدعیت میں اے ایس آئی وحید اللہ سمیت تینوں اہلکاروں کے خلاف پولیس ایکٹ کی شق 155 سی کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس کے تحت ان اہلکاروں کو ملازمت سے برطرفی کے ساتھ ساتھ دو سے پانچ سال تک قید کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

پولیس ملازمین کے خلاف درج ایف آئی آر میں ایس ایچ او انسپکٹر گوہر عباس بھٹی کا کہنا ہے کہ جب پولیس ملازمین نے محمد اشرف کو پکڑا اس وقت وہ زخمی حالت میں تھے، لیکن پولیس ملازمین مضروب محمد اشرف کو بروقت طبی امداد کے لیے سول ہسپتال لے کر نہ گئے جس کے باعث وہ ہلاک ہو گئے

تھانے میں موجود پولیس اہلکاروں نے تفتیشی افسران کو بتایا کہ اے ایس آئی اور دو کانسٹیبل زخمی کو گاڑی میں ہتھکڑیاں لگا کر خود دوپہر کا کھانا کھاتے رہے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد اُنھوں نے گاڑی میں دیکھا تو محمد اشرف کی جان نکل چکی تھی، جس پر تھانے میں سراسیمگی پھیل گئی

چیف پولیس افسر (سی پی او) گوجرانوالہ سید حماد عابد نے اس واقعے کے بارے میں بتایا کہ محمد اشرف مشتعل ہجوم کی نفسیات کے شکار ہوئے جیسا کہ اس نوعیت کے واقعات میں عموماً ہوتا ہے

سی پی او نے بتایا کہ وہ خود سینیئر پولیس افسران کے ہمراہ جائے وقوعہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے۔ ملزمان کی گرفتاری فوٹیج کی مدد سے کی گئی جس میں تشدد کرنے والے لڑکوں سمیت پیٹرول پمپ کا مالک بھی شامل ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ تفتیشی ٹیم سب کے کردار کا الگ الگ تعین کر رہی ہے اور جس کا جتنا کردار ہو گا اس کو اس کے جرم کے مطابق ہی چالان کیا جائے گا

پولیس سربراہ نے کہا کہ وہ مقتول اشرف کے گھر بھی گئے تھے۔ ’یہ محنت کش لوگ ہیں کوئی جرائم پیشہ نہیں۔ ملزمان کو سزا دلوانے کے لیے مقتول فیملی کی ہر ممکن قانونی امداد کریں گے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close