محمد علی نے جب ویتنام کی جنگ میں جانے سے انکار کر دیا۔۔

ویب ڈیسک

محمد علی (17 جنوری 1942ء تا 3 جون 2016) دنیا کے عظیم ترین باکسر تھے۔ انہوں نے جب بھی رنگ میں قدم رکھا تو حریف کو چاروں شانے چت کرنے کے بعد ہی باہر نکلے

محمد علی کے دل میں بچپن سے ہی کچھ کرنے کی امنگ تھی، کچھ نیا کرنے کی۔ وہ سر اٹھا کر جینا چاہتے تھے، امریکہ میں سیاہ فاموں کے لئے سر اٹھا کر جینا قدرے ناممکن تھا۔ تاہم ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ عظیم ترین باکسر بن جائیں گے اور باکسنگ ہی ان کا ذریعہ معاش ہوگی

28 اپریل 1967 کی صبح ہیوسٹن کے امریکی آرمڈ فورسز کے امتحانی مرکز کے باہر خاصی گہما گہمی تھی۔ بڑی تعداد میں مظاہرین، جن میں اکثریت طلبہ کی تھی، نعرے لگا رہے تھے ”مت جاؤ مت جاؤ۔ یہ قدم مت اٹھاؤ۔۔۔“

یہ مظاہرین عالمی ہیوی ویٹ باکسر محمد علی کی وہاں آمد کے موقع پر جمع ہوئے تھے، جنھیں امریکی فوج میں شامل ہونے کے لیے طلب کیا گیا تھا

محمد علی نے مظاہرین کے ایک رہنما کی طرف دیکھا اور اندر چلے گئے

شہری حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی کارکن اور شاعرہ سونیا سانچیز کا کہنا ہے ”اس وقت جو جذباتی کیفیت تھی اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے“

وہ کہتی ہیں ”یہ ایک ایسی جنگ تھی، جس میں نوجوان سیاہ فام نوجوان مارے جا رہے تھے اور یہاں یہ خوبصورت نوجوان کھڑے ہو کر کہہ رہا تھا ʹنہیں۔ ایک لمحے کے لیے تصور کریں۔ عالمی ہیوی ویٹ چیمپیئن اور جادوئی شخص رِنگ سے باہر اپنی جنگ لڑ رہا تھا اور ثابت قدم کھڑا تھا۔ اس کا پیغام سب تک پہنچ چکا تھا۔‘

اس مرکز میں چھبیس نوجوانوں کو طلب کر کے ان سے ضروری کاغذات بھروائے جانے تھے، پھر ان کا طبی معائنہ ہونا تھا، جس کے بعد بس کے ذریعے انہیں لوزیانا لے جایا جانا تھا۔ یہ تمام نوجوان لیفٹیننٹ اسٹیون ڈنکلی کے سامنے کھڑے تھے

ایک کے بعد ایک کا نام پکارا جا رہا تھا اور بالآخر محمد علی کا نام پکارا گیا۔۔۔ کیسئس کلے!

محمد علی اپنی جگہ کھڑے رہے۔ اب کی بار علی نام پکارا گیا، لیکن محمد علی پھر اپنی جگہ کھڑے رہے

تبھی ایک افسر انہیں دوسرے کمرے میں لے گیا اور انہیں بتایا ”انکار کی صورت میں تمہیں پانچ سال کی سزا اور جرمانہ ہو سکتا ہے“

محمد علی کو یہ تنبیہہ کرنے کے بعد ایک اور موقع دیا گیا، لیکن اس بار بھی وہ اپنا نام پکارا جانے پر ساکت کھڑے رہے

یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب محمد علی نے روم اولمپکس کے لائٹ ہیوی ویٹ مقابلے میں گولڈ میڈل جیتا اور اس کے بعد وہ پروفیشنل باکسنگ میں آ گئے

سنہ 1964ع میں انہوں نے مسلمان ہونے کا بھی اعلان کر دیا تھا اور اپنا نام کیسئس کلے کے بجائے محمد علی رکھ لیا تھا

اسی دوران انہیں امریکی فوج میں طلب کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ صرف اٹھارہ سال کے تھے۔ وہ اپنے پہلے امتحان میں ناکام ہو گئے تھے لیکن پھر انہیں بار بار طلب کیا جا رہا تھا اور اب معاملہ ویتنام کی جنگ کا تھا

محمد علی دل میں یہ تہیہ کر چکے تھے کہ وہ ویتنام والوں کے لیے ظالم نہیں بنیں گے، اس جنگ کا حصہ بننے کو وہ اسلام کی تعلیمات کے منافی سمجھتے تھے

محمد علی نے اسپورٹس السٹریٹڈ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا ”یہ لوگ مجھے کیوں کہہ رہے ہیں کہ میں یونیفارم پہنوں اور اپنے گھر سے دس ہزار میل دور جا کر ویتنام کے غیر سفید فاموں پر بم اور گولیاں برساؤں, جبکہ میرے اپنے علاقے لوئی یول کے سیاہ فاموں کے ساتھ، جنہیں یہ لوگ نیگرو کہتے ہیں، جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ میرے پاس دو ہی راستے ہیں کہ میں اللہ کے قانون کو مانوں یا پھر ملک کے قانون کو“

محمد علی کے لیے یہ سب کچھ اتنا سہل نہیں تھا، انہیں ویتنام جنگ کا حصہ نہ بننے کے فیصلے کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑی۔ ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیا گیا، ان کا باکسنگ لائسنس معطل کیا گیا اور یہاں تک کہ انہیں اپنے عالمی ہیوی ویٹ ٹائٹل سے بھی محروم کر دیا گیا

یہیں پر بس نہیں ہوئی، بلکہ محمد علی کو اس انکار کی پاداش میں پانچ سال قید اور دس ہزار ڈالر جرمانے کی سزا بھی سنائی گی

یہ ایک ایسی صورتحال تھی، جس میں محمد علی کو اپنے ہی ملک میں غدار کہا جا رہا تھا۔ ان کے اپنے علاقے لوئی ویل کینٹکی کی انتظامیہ نے بھی ان کے ویتنام نہ جانے کے فیصلے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا لیکن دوسری طرف ان کے مؤقف کی حمایت کرنے والی آوازیں بھی موجود تھیں، جن میں ایک نام مشہور عالم برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کا بھی تھا

محمد علی کے لیے حالات اس قدر خراب تھے کہ ان کے اپنے وکلا بھی انہیں امید نہیں دلا رہے تھے اور یہی کہہ رہے تھے کہ وہ اب اپنا باکسنگ کریئر ختم ہی سمجھے اور یہ کہ اب ان کی اگلی منزل جیل ہے

دوسری جانب محمد علی نے اپیل دائر کر رکھی تھی لہٰذا وہ جیل جانے سے تو بچ گئے، لیکن ان پر زمین تنگ کر دی گئی

ان حالات میں محمد علی کو بچانے کے لیے یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ انہیں آرمی کی ریزرو فورس میں شامل کرا دیا جائے، جہاں وہ آرمی والوں کے ساتھ نمائشی مقابلے لڑ سکیں گے

لیکن محمد علی نے اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہتے ہوئے اس تجویز کو ماننے سے بھی انکار کر دیا

اور پھر 20 جون 1967ع کے دن ایک جیوری نے صرف اکیس منٹ کی مختصر سی سماعت میں محمد علی کو قومی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرا دیا

لیکن پھر چار سال بعد سپریم کورٹ نے ان کی اپیل پر ان کے حق میں فیصلہ دیا

اس تمام عرصے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے حق میں مسلسل آوازیں اٹھاتی رہیں۔ محمد علی خود بھی مختلف کالجوں میں جاتے رہے۔ ہاروڈ یونیورسٹی میں انہوں نے چار ہزار افراد کے سامنے تقریر کی، جس کا عنوان تھا ’بلیک از بیسٹ‘ یعنی ’کالا بہترین ہے۔‘

محمد علی نے جس ماحول میں پرورش پائی، اس میں انہوں نے امریکی معاشرے میں نسلی تفریق کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا، اس لیے وہ نسلی تفریق کی بنا پر تضحیک کا نشانہ بنائے جانے کے بارے میں انتہائی حساس تھے

بہت کم عمری میں ہی وہ اپنی والدہ سے پوچھتے ”آپ جب بس میں جاتی ہیں تو کیا لوگ یہ سوچتے ہیں کہ آپ سفید فام ہیں یا دوسرے رنگ کی؟“

اسی طرح ایک مرتبہ انہوں نے اپنے والد سے بھی یہی بات کہی ”جب میں گھر کا سامان لینے جاتا ہوں تو دکاندار سفید فام ہے، جب میں کسی اور دکان پر جاتا ہوں تو وہ بھی سفید فام ہے۔ بس ڈرائیور بھی سفید فام ہے“

دس سال کی عمر میں یہ سب کچھ سوچ کر وہ رات کو اپنے بستر پر لیٹے روتے رہتے تھے۔ اس سوچ نے اس وقت ڈرامائی موڑ لیا جب ایک چودہ سال کے لڑکے ایمٹ ِٹل کو دو سفید فام افراد نے ہلاک کر دیا تھا

محمد علی کے لیے یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا، لیکن وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔۔ مگر پھر اس نے ایک راستہ چُن لیا

محمد علی کے باکسر بننے میں ان کی سائیکل کی چوری کے واقعے کا بہت ذکر ہوتا ہے لیکن جب ان کے کریئر کے ابتدائی دنوں میں ان سے یہ سوال کیا جاتا کہ وہ باکسر کیوں بنے تو ان کا کہنا تھا ”کسی بھی سیاہ فام کے لیے اس ملک میں کچھ بننے کا یہی تیز ترین راستہ تھا“

ویسے تو دوسرے سیاہ فاموں کی طرح وہ بھی کسی اچھے ذریعہ معاش کی تلاش میں تھے۔ اسی لئے بارہ برس کی عمر (1954ء میں) وہ سیاہ فاموں کو برگر، سموسے اور پاپ کارن کا بزنس سکھانے کے لئے لوئس ویل میں بلائے گئے ایک اجلاس میں شریک ہوئے

سرخ اور سفید رنگ کی پسندیدہ سائیکل باہر کھڑی کر کے خود اندر چلے گئے۔ واپسی پر سائیکل کو غائب پایا ۔کوئی چور لے اڑا تھا۔ قریبی موجود ’کولمبیا جم‘ کے مالک جو مارٹن نے انہیں پولیس سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔

ان کی سوانح عمری میں لکھا ہے ”میں بائیک کی تلاش میں ہر جگہ دوڑ رہاتھا۔ وہ تو نہ ملی لیکن کہیں دور، کسی رنگ میں ہونے والے باکسنگ میچ کی آوازیں ضرور سنائی دیں۔۔ ’دھم دھم‘ گھونسے پڑ رہے تھے۔ میں باکسنگ رنگ کی جانب لپکا۔ یہ آواز میرے دل کو اس قدر بھائی کہ میں سائیکل کو بھول گیا‘‘

مارٹن نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا ، ”کوئی بات نہیں یہاں تو روزانہ ہی باکسنگ کا میلہ لگتا ہے، ہر سوموار سے جمعہ تک، چھ سے آٹھ بجے تک متعدد باکسرز یہیں ہوتے ہیں۔ اگر آپ بھی باکسنگ کھیلنا چاہتے ہیں تو یہ رہا فارم!‘‘ انہوں نے داخلہ فارم ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا

ایک مرتبہ رنگ میں داخل ہونے کے بعد محمد علی عالمی چیمپئن بن کر ہی رنگ سے باہر نکلے لیکن پہلی بار وہ ایک بڑے باکسر سے مقابلے کے لئے رنگ میں اترے تو اس تجربہ کار باکسر نے مار مار کر ان کی ناک سُجا دی تھی، جگہ جگہ سے کھال پھٹ گئی تھی اور خون رس رہا تھا۔ ایک ہی منٹ میں ایسی درگت بنی کہ انہیں رنگ سے نکال دیا گیا

یہی وہ وقت تھا ، جب انہوں نے ہر کسی کو ہرانے کاعزم کیا تھا۔ وہ ایک ہی رائونڈ میں باکسنگ کی باریکیاں سمجھ گئے تھے۔ کس باکسر کو کہاں مارنا ہے، وہ سب جان گئے تھے۔ ٹھیک چھ ہفتے بعد وہ دوبارہ رنگ میں اترے۔ مقابلے پر تجربہ کار باکسر رونی او کیفی تھے۔ لیکن محمد علی فاتح بن کر نکلے ۔ یہ مقابلہ ان کی ریاست کینٹکی میں ٹی وی پر دکھایا گیا ، شہر بھر میں ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ ان کے والد کاسیئس کلے سینئر نے محمد علی کی باکسنگ کا انداز دیکھتے ہی کہہ دیا تھا ”میرا بیٹا مستقبل کا عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن بنے گا!‘‘

نسلی تعصب کی وجہ سے تضحیک آمیز رویوں نے محمد علی بڑی حد تلخ بنا دیا تھا، جس کا مظاہرہ اکثر باکسنگ کے مقابلوں کے دوران بھی نظر آتا تھا

وہ فائٹ سے قبل اپنے حریفوں کو اپنے دلچسپ جوشیلے انداز میں ادا کیے گئے فقروں سے مشتعل کرتے تھے اور یہ سب کچھ فائٹ سے قبل ایک زبردست ماحول پیدا کرتا تھا

سیاہ فام ہونے کی وجہ سے انہوں نے جو تضحیک سہی تھی، اس نے ان کے رویے کو قدرے انتقامی بنا دیا تھا۔سونی لسٹن سے فائٹ سے قبل انہوں نے اپنے حریف کو ’بدصورت ریچھ‘ کہا تھا اور یہ بھی کہ وہ انہیں شکست دے کر اس ریچھ کو چڑیا گھر کو عطیہ کر دیں گے۔ جب دونوں باکسرز کا وزن ہو رہا تھا تو اس وقت بھی محمد علی چلا رہے تھے کہ ’آج رات کوئی مرنے والا ہے‘

ارنی ٹیرل سے مقابلے کے دوران بھی وہ اپنے حریف پر فقرے کس رہے تھے اور مکے برساتے ہوئے کہتے جارہے تھے ’انکل ٹام میرا کیا نام ہے میرا کیا نام ہے۔۔۔‘

دراصل فائٹ سے پہلے ٹیرل نے محمد علی کو ’کلے کلے‘ کہہ کر پکارا تھا, جس پر وہ غصے میں تھے

اسی تناظر میں روم اولمپکس میں محمد علی کے جیتے ہوئے گولڈ میڈل کے بارے میں مختلف نوعیت کی کہانیاں موجود ہیں

محمد علی کی سوانح حیات ’دی گریٹسٹ‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے یہ گولڈ میڈل دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا کیونکہ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے ہی علاقے کے ایک ریستوران میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور اس کے فوراً بعد موٹر سائیکل گینگ نے ان سے یہ میڈل چھیننے کی کوشش کی تھی

تاہم ایک پریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی انہوں نے گولڈ میڈل دریا میں پھینک دیا تھا، تو ان کا جواب تھا ”مجھے نہیں معلوم کہ وہ میڈل میں نے کہاں رکھ دیا تھا۔۔۔“

محمد علی نے سوال کرنے والے کو یہ کہہ کر حیران کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنی ہی سوانح حیات ’دی گریٹسٹ‘ نہیں پڑھی

محمد علی کو اٹلانٹا اولمپکس کے دوران انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے صدر یوآن انتونیو سمارانچ نے خصوصی طور پر دوبارہ تیار کردہ گولڈ میڈل پیش کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close