18 روز میں آگ لگنے کے 210 واقعات: موسمی تبدیلی نہیں تو اور کیا؟

ویب ڈیسک

دنیا بھر میں جنگلات کی مانیٹرنگ کرنے والی بین الاقوامی تنظیم گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق 2011 سے 2021 تک کی دہائی میں پاکستان میں تین ہزار ایکڑ سے زیادہ جنگلات میں کمی واقع ہوئی ہے، جن میں سے زیادہ تر جنگلات خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں ہیں

گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق پاکستان میں 31 مئی 2021 سے لے کر 23 مئی 2022 تک آگ کے ایک ہزار نو سو اکیس واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ تنظیم بھی اتنی زیادہ تعداد میں آگ لگنے کے واقعات کے حوالے سے حیران ہے

تنظیم کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سنہ 2000ع سے 2010ع کی دہائی کے مقابلے میں گذشتہ دہائی میں جنگل کا آدھا ایکڑ ختم ہو گیا ہے۔ اور سب سے زیادہ نقصان ژوب اور نصیر آباد میں ہوا

اس کے علاوہ آگ کے پچیس واقعات پیش آئے، جن میں سے 28 فیصد ’ہائی کانفیڈنس الرٹ‘ تھے یعنی ریڈ فلیگ جس پر اگلے ایک یا دو دن میں ایکشن لینا ضروری ہے

پاکستان میں آگ لگنے کا سیزن عام طور پر جون سے اگست تک ہوتا ہے لیکن حکام کے مطابق اس سال گرمی کے باعث یہ سیزن جلد شروع ہو گیا۔ اور اسی وجہ سے حکام کے لیے ملک بھر میں آگ لگنے کے واقعات سرپرائز تھے

اقوام متحدہ کے ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج (آئی پی سی سی) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ اور اس کے ساتھ گرمی میں اضافے سے خوراک کی فراہمی میں کمی اور قیمتوں اضافہ ہوگا اور اس وجہ سے جنوبی اور جنوب مشرق ایشیا میں انڈر نورشمنٹ میں اضافہ ہوگا

آئی پی سی سی کے مطابق گلوبل وارمنگ اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ ہم ایک اعشاریہ پانچ ڈگری کے درجہ حرارت میں اضافے کی حد کو 2030ع تک عبور کر جائیں گے

ضلع شیرانی میں کئی کلومیٹر پر محیط جنگلات میں زیتون، پلوس اور چلغوزوں کے لاکھوں درخت موجود ہیں اور آتشزدگی کی وجہ سے یہاں موجود حیوانات کو خطرات لاحق ہیں

ایک اندازے کے مطابق شیرانی جنگل میں دس لاکھ چلغوزے کے درخت ہیں اور ایک درخت کی مالیت پچیس سے تیس ہزار روپے ہے۔ ان درختوں سے پونے سات سو میٹرک ٹن چلغوزے سالانہ ہوتے تھے جن کی ایک اندازے کے مطابق مالیت دو اعشاریہ چھ بلین ڈالر ہے۔ یہ چلغوزے چین، دبئی اور فرانس بھیجے جاتے ہیں

آگ سے ہونے والے نقصان کا ایک تخمینہ کم از کم پانچ کروڑ روپے ہے۔ لیکن صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ جو درخت آگ میں جل گئے ان کے دوبارہ اگنے میں پچاس سال سے بھی زائد کا عرصہ لگے گا

موسمی تبدیلی نے موسم کو کتنا تبدیل کیا ہے، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2020 میں ژوب کا درجہ حرارت 33 ڈگری سینٹی گریڈ تھا لیکن گذشتہ سال یہاں درجہ حرارت بڑھ کر 43 ڈگری تک چلا گیا

آج کل کے شدید موسمی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور مستقبل میں یہ مزید کس طرح اثرانداز ہوگی

پاکستانی محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اس سال مارچ کا مہینہ 1961ع کے بعد گرم ترین مارچ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح بھارت میں بھی رواں برس مارچ کا مہینہ گذشتہ ایک سو بائیس سالوں میں سب سے زیادہ گرم ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس دان اس سال کو ’بہار کے بغیر کا سال‘ کہہ رہے ہیں

موسمی تبدیلی کے حوالے سے عالمی ماہرین پہلے ہی بتا چکے ہیں اور موسمی تبدیلی کے باعث پاکستان میں درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیلاب، قحط اور آگ جیسی آفات میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال 23 مئی سے 9 جون تک جنگلات میں آگ کے دو سو دس واقعات پیش آئے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ موسمی تبدیلی ہے

تازہ رپورٹوں سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی سے روزگار اور صحت دونوں ہی پر اثر پڑے گا۔ اس وقت بھی 39 فیصد آبادی کثیر جہتی غربت میں مبتلا ہے اور موسمی تبدیلی کے باعث روزگار جانے سے ان کی زندگی اور صحت پر بہت زیادہ اثر پڑے گا

وقت آ گیا ہے کہ حکومت موسمی تبدیلی اور اس کے نتائج کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھائے اور ایسے اقدامات کرے جس سے ماحول اور انسان دونوں ہی کو محفوظ رکھا جائے۔

نوٹ: فیچر کی تیاری کے لیے رضا ہمدانی کے انڈیپینڈنٹ میں شائع مضمون سے مدد لی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close