’ورلڈ بینک نے گیس منصوبوں کی حمایت سے پاکستان میں توانائی کے شعبے کو تباہ کیا‘

ویب ڈیسک

کراچی میں منعقدہ ایک سیمینار کے دوران مقررین نے حالیہ برسوں کے دوران فوسل گیس اور ایل این جی کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کی مالی معاونت کر کے پاکستان میں توانائی کے شعبے کے معاملات کو خراب کرنے پر عالمی بینک کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے

تفصیلات کے مطابق ’الائنس فار کلائمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی‘ کے زیر انتظام منعقدہ سیمینار میں شریک تمام ماہرین نے پاکستان کی فوسل گیس کی جانب منتقلی کو ایسی مہنگی غلطی قرار دیا ہے، جس نے ملک کو انتہائی مہنگے داموں درآمد شدہ ایل این جی پر حد سے زیادہ انحصار پر مجبور کرنے میں اہم کردار ادا کیا

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ’ایڈووکیسی گروپ ریکورس‘ کی سینئر مشیر فران وٹ کا کہنا تھا ”اس بات کو ثابت کرنے اور اس کی تصدیق کے لیے کافی سائنسی شواہد موجود ہیں کہ فوسل گیس کلینر انرجی سسٹمز کی جانب ’منتقلی‘ والا ایندھن نہیں ہے“

فران وٹ نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ”اس کی وجہ یہ ہے کہ فوسل گیس بھی کوئلے کی طرح بہت زیادہ کاربن خارج کرنے والا ذریعہ ہے اور فوسل گیس پر سرمایہ کاری کے باعث توانائی کے ماحول دوست، قابل تجدید منصوبوں کی فنڈنگ کم ہو رہی ہے“

ان کا کہنا تھا ”ایشیا میں گیس کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کو وسعت دینے کے منصوبے، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے کے اہداف کو پورا کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے انتہائی تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہیں، عالمی بینک کو ایسی خطرناک حکمت عملی پر عمل نہیں کرنا چاہیے“

سیمینار کے شرکا انسٹیٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل انالیسز (آئی ای ای ایف اے) کی ہانیہ اساد، الٹرنیٹو لا کلیٹو کے ایم عبدالرافع اور زین مولوی نے عالمی بینک کے تعاون سے چلنے والے گیس کے کئی ایسے منصوبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی، جن کے باعث اب پاکستان کی صاف اور ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی خطرے میں پڑ گئی ہے

ایسے ہی منصوبوں میں سے ایک کی مثال دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن جو کہ عالمی بینک کے نجی شعبے کا ادارہ ہے، جس نے 2015ع میں اینگرو کارپوریشن کے لیے تقریبا چھ کروڑ پینتالیس لاکھ ڈالر کے فنڈز سے ملک کا پہلا ایل این جی ٹرمینل تعمیر کرنے میں مالی معاونت کی

یہ منصوبہ پاکستان میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دس ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے لیے ورلڈ بینک گروپ اور آئی ایف سی کی حکمت عملی کا حصہ تھا

زین مولوی نے کہا کہ اس منصوبے پر کی گئی سرمایہ کاری اگر قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی میں تعاون کے لیے کی جاتی تو آج ملک کو صاف اور قابل اعتماد توانائی کی فراہمی سے فائدہ ہوتا

انہوں نے کہا کہ فوسل گیس بنیادی اور مستقل طور پر ناقابل اعتبار اور سپلائی کے لحاظ سے ناپائیدار ہے

آج ملک میں استعمال ہونے والی تقریباً آدھی ایل این جی اسپاٹ مارکیٹ سے خریدی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ملک بہت ہی زیادہ زیادہ قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے

عالمی سطح پر گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے یورپ میں اس کی قلت کا سامنا ہے جس کے باعث ایشیائی ایل این جی کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں

ملک میں ایل این جی کے منصوبوں کی توسیع پر عالمی بینک کی ابتدائی مالی امداد کے بعد اب بھی کام جاری ہے ، جس کی وجہ سے پاکستان کا درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے

پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن کے علاوہ فلوٹنگ اسٹوریج ری گیسیفیکیشن 2 یونٹس اس وقت بھی منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں

اس کے علاوہ مزید ایک کمبائنڈ سائیکل گیس ٹربائن پاور پروجیکٹ 2021ع میں تکمیل کے مراحل میں ہے، جس کا لائف سائیکل تیس سال ہوگا

ان کا کہنا تھا کہ صارفین کے خدشات ہیں کہ پاور پلانٹ ایک اور غیر سود مند اثاثے میں تبدیل ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے

اس منصوبے کی مالی معاونت میں مقامی بینکوں سے 75 فیصد کمرشل ریٹ پر قرضوں کے ذریعے کی جا رہی ہے، اس منصوبے کی فنڈنگ کرنے والےبینکوں میں حبیب بینک لمیٹڈ بھی شامل ہے جس کا فوسل فیول کے منصوبوں کے لیے قرض دینے کا ایک ریکارڈ ہے کیوں کہ اسے 2015ع میں تھر میں کوئلے سے بجلی بنانے کے پانچ منصوبوں کے لیے ورلڈ بینک کی مالی اعانت سے تقریباً بائیس کروڑ پانچ لاکھ ڈالر موصول ہوئے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close