مایا تہذیب کی پوشیدہ دنیا تک لے جانے والا غار، جہاں انسانی قربانی دی جاتی تھی

رچرڈ کولیٹ

سر پر پہنی ٹارچوں کی ملگجی لال روشنی میں ہم غار کی زمین پر ٹوٹے برتن پڑے دیکھ سکتے تھے۔

ہمارے گائیڈ نے جب چھت سے لٹکتی اور زمین سے اوپر کی طرف بلند ہوتی معدنی چٹانوں پر روشنی ڈالی تو مایا افراد کے ٹوٹے ہوئے وہ پتھریلے اوزار بھی نظر آئے جن سے وہ مکئی پیسا کرتے تھے۔

اس کے بعد یہ روشنی ایک انسانی کھوپڑی پر پڑی جو زمین میں آدھی دھنسی ہوئی تھی۔ اس کے سامنے کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے اور یہ ایک طویل عرصہ پہلے ہی معدنی شکل اختیار کر چکی تھی۔

یہ وسطی امریکی ملک بیلیز کے مغربی حصے میں واقع ایک جنگل میں موجود آکتون تونیچیل مکنال (اے ٹی ایم غار) کا مرکزی حصہ ہے۔

مایا افراد کے نزدیک یہ پراسرار اور حیرت انگیز غار زِبالبا نامی پوشیدہ دنیا میں داخلے کا راستہ تھا۔

تقریباً ایک ہزار برس تک یہ پانچ کلومیٹر طویل زیرِ زمین غاروں کا سسٹم لوٹ مار اور بربادی سے محفوظ رہا۔ پھر سنہ 1986 میں مقامی لوگوں نے اس کا داخلی راستہ دریافت کیا اور اس کے کچھ ہی وقت بعد ہائیڈرولوجسٹ اور غاروں کے شوقین تھامس مِلر کو اندر انسانی ڈھانچے ملے۔

آنے والی دہائیوں میں یہ غیر معمولی حد تک شاندار غار تحقیق کا موضوع رہا جس کے باعث سائنسدانوں اور سیاحوں کو 700 سے 900 قبلِ مسیح کے درمیان کے مایا مذہب اور معاشرے کے بارے میں نت نئی باتیں معلوم ہوئیں۔

یہاں اور بیلیز میں دیگر مقامات پر تحقیق سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو معلوم ہوا کہ مایا افراد گہرے غاروں میں جا کر اپنے دیوتاؤں سے بات کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر ان تقریبات اور رسومات اور ان کی وجوہات پراسرار رہیں۔

پھر سنہ 2021 میں اے ٹی ایم غار میں کھدائی میں شامل دو اہم ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ان اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے نیا طریقہ وضع کیا۔

اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی پروفیسر ہولی موئیز اور بیلیزیئن ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر جیمی جے آؤ نے بتایا کہ ڈھانچے اور نوادرات کی اس غار میں رکھنے کی ترتیب کو سمجھ کر وہ یہاں ہونے والی مذہبی رسومات کی تصویر کشی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

وہ یہ بتا پائے کہ مذہبی تقریبات میں مایا کہاں کھڑے ہوتے تھے، کون سی دیومالائی کہانیاں دہرائی جاتی تھیں، کن خداؤں کا کردار نبھایا جاتا اور کیسے بدقسمت افراد کی قربانی دے دی جاتی تھی۔

غاروں میں ہونے والی ان رسومات میں کیا ہوتا تھا، اس کا کوئی آنکھوں دیکھا حال تو موجود نہیں ہے مگر اس نئے نظریے سے ان کی مذہبی رسومات کی اب ایسی عکاسی کی جا سکتی ہے جو اس سے پہلے تک نہیں کی جا سکی تھی۔

ان دونوں ماہرین کا نظریہ ہے کہ مایا افراد پوپول ووہ نامی دیومالا کو ڈرامائی اور ہلاکت خیز انداز میں پیش کرتے۔ پوپول ووہ نامی یہ دیومالا مایا افراد کے نزدیک دنیا کے وجود میں آنے کی روداد ہے۔ اُنھوں نے یہ 10 ویں صدی عیسوی میں اپنی تہذیب کے زوال سے عین پہلے جاری سیاسی اتھل پتھل اور قحط سے بچنے کے لیے سب کیا۔

پروفیسر موئیز کہتی ہیں کہ ‘اگر اس کی محفوظ حالت اور آثارِ قدیمہ میں اس کی اہمیت کی بات کی جائے تو یہ ممکنہ طور پر دنیا کے اہم ترین غاروں میں سے ہے، بنیادی طور پر اس لیے کیونکہ اسے لوٹا نہیں گیا ہے۔ اور یہاں تک پہنچنا بھی ایک ایڈوینچر ہے کیونکہ اس کے لیے جنگل اور پانی سے گزرنا پڑتا ہے اور آپ وہی راستہ لیتے ہیں جو مایا افراد لیا کرتے تھے۔’

تاپیر کے محفوظ قرار دیے گئے پہاڑی علاقے میں موجود اے ٹی ایم غار کا آٹھ میٹر بلند راستہ الجھی ہوئی بیلوں اور گھنے درختوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔

یہاں تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے گوئٹے مالا کی سرحد کے قریبی قصبے سین اگناسیو تک ایک گھنٹے کی ڈرائیو کرنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد جنگل میں 45 منٹ تک پیدل چلنا پڑتا ہے اور کئی مرتبہ گھٹنوں سے لے کر کمر تک گہرے پانی میں ندی پار کرنے کے بعد یہاں راستہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر آگے صرف تیر کر ہی جایا جا سکتا ہے۔

مقامی مایا برادری سے تعلق رکھنے والے ہمارے گائیڈ ہیکٹر بول نے کہا کہ ‘مایا افراد یہ سفر جلتی مشعلوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔’ ہیکٹر 18 برسوں سے لوگوں کو اے ٹی ایم غاروں کی سیاحت کروا رہے ہیں۔ پانچ سیاحوں کے ہمارے گروپ نے اپنے سروں پر پہنی ٹارچیں روشن کر لیں اور اُن کے پیچھے چلتے ہوئے دن کی روشنی کو پیچھے چھوڑ دیا اور ندی میں اتر گئے۔

مایا تہذیب میں غاروں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ پروفیسر موئیز نے مجھے بتایا کہ ‘مایا افراد نے 1200 قبلِ مسیح میں غار استعمال کرنے شروع کیے جب وہ بیلیز میں منتقل ہونے لگے۔’

اُنھوں نے بتایا کہ مایا لوگوں کے نزدیک غار تین سطحی کائنات کی سب سے نچلی سطح ہیں جس کے اوپر انسان ہیں اور پھر اس کے اوپر دیوتا جو آسمان میں رہتے ہیں۔

جب ہم مرکزی حصے میں پہنچے تو ہیکٹر نے ہم سے کہا کہ ہم اپنے جوتے اتار دیں۔ اپنی ٹارچ کو نشاندہی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے اُنھوں نے مٹی کے برتنوں اور سِل بٹوں کی طرف اشارہ کیا جو اب زمین پر پڑے پڑے معدنیات کے ساتھ مل رہے ہیں۔

جب اُن کی روشنی ایک انسانی کھوپڑی پر پڑی تو ہم سب پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اب تک اس غار میں 1500 چیزوں اور ٹکڑوں سمیت 21 انسانی ڈھانچوں کا اندراج کیا گیا ہے۔

پوپول ووہ نامی دیومالا میں دو دیوتا جنھیں ہیرو ٹوئنز کہا جاتا ہے، پوشیدہ دنیا کا سفر کرتے ہیں تاکہ زِبالبا کے دیوتاؤں کو خوش کیا جائے اور ان کے ساتھ ایک گیند کا کھیل کھیلا جائے۔ یہ ٹوئنز ہار جاتے ہیں اور فوراً ہی ان کی قربانی دے دی جاتی ہے۔

اس کے بعد ہیرو ٹوئنز کا ایک اور جوڑا آتا ہے تاکہ اپنے والد (قربان ہونے والے ہیرو ٹوئنز میں سے ایک) کا بدلہ لیا جا سکے۔ یہ نووارد جوڑا جیت جاتا ہے اور ان کے قربان ہو چکے والد مکئی کے دیوتا کے روپ میں دوبارہ اٹھائے جاتے ہیں جن سے تمام انسانی زندگی پھر جنم لیتی ہے۔

ہیرو ٹوئنز پھر زِبالبا کے دیوتاؤں کو سزا دیتے ہیں اور اس کے بعد ان کے نصیب میں صرف وہ چڑھاوے آتے ہیں جو کسی قسم کا نقص رکھتے ہوں۔

اے ٹی ایم غاروں کے اندر موجود ثبوتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مایا لوگ بالکل ہیرو ٹوئنز کی طرح زِبالبا کے دیوتاؤں سے لڑنے کے لیے اس کہانی کو ڈرامائی طرز پر نبھا رہے تھے۔

پروفیسر ہولی موئیز کہتی ہیں کہ ‘ضرور مایا لوگ سمجھتے ہوں گے کہ زِبالبا کے ظالم دیوتا قحط کے باعث جیت رہے ہیں۔’ وہ اس قدرتی آفت کی جانب اشارہ کرتی ہیں جس کے متعلق ماہرین کا ماننا ہے کہ اس نے مایا تہذیب کے زوال میں کردار ادا کیا۔

‘چونکہ زِبالبا کے دیوتاؤں کو اچھے چڑھاوے نہیں مل سکتے، اس لیے اے ٹی ایم غار میں ہمیں جو ملتا ہے تقریباً وہ سب کسی نہ کسی صورت میں ٹوٹا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ یہ ان دیوتاؤں کے لیے چڑھاوا ہو گا۔’

موئیز بتاتی ہیں کہ کیسے اے ٹی ایم غار کے اندر موجود تمام نوادرات کے دور کا تعین کیا گیا ہے اور یہ مایا تہذیب کے زوال سے عین پہلے کے ہیں۔ ‘ہمارے پاس انتہائی درست ریڈیوکاربن ڈیٹس ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب بہت تھوڑے عرصے میں ہوا ہے۔ اس غار میں موجود تمام برتن 700 سے 900 عیسوی کے ہیں۔ مایا لوگ سنہ 820 تک مکمل طور پر قحط سالی کے شکار ہو چکے تھے۔ سنہ 850 تک یہ علاقہ خالی ہو چکا تھا، چنانچہ وہ اس غار میں قحط کے عروج کے دنوں میں آئے، اس جگہ کو چھوڑ دینے سے عین پہلے۔’

جب ہمارا ٹور مرکزی حصے کے وسط میں پہنچا تو ہیکٹر بول نے ہمیں تین پتھروں سے بنایا ہوا ایک آتش دان دکھایا جسے غار میں موجود معدنیات سے ہی بنایا گیا تھا۔ یہ آتش دان تین پتھروں سے بنائے گئے اس آتش دان کی نقل ہے جس پر پوپول ووہ دیومالا کے مطابق مکئی کے دیوتا نے قربان ہونے کے بعد دوبارہ جنم لیا تھا۔

ہولی موئیز اور ڈاکٹر جیمی آؤ نے اپنے مقالے میں لکھا کہ ‘مرکزی حصے میں 25 مربع میٹر کے حصے میں کئی نوادارت اور انسانی باقیات موجود ہیں جو ایک دوسرے پر دھری تین معدنی چٹانوں کے گرد رکھی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پوپول ووہ کی کہانی کی ڈرامائی تشکیل ہے۔’

میں نے بھی ایسی ہی ایک انسانی باقیات دیکھیں۔ موئیز اور آؤ نے اپنے مقالے میں سر کٹے اس ڈھانچے کو ‘خدا کا نقال’ کہا ہے اور نظریہ پیش کیا ہے کہ ‘اس (ڈھانچے) کو تین پتھروں والے آتشدان کے ساتھ مرکزی جگہ پر رکھنے سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ قربانی مکئی کے دیوتا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے دی گئی تھی۔’

اس سے کچھ دور ہی قربانی کا نشانہ بننے والے دو دیگر افراد کے ڈھانچے پائے جاتے ہیں۔ وہ جس ترتیب میں پڑے ہیں اس سے موئیز اور آؤ کو لگتا ہے کہ یہ دونوں پہلے دو ہیرو ٹوئنز کا کردار ادا کر رہے ہوں گے۔

مرکزی حصے کے درمیان میں کھڑے ہو کر یہ پورا ڈراما میری آنکھوں کے سامنے چلنے لگا۔ مگر موئیز نے یہ واضح کیا ہے کہ مایا لوگ ہمیشہ ایسی رسومات ادا نہیں کیا کرتے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘مایا میں ہم لوگ کلاسیکی دور کے اواخر (آٹھویں اور نوویں صدی عیسوی) تک کوئی انسانی قربانی نہیں دیکھتے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے یہ اس لیے شروع کیا کہ وہ قحط کے شکار تھے اور اس کا کوئی حل چاہتے تھے۔’

درحقیقت پروفیسر ہولی موئیز کا ماننا ہے کہ مایا دنیا ہماری اپنی دنیا کے ایک متوازی دنیا ہے۔ ‘مایا لوگوں کے ساتھ کیا ہوا، یہ ایک حقیقی انسانی کہانی ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو ہم اپنے سامنے اب موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ بہرحال مایا لوگ بارش کی دعا مانگتے نظر آتے ہیں۔ کیلیفورنیا میں ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی سڑکوں پر بورڈ لگے ہوتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ ‘بارش کی دعا کریں۔’

مایا افراد کے راستوں پر دھیمے دھیمے چلتے ہوئے بالآخر ہم نے اپنے جوتے دوبارہ اٹھائے اور ہیکٹر بول کے پیچھے پیچھے اس پوشیدہ دنیا سے باہر، آنکھیں چندھیا دینے والی سورج کی روشنی میں لوٹ آئے۔

جب ہیکٹر نے واپسی کے راستے میں موجود پتھروں پر چڑھنے کے لیے میرا ہاتھ تھاما تو اُن کے بھی یہی جذبات تھے: ‘مایا کو ان غاروں تک اُن کا مذہبی جوش ہی لے کر آیا، مگر جب حالات مایوس کُن ہو جائیں اور سائنس ہمارا ساتھ نہ دے، تو ہم سب ہی دعائیں شروع کر دیتے ہیں۔’

بشکریہ: بی بی سی ٹریول

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close