چین فضائی آلودگی میں صرف سات برس میں 40 فیصد کمی کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟

ویب ڈیسک

اس خبر کے ٹائٹل کے ساتھ آپ بیجنگ میں نصب مشہور پانڈا کے مجسمے کی2017 میں لی گئی دو تصاویر دیکھ رہے ہیں، ایک وہ دن جب آسمان صاف تھا اور دوسرا جب فضا میں آلودگی موجود تھی

امریکہ کی یونیورسٹی آف شکاگو کے توانائی پر تحقیق کے شعبے، انرجی پالیسی انسٹیٹیوٹ کی جون سنہ 2022ع کی رپورٹ میں شائع ہونے والے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2013ع اور 2020ع کے درمیانی عرصے میں چین اپنی فضا میں مضرِ صحت ذرّات میں 40 فیصد کمی کرنے میں کامیاب رہا ہے

واضح رہے کہ ’انرجی پالیسی انسٹیٹیوٹ‘ فضائی آلودگی کے مطالعے کے لیے مصنوعی سیاروں کی مدد لیتا ہے

جین نے جتنے کم عرصے میں فضائی آلودگی میں اس قدر کمی کی ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس حیران کن کارنامے کا صحیح اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ اس قسم کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش سنہ 1970ع میں منظور کیے جانے والے قانون ’کلین ایئر ایکٹ‘ سے کر رہا تھا اور اسے فضائی آلودگی میں 40 فیصد کمی کرنے میں تیس برس کا عرصہ لگ گیا

آخر چین نے یہ حیران کن کارنامہ اتنے کم وقت میں کیسے کر دکھایا ہے؟

اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں سب سے پہلے سنہ 2013 میں جانا پڑے گا، جب چین میں فضائی آلودگی اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ گذشتہ عشرے کے دوران چین سے جب بھی کوئی تصویر آتی تھی اس میں دن کے وقت بھی شہروں پر آلودگی کی اتنی دبیز تہہ ہوتی تھی کہ سورج بھی دکھائی نہیں دیتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں رہا

اُس برس چین کی فضاؤں میں ایم پی 2.5 قسم کے ذرّوں کی اوسط شرح 52.4 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تھی۔ یہ شرح عالمی ادارہ صحت کی آج کی تجویز کردہ حد سے دس گنا زیادہ تھی

ایم پی 2.5 ان چھوٹے چھوٹے ذرّات کو کہتے ہیں، جو زمین سے نکالے جانے والے قدرتی ایندھن (کوئلے) کو جلانے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ذرّات صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں کیونکہ ان میں ہمارے سانس کے نظام میں داخل ہونے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے

شکاگو یونیورسٹی کے ای پی آئی سی کے ڈائریکٹر کرسٹا ہیسنکوپ کے مطابق، اُس وقت بیجنگ میں جس قدر فضائی آلودگی تھی، اسے ہم عرف عام میں ’قیامت خیز آلودگی‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ اصطلاح ہے، جسے ہم لوگوں کو آلودگی کے خطرات سے خبردار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں

سنہ 2013 کی بیجنگ کی ایک تصویر، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں اس شہر میں کس قدر فضائی آلودگی ہوتی تھی

اُس وقت صورت حال اس حد تک بری تھی کہ چینی حکومت نے آلودگی کے خلاف قومی سطح پر جنگ کا اعلان کرتے ہوئے سنہ 2013ع کے آخری دنوں میں ’نیشنل ایئر کوالٹی ایکشن پلان‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کر دیا، جس کے تحت اگلے چار برس میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے دو سو ستر ارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کی گئی۔ اگلے برسوں میں خاص طور پر بیجنگ سٹی کونسل کو مزید ایک سو بیس ارب ڈالر دیئے گئے

کوئلے کے خلاف جنگ

نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایسے خاص اقدامات کا منصوبہ بنایا گیا، جن کا ہدف یہ تھا کہ اگلے چار برس میں آلودگی کو 35 فیصد کم کیا جائے گا

اس حوالے سے حکومت کا سب سے بڑا دشمن وہی کوئلہ تھا، جس کے بل بوتے پر چین نے بیسویں صدی کے آخری عشرے میں اتنی تیزی سے ترقی کی تھی اور یہی کوئلہ چین کے لیے توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا

چین کی تیز ترقی کے آغاز میں بیجنگ کی فضا دھوئیں سے اٹی ہوتی تھی (سنہ 1982ع کی تصویر)

ایکشن پلان کے تحت آنے والے برسوں میں چین نے اپنے آلودہ ترین شہروں میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے نئے پلانٹ پر پابندی لگا دی اور پہلے سے بنے ہوئے بجلی گھروں کو بھی مجبور کیا کہ وہ کوئلے کے بجائے گیس کا استعمال کریں

صرف سنہ 2017ع کے ایک سال میں چین کے سب سے زیادہ کوئلہ پیدا کرنے والے صوبے، شانزی میں کوئلے کی ستائیس کانوں کو بند کر دیا گیا، جبکہ سنہ 2018ع میں بیجنگ میں کوئلے سے توانائی پیدا کرنے والے شہر کے آخری پلانٹ کو بھی بند کر دیا گیا اور حکومت نے ملک میں ایک سو تین نئے بجلی گھر تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی ترک کر دیا

اگرچہ اب بھی چین میں سب سے زیادہ بجلی کوئلے سے ہی پیدا کی جا رہی ہے لیکن اس کا تناسب جو سنہ 2013ع میں 67.4 فیصد تھا، وہ سنہ 2020ع میں کم ہو کر 56.8 فیصد ہو گیا

اس کے علاوہ چینی حکومت نے کوئلے سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی میں مزید کمی کرنے کے لیے دیگر ذرائع (پن بجلی وغیرہ) سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں میں بھی اضافہ کیا ہے

اس سمت میں چینی اقدامات کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ سنہ 2017ع میں ملک میں بجلی کی کل مقدار کا ایک چوتھائی نہ ختم ہونے والی قدرتی وسائل سے پیدا کیا جانے لگا۔ اس میدان میں چین امریکہ سے بھی آگے نکل گیا، جہاں سنہ 2017ع کے اعداد و شمار کے مطابق 18 فیصد بجلی دوبارہ قابل استعمال بنائے جانے والے ذرائع سے پیدا کی جا رہی تھی

گذشتہ عشروں میں چین نے جوہری توانائی کے شعبے میں بھی بہت یکسوئی کے ساتھ کام کیا اور سنہ 2016ع اور سنہ 2020ع کے درمیانی عرصے میں جوہری بجلی گھروں سے پیدا کی جانے والی توانائی میں دو گنا اضافہ کر لیا اور ملک 47 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے لگا

چین سنہ 2035ع تک ملک میں بیس نئے جوہری پلانٹ لگانے کے منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے پُر عزم ہے، اس طرح ملک 180 گیگا واٹ بجلی جوہری پلانٹس سے حاصل کرنے لگے گا۔ یہ مقدار امریکہ کی موجودہ جوہری توانائی سے دو گنا ہوگی

کاروں پر پابندیاں

آلودگی کم کرنے کے لیے چین نے فولاد (آئرن) اور اسٹیل کی پیداوار میں کمی کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 2016ع اور 2017ع کے قلیل درمیانی عرصے میں چین نے فولاد اور اسٹیل کی پیداوار میں 115 ملین ٹن کی کمی کر لی

صاف ظاہر ہے اس اقدام کے بعد تمام نظریں پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے مالکان پر جم گئیں

اس منصوبے کے تحت بیجنگ، شنگھائی اور دیگر بڑوں شہروں میں ایک وقت میں سڑکوں پر آنی والی کاروں کی تعداد کو محدود کر دیا گیا اور ہر سال نئی کاروں کے اندراج کو بھی محدود کر دیا گیا

تاہم اس اقدام سے سڑکوں پر کاروں کی تعداد کو کم نہیں کیا جا سکا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2013ع میں جن گاڑیوں کی تعداد 126 ملین تھی، وہ سنہ 2020ع میں 273 ملین ہو گئی

تاہم حکومت نے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والی گاڑیوں کے خلاف مہم جاری رکھی اور سنہ 2017ع کے آخر تک ملک میں 553 ایسی ملکی اور غیر ملکی کاروں کی پیدوار کو معطل کر دیا گیا، جو بہت زیادہ آلودگی کا اخراج کر رہی تھیں

بڑے شہروں پر دباؤ

امریکا کی یونیورسٹی آف شکاگو کے توانائی پر تحقیق کے شعبے، انرجی پالیسی انسٹیٹیوٹ (ای پی آئی) سی کے ڈائریکٹر ہیسنکوپ کہتے ہیں ”سنہ 2013ع اور سنہ 2020ع کے درمیانی عرصے میں چین کے بڑے بڑے شہر اپنی فضائی آلودگی میں 40 فیصد کمی کرنے میں کامیاب رہے ہیں“

شنگھائی میں ہوا میں مضرِ صحت ذرّات میں 44 فیصد کمی ہوئی، گانزاؤ میں 50 فیصد، شینزن میں 49 اور بیجنگ میں 56 فیصد کمی کی گئی ۔

”آج ان چار شہروں کے باسی خاصی زیادہ صاف فضا میں سانس لے رہے ہیں“

ہیسنکوپ کا مزید کہنا تھا ”ہمارے اندازے کے مطابق اگر چینی لوگ سنہ 2013ع کے مقابلے میں آج اور آنے والے برسوں میں زیادہ صاف ہوا میں سانس لیتے رہے تو ان کی اوسط عمر میں دو سال کا اضافہ ہو سکتا ہے

تیانمن اسکوائر کا سنہ 2021 کا ایک منظر جب پوری دھوپ نکلی ہوئی تھی

سنہ 2013ع کے چار سالہ منصوبے کے بعد فضائی آلودگی کو مزید کم کرنے کے دو مزید تین سال منصوبے بنائے گئے۔ ان میں سے پہلا منصوبہ 2018 میں منظر عام پر آیا اور دوسرا 2020 میں۔ ان منصوبوں سے واقعی فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مزید مدد ملی

دوسری جانب سنہ 2018ع اور 2020ع کے درمیانی عرصے میں کورونا وائرس کی وبا میں لگائی جانے والی پابندیوں سے صنعتی پیدوار اور ٹرانسپورٹ بھی کم استعمال ہوئی اور ان اقدامات سے بھی آلودگی کم ہوئی

اس سوال پر کہ ان وجوہات نے ان کی تحقیق کے نتائج کو تو متاثر نہیں کیا، تو ہیسنکوپ کا جواب تھا ”ہم نے آلودگی پر کورونا کی وبا کے اثرات کا باقاعدہ مطالعہ نہیں کیا ہے۔ تاہم چین کے سنہ 2020ع کے اعداد وشمار حقیقت کے قریب لگتے ہیں کیونکہ وہاں سنہ 2014 سے آلودگی میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اسی لیے وہ اس سلسلے میں کووڈ کا زیادہ کردار نہیں دیکھتے“

ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی

چین نے حالیہ برسوں میں جو اقدامات کیے ہیں وہ اپنی جگہ، لیکن اسے اپنے شہروں کی فضاؤں کو صاف کرنے کے لیے بہت کام کرنا ہے

مصنوعی سیاروں سے حاصل کیے گئے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق آج کل بیجنگ میں آلودگی کی اوسط شرح 37.9 مائیکروگرام فی مکعب میٹر ہے، جو کہ نیویارک (6.3) اور دنیا کے کئی دیگر بڑے شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ لندن میں یہ شرح 9، میڈرڈ میں 6.9 اور میکسیکو میں 20.7 ہے

لیکن دوسری جانب یونیورسٹی آف شکاگو کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ حالیہ عرصے میں مضر صحت ذرّات میں جو کمی دیکھنے میں آئی ہے اس کے بعد چینی دارالحکومت میں رہنے والے لوگ سنہ 2013ع کی نسبت اوسطاً چار سال چار ماہ زیادہ زندہ رہا کریں گے

کئی دیگر ممالک میں صورت حال اب بھی چین کی نسبت بہت بری ہے۔ مثلاً سال کے کچھ حصے میں نئی دہلی میں ذرّات کی شرح 107.6 مائیکروگرام فی مکعب میٹر ہو جاتی ہے جو کہ عالمی ادارۂ صحت کی تجویز کردہ اوسط (5 مائیکروگرام فی مکعب میٹر) سے 20 گنا زیادہ ہے، جبکہ پاکستان کے کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں

بنگلہ دیش، بھارت، نیپال اور پاکستان وہ ممالک ہیں جہاں کی ہوا سب سے زیادہ نا قابل برداشت ہے، جب کہ چین، جو گذشتہ دہائی میں دنیا کے پانچ بہترین ممالک میں شامل تھا، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق آج ( 31.6 ) کی شرح سے نویں نمبر پر ہے

امریکہ میں مضر ذرّات کی اوسط شرح 7.1 مائیکروگرام فی مکعب میٹر ہے۔ لاطینی امریکہ کے ممالک، گوئٹے مالا، بولویا، ایلسلواڈور اور پِیرو کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں فضائی آلودگی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ان ممالک کی شرح 20 اور 30 کے درمیان ہے جبکہ دیگر ممالک میں عموماً یہ شرح دس اور بیس مائیکروگرام فی مکعب میٹر کے درمیان رہتی ہے

سچ تو یہ ہے کہ کرہ ارض پر بہت سے لوگ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ واقعی صاف ہوا میں سانس لیتے ہیں کیونکہ دنیا کی 97 فیصد آبادی ایسی جگہوں پر رہتی ہے، جہاں ہوا کا معیار عالمی ادارۂ صحت کے مجوزہ معیار سے کم ہے

ہیسنکوپ کے مطابق ”ہم جس آلودہ ہوا میں سانس لیتے ہیں اس کی وجہ سے ہماری زندگی کی معیاد کم ہو رہی ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس آلودگی کی وجہ سے عالمی سطح پر ہماری زندگی میں دو سال زیادہ کی کمی ہو رہی ہے“

”ہماری زندگی پر یہ بوجھ ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا یا جنگوں کے بوجھ سے زیادہ ہے“

ہیسنکوپ کہتے ہیں ”فضائی آلودگی کم کرنے کا بہترین طریقہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نہیں ہے، بلکہ اس کا بہترین حل سیاسی اور معاشرتی سطح پر اس سوچ کا فروغ ہے کہ اس کام کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں اور ہوا کو صاف رکھنے کی پالیسیوں پر سختی سے عمل کروایا جائے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close