سیلابی پانی میں ڈوبنے والی بچی کی دل دہلا دینے والی تصویر۔۔ تعلق کس علاقے سے ہے؟

ویب ڈیسک

تا حدِ نگاہ پھیلا ہوا مٹیالا سیلابی پانی دیکھنے والے پر دہشت طاری کر دیتا ہے، ایسے میں اگر اس پانی میں کوئی لاش نظر آجائے اور وہ بھی کسی معصوم بچے کی۔۔۔ تو یہ منظر کسی بھی ذی احساس انسان کا دل دہلا دیتا ہے

بدھ کو سوشل ٹائم لائنز پر ایسا ہی ایک منظر دکھائی دیا۔ متعدد صارفین نے دور دور تک پھیلے سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ایک چٹائی اور اس کے اوپر موجود کمسن بچی کی لاش کی تصاویر شیئر کیں

ان تصاویر میں ایک ننھے سے جسم کا نصف سے زیادہ حصہ پانی میں ڈوبا ہوا، جبکہ باقی سطح آب پر دکھائی دے رہا تھا

سیلابی پانی میں ڈوب کر زندگی سے محروم ہونے والی بچی کی تصاویر کو شامی پناہ گزین بچے ایلن کردی کی ساحل سے ملنے والی لاش سے تشببیہ دی گئی، لیکن بعض صارفین نے سوال اٹھایا کہ دنیا اس طرف توجہ کیوں نہیں دے رہی؟

کئی سوشل میڈیا صارفین نے فیسبک اور ٹوئٹر پر تصاویر شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’بچی کی لاش جنوبی پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان سے ملی ہے۔ سیلابی ریلے کا شکار ہونے والی بچی بروقت مدد نہ مل سکنے کی وجہ سے جان ہار گئی اور لاش پانی میں بہہ گئی۔‘

کچھ صارفین اس بچی کا تعلق جھل مگسی سے بتاتے رہے

یہ اطلاعات بھی دی گئیں کہ حالیہ دنوں میں بارش سے متاثرہ علاقوں میں پیش آنے والے درجنوں واقعات میں قیمتی املاک تباہ اور مقامی افراد کی گزربسر کا اہم ذریعہ سمجھے جانے والے مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں

سرکاری امدادی ادارے ریسکیو 1122 نے تصدیق کی کہ لاش نوشہرہ کی حدود میں سیلابی پانی سے ملی ہے اور یہ ایک کمسن بچی کی ہے

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں ریسکیو 1122 کے میڈیا کوآرڈینیٹر نبیل خان کے مطابق ’بچی کی لاش منگل کو دریائے کابل کے ایک کنارے سے ملی ہے۔ مقامی افراد نے دریا کے کنارے پر موجود لاش کو نکال کر امدادی اہلکاروں کو اطلاع دی‘

’ریسکیو 1122 کے عملے نے موقع پر پہنچ کر بچی کی لاش کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال منتقل کیا، اس کے بعد ورثا کی تلاش کے لیے کوششیں کی۔‘

نبیل خان کے مطابق ’چھان بین کے بعد واضح ہوا کہ بچی کا تعلق پشاور کے علاقے حسن گڑھی سے ہے۔ ضروری تصدیق کے بعد لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی۔‘

مقامی صحافی اویس خٹک کے مطابق پیر سباق نوشہرہ میں سیلابی پانی سے ملنے والی بچی کی لاش دو برس کی سارہ دختر مبارک شاہ کی ہے جبکہ متاثرہ خاندان کا تعلق پشاور کے علاقے حسن گڑھی سے ہے

اس تصویر کے حوالے سے ٹیلی ویژن میزبان عامر متین نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’یہ تصویر ذرا غور سے دیکھیں، یہ شام کے اس ڈوبے بچے کا منظر ہے، جس نے دنیا کے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا تھا، یہ اس سے کم تکلیف دہ نہیں ہے۔ خدارا سیاسی لڑائیوں میں سیلاب زدگان کی تکلیفوں کا سدباب بھی کر لیں‘

ادہر بلوچستان میں مسلسل تیز بارشیں ہونے کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال سے وہاں اموات کی تعداد 111 تک جا پہنچی، جبکہ سیلاب میں بچوں کے ڈوبنے کی تصاویر اور ویڈیوز نے لوگوں کے دل دہلا دیے ہیں

صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بلوچستان کے مطابق جون سے 26 جولائی تک ہونے والی بارشوں میں وہاں اموات کی تعداد 111 تک جا پہنچی، ہزاروں گھر ڈوب گئے ہیں، جبکہ حکومت پہلے ہی دس اضلاع کو آفت زدہ قرار دے چکی ہے

صوبے میں شدید بارشوں کے بعد ہونے والی سیلابی صورتحال پر 27 اور 28 جولائی کو ٹوئٹر پر ’خاموش انتظامیہ اور ڈوبتا بلوچستان‘ سمیت دیگر ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ پر رہے، جس میں لوگ بلوچستان میں بارشوں کی تباہ کاریوں کی وڈیوز اور تصاویر شیئر کرتے رہے

درجنوں صارفین کی جانب سے شیئر کی گئی تصاویر میں سیلاب میں کم سن بچوں سمیت خواتین کو ڈوبتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ بعض وڈیوز اور تصاویر میں گھروں سمیت مویشیوں کو بھی سیلاب میں بہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے

صوبے میں سیلابی صورتحال کے بعد بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنا لندن کا دورہ بھی منسوخ کر دیا، جبکہ تمام سرکاری افسران کی چھٹیاں منسوخ کرتے ہوئے صوبے میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کیا

وزیر اعلیٰ نے 28 جولائی کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ بھی کیا

بلوچستان سمیت ملک بھر میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے والی فلاحی تنظیم الخدمت نے اپنی پوسٹ میں بتایا کہ بلوچستان کے ضلع جھل مگسی کا شہر گنداوا مکمل طور پر زیر آب ہے جب کہ گنداواہ کے آٹھ ہزار گھرانے بھی زیر آب ہونے کی وجہ سے امداد کے منتظر ہیں

فلاحی تنطیم کے مطابق بلوچستان کے شہر گوادر کے کئی علاقے بھی زیر آب آگئے اور وہاں امدادی کارروائیاں جاری ہیں

سیلاب کے بعد صوبے کے کئی شہر اور دیہات مسلسل چار دن سے زیر آب ہیں اور متعدد علاقوں میں اڑتالیس گھنٹوں بعد بھی امداد ٹیمیں نہیں پہنچ پائی تھیں

’کوئٹہ وائس‘ نامی ویب سائٹ کی جانب سے شیئر کی گئی ایک وڈیو میں سیلاب سے متاثر ایک شخص کا کہنا تھا کہ تین دن سے ان تک امدادی ٹیمیں نہیں پہنچ پائیں اور ایک بچہ بھوک سے مر چکا ہے جب کہ باقی بچوں کی حالت بھی تشویشناک ہے

بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے متعدد وڈیوز اور تصاویر شیئر کیں، جن میں بچوں اور خواتین کو روتے ہوئے، سیلاب میں بہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ بعض ویڈیو میں پورے علاقے کو زیر آب بھی دیکھا جا سکتا ہے

زیادہ تر سوشل میڈیا صارفین نے بلوچستان میں سیلاب میں بچوں اور خواتین کے ڈوب کر جاں بحق ہونے پر حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close