آ چِین مجھے مار!

وسعت اللہ خان

ہو سکتا ہے اس وقت مغرب کو روس یوکرین مچاٹے سے پوری تشفی نہ مل رہی ہو اور اسے ایک اضافی بحران کی فوری ضرورت پڑ گئی ہو۔ چنانچہ امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان میں قدم رکھ کے یہ کمی پوری کر دی

ایک طرف امریکہ، برطانیہ اور نیٹو مستقبل کے لیے چین کو اپنا دشمنِ اول قرار دے چکے ہیں اور اس پیش گوئی کو سچ ثابت کرنے کے لیے انہوں نے چین کا اجتماعی ہانکا شروع کر رکھا ہے

واشنگٹن نے عملاً 1970 کی دہائی کی ’وَن چائنا پالیسی‘ لپیٹ کر وائٹ ہاؤس کی کسی دو چھتی میں رکھ دی ہے اور چین کے گرد گھیراؤ تنگ کرنے کے لیے مشرق میں بحیرہِ چین اور جنوب مغرب میں ہمالیائی پہاڑی سلسلے میں انڈیا امریکہ مشترکہ فوجی مشقوں کے بہانے چین کو ہشکارنے کی بھرپور کوشش جاری ہے

امریکہ کی تازہ ’چائنا گھیرو‘ پالیسی دراصل 1950 اور ساٹھ کی دہائی کی سوویت مخالف سرد جنگ حکمتِ عملی کی ایک تھکی ہوئی فوٹو کاپی ہے۔ تب سوویت یونین کو اپنے تئیں قابو کرنے کے لیے نیٹو، سنٹو اور سیٹو جیسے علاقائی فوجی اتحادوں کا برلن سے منیلا تک جال بچھا کے اگلے چالیس برس اسلحے کی دوڑ جیتنے کے بہانے مغربی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو کھرب ہا ڈالر کا انجکشن دے کر زندہ رکھا گیا

تب سوویت یونین کو گھیرنا یوں آسان تھا کہ سوویت معیشت سے مغربی معیشتیں تیل، گیس اور گندم کی ڈور سے نہیں بندھی ہوئی تھیں

البتہ آج کا چین کل کا سوویت یونین نہیں، جسے اتنی آسانی سے ’باندر کلا‘ کھلوانے پر آمادہ کیا جا سکے۔ چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری ہے، جس میں سالانہ چھ ٹریلین ڈالر کا مال خریدا بیچا جاتا ہے اور اس سے کمائے گئے زرِ مبادلہ کے ذخائر ساڑھے تین ٹریلین ڈالر ہیں۔ چین کو بین الاقوامی خام مال کی جتنی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ باقی دنیا کو چین کا تیار مال اور سرمایہ کاری درکار ہے

اس وقت امریکہ اور یورپی یونین کی ہزاروں چھوٹی بڑی کمپنیاں چین میں یا تو خود مصنوعات تیار کر رہی ہیں یا پھر چینی کمپنیوں سے سستے داموں تیار کروا کے ان پر اپنا ٹھپہ لگا کر مہنگے میں بیچ رہی ہیں

چین امریکہ تجارت کا حجم گذشتہ برس سات سو چھپن ارب ڈالر سالانہ رہا۔ جو 2020 کے مقابلے میں 29 فیصد زائد ہے۔ اس وقت آسیان ممالک اور یورپی یونین کے بعد سب سے زیادہ شور مچانے والا دشمن امریکہ ہی چین کا تیسرا بڑا اقتصادی ساجھے دار ہے۔ جبکہ سب سے بڑا علاقائی حریف جاپان چین کا چوتھا بڑا ساجھے دار ہے

رہی بات تائیوان کی، تو اس کی 42 فیصد برآمدات کا خریدار چین ہے۔ کہنے کو تائیوان اور چین ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اور نینسی پلوسی کے تائیوان کے اچانک دورے نے تو گویا چین کی آنکھ میں تائیوان کے تنکے کو شہتیر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی

کہنے کو نریندر مودی کے انڈیا نے پچھلے دو برس سے چینی تجارت کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور ارونا چل پردیش سے لداخ تک کے سرحدی محاذ پر دونوں ممالک کے عساکر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔ اس حالت میں بھی انڈیا اور چین کی تجارت کا حجم گذشتہ برس ایک سو سولہ ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ جو 2020 کے مقابلے میں (86 ارب ڈالر) ایک تہائی زیادہ ہے

امریکہ کو یہ بھی غصہ ہے کہ چونکہ پورا مغرب اس وقت پوتن کے شدید خلاف ہے، مگر صدر پوتن اور صدر شی پنگ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کا پہلے سے زیادہ مستحکم معاشی سہارا بنے ہوئے ہیں۔ چین کا روڈ اینڈ بیلٹ اقتصادی منصوبہ ان غریب ممالک میں پہلے سے زیادہ مقبول ہے، جنہیں مغرب ہمیشہ یا تو خیرات دیتا آیا یا پھر دھتا بتاتا آیا

یہ ٹھیک ہے کہ نینسی پلوسی کے دورے نے چین کو خاصا طیش دلایا۔ مگر چینیوں کی تجارتی سفارت کاری لگ بھگ ڈھائی ہزار برس پرانی ہے اور امریکی تجربہ اس میدان میں صرف دو سو برس کا ہے۔ چین ویسے بھی 2050ع تک سب سے بڑی عالمی معیشت بننے کا ہدف حاصل کرنے میں تائیوان حاصل کرنے سے زیادہ سنجیدہ ہے

جس طرح ہانگ کانگ اور مکاؤ ایک دن پکے پھل کی طرح جھولی میں آن گرے، اسی طرح تائیوان بھی آج نہیں تو کل چین کے ساتھ ’ایک ملک دو نظام‘ کے تحت جینا سیکھ لے گا۔ ہانگ کانگ میں تو یہ فارمولا زیادہ دیر نہیں چل پایا مگر تائیوان ہانگ کانگ کے مقابلے میں کہیں دم دار ہے

رہی امریکہ اور یورپ کی چین کے سینگ توڑ دینے کی خواہش۔ تو یہ خواہش اس لیے پوری نہیں ہونے کی کہ کسی بھی محدود یا طویل لڑائی میں اگر چین زخمی ہوتا ہے تو دنیا کی معیشت وینٹی لیٹر پر چلی جائے گی اور اسی دنیا میں امریکہ اور یورپ بھی آباد ہیں

عسکری چچھور پن البتہ رہے گا تاکہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی روزی روٹی چلتی رہے۔ فی الحال نہ چین نے بم چلا کے اقتصادی خودکشی کا سوچا ہے۔ نہ ہی مغرب نے اپنا ہی بم اپنے سر پر مارنے کے بارے میں سوچا ہے۔ چنانچہ روایتی جنگ کے لیے پُرامید تجزیہ باز فی الحال آرام سے بیٹھیں

یہ جنگ کم ازکم اگلے پچاس برس غیر روایتی طریقے سے لڑی جانے والی پہلی بڑی لڑائی ہو گی۔ اس جنگ کے نتائج بھی غیر روایتی مگر دُورس ہوں گے۔ آئی سمجھ کہ نہیں؟

بشکریہ: بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close