’ماتھے پر تلک لگا کر ہندو نام یاد کروا دیے‘

عالیہ نازکی

معروف افسانہ نگار خالد حسین کے ساتھ تقسیمِ برصغیر کے وقت کیا بیتی، اس کی روداد بھی کسی افسانے سے کم نہیں۔ انہوں نے اپنی کہانی کچھ یوں بیان کی ہے:

تقسیم کے وقت میری عمر کوئی دو ڈھائی سال تھی۔ میری بڑی بہن کوئی نو دس سال کی تھی اور اس سے چھوٹے دو بھائی تھے۔ میری ماں حاملہ تھیں۔ ابو جموں کے ادھم پور ضلع میں ایک سرکاری سکول میں استاد تھے۔ میری تقسیم کی یادیں کچھ میری اپنی ہیں اور کچھ میری بہن اور ماں کی

عید کا دن تھا۔ علاقے کے سارے مسلمان عیدگاہ میں جمع تھے۔ ان سب کو وہیں مار دیا گیا۔ ان میں میرے ابو، غلام حسین اور چچا بھی شامل تھے

جب عیدگاہ میں ہونے والی خون ریزی کی خبر گھر پہنچی تو ماں اور میری پھوپھی نے ہم بچوں کو اکٹھا کیا اور ہمیں لے کر لالہ امرناتھ شرما کے گھر پہنچ گئیں، جو ایک مقامی ہندو کارکن تھے

وہ ویسے تو سخت گیر ہندو تنظیم سے منسلک تھے، لیکن میرے ابو کے دوست ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے حالات خراب ہونے سے پہلے کئی بار ابو سے علاقہ چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر جانے کو کہا تھا

اس رات ہم سب کو ایک سخت گیر ہندو کے گھر پناہ ملی۔ دوسرے دن اس نے ہمیں ایک نوکر کے ہمراہ اپنے گاؤں کی طرف روانہ کر دیا جہاں اسے لگا کہ ہم بھی محفوظ رہیں گے اور خود اس پر بھی مسلمانوں کو بچانے کی بات نہیں آئے گی

گاؤں پہنچے تو اسی رات میرے سب سے چھوٹے بھائی کی پیدائش ہوئی۔ صبح سویرے ہاتھوں میں تلواریں اٹھائے ایک ہجوم آ پہنچا اور میری ماں سے کہنے لگا کہ اپنے بچے ہمیں دے دو، ہم انھیں پاکستان پہنچا دیں گے، وہاں وہ محفوظ رہیں گے

میری امی نے، جنہوں نے ایک رات پہلے ہی ایک بچے کو جنم دیا تھا، جواب دیا کہ یا تو میرے بچوں کو میرے سامنے مار دو یا یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ میں جانتی ہوں تم انھیں کون سے پاکستان لے جاؤ گے

ان لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس حالت میں یہ دو عورتیں اور بچے کہیں نہیں جا سکتے، انھیں آج چھوڑ جاتے ہیں

ان کے جاتے ہی ہم سب ایک بار پھر چل پڑے۔ امی اور پھوپھی نے سب کے ماتھوں پر تلک لگا دیا، ہم سب کو ہندو نام یاد کروائے اور بار بار کہا کہ کوئی مسلمان نام سے بلائے تو جواب نہیں دینا

سارا دن چلنے کے بعد ہم ایک گاؤں پہنچے۔ وہاں چوپال پر کچھ لوگ بیٹھے تھے جن میں سے ایک حلوائی اودھم پور میں ہماری ہی ایک دکان پر کام کرتا تھا۔ اس نے اونچی آواز میں ڈوگری میں کہا: ‘خالدا ریڑے آ’ یعنی خالد ادھر آ۔ اور ماں اور پھوپھی کی سکھائی ہوئی ساری باتیں بھول کر میں نے اپنی بہن کا ہاتھ چھوڑا اور بھاگ کے اس حلوائی کے پاس چلا گیا

واضح ہو گیا کہ ہم ہندو نہیں مسلمان ہیں اور ایک بار پھر ہمیں گھیر لیا گیا۔ اس وقت نہ جانے کہاں سے میری پھوپھی میں وہ ہمت آئی کہ انھوں نے آگے بڑھ کر وہاں جمع مردوں سے گیتا اور ویدوں کا حوالہ دے کر پوچھا کہ عورتوں اور بچوں کو مارنا کس مذہب میں جائز ہے؟ آپ لوگ ہمارے مردوں کو پہلے ہی مار چکے ہو، ہمیں مار کر آپ کو کیا ملے گا

وہاں بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے شخص نے کہا کہ کیوں ان کا خون اپنے سر لیتے ہو، انھیں جانے دو، آگے کوئی اور انھیں مار دے گا

وہاں سے بچ کر پھر اگلے دس بارہ دن ہم نے جنگلوں میں چھپ کر گزارے۔ جب تک جموں اور کشمیر میں شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں امن بریگیڈ بنائی گئی اور پھر ہمیں جنگلوں سے پناہ گزین کیمپ میں لایا گیا

میں، پہلے جموں اور پھر سرینگر میں، پناہ گزین کیمپوں میں بڑا ہوا۔ پھر آخرکار تقریباً آٹھ سال کے بعد ہمیں جموں میں ایک کمرہ دیا گیا، جس میں ہم نے اگلے چھبیس سال گزارے

جموں میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، تو یہی سب دوسری طرف ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ بھی ہوا۔ مظفر آباد، کوٹلی اور باغ میں بھی ایسی ہی خون ریزی ہوئی

میں بہت مشکل سے پڑھ لکھ گیا، آخر کار سرکاری افسر بنا۔ تقسیم میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہم پر گزری ان احساسات کو افسانوں میں آواز ملی۔ میرے زیادہ تر افسانے تقسیم کے حالات اور پھر تقسیم کے بعد جموں کے مسلمانوں کی زندگی پر پڑنے والے اثرات پر مبنی ہیں

وہ وقت ہی ایسا تھا، اور ہم پر بہت ظلم ہوا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مجھے پڑھانے لکھانے والے سب ہی استاد ہندو تھے جن کا احسان میں کبھی نہیں اتار سکتا

تقسیم کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں میں جو خلیج پیدا ہو گئی تھی، وقت نے اسے کافی حد تک بھر دیا تھا لیکن آج کل کے سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ تفریق اور تعصب ایک بار پھر سماجی رشتوں پر بظاہر حاوی ہو رہا ہے۔

بشکریہ: بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close