بھارت میں تین سو اہلکار مل کر بھی ایک تیندوا پکڑنے میں ناکام

ویب ڈیسک

بھارتی ریاست کرناٹک کے فاریسٹ حکام گزشتہ ستائیس دنوں سے ایک تیندوے کو پکڑنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں، لیکن وہ انہیں ہاتھ نہیں آ رہا

یہ تیندوا پہلی بار اس وقت شہہ سرخیوں میں آیا، جب اگست میں اس نے بلگام شہر میں ایک مزدور پر حملہ کر دیا تھا۔ حملے کی زد میں آنے والا شخص زخمی تو ہوا لیکن خوش قسمتی سے موت کے منہ میں جانے سے بچ گیا

تب سے اب تک یہ گالف کورس کے قریب متعدد بار دیکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے مقامی افراد میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے

محکمہ جنگلات نے اس تیندوے کو پکڑنے کے لیے تین سو اہلکاروں کی فہرست تیار کی ہے، جن میں وٹنری ماہرین، شارپ شوٹرز اور بیہوش کرنے کے لیے تربیت یافتہ طبی اہلکار شامل ہیں، لیکن تاحال یہ آپریشن اب تک ناکام رہا ہے

اس مسئلے نے سیاسی میدان میں بھی طوفان مچایا اور اپوزیشن جماعتوں نے وزیرِ جنگلات امیش کاٹی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا

امیشن کاٹی نے کہا کہ وہ تیندوؤں کو پکڑنے کے لیے تیار ہیں۔ خیال رہے کہ اس ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے

فارسٹ افسر وجے کمار گوگی نے بتایا کہ تیندوے کو پکڑنے کے لیے بہت زیادہ عوامی دباؤ ہے۔ اس لیے زیادہ اہلکاروں کو اس کام میں شامل کیا گیا ہے

تیندوا شرمیلی طبیعت کا حامل ہوتا ہے مگر کچھ برسوں میں بہت سی ایسی رپورٹس آئی ہیں، جن سے پتہ چلا ہے کہ بھارت کے دیہی علاقوں اور شہروں میں یہ جانور اپنے شکار کی تلاش میں گھومتا ہے، جس کی وجہ اس کے مسکن کا سکڑنا ہے

کرناٹک میں وسیع و عریض جنگل ہے، جہاں جنگلی حیات کی پناہ گاہیں ہیں۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق 1783 تیندوے موجود ہیں، جو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک کے کسی جنگل میں ان کی دوسری بڑی تعداد ہے۔ جانوروں کو ریاست کے دوسرے بڑے شہروں بنگلور اور میسور میں بھی دیکھا گیا ہے

اس تیندوے کو پکڑنے کی مہم کے سربراہ بلگام کے فاریسٹ آفسر اینتھونی ایس ماریاپا کا کہنا ہے کہ پہلی بار بلگام شہر میں تیندوے کو دیکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے لوگوں میں بہت پریشانی ہے

تیندوے کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرنے کے لیے گالف کورس کے قریب مختلف مقامات پر بیس مخصوص کیمرے لگائے گئے ہیں۔ ان کیمروں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں لگے سینسر خود بخود اپنے سامنے سے گزرنے والی چیز کی تصویر کھینچ لیتے ہیں

جبکہ تیندوے کو قابو میں کرنے کے لیے کتّوں اور سؤروں کو بطور چارہ پنجروں میں رکھا گیا

گوگی کہتے ہیں کہ تیندوے کو متوجہ کرنے کے لیے مادہ تیندوے کے پیشاب کو پنجروں کے ساتھ لگایا جاتا ہے تاکہ تیندوا اس کی تلاش میں پنجروں کے اندر تک آئے

انھوں نے مزید بتایا کہ تیندوے کی تلاش کے لیے ٹیم کے تین سو سے زیادہ اہلکاروں نے دو سو ہیکٹر کے علاقے کو تین بار مکمل طور پر چھان مارا ہے

حکام کا یہ منصوبہ ہے کہ شارپ شوٹرز کی خدمات بھی لی جائیں تاکہ تیندوے کو پکڑا جا سکے اور اسے واپس اس کے قدرتی مسکن میں چھوڑا جا سکے

ان کا کہنا ہے ’ہم نے دو تربیت یافتہ ہاتھیوں کی خدمات بھی حاصل کی ہیں، ان کی اونچائی سے تیندوے کا پتہ لگانے میں آسانی ملے گی۔‘

ابھی تک تیندوا پکڑنے میں ناکامی کے بارے میں ماریاپا کا کہنا ہے کہ تیندوا دو بار آپریشن کے دوران دکھائی دیا لیکن یہ پکڑے جانے سے پہلے ہی چُپکے سے نکل جاتا ہے

ان کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ بارشوں کی وجہ سے بھی جاری کوششوں پر اثر پڑا ہے

بارش کی وجہ سے حد نگاہ کم ہو گئی ہے اور جگہ جگہ پانی کی صورت میں چھوٹے سے علاقے میں رکاوٹیں ہیں، اس صورتحال کی وجہ سے فاریسٹ حکام کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنا آسان نہیں

انہوں نے کہا ’علاقے میں کافی مقدار میں شکار موجود ہے۔ اس لیے ہماری جانب سے لگائے گیے چارے میں انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔‘

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میڈیا کی توجہ اور بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے معاملات نے بھی مسائل پیدا کیے ہیں

انہوں نے کہا ”حکام اور عوام جلدی سے نتائج کے خواہاں ہوتے ہیں، اس لیے ہم پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ نئے تجربات کی کوشش کریں یا پھر اپنی کارروائیوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافی تبدیلیاں کریں لیکن ایک تیندوے کو پکڑنے کے لیے انسانی مداخلت بہت کم اور بہت بڑی جگہ اور خاموشی ہونی چاہیے“

کئی دہائیوں سے تیندوے پر تحقیق کرنے والے جنگلی حیاتیات کے ماہر سنجے گوبی اس استدلال سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں ”اگر ماحول میں تھوڑی سی بھی بے ترتیبی ہو تو تیندوے حملہ کرنے کے بجائے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے عوام کی جانب سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ اور بڑے پیمانے پر ان کے خلاف آپریشن فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔“

سنجے گوبی نے خبردار کیا کہ ایک تیندوا پکڑ لینا مسئلے کو حل نہیں کر سکتا. ”جو ہم چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم مزید ایسے پروگرام کریں جس میں لوگ تندوے کو اور اس کے رویّے کو سمجھ سکیں“

سنجے کوبی کہتے ہیں ”اس سے برداشت بھی پیدا ہوگی اور قبولیت بھی، جس سے تیندوے اور انسان قدرے محفوظ طریقے سے رہ پائیں گے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close