چین میں قوم پرستی اور جاپان مخالف جذبات میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

ناقدین کے مطابق چینی حکومت عوام میں قوم پسندی اور حب الوطنی کے شدید جذبات کو ہوا دے کر متبادل آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش میں ہے۔ اس مقصد کے لیے بالخصوص سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم استعمال کیے جا رہے ہیں۔

چین میں قوم پرستی کے جذبات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب انڈو پیسیفک ریجن کے ممالک جارحانہ انداز میں چینی فوجی طاقت میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے دوران ہی دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں بالخصوص سوشل میڈیا پر جاپان مخالف جذبات پر بہت زیادہ بحث دیکھنے میں آئی

ان جذبات کی شدت کا اندازہ 15 اگست کو منظر عام پر آنے والی ایک وڈیو سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں ایک چینی خاتون کو پولیس صرف اس لیے گرفتار کرتی دیکھی گئی، کیونکہ اس نے جاپانی ثقافتی لباس کیمونو زیب تن کر رکھا تھا اور وہ تصاویر بنوا رہی تھی

چینی شہر سوژوو کے پولیس اہلکار اس خاتون پر چیختے چلاتے ہوئے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ پولیس کے مطابق ’یہ خاتون اشتعال انگیزی کی مرتکب ہوئی، اس لیے اسے گرفتار کیا گیا‘

چینی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم Weibo پر فعال اس خاتون نے بعد ازاں اپنے اکاؤنٹ پر لکھا کہ اسے پانچ گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا اور پولیس نے ان کے موبائل فون کی تلاشی بھی لی

اس وڈیو کو لاکھوں چینی صارفین نے دیکھا۔ کچھ نے سوال کیا کہ کیا جاپانی ثقافتی لباس کیمونو پہننے پر خاتون کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کیا، وہ درست تھا؟

ایک خاتون نے لکھا کہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ سوژوو میں کسی خاتون کو جاپانی لباس پہننے پر گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے!

ایک اور صارف نے بھی Weibo پر لکھا کہ آخر اشتعال انگیزی کس کی تھی؟ ان کے مطابق اگر جاپانی روایتی لباس پہننا نقصِ امن کا باعث ہے تو شہر میں جاپانی ریستوانوں کو بھی بند کر دینا چاہیے

چینی سرکاری جریدے گلوبل ٹائمز کے سابق ایڈیٹر ہو جن نے بھی اپنے Weibo اکاؤنٹ پر لکھا کہ کیمونو پہننے پر کسی کو گرفتار کرنا غیر قانونی ہے، لیکن انہوں نے مزید کہا ”تائیوان کے معاملے پر جس طرح جاپانی حکومت امریکہ کا ساتھ دے رہی ہے، وہ دراصل جاپان مخالف جذبات کا باعث بن رہی ہے۔“

ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ چینی محقق یاقوئی وانگ کے مطابق یہ واضح نہیں کہ سوژوو پولیس نے جس طرح سے عمل کیا ہے، وہ چینی حکومت کا مؤقف بھی ہے۔ ان کے بقول بیجنگ حکومت عمومی طور پر ایسے واقعات پر اپنے شہریوں کے خلاف ایسے اقدامات نہیں کرتی ہے

چین میں جاپان مخالف جذبات کے اظہار کی یہ اکلوتی مثال نہیں۔ 18 اگست کو چینی ریٹیل برانڈ منسو (Miniso) نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے چینی عوام سے معافی مانگی تھی۔ اس برانڈ کے ہسپانوی انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک گڑیا کی تصویر شائع کی گئی، جس کے ساتھ لکھا تھا کہ اسے جاپانی لباس پہنایا گیا ہے تاہم چینی انٹرنیٹ صارفین کے مطابق یہ جاپانی نہیں بلکہ چینی روایتی لباس ہے

چینی لباس کو جاپانی لباس لکھنے پر اس برانڈ کو چینی انٹرنیٹ صارفین نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے جواب میں وضاحت کے ساتھ معافی مانگنا پڑی

ٹورانٹو یونیورسٹی سے وابستہ چینی امور کی ماہر ٹنگ گیو کے مطابق چین میں اس طرح کے جاپان مخالف جذبات کی تاریخ کافی پرانی ہے

ٹنگ گیو کہتے ہیں ”یہ کوئی نیا مظہر نہیں تاہم اب سیاسی وجوہات کی بنا پر ان جذبات کو ہوا دی جا رہی ہے“

سیاسی ناقدین کے مطابق اس مخصوص وقت میں چینی حکومت کی طرف سے غیر ممالک کے خلاف ایک خاص منفی جذبہ پیدا کرنا اور حب الوطنی کا پرچار کرنا اس کی سیاسی مجبوریوں کا ایک حصہ ہے۔ امریکہ میں مقیم چین میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ٹینگ بیاؤ کہتی ہیں کہ جب بھی چین بیرونی دنیا کو خبردار کرنا چاہتا ہے، وہ اپنے عوام میں جاپان کے خلاف ایسا ہی منفی جذبہ پیدا کر دیتا ہے

ٹینگ بیاؤ نے مزید کہا ”حتّٰی کہ کوئی واقعہ رونما نہ بھی ہو، تو بھی چین کی کیمونسٹ پارٹی ملک کے داخلی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی خاطر اس طرح کے جاپان مخالف جذبات بھڑکا دیتی ہے‘‘

انہوں نے کہا کہ کسی بھی مطلق العنان حکومت کی یہ ایک عام پریکٹس ہوتی ہے، تاہم ایسے منفی پراپیگنڈے کی خاطر مناسب وقت کا انتخاب احتیاط سے کیا جاتا ہے

ٹینگ بیاؤ کے بقول چینی حکومت عوام کے ذاتی انتخاب میں بھی غیر محسوس طریقے سے مداخلت کرتی ہے

انہوں نے کہا ”گو کہ ان حالات میں ایک طبقہ چینی حکومت پر تنقید کرتا ہے لیکن اکثریت حکومت کے اس غیر مناسب رویے پر تنقید کرنے کی اہل ہی نہیں ہے۔ چین میں اندھی حب الوطنی اور جاپان مخالف جذبات بہت شدید ہیں“

انسانی حقوق کے وکیل بیاؤ کی طرح محقق گیو اور ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ وانگ بھی متفق ہیں کہ چینی حکومت بالخصوص سوشل میڈیا پر قوم پرستی اور حب الوطنی کے ایسے جذبات ابھارنا چاہتی ہے کہ وہاں کوئی متبادل آواز پنپ ہی نہ سکے۔ ان کے مطابق بہت سے لوگ ان قوم پرست انٹرنیٹ صارفین سے خوفزدہ ہیں، اس لیے وہ خاموشی اختیار کر چکے ہیں

ٹینگ بیاؤ کے بقول چینی حکومت مستقبل میں بھی جاپان اور مغرب مخالف جذبات کو ہوا دیتے ہوئے قوم پرستی کو فروغ دے گی

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے، جب کوئی حکومت انٹرنیٹ صارفین کی سوچ کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتی

بیاؤ کا خیال ہے کہ چینی حکومت لوگوں کے خیالات اور نظریات کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی خاطر اپنی مداخلت میں مزید اضافہ کرے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close