آسٹریلیا کو ہلا دینے والا قتل، جس کے ملزم کو بھارتی پنجاب میں ڈھونڈا جا رہا ہے

ویب ڈیسک

آسٹریلیا کے مرطوب موسم والے شمالی حصے میں ایک طویل، خوبصورت اور ریتیلا وانگیٹی ساحل ٹویا کورڈنگلی کا پسندیدہ ساحل تھا

یہی وہ جگہ ہے، جہاں انہیں ’ظالمانہ اور جنونی‘ طریقے سے قتل کر دیا گیا

چوبیس سالہ ٹویا کورڈنگلی 21 اکتوبر 2018ع کو اپنے کتے کو یہاں معمول کے مطابق گھمانے لے گئی تھیں، لیکن دوبارہ کبھی واپس نہیں آئیں

اگلی صبح ان کی لاش ’انتہائی بری حالت میں‘ ریت کے ٹیلوں میں آدھی دفن پائی گئی اور ان کا پسندیدہ کتا پاس ہی بالکل ٹھیک حالت میں بندھا ہوا تھا

چار برس بعد بھی آسٹریلیا کے حکام عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ ٹویا کے ممکنہ قاتل راجویندر سنگھ کو پکڑنے کی ان کی بین الاقوامی کوششوں میں مدد کریں

راجویندر ایک نرس ہیں اور وہ اینیسفیل میں رہتے تھے، لیکن ان کا اصل تعلق بھارتی پنجاب کے گاؤں بٹر کلاں سے ہے۔ ٹویا کی لاش ملنے کے چند گھنٹے بعد ہی وہ اپنی ملازمت، اپنی اہلیہ اور اپنے تین بچوں کو وہیں چھوڑ کر آسٹریلیا سے فرار ہو گئے

میڈیا اطلاعات کے مطابق گواہان نے راجویندر کو ٹویا کے قتل کے دن جسم پر خراشوں اور کاٹنے کے نشانات کے ساتھ مشتبہ حرکات کرتے ہوئے دیکھا تھا

اگرچہ آسٹریلیا اور بھارت کے حکام نے اڑتیس سالہ راجویندر کی آسٹریلیا حوالگی کے معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے، لیکن وہ اب بھی ان کی تلاش میں ناکام ہیں

چنانچہ اب کوئینزلینڈ پولیس نے گرفتاری میں مدد دینے والی اطلاع کے لیے گذشتہ ہفتے دا لاکھ ڈالر یا پانچ کروڑ تیس لاکھ بھارتی روپے انعام کا اعلان کیا ہے

وزیرِ پولیس مارک رائن نے جمعرات کو رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ”ہم جانتے ہیں کہ لوگ اس شخص کو جانتے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ یہ شخص کہاں ہے اور ہم ان لوگوں سے صحیح کام کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں“

انہوں نے کہا ”اس شخص پر انتہائی گھناؤنے جرم کا الزام ہے۔ ایسا جرم، جس نے ایک خاندان کو بکھیر کر رکھ دیا“

تفتیش کاروں نے ٹویا کی موت کے حوالے سے کم ہی تفصیلات جاری کی ہیں، لیکن اطلاعات کے مطابق جب اُنہیں کینز سے چالیس کلومیٹر شمال میں ایک ساحل پر پایا گیا تو ان پر ’واضح‘ اور ’خوفناک‘ زخم نظر آ رہے تھے

پولیس کا ماننا ہے کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر جنسی نوعیت کا تھا

مقامی رکنِ پارلیمان وارن اینٹش نے 60-منٹس کو بتایا کہ مقامی لوگوں کو یہ دیکھ کر بہت صدمہ پہنچا کہ ان کے اس دوستانہ علاقے میں ایسا گھناؤنا قتل ہو سکتا ہے اور انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ علاقے کی ایک جانی پہچانی اور پسندیدہ لڑکی کے ساتھ ایسا ہوا ہے

مقامی کونسلر مائیکل کر نے آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن (اے بی سی) کو بتایا کہ ’ہر کوئی جانتا تھا کہ وہ کون تھیں۔‘

ٹویا کو دوستانہ مزاج کی حامل ایک ذہین لڑکی کے طور پر جانا جاتا تھا اور وہ جانوروں سے محبت کے لیے بھی مشہور تھیں

مائیکل کر وہ اینیمل شیلٹر چلاتے ہیں، جہاں ٹویا رضاکارانہ طور پر کام کرتی تھیں۔ وہ بتاتے ہیں ”اُنہوں نے بہت کم وقت میں بہت سے لوگوں کو متاثر کیا، وہ ایسی ہی تھیں“

ٹویا کی موت ایسے وقت میں ہوئی، جب آسٹریلیا میں قتل کے کئی واقعات کے بعد نوجوان خواتین کے تحفظ سے متعلق تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے

کئی لوگوں کو تشویش ہے کہ وہ دن کے اجالے میں ایک عوامی جگہ پر اتنے بڑے کتے کے ساتھ بھی محفوظ نہیں تھیں

ٹویا کی موت کے بعد کے دنوں میں مقامی لوگ ان کے قاتل کی گرفتاری میں مدد دینے کی بھرپور کوشش کرنے لگے

پولیس کو سینکڑوں لوگوں نے اپنی اپنی طرف سے اطلاعات دیں اور کئی لوگوں نے ثبوتوں کی تلاش میں وانگیٹی ساحل کھنگال مارا

اے بی سی کے مطابق پولیس نے پھر مقامی لوگوں سے ڈی این اے نمونوں کی درخواست کی اور اس دوران وہ خود بھی ثبوت تلاش کرتے رہے

شمالی کینز میں ایک ایسی ہی تلاش میں پولیس کو کئی اہم چیزیں ملیں مگر پولیس نے تفصیلات نہیں بتائیں کہ انہیں کیا ملا

پولیس نے اینیسفیل میں راجویندر سنگھ کے گھر کی بھی تلاشی لی، جو جائے وقوعہ سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر ہے مگر وہ ان سے پوچھ تاچھ نہیں کر پائے کیونکہ راجویندر تب تک ملک چھوڑ چکے تھے

راجویندر کے ایک رشتے دار نے مقامی اخبار دی کوریئر میل کو بتایا کہ آبائی گھر واپس جانے کا منصوبہ ایک اتفاق تھا

ہرپریت سنگھ نے 2018 میں کہا تھا ”راج قتل نہیں کر سکتا۔ وہ بہت خاموش اور ڈرپوک ہے۔ وہ اپنے کام کے متعلق کافی پریشانی کا شکار تھا“

مگر آسٹریلیا کی حکومت نے مارچ 2021 میں ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔ ایسا صرف تب ہو سکتا تھا، جب تفتیش کاروں کا کیس اتنا مضبوط ہو کہ وہ مذکورہ شخص پر فردِ جرم عائد کر سکیں

گذشتہ ماہ بھارتی حکام نے یہ درخواست منظور کر لی، جس کا مطلب ہے کہ پولیس اب اگر راجویندر سنگھ کو تلاش کر پائی تو اُنہیں گرفتار کر کے آسٹریلیا کے حوالے کر سکتی ہے

چار طویل برس کے بعد ٹویا کے افسردہ خاندان کو امید ہے کہ انصاف اب بالآخر ان کے قریب ہے

اُنہوں نے ٹویا کے دوستوں کو بڑے ہوتے، شادی کرتے اور بچے پیدا کرتے دیکھا ہے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ جس شخص نے ان کی جان لی، وہ ’اپنے گھناؤنے جرم کی سزا پائے بغیر آزادی سے جی رہا ہے‘

ٹویا کے والد ٹرائے کورڈِنگلی نے انعام کے اعلان کے موقع پر کہا ’ٹویا ایسی نوجوان لڑکی تھی، جسے کبھی بھرپور زندگی جینے کا موقع نہیں ملا۔ یہ سب اس سے چھین لیا گیا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’انصاف ٹویا کو واپس نہیں لا سکتا مگر انصاف تو کم از کم اس کا حق ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close