فٹبال ورلڈکپ: کراچی کا صدیق گوٹھ مِنی قطر میں تبدیل

ویب ڈیسک

فیفا ورلڈ کپ 2022ع کا میلہ قطر کے شہر الخور میں موجود البیت اسٹیڈیم میں سج چکا، جہاں رنگ برنگی اور شاندار افتتاحی تقریب کے بعد کھیلے گئے پہلے میچ میں میزبان قطر ایکواڈور سے صفر کے مقابلے میں دو گول سے ہار گیا۔ اس طرح ورلڈ کپ کی تاریخ میں قطر اپنا افتتاحی میچ ہارنے والا پہلا میزبان ملک بن گیا

بہرحال فٹبال کے یہ رنگ صرف قطر تک ہی محدود نہیں، کراچی کے علاقے ملیر میں واقع صدیق گوٹھ میں صرف ایک گھر نہیں بلکہ پورا گوٹھ ہی فٹبال کے رنگوں سے سج کر منی قطر بن چکا ہے

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس کھیل کے جنون اور عشق میں مبتلا لوگوں کی کمی نہیں۔ کراچی کے وہ علاقے جہاں فٹبال کھیلنے اور دیکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہاں اس کھیل سے محبت میں گلیاں اور محلے پسندیدہ ٹیموں اور ان کے کھلاڑیوں کی تصاویر سے سجا دی گئی ہیں

ملیر کے ایک مقامی فنکاروں نے ورلڈکپ شروع ہونے سے قبل ہی علاقے کو لوگوں کی پسند کے مطابق رنگوں سے سجا دیا۔ کئی لوگوں نے اپنی پسندیدہ ٹیموں کے پرچم بھی گھروں پر لگائے ہوئے ہیں

صدیق گوٹھ میں گُل بلوچ فٹبال گراؤنڈ میں روایتی رقص کے ساتھ آتش بازی کا بھی مظاہرہ کیا گیا

جیسا کہ فیفا ورلڈکپ ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے، طویل عرصے بعد فٹ بال ورلڈ کپ کی خوشی میں صدیق گوٹھ کے کچھ فنکاروں نے علاقے کی دیواروں پر سفید رنگ کرکے کھلاڑیوں کی تصاویر بنانے کے ساتھ ورلڈکپ میں حصہ لینے والی ٹیموں کے پرچم بھی بنا رکھے ہیں

یہاں رہنے والی بلوچ اکثریت فٹبال کو جنون کی حد تک پسند کرتی ہے اور یہاں کے رہائشی نوجوان اور بچے پورا سال ہی گراؤنڈ اور گلیوں میں فٹبال کھیلتے نظر آتے ہیں

یہاں تک کہ اس علاقے کے رہائشی برازیل، ارجنٹائن، جرمنی، اٹلی، فرانس، پرتگال اور دیگر ممالک کے ساتھ خاص رغبت رکھتے ہیں

گُل بلوچ فٹبال کلب کے پاس گُل بلوچ فٹبال گراؤنڈ کی ملکیت ہے، گراؤنڈ میں ورلڈکپ میچز دیکھنے کے لیے بڑی اسکرین لگائی جاتی ہے، گُل بلوچ کلب کے مالک راشد عبدالرزاق کہتے ہیں ”یو ای ایف اے یورپ لیگ کے دوران ہم نے کلب کی عمارت کی سب سے اوپری منزل پر اسکرین لگائی تھی، فیفا ورلڈکپ ایک میگا ایونٹ ہے، اسی لیے ہم زیادہ ہجوم کی توقع کرتے ہیں“

اس کلب نے نوجوانوں میں فٹبال کھیلنے کی صلاحیت کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اسی علاقے کے انڈر 18 کھلاڑی بلال بلوچ اب جرمنی کے شہر بریمن کے لیے کھیلتے ہیں، اس کے علاوہ اسی علاقے کے دو مقامی کھلاڑی پیر بخش اور وسیم محمد ایران میں کھیل رہے ہیں، جبکہ نوجوان یٰسین بلوچ کراچی یونائیٹڈ کے لیے کھیل رہے ہیں

راشد عبدالرزاق نے کہا کہ صدیق گوٹھ کے نوجوانوں میں بے شمار صلاحتیں ہیں، فٹنس کے شوقین غلام مرتضیٰ کی فٹبال میں پسندیدہ ٹیم جرمنی ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے جرمن زبان بھی سیکھ لی ہے

وہ جس گھر میں رہتے ہیں، اسے ’جرمن ہاؤس‘ کہتے ہیں اور گھر کے داخلی دروازے پر جرمنی کا پرچم لگا ہوا ہے، اسی علاقے کا ایک اور نوجوان اطالوی زبان بولتا ہے اور اس کی پسندیدہ ٹیم اٹلی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس بار ان کی پسندیدہ ٹیم اٹلی ٹورنامنٹ میں موجود نہیں۔ اسی طرح نوجوان مخدوم مراد بلوچ نے فٹبال ورلڈکپ کے لیے بلوچی زبان میں ایک ریپ گانا تیار کیا ہے

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں مشہور سموسے اور پکوڑے بیچنے والا ماما برازیل بھی ہیں، جو اپنی چھوٹی سی جھونپڑی کو بند کر کے ریڑھی میں سامان بیچتے ہیں

صبح کے اوقات میں ماما برازیل فیکٹری جانے والے ملازمین کو نمکین غذا فروخت کرتے ہیں اور پھر اسی ریڑھی سے وہ فٹبال ورلڈکپ میں کھیلے جانے والے ممالک کے جھنڈے اور جرسیاں بھی فروخت کرتے ہیں

اس کے علاوہ گزشتہ اٹھارہ دنوں سے وڈیو گیم کی دکان چلانے والے ساجد علی آدھی رات کو اپنی دکان بند کر کے صدیق گوٹھ میں ورلڈکپ کھیلنے والے ممالک کے جھنڈے، کھلاڑیوں کی تصاویر اور دیگر ہر قسم کی ڈیرائن صبح فجر کی نماز سے پہلے دیواروں پر نقش کرتے ہیں

ساجد علی نے اپنے دو ہفتے کی مصروفیات بتاتے ہوئے کہا ”صبح فجر سے لے کر ظہر تک میں سوجاتا ہوں، جس کے بعد میں کام پر چلا جاتا ہوں“

ساجد علی خود فرانس کے بہت بڑے مداح ہیں اور فرانسیسی فٹبالر اینٹوئن گریزمین کی تصاویر کے ساتھ فرانسیسی جھنڈے بھی دیواروں پر مختلف رنگوں سے نقش کرنا چاہتے ہیں

آپ کو ساجد علی کا فن علاقے کی ہر گلی کی دیواروں میں نظر آئے گا، سوائے ایک گلی کے، جہاں ڈاکٹر سبینہ حسین نے اپنے فن/آرٹ کی نمائش کی ہوئی تھی

ڈاکٹر سبینہ حسین کا کہنا ہے ”اس گلی میں تمام فن پارے میں نے نہیں بنائے بلکہ میرے شوہر نے بھی میری مدد کی ہے“

یہ جوڑا فٹبال کا دیوانہ ہے، سبینہ حسین کی پسندیدہ ٹیم جرمنی ہے جبکہ ان کے شوہر برازیل کے مداح ہیں

صدیق گوٹھ کی گلی کو 2006ع میں بھی ڈاکٹر سبینہ حسین نے سجایا تھا، جب وہ بہت چھوٹی تھیں اور اب ان کی شادی کے بعد شوہر نے اس کام میں ان کا ساتھ دیا ہے

وہ کہتی ہیں ”اس بار ہم نے اس جگہ کی اس طرح رنگ آمیزی کی ہے کہ یہ علاقہ مِنی قطر لگے“

انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ”اس سے قبل ہم اس جگہ کو مِنی روس، مِنی برازیل، مِنی جنوبی افریقہ اور مِنی جرمنی بھی بنا چکے ہیں“

فٹبال کے شوقین ان مداحوں کی محنت کے باعث گلی سے باہر نکلنے کے بعد کوئی بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، جو لوگ کھیل میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کھیل کے دلدادہ ہیں ان کے لیے صدیق گوٹھ میں بہت کچھ ہے، یہاں کے آرٹ، پینا فلکس، پرنٹس، ماما برازیل وغیرہ سے آپ یقیناً لطف اندوز ہوں گے

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ملیر کا خوابوں جیسا علاقہ مانا جانے والا صدیق گوٹھ ’منی قطر‘ بن کر دنیا کے اس بڑے ایونٹ کو بھرپور طریقے سے منا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close