اگرچہ نیدرلینڈز بالآخر صدیوں تک انسانوں کو غلام بناتے رہنے پر معافی مانگنے کے تاریخی اقدام تک پہنچ گیا ہے لیکن ماضی میں غلام بنائے جانے والے ایسے لاکھوں انسانوں کی موجودہ نسل کے نمائندوں کا ماننا ہے کہ صرف معذرت کرنا ہی کافی نہیں ہوگا
یورپی ملک نیدرلینڈز میں انسانوں کو غلام بنائے رکھنے کی ڈھائی سو سالہ طویل تاریخ رہی، اس روایت کے خاتمے کو آج قریب ڈیڑھ سو سال ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے ڈچ حکومت نے باقاعدہ معافی مانگی ہے۔ ملک کے وزیراعظم مارک روٹا نے سرکاری طور پر معافی مانگتے ہوئے کہا ”آج ڈچ حکومت کی جانب سے میں ڈچ ریاست کے ماضی کے اقدامات پر معافی مانگتا ہوں“
وزیراعظم مارک روٹا نے اعتراف کیا ”غلام بنائے گئے افراد اور ان کے آباؤ اجداد کو شدید تکالیف سے گزارنے کی ذمہ داری نیدرلینڈز کی ریاست پر عائد ہوتی ہے“
ڈچ نوآبادی سورینام میں غلام سے آزادی کا ڈیڑھ سو سالہ جشن بھی منایا جائے گا جسے مقامی زبان میں ’کیٹی کوٹی‘ کہتے ہیں، جس کے معنی ہیں ’زنجیروں کو توڑنا‘
تنقید
اس حوالے سے ڈچ حکومت پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ یہ تمام منصوبے متعلقہ ممالک کے ساتھ مشاورت کے بغیر یکطرفہ طور پر بنائے گئے ہیں، جو ان کے نوآبادیاتی رویوں کو ظاہر کرتا ہے
ماضی میں غلام بنائے جانے والے لاکھوں انسانوں کے موجودہ لواحقین جن سے معافی مانگی جانی تھی، ان کا کہنا ہے کہ ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا اور ماضی میں کیے گئے ان جرائم پر صرف معافی مانگنا ہی کافی نہیں ہوگا
نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈم میں شہر سے گزرنے والی بہت سی نہروں میں سے ایک کے کنارے انتہائی امیر شہریوں کے رہائشی علاقے گولڈن بَینڈ میں ہیرن گراخت نامی سڑک پر شہر کے میئر کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے کھڑی جینیفر ٹوش نامی خاتون سیاہ فام باشندوں کی میراث سے متعلق ایمسٹرڈم کے سیاحتی دورے کرانے والی تنظیم ’بلیک ہیریٹیج ٹورز ایمسٹرڈم‘ کی بانی ہیں
جینیفر ٹوش خود تو امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں لیکن ان کے والدین کا تعلق سوری نام سے تھا۔ وہ ایمسٹرڈم کے میئر کی سرکاری رہائش گاہ کے مرکزی دروازے کے سامنے زمین پر نصب ایک چوکور دھاتی یادگار کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جس پر لکھا ہوا ہے: ”جب تک یاد زندہ ہے، دکھ رائیگاں نہیں جائے گا۔‘‘
یہ عمارت 1672ع میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی تعمیر کروانے والے کاروباری شخص کا نام پاؤلوس گوڈین تھا۔ وہ ’ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی‘ کے منتظمین میں سے ایک تھا۔ ہیرن گراخت کینال کے کنارے رہنے والے اپنے دیگر ہمسایوں کی طرح یہ شخص بھی اپنے دور کا بہت امیر تاجر تھا۔ اس نے بھی اپنی دولت کا کم از کم ایک بڑا حصہ انسانوں کو غلام بنانے سے ہی حاصل کیا تھا
نیدرلینڈز میں غلامی کی تاریخ
انسانوں کو غلام بنانے اور ان کی تجارت کے صدیوں پر محیط دور میں نیدرلینڈز میں بحری جہازوں کے ذریعے افریقہ سے تقریباً چھ لاکھ انسان غلام بنا کر لائے گئے تھے۔ غلاموں کی یہ تجارت بحر اوقیانوس کے آر پار انسانوں کی تجارت کے مجموعی حجم کے تقریباً پانچ فی صد کے برابر تھی۔ ان غلاموں کو بعد ازاں سوری نام اور کُوراکاؤ کی ڈچ نوآبادیوں کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکی براعظموں میں کئی دیگر یورپی ممالک کی نوآبادیوں میں بھی پہنچا دیا گیا تھا
نیدرلینڈز کی طرف سے غلام بنائے گئے افریقی غلاموں کو جبری طور پر بحر ہند میں کئی ڈچ نوآبادیوں میں بھی پہنچایا گیا تھا، جن میں مثال کے طور پر موجودہ انڈونیشیا بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا میں بالی اور جاوا سے غلام بنائے گئے انسانوں کو ان کے ڈچ تاجروں نے تب آج کے جنوبی افریقی خطے میں بھی پہنچا دیا تھا
انسانوں کی اس سمندری مال برداری کے دوران بہت سے غلام ہلاک بھی ہو گئے تھے۔ جو بچ گئے تھے، وہ اور ان کی اولادیں یورپی نوآبادیوں میں کھیتوں میں غلاموں کے طور پر انتہائی سفاکانہ حالات میں مشقت کرتے رہنے پر مجبور کر دی گئی تھیں
صدیوں پہلے کے ایک غلام کی ہولناک کہانی
انسانوں کی غلاموں کے طور پر تجارت کرنے والے ڈچ تاجر ماضی میں کیا کچھ کرتے رہے تھے، اس کی ایک دل ہلا دینے والی مثال والی (Wally) نامی ایک غلام کی بھی ہے۔ ڈچ نوآبادی سوری نام میں 1707ع میں ایسے غلاموں نے جو بغاوت کی تھی، ان میں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والا ایک ’والی‘ نامی غلام والی بھی شامل تھا
اس کی زندگی کی کہانی اس تاریخی نمائش میں بھی شامل کی گئی تھی، جس کا اہتمام گزشتہ برس ایمسٹرڈم کے رائش میوزیم نامی شاہی عجائب گھر میں کیا گیا تھا
والی کو اپنے آقاؤں کی حکم عدولی پر جو سزا دی گئی تھی، اس کے تحت دہکتی ہوئی دھاتی چمٹیوں سے اس کے جسم سے کھال ادھیڑ دی گئی تھی اور بعد ازاں اسے زندہ جلا دیا گیا تھا۔ یہی نہیں والی کی موت کے بعد اس کا سر کاٹ کر ایک نیزے پر چڑھا دیا گیا تھا اور کئی دن تک اس کی اس لیے سرعام نمائش کی جاتی رہی تھی کہ باقی تمام غلام عبرت پکڑیں
حکومتی معذرت کا مقصد
نیدرلینڈز کی ثقافتی تاریخ کی ماہر جینیفر ٹوش کہتی ہیں کہ انسانوں کی غلام بنانے اور ان کی تجارت کی ڈچ روایت ڈھائی صدیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط تھی۔ اس کی باقیات اور اثرات آج کے ایمسٹرڈم میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس شہر کے باسیوں میں ماضی کی غلاموں کی موجودہ نسلیں بھی شامل ہیں
جینیفر ٹوش نے جب 2013ع میں ’بلیک ہیریٹیج ٹورز ایمسٹرڈم‘ کی بنیاد رکھی، تو ان کا مقصد مقامی باشندوں اور غیر ملکی سیاحوں کو ماضی کے ان تلخ حقائق سے آگاہ کرنا تھا، جنہیں صدیوں تک دانستہ طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ جینیفر ٹوش کہتی ہیں کہ وہ جدید ڈچ معاشرے کی میراث اور تاریک ماضی سے متعلق اس مجرمانہ خاموشی کو توڑنا چاہتی تھیں، جو تب تک تقریباً ہر جگہ اختیار کی جاتی تھی
اربوں یورو کا مالی ازالہ، تلافی گروپوں کا مطالبہ
آج کے نیدرلینڈز میں ماضی کے غلاموں کی موجودہ نسلوں کے نمائندہ افراد اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان سے ممکنہ معذرت سے متعلق کوئی مشورہ نہیں کیا اور ماضی کے رویوں سے متعلق صرف کوئی معذرت ہی کافی نہیں ہوگی
سورینام نیشنل ریپئیر کمشین کے سربراہ ارمانڈ زنڈر کہتے ہیں کہ حکومت نے ممکنہ طور پر دو سو ملین یورو اس مقصد کے لیے مختص کرنے کا ارادہ کیا ہے کہ ملک میں انسانوں کو غلام بنانے کے ماضی کے رویوں سے متعلق عوامی شعور بیدار کیا جائے۔ اس کے علاوہ ستائیس ملین یورو اس سلسلے میں ایک نئے میوزیم کی تعمیر کے لیے بھی مختص کیے جائیں گے
ارمانڈ زنڈر کے بقول یہ معمولی سے علامتی اقدامات کافی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا ”جو کچھ جس وسیع پیمانے پر تباہ کیا گیا، اس کی مرمت، ازالہ اور تلافی بھی اسی پیمانے پر کیے جانا چاہییں۔‘‘ زنڈر کے مطابق منصفانہ تلافی اور ازالے کے لیے صرف چند سو ملین یورو نہیں بلکہ اربوں یورو درکار ہوں گے۔