بھوئی گاڑ، ٹیکسلا کا راجا نور محمد نظامی

عاشق فراز

ٹیکسلا کئی بار جانا ہوا ہے اور وجہ وہاں کا میوزیم اور تاریخی مقامات تھے۔ دھرم راجیکا اسٹوپا کمپلیکس ہو یا جولیاں بدھسٹ خانقاہ جہاں چوتھی صدی عیسوی میں چین سے مشہور زائر فاہیان نے آکر کچھ دن گزارے تھے۔

یہ بدھ ازم کا قدیمی شہر رہا ہے جہاں کے دارالعلوم میں کونے کونے سے مشتاقانِ علم آکر اساتذہ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرتے اور علم و ادب کے موتی چنتے تھے۔

ٹیکسلا گندھارا تہذیب و ثقافت کا اہم گڑھ رہا ہے اور یہاں پر سکندر اعظم کے قدم بھی پڑے ہیں۔ ٹیکسلا کے راجہ امبھی کو مطیع بنانے کے بعد سکندر اعظم نے جہلم کا رخ کیا تھا، جہاں ان کی راجہ پورس سے لڑائی ہوئی اور وہی مشہورِ زمانہ گفتگو ہوئی کہ ’وہی سلوک کیا جائے جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے لیے کرتا ہے‘۔

اس ٹیکسلا میں مشہور فلسفی کوٹلیہ چانکیہ نے چندر گپت موریا کی تعلیم و تربیت کی، جنہوں نے بعد ازاں موریہ حکمران خاندان کی بنیاد رکھی اور اسی کے پوتے اشوکا نے بڑا نام کمایا۔

ٹیکسلا سے ہمارا تعلق ایک طرف تو یہ ہے کہ یہیں سے گزرنے والی سڑک سے گاڑیاں گلگت بلتستان کی طرف جاتی ہیں۔

دوسرا تعلق کچھ زیادہ قدیمی ہے، وہ یہ کہ ’ٹیکسلا‘ اور ’داریل‘ چلاس میں الگ الگ بدھسٹ دارالعلوم تھے جہاں سے طلبہ فیض پاتے تھے۔ اسی داریل کے راستے فاہیان سوات اور ٹیکسلا گیا، جس کا ذکر اس کے سفر نامہ A record of Buddhist kingdom ہے۔

گندھارا آرٹ کا اثرورسوخ سوات اور ٹیکسلا سے نکل کر کوہ ہندوکش اور ہمالیہ تک پھیل گیا۔

گلگت بلتستان کے ہمارے دوست محقق پروفیسر عبدالرزاق صاحب نے تو یہاں تک دریافت کیا ہے کہ چلاس کا جسٹیرو شاہ ٹھاٹھا خان، جن کا عہد بقول ان کے 1025 عیسوی سے پہلے کا ہے، وہ ٹیکسلا کے ایک کمانڈر رہ چکے ہیں اور ان کا منصبی نام کراڑ تھا۔

عبدالرزاق صاحب کی کتاب ’دردستان کا ایک نامور قبیلہ‘ میں کراڑ کی نسل پر طویل بحث کی گئی ہے۔ اس حوالے سے عبدالرزاق صاحب نے ٹیکسلا کے مضافاتی گاؤں ’بھوئی گاڑ‘ میں راجہ نور محمد نظامی صاحب کے گھر جا کر مخطوطات اور پرانی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔

سات مارچ 2024 کو میں اور بشارت ساقی بھوئی گاڑ میں تھے اور ہمارے سامنے جناب راجہ نور محمد نظامی صاحب بیٹھے تھے۔ ان تک پہنچ جانا بھی دلچسپ ہے۔

میں اور ساقی دونوں پیر ودھائی اڈہ راولپنڈی سے ایک کار میں بیٹھ گئے، یہ نوشہرہ جا رہی تھی۔ ڈرائیور ایک نوجوان لڑکا تھا جبکہ دوسرا مسافر اس کا کوئی عزیز تھا۔ ہمیں کار والے نے ٹیکسلا ویگن اڈہ پر چھوڑ دیا، وہیں سے نظامی صاحب کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ اڈہ سے دوسری جانب فورڈ ویگن میں بیٹھ کر پہلے فارم نامی جگہ پر اتریں اور پھر وہاں سے بھوئی گاڑ کے لیے رکشہ لے لیں۔

ان کی ہدایت کے مطابق روڈ کے دوسری طرف نکل کر فورڈ ویگن میں بیٹھ گئے۔ یہ سرخ رنگ کی چھوٹی سی ویگن تھی، جو اب شہروں سے غائب ہوتی جا رہی ہے اور کہیں کہیں مضافات میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

بشارت ساقی نے بتایا کہ وہ جب ایبٹ آباد میں پڑھتے تھے تو راولپنڈی سے اسی طرح کی فورڈ ویگن میں جاتے تھے۔

فارم والی جگہ پر اترے تو سامنے کی چھوٹی پہاڑیوں پر ایک بڑا اسٹوپا نظر آیا، جس کا ایک رخ گر گیا تھا۔ قدیمی چین سے چوتھی اور ساتویں صدی عیسوی میں فاہیان اور ہیون سانگ پیدل یہاں ٹیکسلا پہنچے تھے لیکن اب یہاں چین کے ’چنگچی‘ کا راج تھا جس پر بیٹھ کر ہم بھوئی گاڑ کی طرف روانہ ہوئے۔

ایک تنگ سی سڑک جو سیمنٹ کے گارے سے بنائی گئی ہے، کھیتوں کے بیچوں بیچ سے گزرتی ہے، اسی پر چنگچی نے فراٹے بھرنا شروع کیا۔

اردگرد کے کھیتوں میں گندم بالشت بھر اُگ آئی تھی جبکہ سرسوں کے پیلے رنگ کے پھول عجب بہار دیکھا رہے تھے۔ سبزہ و گل سے گزرتے ہوئے ہم ایک چھوٹے سے قصبہ میں داخل ہوگئے جو گاڑ کہلاتا تھا، اسی کے ساتھ جڑا ہوا دوسرا قصبہ بھوئی تھا، دونوں کو ملا کر ’بھوئی گاڑ‘ کہتے ہیں۔ تمام گھر پکی اینٹوں کے بنے ہوئے ہیں جبکہ گلیوں میں کریانے کی چھوٹی چھوٹی روایتی دکانیں تھیں۔

یہیں پر راجہ نور محمد نظامی کا دولت کدہ تھا، جہاں ان کے بیٹے جابر نظامی نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ابھی ہم نے مکان کی دوسری منزل میں موجود ان کی لائبریری میں قدم رکھا تھا کہ وہ خود بہ نفس نفیس پہنچ گئے۔

نظامی صاحب فربہ جسم کے مالک ہیں، آنکھوں میں نظر کے چشمے اور گھنی سفید داڑھی جبکہ طبیعت میں کھلے ڈھلے آدمی ہیں۔ ہم نے اپنا تعارف کرایا ساتھ ہی رازول کوہستانی اور عبدالرزاق صاحب کا حوالہ بھی دیا تو وہ بڑے خوش ہوئے۔

محترم راجہ نور محمد نظامی صاحب کے بارے میں کافی سن رکھا تھا۔ ان کے بارے میں ملکی سطح کے اخبارات، ٹیلی وژن رپورٹس، بی بی سی، الجزیرہ اور سوشل میڈیا پر بھی بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔ ہمارے محترم رازول کوہستانی اور پروفیسر عبدالرزاق صاحب نے بھی ان کا تذکرہ کئی بار کیا تھا۔

لائبریری کے چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھا تو ہر طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آئیں، اتنی زیادہ کہ اینٹوں کی طرح مختلف شیلفوں میں چننی گئی ہیں۔

ان کی لائبریری شاندار ہے جہاں ان کے مطابق 20 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر بہت نایاب اور پرانے ایڈیشنز پر مشتمل ہیں۔ بہت زیادہ مخطوطات اور قلمی نسخے بھی ہیں اور کچھ تو بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کے ہیں۔

تاریخ، تذکرہ نویسی، آرکیالوجی، فرامین، خطوط اور سندیں غرض ایک جہاں حیرت ان کے لائبریری میں محفوظ ہے۔ انگریزی، فارسی، عربی، اردو، پشتو اور ہندکو غرض ہر زبان میں لکھی گئی کتابیں انہوں نے ملک کے طول و عرض سے مال و متاع خرچ کرکے جمع کیا ہے۔

یہیں پر ہم نے گلگت بلتستان کے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ جان بڈلف کی کتاب The tribes of Hindookush کا پہلا ایڈیشن بھی دیکھا جو 1890 میں چھپ گئی تھی۔

ہم نے نظامی صاحب سے مختصر سا انٹرویو کیا، جس میں بھوئی گاڑ، ٹیکسلا اور ہزارہ ڈویژن کی تاریخ، سکندر اعظم کی ٹیکسلا آمد، چندر گپت موریا، اشوکا، اس ریجن میں بدھ ازم کا فروغ، گندھارا آرٹ نیز ٹیکسلا و سوات کا دردستان بروشال اور چینی ترکستان سے تاریخی رشتے جیسے موضوعات شامل تھے۔

کتابیں جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں اور نہ ہی یہ کوئی معمولی شوق ہے۔ اس پہ مستزاد تاریخ اور جغرافیہ کی کتابیں اور وہ بھی ان کے اولین ایڈیشنز جمع کرنا یہ جنون ہے یا خلل دماغ کا ہے یعنی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

علی اکبر ناطق کی ایک مشہور نظم ہے:

ریشم بننا کھیل نہیں ہے!

کس نے سمجھا کیسے بُنے ہیں چاندی کی کرنوں کے تار

کُنجِ جگر سے کھینچ کے لاتے ہیں ہم نُور کے ذرّوں کو

شرماتے ہیں دیکھ کے جن کو نیل گگن کے تارے بھی

ہم کو خبر ہے ان کاموں میں جاں کا زیاں ہو جاتا ہے

کوئی ریشم بُن کے دیکھے ریشم بُننا کھیل نہیں۔

نظامی صاحب سے جب ہم نے کتابوں اور مخطوطات کی تلاش، ان کے حصول میں درپیش مشکلات کا پوچھا تو نظامی صاحب کے ہونٹوں پر ایک گہری اور طویل مسکراہٹ پھیل گئی۔ ان کے آنکھوں کی چمک نے سب کچھ بتا دیا کہ اس دشت کی آبلہ پائی کتنی مشکل اور صبر طلب ہے۔

وہ بتا رہے تھے کہ کن کن شہروں کے گلیوں کی خاک چھانی، کتنی اولڈ بک دکانوں کی دھول کو آنکھ کا سرمہ بنایا اور کن کن کی منت ترلے کیے اور کس طرح اپنی جمع پونجی اس کام میں صرف کر ڈالا ہے۔ ہم حیرت سے بت بنے سن رہے تھے جیسے کہ!

وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں

اس دوران ان کے بیٹے جابر نظامی نے چائے اور کیک سے تواضع کی معلوم ہوا کہ وہ اردو میں شعر کہتے ہیں۔ ہماری فرمائش پر دو غزلیں سنائیں جس سے لگا کہ ان کا شعری ذوق بہت اچھا ہے۔

چائے کے بعد نظامی صاحب ایک اور کمرے میں لے گئے اس میں نوادرات، سکے، ڈاک ٹکٹ، کرنسی نوٹ اور آرٹیفیکٹس کا خزانہ موجود ہے کہ دیکھ دیکھ کر جی نہیں بھرتا ہے۔

بشارت ساقی چوں کہ خود بھی اس طرح کے شغل میں مصروف ہیں لہذا ان کی اور نظامی صاحب کی گفتگو سننے کے لائق تھی۔

میں کبھی ایک تو کبھی دوسرے کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ وہ دونوں کبھی سکوں، ڈاک ٹکٹ، کرنسی نوٹ کی اقسام اور ان کے ادوار گنوا رہے تھے تو کبھی پیتل کے ظروف، تلواروں اور بندوقوں کی قدامت پر اپنا نقظہ نظر پیش کررہے تھے۔

نظامی صاحب اپنی وضع و قطع کے لحاظ سے دیہاتی لگ رہے تھے نیز گفتگو اور رکھ رکھاؤ میں بھی وہی چاشنی اور سادگی تھی جو گاؤں کے لوگوں کا خاصہ ہے۔

بظاھر ایک عام سا شخص لگنے والے نظامی صاحب درحقیقت بیحد پڑھے لکھے تھے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے پھر قائد اعظم یونیورسٹی سے تاریخ میں ماسٹر کیا اور یہی سے ایم فل بھی کیا ہے۔ اور آگے دیکھئے کہ انہوں نے شوق کی خاطر سنٹر فار سنٹرل ایشیاء سٹڈی سے آرکیالوجی میں ڈپلومہ حاصل کیا ہے۔

درجنوں اسکالرز یہاں بھوئی گاڑ ان کی لائبریری میں تشریف لائے، کئی طالب علموں نے یہاں سے فیض پا کر ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا ہے۔ دراصل یہ کوئی عام لائبریری یا آرٹیفیکٹس ڈسپلے سنٹر نہیں بلکہ ایک انسٹیٹیوٹ ہے، جہاں سے علم و فن کے سوتے پھوٹتے ہیں۔

ویسے بھی ٹیکسلا قدیم زمانے میں علم و تمدن کا مرکز رہا ہے اور اسی روایت کو اب نظامی صاحب یہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی قدیمی روح ان کے بدن میں ہے جو ماضی اور حال کو جوڑ رہی ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close