پنجشیر میں طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان گھمسان کی جنگ، احمد مسعود کی امریکا سے مدد کی اپیل

ویب ڈیسک

کابل : افغان صوبے پنجشیر میں طالبان اور احمد مسعود کی سربراہی میں قومی مزاحمتی فرنٹ کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے، جس میں دونوں جانب سے کامیابی کے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں

عالمی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پنجشیر میں طالبان اپنے سب سے زیرک کمانڈر قاری فصیح الدین کی قیادت میں جنگ لڑ رہے ہیں، جب کہ قومی مزاحمت فرنٹ کی سربراہی سابق شمالی اتحاد کے مقتول امیر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے ہاتھوں میں ہے، جنہوں نے طالبان کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے گزشتہ روز امریکا سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے اسلحہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے

دونوں فریق ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کے متضاد دعوے کر رہے ہیں۔ قومی مزاحمتی فرنٹ نے طالبان کے تین سو جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جب طالبان نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحمت کاروں کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے

واضح رہے کہ اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے بعد ملک کے نائب صدر امر اللہ صالح نے نگراں صدر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے پنجشیر میں ہی پناہ لی ہے اور اب وہ احمد مسعود کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ جبکہ اشرف غنی کے بھائی نے امراللہ صالح کو ٹھگ قرار دیا ہے

امراللہ صالح نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ طالبان پنجشیر وادی کے داخلی راستوں پر جمع ہوگئے ہیں۔ قومی مزاحمتی فرنٹ نے درۂ سالانگ بند کر دیا ہے اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں آنے سے گریز کرنا چاہیے۔ طالبان اندر داخل ہوئے، تو انہیں اندراب وادی کی طرح پنجشیر میں بھی بھاری نقصان اُٹھانا پڑے گا

جبکہ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے درۂ سالانگ بند کرنے کے امراللہ صالح کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پنجشیر مکمل طور پر طالبان کے محاصرے میں ہے اور ہماری خواہش ہے کہ مذاکرات سے معاملات حل ہوجائیں. طالبان کے ترجمان نے اپنے بیان میں صوبہ بغلان کے ضلع بنوں، پل حصار اور دہ صلاح پر قبضے کا بھی دعویٰ کیا ہے

افغان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللّٰہ مجاہد کا کہنا ہے کہ افغانستان کے صوبے پنج شیر میں بہت کم لوگ جنگ چاہتے ہیں

انہوں نے مزید کہا ہے کہ پنج شیر کے با اثر افراد اور رہنما ہمیں بار بار یہ پیغام بھجوا رہے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے

ترجمان طالبان ذبیح اللّٰہ مجاہد کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پیغام کا مطلب ہے کہ پنج شیر کے لوگ لڑنا نہیں چاہتے

اس سے قبل طالبان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو جاری کی گئی تھی، جس میں طالبان جنگجوؤں کو افغان فوجی سازومامان کے ساتھ پنجشیر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے

العربیہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق احمد شاہ مسعود کے بتیس سالہ بیٹے احمد مسعود کا کہنا ہے کہ ہم نے سوویت یونین کا مقابلہ کیا تھا اور ہم طالبان کا مقابلہ کریں گے

رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان نے احمد مسعود کو کابل کے شمال میں واقع وادی پنج شیر حوالہ کرنے کے لیے چار گھنٹے کا وقت دیا تھا، جہاں احمد مسعود کے علاوہ افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح بھی موجود ہیں

احمد مسعود نے کہا کہ میں اپنے زیر قبضہ علاقے کسی صورت طالبان کے حوالے نہیں کروں گا، تاہم مفاہمت کا عندیہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن اور سیکیورٹی کی شرط پر طالبان کو اپنے والد کا قتل معاف کرنے کے لیے تیار ہوں

قبل ازیں احمد مسعود نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ میں آج وادی پنچ شیر سے لکھ رہا ہوں اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کو تیار ہوں. میں مجاہدین کے ساتھ ہوں جو ایک مرتبہ پھر طالبان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں

احمد مسعود نے اپنے جنگجوؤں کے لیے امریکا سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے اسلحے کی فراہمی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہمیں مزید اسحلہ، بارود اور دیگر سازوسامان کی ضرورت ہے

یاد رہے کہ کابل میں طالبان کے دوبارہ کنٹرول کے بعد احمد مسعود نے مطالبہ کیا تھا کہ طالبان کی شراکت سے ملک میں ایک نمائندہ حکومت تشکیل دی جائے. انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر طالبان نے اقتدار میں شراکت کے حوالے سے مذاکرات نہ کیے تو جنگ ناگزیر ہوگی

واضح رہے کہ افغانستان میں بغلان کے بعد پنجشیر واحد صوبہ جہاں اب تک طالبان فتح حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ تخار، کپیسا، پروان اور نورستان کی سرحدوں متصل پنجشیر کی آبادی سترہ لاکھ تین ہزار ہے اور صوبائی دارالحکومت بازارک سمیت ساتوں اضلاع پر شمالی اتحاد کا کنٹرول ہے

یہ بات ذہن میں رہے کہ طالبان نے افغانستان کی وادی پنج شیر کے سوا دیگر تمام علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنج شیر، طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری مرکز ہے جہاں مخالف جنگجو جمع ہوگئے ہیں

کابل کے شمال میں ہندوکش کے بلند پہاڑوں کے بیچ میں واقع وادی پنج شیر ماضی میں بھی طالبان کے خلاف مزاحمت کی علامت رہی ہے، جب احمد شاہ مسعود نے سوویت یونین کے خلاف جنگ اور اس کے بعد 2001ع میں قتل تک طالبان اور دیگر فورسز سے محفوظ رکھا.

یہ بھی پڑھئیے:

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close