عجب آزاد مرد تھا…

غلام رسول بلوچ

گُل حسن کلمتی جو کہ خداداد قابلیت، صلاحیت کا مالک اور دلکش شخص تھے، اور جنہیں بہت سی دلچسپیوں اور بہت سے کاموں کی تکمیل کی خاطر زندہ رہنا چاہیئے تھا، لیکن انہوں نے 17 مئی 2023 کو داعیِ اجل کو لبیک کہا اور راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ گل حسن کلمتی ایک حساس دل انسان تھے اور عقاب سی تیز نگاہ رکھتے تھے۔ مردم شناسی ان کا ایک خاص وصف تھا۔ یارانِ زندہ دل کی صحبت میں ان کا شستہ مزاج اور حاضر جوابی ساری محفل پر چھا جاتی تھی

جب گل حسن کلمتی کا جسم آخری سفر پر مُلا عرضی گوٹھ سے نکلا تو اپنے محترم محقق، دانشور، شفیق دوست اور سیاسی و سماجی رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے عقیدت مندوں اور چاہنے والوں کا ایک سیلِ بے پناہ موجود تھا۔ سیکڑوں نفوس حسرتِ آنکھ سے جلیل القدر کا آخری دیدار کر رہے تھے۔ بد قسمتی سے میں ان سیکڑوں نفوس میں شامل نہیں تھا، اس فروگزاشت پر میں تاحیات شاید اپنے آپ کو معاف نہیں کر پاؤں گا

وہ اسی سال علیل ہو گئے تھے، لیکن گوشہ نشین نہیں ہوئے تھے، بلکہ ادبی، سیاسی اور سماجی روابط پہلے سے بھی زیادہ ہوگئے تھے۔ ما سوائے چند دنوں میں خانہ نشیں رہے ہونگے۔ لیکن انہوں نے زندگی بھر کبھی بھی اپنے آپ کو ایک محدود دائرے میں رکھنا پسند نہیں کیا تھا۔ وہ علالت کے دنوں میں بھی تنہائی کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ ان کے عقیدت مند ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ تھے۔۔کیونکہ کلمتی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، وہ عام انسان سے محبت رکھتے تھے۔ وہ اپنی کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی سے بھی محبت رکھتے تھے، بقولِ ٹالسٹائی کے محبت خدا کی طرف سے ہے، جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو بھی نہیں پہچانتا کیونکہ خدا محبت ہے

بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں زندگی کے مختلف شعبوں میں ناانصافی اور زیادتیاں عام سی بات ہو گئی ہے۔ اور اسی طرح ہماری سیاست میں خوشامد کلچر اپنے عروج پر ہے۔ اپنے من پسند لیڈر کی ہر بات کا دفاع کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں عدل اور انصاف کے راستے کو ترک کر دیا جاتا ہے۔ اس کی زندہ مثالیں ملیر میں بحریہ ٹاؤن، ڈیفیس سٹی اور ملیر ایکسپریس کی صورت میں موجود ہیں۔ اسی طرح احتجاج کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے اور ہر دؤر میں احتجاج بھی ہوتا رہا ہے۔ گل حسن کلمتی نے اسی تاریخ کو دہراتے ہوئے بہ حیثیت ایک سچے اور عملی قلمکار کے ہر فورم پر بحریہ ٹاؤن، ڈیفیس سٹی اور ملیر ایکسپریس کے خلاف احتجاج کیا۔ اور اس کے علاوہ انہوں نے سماجی نابرابری کے خلاف یا حقوق انسانی اور حکومت وقت کے خلاف، معاشی جبرو معاشی تقسیم کے خلاف، سیاسی نظام کے سیاسی بد عنوانیوں کے خلاف اور فہم و ادراک کے خلاف احتجاج میں ہراول دستے میں صف اول میں دکھائی دیئے

گل حسن کا شمار سندھ کے ان عظیم اور ممتاز محقق اور تاریخ دانوں میں ہوتا ہے، جن کا نام ان کے وقار، شان و شوکت، علم و ادب میں سر بلندی سیاست و فراست کی وجہ سے صفحہ تاریخ پر ہمیشہ درخشاں ستارے کی مانند چمکتا رہے گا، کیونکہ گل حسن کلمتی وہ کردار ہے، جنہوں نے سندھ کی تاریخ میں کئی مرکزی کردار، جو گمنام ہوگئے تھے یا گمنام رہ گئے تھے، انہیں آشکار کیا

انہوں نے تاریخ کو عوامی نقطہ نظر اور حقیقی نقطہ نظر سے دیکھا اور لکھا تاکہ نئی نسل کو یہ علم ہوکہ ہمارے لوگ کس قسم کے حالات سے گذرے، انہوں نے حکمرانوں کے ظلم و تشدد کا کیسے مقابلہ کیا ہے، انہوں نے اپنے حقوق کی کیا لڑائیاں لڑیں اور سندھ کی سماجی و معاشی ترقی میں کیا کردار ادا کیا۔ اس طرح کے ادیب، دانشور، محقق اور اہل فکر ہر قوم میں ہر دور میں رہے ہیں جنہوں نے خطرات کو سامنے پاکر بھی دل کی بات کہی

گل حسن کلمتی نے بھی آنے والے خطرات، قومی بے سمتی اور طاقتور طبقات کی لوٹ کھسوٹ، معاشرتی نا انصافی اور عدم مساوات کے موضوعات کو آشکار کیا، اور غریبوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہمیشہ ان کے موضوع رہے ہیں

اب تک ان کی دس کتابیں شایع ہو چکی ہیں جن میں سر فہرست، سندھو جی سفر کہانی، کراچی سندھ جی ماروی (سندھی اور انگریزی زبان میں) سسئی جی واٹ، برف جو دوزخ، کالاش کافرن جو دیس، ہک رٹھل شہر جی کہانی، کراچی جا لافانی کردار، عشق جوں گلیون، سندھ جا سامونڈی بیٹ، کراچی، انگریز دور جوں مشہور عمارتوں شامل ہیں اس کے علاوہ پانچ کتابیں اشاعت کے لئے پبلشر کے پاس موجود ہیں۔

یہاں اگر کسی نے میدان سیاست میں اتر کر ملک و ملت کی گیسوئے برہم سنوارا، تو گل حسن کلمتی نے بھی زبان و بیان اور قرطاس و قلم کو میدانِ عمل بنا کر پیام حق کو چار دانگ عالم میں پہنچایا۔ گل حسن کلمتی کی رحلت صرف ایک فرد کا حادثہ نہیں، قرطاس و قلم کے ایک عہد کا خاتمہ ہے

آہ! اب وہ قلم خاموش ہو گیا جو ملیر وسندھ کے صحرائے بے کنار میں بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم کا پتہ دیتا تھا۔ الفاظ و حروف کی وہ مشعل بے نور ہو گئی، جو ملیر و سندھ کے دشت وبیابان میں علم و ادب کے چراغ روشن کیا کرتا تھا، وہ خامہ حقیقت رقم ساکت ہوگیا جو سوئے ہوئے ضمیروں میں حوصلہ سر فروشی اور ٹھٹھرے ہوئے اعصاب میں جرات و بے باکی کی برقی لہر دوڑا دیا کرتا تھا۔ جب تک لفظ اور حروف کے ساتھ سندھ آباد رہے گا، گل حسن کلمتی کا نام بھی ایک معتبر حوالے کے طور پر جگمگاتا رہے گا۔۔

شمعِ روشن بجھ گئی، بزم سخن ماتم میں ہے۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close