پی ٹی آئی کی کشتی سے چھلانگ لگاتے رہنما، عمران خان کی نئی حکمتِ عملی اور ان کا ملٹری ٹرائل

ویب ڈیسک

پاکستان تحریک انصاف اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس کے متعدد رہنما ’پریس کانفرنس‘ کر کے ایک ہی متن پڑھ کر پارٹی یا سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ ان دنوں پاکستان میں ’پریس کانفرنس‘ کو ’پریشر کانفرنس‘ کا نیا نام دیا گیا ہے

اس صورتحال کے پیشِ نظر کہا جا رہا ہے کہ جماعت کو انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن حیران کن طور پر عوامی سطح پر کیے گئے سرویز میں پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے گزشتہ دنوں کہا کہ میں اکیلا تب ہونگا، جب میرا ووٹر مجھے چھوڑ کر جائے گا

حال ہی میں عمران خان نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جو لوگ اس وقت پارٹی چھوڑ گئے ہیں ان کی جگہ وہ نئے نوجوانوں کو پارٹی میں جگہ دیں گے۔ جبکہ ان کا خیال ہے کہ وہ اس وقت تک سیاسی طور پر مظبوط ہیں جب تک ان کا ووٹ بینک اور سپورٹ قائم ہے

عمران خان کا کہنا ہے کہ پُرامن احتجاج ان کے کارکنوں کا بنیادی حق ہے اور یہ کہ ان کی پارٹی کے ارکان اور کارکنوں پر پارٹی چھوڑنے کے لیے سخت دباؤ ہے اور ان پر جبر کیا جا رہا ہے

عمران خان کے قریبی حلقے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ وہ 9 مئی کے واقعات کے منفی اثرات سے خود کو اور اپنی جماعت کو بچانے کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دے چکے ہیں اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا ہے

لوگوں کی بڑی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ اب پی ٹی آئی کو کھلے عام سپورٹ کرنے سے خوف زدہ ہیں، اس لیے فی الحال وہ خاموش ہیں

پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کے مطابق عمران خان انتخابی سیاست اور پاکستان کے سیاسی ماحول کے مطابق اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں

انہوں نے کہا ”یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ختم ہو رہی ہے یا اس کا کردار محدود ہو رہا ہے بلکہ درحقیقت اس کی مقبولیت اور ووٹ بینک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جن جن حلقوں سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں یا امیدواروں نے پارٹی چھوڑی ہے، وہاں سے نئے اور نوجوان کارکن سامنے آرہے ہیں اور درحقیقت پارٹی کو موقعہ مل گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو سامنے لایا جائے“

رؤف حسن کہتے ہیں ”پی ٹی آئی کے نوجوان ورکر اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور حلقوں میں لوگ تحریک انصاف چھوڑ کر جانے والوں کو ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمیں انتخابی مہم چلانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اب لوگ بے شعور نہیں رہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ جس کے پاس پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہوگا، وہی جیتے گا“

رؤف حسن کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف کو غیر جمہوری طریقوں سے انتخابات سے باہر کیا جاتا ہے یا نقصان پہنچایا جاتا ہے تو ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور قانونی عمل کا سہارا لیں گے

دوسری جانب پی ٹی آئی سپوٹرز بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عمران خان مقبولیت کی اس بلندی پر ہیں کہ وہ جس کسی کو بھی پارٹی کا ٹکٹ دیں گے وہ آئندہ ہونے والے الیکشن میں کامیاب ہوگا

”عمران خان ہی پی ٹی آئی ہیں اور ان کے بغیر پاکستان تحریک انصاف کا کوئی مستقبل نہیں ہے“ یہ بات کئی مرتبہ پی ٹی آئی کے سیاسی حریفوں کے علاوہ ان کے حامیوں کی جانب سے بھی کی جاتی رہی ہے

نو مئی کے ہونے والے پرتشدد واقعات کو گزرے کئی دن ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کے اثرات اب تک نظر آرہے ہیں۔ ریڈز، گرفتاریاں، عدالتی پیشیاں اور پھر ملٹری کورٹس میں عام پاکستانیوں کا مقدمہ چلنا۔ ان تمام باتوں نے خوف کی فضا پیدا کر دی

تاہم اب بڑی حد تک سوشل میڈیا پر بھی پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں نے 9 مئی کے واقعات کے اثرات سے باہر آنا شروع کر دیا ہے اور ان سے منسلک اکاؤنٹس دوبارہ سے جارحانہ مہم چلا رہے ہیں

گذشتہ چند روز سے کچھ ایسے ٹرینڈز چلائے گئے ہیں جن کے ذریعے پارٹی چھوڑنے سے انکار کرنے والوں اور ان کے بیانات کو فروغ دیا گیا ہے اور پارٹی کے مخالفین اور اس سے استعفیٰ دینے والوں پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ساتھ پارٹی کو کچلنے کے لیے جاری ریاستی جبر کو بھی نمایاں کیا جا رہا ہے

سینیئر سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں ”عمران خان کی موجودہ حکمت عملی یہ ہے کہ وہ پارٹی کو پہنچنے والے نقصانات کو جتنا کم کر سکیں کریں۔ فی الحال وہ نقصانات پر قابو پانے اور یہاں سے پارٹی کو آگے لے جانے کے لیے ایک حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ مقدمات سے ضمانتیں حاصل کرتے رہیں اور انتخابات آنے تک نقصانات کم کر کے پھر انتخابی سیاست کے لیے ایک واضح لائحہ عمل اختیار کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان اپنی تقاریر کے ذریعے کارکنوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔“

ملک کی انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی احمد اعجاز کا کہنا ہے کہ خود کو نااہلی سے بچانا اور انتخابات کی طرف جانا عمران خان کی حکمت عملی کا اب بھی اہم پہلو ہے۔ عمران خان کے پیش نظر پارٹی چھوڑ کر جانے والے نہیں بلکہ یہ ہے کہ انہوں نے خود کو نااہل ہونے سے کیسے بچانا ہے۔ کیونکہ انہیں پتا ہے کہ چھوڑ کر جانے والوں کی جگہ ایسے افراد موجود ہیں جو ان کے ٹکٹ پر الیکشن جیت سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کروانا چاہتے ہیں۔ اب ان کے لیے مسئلہ اکتوبر میں الیکشن کا انعقاد نہیں بلکہ انتخابات کا انعقاد ہے“

تاہم احمد اعجاز کے بقول، عمران خان سیاسی طور پر بہت کمزور ہو چکے ہیں اور انتخابات سے پہلے ان کی گرفتاری ان کی پارٹی کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہے

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں ”9 مئی کے واقعات عمران خان کا تعاقب کر رہے ہیں۔ اگر وہ اس راستے پر رہیں گے جس پر اب ہیں تو دیکھنا ہو گا کہ وہ اس پر چل کر انتخابات تک پہنچ سکیں گے یا نہیں“

مجیب الرحمان شامی نے کہا ”دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ آزادانہ حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ وہ میدان میں موجود نہ رہیں۔“

تجزیہ کار نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ چیزیں تھوڑی مختلف ہیں۔ کریک ڈاؤن کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ پی پی پی کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا تھا

اس بار یہ فرق بھی ہے کہ اگر لوگ پکڑے نہیں جا رہے تو ان کے خاندان کے لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے۔ کسی کے سسر کو تو کسی کے بیٹے کو پکڑا گیا۔ اگر کوئی رہنما بیرون ملک ہے تو اس کے چھوٹے بھائی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ حتیٰ کہ گھر کی عورتوں کو بھی گرفتار کیا گیا یا انہیں دھمکیاں دی گئیں

سب کو پتا چل رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس کریک ڈاؤن میں پولیس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھی ہیں جو لوگوں کو جا کر ہراس کر رہے ہیں پکڑ رہے ہیں

ان کا کہنا ہے اس بار سب کچھ کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ اس مرتبہ جو انتظامیہ کا اور عدلیہ کا مقابلہ چل رہا ہے وہ پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا

نسیم زہرہ کے مطابق ’عدلیہ اگر لوگوں کو بیل دیتی ہے تو انتظامیہ یعنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ رہا ہونے والوں کو دوبارہ گرفتار کر لیتے ہیں۔ مختلف لیڈر ہیں پی ٹی آئی کے تین تین چار چار مرتبہ پکڑے گئے اور چھوڑے گئے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کو لے لیں، علی محمد خان کو دیکھ لیں۔ فواد چوہدری کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے، وہ تو بھاگ کر جا رہے تھے کہ کورٹ سے ضمانت لے لیں تاکہ پھر نہ پکڑے جائیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ سب آپ کے سامنے ہے، سب کو پتا ہے کیا ہو رہا ہے کون کر رہا ہے۔ کلئیر کٹ اپروچ اور پلان ہے کہ توڑ پھوڑ کر پی ٹی آئی کو ختم کرنا ہے۔‘

آپ نے دیکھا کہ جہانگیر ترین فوراً اٹھ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ق میں تھوڑی سی جان زیادہ پڑی ہے۔ ابھی واضح نہیں کہ شاہ محمود قریشی اور تین چار اور لوگ تحریک انصاف سے جڑے رہیں گے یا نہیں؟

عمران خان کے فوجی عدالت میں ٹرائل پر حکومت تقسیم

پاکستان میں نو مئی کو ہونے والے پر تشدد واقعات کے تناظر میں ان واقعات کی منصوبہ بندی کے الزام میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے پر غور کیا جا رہا ہے

وفاقی کابینہ کے اہم وزراء اپنی پریس کانفرنسوں میں اس کا عندیہ بھی دے چکے ہیں تاہم معلوم ہوا ہے کہ اس معاملے پر حکمراں اتحاد اور خود مسلم لیگ ن کے اندر بھی تقسیم پائی جاتی ہے

حکمراں اتحاد کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر نہ صرف حکومت میں شامل جماعتوں میں مشاورت ہوئی ہے بلکہ تمام اتحادی جماعتوں نے اپنے طور پر بھی غور کیا ہے

’اس غور و خوض کے نتیجے میں ابھی تک جو رائے سامنے آئی اور جس کے حوالے سے وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے سے گریز کیا جائے۔ تاہم مسلم لیگ ن کے اندر سے کچھ رہنما اور جمیعت علمائے اسلام ف کی جانب سے اس معاملے پر لچک نہ دکھانے کی تجویز سامنے آئی ہے‘

حکمراں اتحاد میں شامل بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے اندر بھی عمران خان کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے حوالے سے رائے منقسم ہے۔ جہاں مریم نواز، رانا ثناءاللہ اور کسی حد تک خواجہ آصف ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے حامی ہیں وہیں شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور کچھ دیگر اس کی مخالفت کر رہے ہیں

لیکن ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے کی مخالفت کی وجہ جمہوری روایات کی پاسداری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس خوف کی وجہ سے ہے کہ اگر آج ایک سابق وزیراعظم کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگیا تو پھر یہ دروازہ کھل جائے گا اور ہمارے وزیراعظم کی باری بھی آ سکتی ہے۔‘

حکمراں اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو سیاسی کارکنان بالخصوص قیادت کی فوجی عدالتوں کے ٹرائل کی حامی نہیں ہے لیکن تاحال عمران خان کے حوالے سے حتمی رائے قائم نہیں کر سکی، لیکن یہ ضرور ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے ایک بیان میں عمران خان کے خلاف ملٹری ٹرائل کی حمایت کا عندیہ دے چکے ہیں

تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ وہ کسی ایسے کام کی حمایت نہیں کرے گی جو آئین اور قانون کے خلاف ہوگا

حکمراں اتحاد کی تیسری بڑی جماعت جمیعت علمائے اسلام ف ہے جو اس معاملے پر سب سے سخت موقف اپنائے ہوئے ہے۔ جے یو آئی ف کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری کہتے ہیں ’اب تک سامنے آنے والی آڈیوز، ویڈیوز سے ثابت ہوتا ہے کہ کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو سمیت تمام فوجی عمارات اور تنصیبات پر حملے ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوئے اور اس کے ماسٹر مائنڈ عمران خان ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے ’جب یہ بات واضح ہے کہ انھوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کروائے تو پھر ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کیوں نہیں ہونی چاہیے؟‘

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں حکمراں اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی اور اے این پی نے مشاورت کے بعد اپنا موقف دینے کے لیے وزیراعظم سے کچھ وقت مانگ لیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close