سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط33)

شہزاد احمد حمید

ہم سمر نالے کے کنارے بنے پلیٹ فارم نما چبوترے پر چلے آئے ہیں اور نالے کے پانی میں رکھی چارپائیوں پر جا بیٹھے ہیں۔ نالے کا ٹھنڈا پانی جھاگ اڑاتا ہم پر چھینٹے پھینکتا پلیٹ فارم کو چھوتا گزرتا ہے۔ سمر نالے پر گرم تندوری روٹی، ماش کی دال اور گرما گرم چائے کے کپ نے ہمیں تازہ دم کر دیا ہے۔ یہاں سے چلے تو میرا دوست سندھو، جو گہرائی میں بہہ رہا ہے، بولا، ”کہانی جاری رکھوں نا میں؟ تم کہیں سن سن کر تھک تو نہیں گئے ہو؟“ میں نے جواب دیا، ”دوست تم سناتے جاؤ۔۔ نہ میں سنتے تھکوں گا اور نہ ہی بیزار ہوں گا۔“

سندھو داستان آگے بڑھاتے کہنے لگا، ”دیکھو میں ’کنڈیا وادی‘ پہنچ گیا ہوں۔ اس وادی کو سبز پہاڑوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ گیت گاتے دریا، رقص کرتے آبشار، گنگناتی ہوا۔ سبھی کنڈیا وادی کا خاصا ہیں۔ داسو کے بالمقابل پہاڑوں میں گھری یہ وادی ضلع کوہستان کا خوبصورت ترین حصہ ہے۔ تنگ بل کھاتے خطرناک راستے ندی نالوں کے ساتھ ساتھ اس وادی کے مختلف دیہاتوں کو جاتے ہیں۔ اس قدیم وادی میں آباد ’دارد نسل‘ کے لوگ اجڈ، غریب اور لڑاکے ہیں۔ بات بات پہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ خواتین کے لئے ان کا شوہر ہی سب کچھ ہے۔ پردے کی سخت پابند ہیں۔ کوہستان کو ’اباسین کوہستان‘ (پہاڑوں کا باپ) بھی کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہاں سے راستے وسطی اور شمال مشرقی ایشیائی ریاستوں کو جاتے تھے، آج بھی موجود ہیں لیکن قابلِ استعمال نہیں اور نہ ہی کو ئی ان کو استعمال کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ سر سبز کھیت، جھاگ اڑاتی ندیاں، اونچے پہاڑ، آسمان سے باتیں کرتی چوٹیاں۔ میں اس وادی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا اونچے پہاڑوں کے بیچ سے بہتا ہوں۔ یہ علاقہ کیا تمہیں scotish highland of britian کی یاد نہیں دلاتا۔ انگریز تو اسے ’اسکاٹش سطح مرتفع‘ سے ہی تشبیہ دیتے تھے۔ یہ خطہ امیر تیمور کی حکومت کا حصہ بھی رہا۔1703ء میں سواتیوں نے یہاں قبضہ کیا تو تھاکوٹ کا قلعہ بھی ان کے ہاتھ لگ گیا۔“

یہاں دیا میر بھاشا ڈیم کی سائیٹ پہاڑ کے دامن میں دور تک پھیلی ہے۔ کہتے ہیں یہاں سے پیدا ہونے والی توانائی ہماری بجلی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد گار ہوگی۔ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، چینی تعمیراتی کمپنی اس ڈیم کی تعمیر کا کام زور و شور سے شروع کر چکی ہے

سندھو نے ہماری گفتگو سن لی ہے۔ مجھے اس کا قہقہہ جیپ میں سنائی دیا، ”دوست! منصوبے پر تاخیر سے منصوبے کی لاگت ہی نہیں بڑھتی بلکہ کمیشن بھی بڑھ جاتا ہے۔ تم لوگ غیر قانونی طریقوں سے مال بنانے کے عادی ہو، مال بنایا، کھایا پیا ہضم۔ ہاتھ پہ ہاتھ مار۔ یہ جا وہ جا۔ پاناما لیکس ہی کو یاد کر لو۔ کرپٹ انسان کے لئے غیرت نہیں دولت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔۔ افسوس صد افسوس۔ شرم کی بات ہے کہ سابق نااہل وزیر اعظم کی بیٹی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کرتی رہی جن پر موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ لگی تھی۔ آفرین میڈیا ہاؤسز پر بھی کہ ایک آدھ بار یہ خبر ٹی وی کی زینت بنا کر ایسی غائب کی کہ پھر نظر ہی نہیں آئی۔ لالچ اور دھمکی کا صحافت میں بڑا عمل دخل ہو گیا ہے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنا رواج بن گیا ہے۔ سیاست دان بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جعلی اور بوگس دستاویزات جمع کرواتے ہیں اور اللہ کی عدالت کو تو بھول ہی جاتے ہیں۔ بڑی ڈھٹائی سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ مجھے عطا اللہ شاہ بخاری ؒ کا ایک قول یاد آ گیا۔ انہوں نے کہا تھا ’میں زندگی بھر دو لوگوں کو ڈھونڈتا رہا۔ پہلا جس نے اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اور وہ مفلس ہو گیا ہو۔ دوسرا جس نے ظلم کیا اور وہ اللہ کے غضب سے بچ گیا ہو۔‘ بات سمجھ کی ہے۔۔انصاف کے اداروں کا بھی برا ہی حال ہے۔ پولیس والے ہوں یا عدلیہ والے۔ سبھی اس حمام میں ننگے دھڑنگے ہیں۔کبھی چمک کبھی دباؤ ہمارے انصاف کو ہڑپ کر جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ مجرم کو ضمانت دے کر ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ غریب انصاف کو ترستا ہے اور پیسے والا انصاف خرید لیتا ہے۔ ہم سب ہی بکاؤ مال ہیں بس خریدار ہونا چاہیے۔ واہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمیں مر کر اللہ کو جواب دینا ہے۔ کیا یہ جج اللہ کی عدالت میں کوئی جواب دے پائیں گے؟ حضرت علیٰ کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے؛”اقتدار میں انسان پہچانا نہیں جاتا بلکہ بے نقاب ہو جاتا ہے۔“

مجھے سندھو کی بات پر غصہ تو بہت آیا مگر دل میں سوچا؛ ”کہتا تو یہ ٹھیک ہے۔“ وہ بھی میرے چہرے سے میرا موڈ بھانپ کر بولا، ”چھوڑو ان باتوں کو۔ کرپشن، رشوت تمہاری قوم کا مزاج ہی بن چکا ہے۔ خودداری، غیرت اور عزت جیسے الفاظ اب تمہارے معاشرے میں بے معنی ہو چکے ہیں۔ چلو کوئی اور بات کرتے ہیں۔

”سامنے کا منظر ’داسو‘ کی آمد کا اعلان ہے۔۔ داسو میرے دونوں کناروں پر آباد بارونق جگہ ہے۔ مقامی لوگ داسو کو ’کومیلا‘ اور مجھ پر بنے پل کو ’کومیلا برج‘ کہتے ہیں۔ غریب اور پسماندہ کوہستانی لوگوں کی طرح یہ ضلعی صدر مقام بھی پسماندہ مگر بڑا قصبہ ہے۔ جل کوٹ، گبر، شتیال، داریل اور تنگر کی دلکش وادیاں بھی اسی ضلع میں ہیں۔ ان دل فریب وادیوں کو جانے والے راستے انہی وادیوں کے نام سے بہنے والے نالوں کے ساتھ ساتھ ہی جاتے ہیں۔ یہ دشوار اور تنگ راستے ایسے ایسے مناظر دکھاتے ہیں کہ آنکھیں کبھی بھی ان کو بھول نہیں سکتیں۔ یہ سبھی نالے مختلف مقامات پر مجھ میں ہی گرتے ہیں۔“

داسو ڈیم پر آج کل کام تیزی سے جاری ہے۔ سڑک نہایت خراب اور جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔ چلاس سے داسو تک کی مسافت عام حالات میں دو سے اڑھائی گھنٹے میں طے ہو تی ہے آج کل کچھ زیادہ وقت لگتا ہے۔ زیادہ تر ٹرک اور بڑی بسیں اسی راستے پر محو سفر رہتی ہیں۔ مجھے سمر نالہ پر ایک مقامی ٹرک ڈرائیور نے بتایا، ”جناب! پکا ڈرائیور آج بھی یہ سفر اڑھائی گھنٹے میں ہی طے کرتا ہے جبکہ کچا ڈرائیور تو بہت وقت لگا دیتا ہے۔“ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا، ”پکے ڈرائیور سے مراد مجھ جیسا ڈرائیور ہے جو اس راستے پر اکثر سفر کرتا رہتا ہے اور کچے ڈرائیور سے مراد آپ جیسا ہے جو کبھی کبھی کبھار ہی ادھر کا رخ کرتے ہیں۔“ میں نے بحث کرنی اس سے مناسب نہ سمجھی۔ اس نے چائے پی اور اپنی اگلی منزل کو روانہ ہو گیا ہے۔

سندھو بتاتا ہے ”کوہستان کے بعد میں خیبر پختون خوا کے ایک اور پسماندہ اور غریب ضلع ’شانگلا‘ داخل ہوتا ہوں۔ باریش، سخت مزاج لوگوں کی سر ز مین۔“

داسو اونچے پہاڑوں میں کھو گیا ہے۔ آگے دھول اڑاتی ٹوٹی پھوٹی سڑک ہے مگر پہاڑ سر سبز ہیں۔ سندھو دور نیچے گہرائی میں شور مچاتا بہتا ہے۔ سڑک ڈھلوان میں اتر رہی ہے اور میری نظر کے ریڈار میں ابھرتی بستی ’دوبیر‘‘ ہے۔یہاں اکثریت میں آباد ’قریش‘ قبیلہ اپنا ناطہ عرب کے قریش قبیلے سے جوڑتا ہے۔ ان کے بقول ”وہ محمد بن قاسم کے ساتھ ہندوستان آئے تھے اور پھر جب سندھ میں ہندوؤں کی دوبارہ حکومت قائم ہوئی تو یہ ان پہاڑوں میں آن بسے۔“ واللہ اعلم

سندھو مجھے بتاتا ہے ”پہاڑ کی چوٹی سے بہہ کر آتی جھاگ اڑاتی شفاف پانی کی دوبیر ندی اپنی ہم نام بستی کو دو حصوں میں تقسیم کرتی مجھ میں گرنے سے قبل مقامی لوگوں کی آبی ضروریات پوری کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ مجھ میں گر کر اس کا شفاف پانی گدلا جاتا ہے۔“

مجھے لگا یہ ندی کسی فرہاد نے تراشی ہے، کسی نین کے لئے۔۔ لیکن یہ کسی فرہاد کی نہیں بلکہ قدرت کی عنایت ہے کہ اس کا جھاگ اڑاتا سفید شیریں پانی جنت کی سی نہر ہے جو قدرت نے اس خطہ میں بطور تحفہ اتار دی ہے۔اس ندی میں یہاں کی سوغات ٹراؤٹ مچھلی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ ان اونچے پہاڑوں میں بہتا میرا دوست سندھو میدانی علاقے میں بہنے والے سندھو سے یکسر مختلف ہے، جسے ہم بہتا دیکھتے ہیں۔ چٹانوں کے درمیان سے گزرتے یہ غصیلہ دیوتا لگتا ہے۔ بقول ٹی ایس ایلیٹ؛ ’میں دیوتاؤں کے بارے زیادہ علم نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں دریا ایک طاقت ور مٹیالا دیوتا ہے تند مزاج، غصیلا اور غصب کا مالک۔۔‘

”میرا تند مزاج پانی منتظر رہتا ہے کہ آپ غلطی کریں اور میں اپنا غصہ دکھاؤں اور ہمیشہ کے لئے غلطی کرنے والے کو اپنی آغوش میں لے لوں۔“

ان بے رحم وادیوں کی غارت گری سے زیادہ یہاں بسنے والے قبائل کی اپنی تُند خوئی اور سفاکی ان کو باقی ماندہ دنیا سے دور کئے ہوئے ہے۔ یہ میدان جنگ میں اترنے والے نہیں بلکہ گوریلوں کی طرح ’آنکھ مچولی‘ کھیلنے والے لڑاکے ہیں۔ ایسے لوگوں سے جنگ کرنا پانی پر ڈنڈے برسانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم دور کے دانش مند حکمرانوں نے ان کو آپس کی لڑائیوں اور غلاموں کی تجارت کے لئے آزاد چھوڑ رکھا تھا۔

سچ تو یہ ہے ان راستوں میں زمانہ قدیم میں اس جھاگ اڑاتے سندھو اور تیز بہاؤ کی ندیوں کو عبور کرنا ہی پڑتا ہوگا۔ ان ندی نالوں اور دریاؤں کو یا تو گھوڑوں پر عبور ہوتے تھے یا کشتیوں کے پل بنائے جاتے تھے یا رافٹ کے ذریعہ انہیں پار کیا جاتا تھا۔(رافٹ بکری یا گائے کی کھال میں ہوا بھر کر ”willow“ کی چند لکڑیوں سے باندھ دی جاتی تھی جو پانی پر تیرتی تھی۔) بعد کے زمانے میں کھال کی کی جگہ ٹائر کی ٹیوب استعمال ہونے لگی۔ (میں نے بھی ایک بار اس رافٹ میں دریائے سوات میں سیر کی تھی۔)دور جدید میں شاہراہ ریشم جو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلاتا ہے، نے سفر آسان کرکے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ اس سڑک کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کو تو شمار کیا جا سکتا ہے مگر اس پر بہائے جانے والے پسینے، بہادری و شجاعت کی داستانوں اور جان کے نذرانوں کا نقصان شمار کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ (جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close