جنگی قیدی

ڈاکٹر مبارک علی

تاریخ میں جنگیں ہوتی رہی ہیں، جن کے نتیجے میں فتح یاب قومیں اپنے شکست خوردہ مخالفوں کے ساتھ دو طرح کا سلوک کرتے تھے۔ یا تو تمام ہتھیار بند فوجیوں کو قتل کر دیتے تھے یا ان کو غلام بنا کر منڈیوں میں فروخت کر دیتے تھے۔

مصر کے فرعونوں کا یہ دستور تھا کہ شکست کھانے والے فوجیوں کو قتل کر کے ان کا ایک ہاتھ کاٹ دیتے تھے، تاکہ ان کی گنتی کر کے مقتول فوجیوں کی تعداد کا حساب کر سکیں۔ ایتھنز اور رومن ایمپائر میں دُشمن فوجیوں کو قتل کرنے کے علاوہ ان کو غلام بنا کر لایا جاتا تھا۔ ان سے گھریلو محنت مشقت کے کام کرائے جاتے تھے۔

منگولوں کے ہاں کیونکہ غلامی کا رواج نہ تھا، اس لیے وہ شہروں پر قبضے کے بعد آبادی کو قتل کر دیتے تھے اور شہروں کو لوٹ کر آگ لگا دیتے تھے۔

یہ روایت جدید زمانے تک آئی جب ذار پیٹر نے سویڈن کی فوج کوشکست دی تو اس کے فوجیوں کو قیدی بنا کر سینٹ پیٹرز برگ کی تعمیر میں ان سے مزدوری کرائی۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جنگی قیدیوں کے سلسلے میں تبدیلی آئی اور اس بات کو محسوس کیا گیا کہ قیدیوں کے ساتھ انسانی برتائو کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں (1945-1939) کے دوران جنیوا کنونشن میں ضابطہ اخلاق پاس کیا گیا، جس میں جنگی قیدیوں کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں یورپی اقوام نے اس پر دستخط کیے۔

اس ضابطہ اخلاق پر کس قدر عمل ہوا اور کس قدر خلاف ورزیاں ہوئیں، اس کی مثالیں جدید تاریخ میں موجود ہیں۔ لیکن جنیوا کنونشن کی وجہ سے ایک زبردست تبدیلی آئی اور جنگی قیدیوں کو ان کے حقوق کی ضمانت دی گئی۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی اور محوری طاقتوں نے جنگی قیدیوں کے لیے کیمپ بنائے جہاں ان کو رکھا جاتا تھا۔ ریڈ کراس اور دوسرے عالمی ادارے ان کیمپوں کی نگرانی کرتے تھے تاکہ قیدیوں کو جنیوا کنونشن کے تحت سہولتیں ملیں۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران جب انگریز فوجیوں کو قیدی بنایا گیا تو انہیں جرمنی اور اٹلی کے کیمپوں میں رکھا گیا۔ ان قیدیوں کی روز مرہ کی زندگی کیا تھی، وہ اپنا وقت کیسے گزارتے تھے، کیمپوں میں رہتے ہوئے ان کی ذہنی حالت کیا تھی، اس بارے میں Oliver Wilkinson کی کتاب "British Prisoner of War”میں تفصیل دی گئی ہے۔

انگریز فوجیوں کو جن محاذوں سے گرفتار کیا گیا، ان میں فرانس، ناروے، بیلجیم اور شمالی افریقہ تھے۔ جنگی قیدیوں کے لیے جرمنی اور اٹلی میں کیمپ قائم کئے گئے تھے۔ جن کے اردگرد خاردار تار لگائے گئے تھے اور ایک واچ ٹاور تعمیر کیا گیا تھا تاکہ قیدیوں کے فرار کو روکا جائے۔

قیدیوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ ایک آفیسرز کا حلقہ ہوتا تھا اور دوسرا عام فوجیوں کا۔ آفیسر کے لیے کافی مراعات تھیں جبکہ عام فوجیوں سے محنت مشقت کرائی جاتی تھی۔ ان کے رہنے کے لیے بیرکیں تھیں اور کھانے کی مقدار کافی کم ہوتی تھی۔ کیمپ کے گارڈ ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔

جنگی قیدیوں کو اس بات کا افسوس تھا کہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح جنگ میں شریک نہیں ہو سکے اور قید ہو کر بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ کیونکہ ان کے پاس جنگ کے بارے میں کوئی خبر نہیں آتی تھی۔ اس لیے وہ امید اور نا امیدی کے عالم میں رہتے تھے کہ انہیں قید سے رہائی ملے گی یا نہیں؟

وہ اپنے خاندان سے بھی بہت دور تھے اور گھر والوں کی یاد بھی انہیں ستاتی رہتی تھی۔ کیمپ میں رہتے ہوئے وہ آپس میں بھی جنگ کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کر سکتے تھے۔

باہر کی دنیا سے ان کا رابطہ خطوط کے ذریعے ہوتا تھا، مگر ان پر پابندی تھی کہ اپنے خط میں نہ کیمپ کا ذکر کریں گے اور نہ جنگی صورت حال کا۔ مہینے میں خطوط کی تعداد متعین تھی۔

ایک خط میں وہ سولہ سطروں سے زیادہ نہیں لکھ سکتے تھے۔ اگر پوسٹ کارڈز لکھتے تھے تو اس کے لیے چھ سطریں ہونا چاہیے تھیں۔ ان کے یہ خطوط اور پوسٹ کارڈز سینسر ہوتے تھے۔ لہٰذا قیدی بھی محتاط ہو کر اپنے گھر والوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دیتے تھے۔

ان کے پاس جو گھروں سے خطوط آتے تھے، وہ بھی سینسر ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے قیدی بھی تھے جو روز مرہ کے حالات پر ڈائری لکھتے تھے۔ لیکن یہاں بھی وہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ ڈائری میں کوئی ایسی بات نہ ہو جس پر ان کے خلاف کارروائی ہو جائے۔ قیدیوں میں مردوں کی تعداد ہوا کرتی تھی۔

پابندیوں کی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔ قید کی زندگی سے تنگ آکر کچھ قیدیوں نے فرار ہونے کی کوشش بھی کی۔ ‘گریٹ اسکیپ‘ نامی ایک فلم بنائی گئی ہے، جس میں قیدیوں کے فرار ہونے کی کہانی دکھائی گئی ہے۔

ان قیدیوں کا المیہ یہ ہوا کہ جب جنگ کے خاتمے پر جب یہ رہا ہو کر واپس گھروں میں آتے ہیں اور اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کی تو کیمپ کی خاردار تاروں میں گزری زندگی کے سبب ذہنی طور پر انہیں مشکلات پیش آئیں۔

گھر والوں سے دوری اور روز مرہ کے معمولات میں قیدیوں کی زندگی، اس نے اکثر قیدیوں کو ذہنی مریض بنا دیا تھا۔ جن کا علاج ماہر نفسیات نے کیا تاکہ وہ دوبارہ سے نارمل زندگی اختیار کر سکیں۔

آزادی کے بعد کچھ قیدیوں نے اپنی یادداشتیں لکھیں۔ لیکن اکثر قیدی ذہنی طورپر اس قدر متاثر تھے کہ وہ اپنی قید کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتے تھے۔ کیونکہ ایک قیدی کی حیثیت سے انہوں نے جو تکالیف برداشت کی تھیں جیسے ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ مویشیوں کے ٹرکوں میں سفر کرنا، میلوں پیدل چلنا، گارڈز کی سختیوں کو برداشت کرنا، زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہونا، ان مصائب نے ان کی شخصیت، عزت کا خاتمہ کر دیا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ قید کی ان یادوں میں کسی کو شریک کریں۔ انہوں نے ان یادوں کو اپنے ذہنوں تک محدود رکھا اور خاموشی اختیار کی۔

انگریز قیدیوں کی طرح دوسری عالمی جنگ میں جرمن اور اطالوی قیدی بھی تھے اور وہ ہندوستانی بھی جو انگریزی فوج میں لڑ رہے تھے۔ بحیثیت قیدی ان کو انسانیت کے درجے سے گرا کر، انہیں بے بس کر دیا تھا۔ خاص طور سے جاپان نے اپنے جنگی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا۔

اگرچہ جنیوا کنونشن آج بھی موجود ہے لیکن جنگی قیدیوں کے ساتھ امریکہ نے عراق کی جنگ کے موقع پر ضابطہ اخلاق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قیدیوں کے ساتھ برا سلوک کیا۔ یہی برتاؤ اس نے ویتنام میں کیا جہاں قیدیوں کو تکالیف بھی دی گئی اور ان کو قتل بھی کیا گیا اور اب گوانتاموبے میں بغیر مقدمے کی کارروائی کے قیدیوں کو تنہائی میں رکھا گیا۔

اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنگیں بھی برابر لڑی جاتی رہیں گی اور کیا مفتوح قوم کے جنگی قیدی زندگی سے محروم ہو کر بغیر کسی احتجاج کے دنیا سے چلے جائیں گے؟

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close