ایک تصویر ایک کہانی-10

گل حسن کلمتی

میں کتابوں کی دوکان پر جس شخص کے ساتھ بیٹھا ہوں، یہ "عباسی کتب خانہ جھونا مارکیٹ” کے مالک حبیب حسین عباسی ہیں۔آج اس تاریخی کتب خانہ  پر بات کریں گے.

یہ تب کی بات ہے، جب میرے والد صاحب سبزی منڈی میں کام کرتے تھے اور ان کی رہائش لیمارکیٹ میں تھی، چونکہ لی مارکیٹ، کراچی کے مضافات ، ٹھٹہ اور لسبیلہ کے لوگوں  کا ایک  کاروباری مرکز تھا اور اب تک ہے، اس لیے ان علاقوں کے لئے بسیں یہیں سے چلتی تھیں اور آج بھی چلتی ہیں۔ ان علاقوں کے لوگوں کے لیے لی مارکیٹ اور جھونا مارکیٹ ہمیشہ سے عیدین کے علاوہ دوسری تقریبات ، شادی بیاہ کی خریداری، پرچون کے سامان وغیرہ  کے مرکز رہے ہیں. ساتھ ہی کریم اسٹوڈیو میں تصاویر کھنچوانے کی سہولت تھی، بلوچی اور سندھی گانوں کے کیسٹ بھی یہیں سے ملتے تھے۔

جھونا مارکیٹ میں  مختلف بک شاپ، جن میں عباسی کتب خانہ اور مکتبۂ اسحاقیہ مشہور تھے۔ آدمی جھونا مارکیٹ جائے اور پھول چوک پر کھتری کا حلوہ نہ کھائے اور گاؤں والوں کے لیے حلوے کا تحفہ نہ لے کر جائے، تو بندہ گنہگار ہو جاتا تھا۔ ساتھ میں نادر ھوٹل، جہاں اکثر فلمی یونٹ کے لوگ رہائش پذیر ہوتے تھے. یہاں پر ریڈ لائیٹ ایریا، جسے عرفِ عام میں نیپیئر روڈ کہا جاتا ہے، اسی نام کی نسبت سے سندھ کے کئی دوسرے شہروں میں موجود چکلوں کا نام بھی  نیپیئر روڈ پڑا. چارلس نیپیئر نے سندھ فتح تو کیا، لیکن سندھ والوں نے بھی اس کے نام کے ساتھ انصاف کیا۔ کراچی کے تمام راستوں کے پرانے نام تو تبدیل کیے گئے ہیں، لیکن اس روڈ کام نام تبدیل نہ ہوا! ساؤتھ نیپیئر روڈ کا نام تبدیل ہوا، نیپیئر مول کا نام تبدیل ہوا، لیکن ریڈ لائیٹ علاقے کی وجہ یہ نام تبدیل نہ ہوا

بات ہو رہی تھی، جھونا مارکیٹ کے تاریخی کتب خانہ کی اور بات کہاں سے کہاں نکل گئی… میں اکثر کالج کے دنوں میں والد صاحب کے ساتھ عباسی کتب خانہ آتا رہتا تھا۔ والد صاحب نے لیمارکیٹ کیا چھوڑی، ہم نے بھی یہاں آنا بند کر دیا! جب میں اپنی کتاب "کراچی سندھ جی مارئی” کے سیکنڈ ایڈیشن کی تیاری کر رہا تھا اور اس میں کچھ اضافے کا خیال  بھی تھا، تو میرے ذہن میں عباسی کتب خانہ کا خیال آیا. میں ۱۵ سال بعد اپنے دوست نذیر کاکا کے ساتھ جھونا مارکیٹ دودھ والی گلی (اب یہاں دودھ کی کوئی دوکان نہیں ہے) عباسی کتب خانہ پہنچا. وہاں حبیب صاحب سے ملاقات ہوئی، تو ہم ماضی کی یادوں میں کھو گئے.

اس موقع پر حبیب کے ساتھ جو کچہری ہوئی، اس کا لب لباب کچھ اس طرح ہے
"1910ع میں ایک ہندو نے اسی جگہ اسٹیشنری کی دوکان کھولی، وہ حبیب حسین کے نانا غلام عباس دائود کا مقروض ہوا. 1920ع میں قرض کے عیوض ہندو دکاندار نے، دوکان غلام عباس کو دے دی۔ غلام عباس کی بیٹی کی شادی عبدالرسول گجراتی سے ہوئی، تو یہ دوکان  1928ع میں غلام عباس نے اپنے داماد عبدالرسول کے حوالے کی۔ عبدالرسول اصل میں گوالیار کے گجراتی تھے، مزدوری کے لیے کراچی کا رخ کیا. اس سے پہلے یہ دوکان غلام عباس
کے برادرِ نسبتی چلا رہے تھے. ان کی وفات کے بعد یہ دوکان غلام عباس نے اپنے داماد عبدالرسول کو سونپ دی۔ 1928ع میں دوکان کا نام تبدیل کرکے "عباسی کتب خانہ“ رکھا اور اسٹیشنری کے ساتھ ساتھ یہ دوکان کتب خانہ مشہور ہوا۔ عبدالرسول نے یہاں پر عباسی اسٹریم پریس کے نام سے ایک چھاپہ خانہ بھی کھولا اور اس کو ادبی بیٹھک بنایا۔ 1928ع میں عبدالرسول کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا حبیب حسین عباسی اس کتب خانہ  کو چلا رھے ہیں. چھپائی کا کام 1930ع میں شروع کیا گیا، یہ سلسلہ اب تک جاری ھے۔

اس کتب خانہ  کو یہ شرف بھی حاصل ہے، کہ یہاں پر مرزا قلیچ بیگ، فیض احمد فیض، پیر حسام الدین راشدی، مجید لاھوری، ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتا، غلام رشید ترابی، عقیل ترابی، حفیظ ھوشیارپوری، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی، علی احمد بروھی، حاجی مولا بخش سومرو، علی احمد تالپور، مخدوم طالب الۡمولىٰ ، دین محمد وفائی اور بہت سارے ادیب، دانشور، تاریخدان ادھر اکثر آتے رہتے تھے. یہ کراچی سمیت سندھ کے دوسرے اضلاع سے آئے ہوئے ادیبوں اور دانشوروں کی ایک مقبول بیٹھک تھی.  13 مارچ 1963ع کو دمشق یونیورسٹی شام کے وائیس چانسلر "شیخ المنتصر الکتانی” بھی اس کتاب گھر تشریف لائے تھے۔

جھونا مارکیٹ سے متصل کھوڑی گارڈن ہے، جس کا نام انگریز دور میں تبدیل کرکے “ارکسن گارڈن“ رکھا گیا ، لیکن یہ نام چل نہیں سکا. اس کو کھوڑی میدان اس لیے کہتے ہیں کہ پرانے زمانوں میں جب تجارتی قافلے یہاں آتے تھے، تو یہ اونٹوں کو باندھنے کی جگہ ہوا کرتی تھی، جسے سندھی میں “اٺن جي کوڙي” (اُٹھن جی کھوڑی) کہتے تھے، اس وجہ سے یہ میدان، "کھوڑی میدان” کے نام سے مشہور ہوا۔

جب اردو بازار میں بک شاپس کھلیں اور چھپائی کام شروع ہوا، تو  جھونا مارکیٹ کی کتابوں کی دوکانوں کا کاروبار ماند پڑ گیا. تب مکتبۂ اسحاقیہ اور دوسرے ادارے  جھونا مارکیٹ سے اردو بازار منتقل ہو گئے، لیکن یہ تاریخی ورثہ حبیب حسین عباسی کی وجہ سے یہیں رہا. بقول ان کے، جب تک وہ زندہ ہیں یہ دوکان اسی جگہ رھے گی، جس جگہ 1910ع میں قائم ہوئی تھی۔

اب اس کتاب گھر کو قائم ھوئے 110 سال ہو چکے ہیں۔ دعا ہے کہ ہماری یہ تاریخ اور یہ تاریخی ورثہ ہمیشہ قائم رھے. کلچر ڈپارٹمنٹ کو چاہئے کہ اس کو قومی ورثہ قرار دے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close