سندھ کے صحرا میں کوئی پھول کھلے۔۔۔ قرة العین حیدر اور سندھی ادب

حسن مجتبیٰ

یہ جنوری 1991 کے دن ہیں۔ قرول باغ دہلی میں قرةالعین حیدر کے فلیٹ کے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ پانچ سات منٹ بعد فلیٹ کا دروازہ آدھا کھلتا ہے اور وہ خود دروازے پر ہوتی ہیں۔ کہتی ہیں

”فرمائیے!“

”فرمانا کیا، آپ کے پڑھنے والے ہیں، سندھ سے آئے ہیں۔“

”کیا کیا پڑھا ہے؟“

”یہ پوچھئے کیا نہیں پڑھا؟“

”آگ کا دریا، آخرِ شب کے ہم سفر اور اب گردشِ رنگِ چمن“

”آگ کا دریا کے کردار بتائیں؟“

”کردار کیا، ڈائیلاگ تک سنا سکتا ہوں۔۔“

اس طرح نیم کھلے دروازے پر کوئی سات منٹ تک سندھ سے آئے ان کے اس انتہائی سنجیدہ قاری اور مداح پیر سید منیر شاہ اور قرة العین حیدر کے درمیان مکالمہ ہوتا رہتا ہے۔

پھر دروازہ پورا کھلا اور کہا ”آپ آئیں لیکن یہ وقت، دو بجے تک، میرے پڑھنے کا ہے۔ تیس منٹ آپ کے پاس ہیں۔“

پیر سید منیر شاہ قرة العین حیدر سے اپنی اس ملاقات کا قصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ”پھر باتیں شروع ہوئیں۔ زیادہ تر وہ سندھ کے بارے میں پوچھتی رہیں۔ خاص طور لڑکیوں کی قرآن سے شادیوں پر۔۔ ان دنوں ایسی کوئی ڈاکیومینٹری بھی آئی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ میں نے بھی سنا ہے، دیکھا میں نے بھی نہیں۔۔ نہ فقط سندھ کے سیّدوں میں بلکہ کئی بڑے بڑے زمیندار گھرانوں میں بھی سنا ہے۔ ملکیتیں تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے وہ بچیوں کا ’حق بخشواتے‘ ہیں۔ انہوں نے ایک رجسٹر اور قلم اٹھایا اور نوٹ کرتی گئیں۔ شاید وہ سندھ کی اس رسم پر کوئی ناول لکھنا چاہ رہی تھیں۔ ان کے پاس ناولوں کی فائلیں بنی ہوئی تھیں۔ ’آگ کا دریا‘، ’آخر شب کے ہم سفر‘ کی فائلیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک ناول لکھ رہی ہیں، جس میں ایک کردار سندھی ہے۔ انہیں اس کا ادراک تھا کہ ان کے ناول اور کہانیاں سندھی میں ترجمہ ہوئی ہیں اور وہ کہہ رہی تھیں کہ پاکستان میں ان کے پڑھنے والے زیادہ تر سندھی ہیں۔ میں نے ان کی ایک غلطی کی طرف اشارہ بھی کیا کہ ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں انہوں نے جو مارئی کے گانوں کا ذکر کیا ہے، وہ کراچی والا ملیر نہیں۔“

قرة العین حیدر برصغیر جنوبی ایشیا میں اردو کی وہ واحد مصنفہ اور ناول نگار ہیں، جو نسل در نسل اردو ادب کے پڑھنے والوں کو اپنی تحریروں اور تصانیف کے سحر میں جکڑتی رہی ہیں۔ ان کے معرکتہ آلارا ناول ’آگ کا دریا‘ کو ان کے کئی ناقدین نے اردو فکشن کا مہابھارت قرار دیا ہے۔ یہ ناول انہوں نے کراچی میں اپنے قیام کے دوران لکھا۔

یہ سال 1998 کی بات ہے، جب میں اپنے دوست عارف حسن (اب فلم ’زندگی تماشا‘ کے اداکار) سے ملنے ماری پور، پاکستان فضائیہ کالونی کے بنگلوں میں سے ایک بنگلے میں گیا تھا۔ ”یہاں کے بنگلوں کے سبزہ زاروں، ان کے کناروں پر بجری، کمروں کی لمبی دیواروں، کھپریلی چھتوں اور برآمدے کی جافریوں، جھاڑ فانوس وغیرہ والے گھر قرة العین حیدر کے افسانوں میں ہوتے ہیں۔“ میں نے عارف حسن کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ان سے کہا تھا۔

”قرة العین حیدر یہیں تو رہتی تھیں، ہمارے اسی پڑوس میں۔۔“ عارف حسن نے مجھے بتایا۔ وہ کہنے لگے، ”میرے والد بتایا کرتے ہیں، قرة العین حیدر یہاں اپنے بھائی، جو پاکستان فضائیہ میں پائلٹ تھے، کے ساتھ رہتی تھیں اور میرے والد بھی پاکستان فضائیہ میں تھے۔ وہ یہیں انہی سبزوں کے کناروں پر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ سائیکل بھی چلاتی رہتی تھیں۔“

یہ وہ دن تھے، جب وہ اپنا معرکتہ الآرا ناول ’آگ کا دریا‘ لکھ رہی تھیں۔ جس میں ہندوستان کی ہزاروں سالہ تہذیب سمائی ہوئی ہے۔ بدھ مت کے زمانوں سے لے کر تقسیمِ ہند تک، جنم جنم بدلتے اس کے کردار۔۔ اس ناول کے پہلے ایڈیشن پر قرة العین کے پیش لفظ کے اختتامیے پر مقام اور تاریخ ماری پور لکھا ہوا ہے۔

کئی برس بعد خود قرة العین حیدر نے اپنے سوانحی ناول ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں، جو تین جلدوں پر مشتمل ہے، کے ایک حصہ ’خیمہ گاہ عمر ماروی‘ میں ان دنوں کے ماری پور سمیت سندھ کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
”رات گئے ماروی پور گاؤں سے صحرا کی سمت جاتے ہوئے یقیناً کوئی ساربان چاندنی میں عمر ماروی کا کوئی گیت الاپتا ہوگا۔۔

پیرے پاؤندی ساں۔۔۔۔۔۔۔ چواں دی ساں۔۔۔۔۔ رہی ونجھ رات بھنبھور میں۔۔۔۔۔۔۔ اللہ چواں دی ساں۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تصور عبدالرحمان چغتائی کی کسی پینٹنگ کی طرح مسحور کن اور رومینٹک تھا مگر اصل میں ماری پور گاؤں مچھیروں کی ایک گندی عسرت زدہ بستی تھی، جو کراچی شہر سے سات آٹھ میل دور ساحل سمندر پر واقع تھی اور برطانوی نژاد ’ماری پور ایئرفورس اسٹیشن‘ اس سے ایک بے انتہا مختلف عالم آب گل سے تعلق رکھتا تھا۔“

اسی سوانحی ناول میں اپنے سندھ کے سفر کے متعلق ایک حصے ’شاہ جو رسالو‘ میں سندھ کا ذکر کچھ اس پیرائے میں کرتی ہیں:
”ہم لوگ بذریعہ لینڈ روور حیدرآباد سندھ، کوٹری، سکھر اور لاڑکانہ کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں کس قدر پرانے مقابر تھے۔ زمین میں اتنوں کی خاک موجود ہے۔ کیسے کیسے لوگ چلے گئے۔ زندگی اتنی مختصر ہے۔ لطیف جاگو اور ڈھونڈو۔۔

راستے میں ایک جگہ صحرا پر اچانک بادل گِھر آئے جاڑوں کا بوند ساون۔ شاہ نے سر سارنگ میں کہا ہے، سارنگ (بارش) نے ’کرار جھیل‘ کو بھر دیا اور زمین سرسبز ہو گئی۔ ایک اور جگہ کہا، ہر سمت بجلیاں چمک رہی ہیں، بادل ہر سو پھیل گئے۔ استنبول، چین، سمرقند، روم، قندھار، دلی، گرنار، جیسلمیر، بیکانیر، امرکوٹ، اللہ سندھ پر بھی بارش برسا کر اسے شاداب کردے۔“

سندھ میں بھلا پڑھنے لکھنے والے قرة العین حیدر کی تحریروں سے بے بہرہ کیسے رہ سکتے تھے۔ یہ سندھ سے باہر کی پہلی ادیبہ تھیں، جنہوں نے سندھ کو تقسیمِ ہند کے بہت ہی پہلے دنوں میں جانا تھا اور سندھ کے صوفی مزاج کو بھی اتنی گہرائی سے سمجھا تھا۔ اپنے اسی سوانحی ناول ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں وہ اسی سفر سندھ والے حصے میں ایک اور جگہ لکھتی ہیں:
”سندھ پر تصوف کا اتنا گہرا اثر تھا، جس کی وجہ سے وہ اتنی آسانی سے انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔“ لیکن یہ ان کا ناول ’سیتا ہرن‘ تھا، جس نے سندھ میں پڑھنے اور لکھنے والوں کو بے حد متاثر کیا ہے۔ یہ ذہین و حسین کردار، سیتا میرچندانی، کا ہے۔ وہ ایک نوجوان سندھی عامل ہندو خاتون ہے، جو اپنے خاندان کے ساتھ تقسیم کے وقت حیدرآباد سندھ سے بھارت نقل وطن کر جاتی ہے۔ جہاں وہ دلی میں آکر ٹھہرتی ہے۔ ’سیتاہرن‘ کا مرکزی کردار سندھ کی یہ سیتا میر چندانی پہلے بھارت، بھارت سے امریکہ، پھر پاکستان اور سری لنکا، دہلی، پیرس۔ سیتا میر چندانی، بقول ادیبہ ذکیہ مشہدی کے، ’وہ سیتا ہے، جسے راہ میں کئی راون ہی ملے۔‘

میرے خیال میں سیتا کے اس سفر میں محض جسمانی یا سیاسی جلاوطنی نہیں بلکہ دل کی بھی جلاوطنی شامل ہے۔ کہاں ہیرآباد حیدرآباد سندھ کا اہلِ ثروت عامل خاندان اور کہاں دہلی کے تنگ مکان میں بے سرو سامانی اور غریب الوطنی، جس میں سیتا کی ماں سندھی کشیدہ کاری کا کام کرتی ہیں۔

سندھ، سیتا ہرن میں سیتا میرچندانی کی زبانی:
”ممی بتایا کرتی تھی کہ پرانوں میں لکھا ہے راجکمار سبی کی اولاد بلوچستان میں پھیلی اور اجودھیا کے رام چندر کے بھائی بھرت سندھودیش کی راج گدی پر بیٹھے۔ وہ بڑے یقین سے کہتی ہیں کہ مہا بھارت کے بعد کالی کا یُگ شروع ہو گیا۔ اسی وجہ سے اس کے بعد پرانوں میں سندھ کا ذکر نہیں ملتا۔“

”وہاں راجہ بھرتری لال شہباز بنے، پیر پٹھو پیر سلطان، زندہ پیر خواجہ خضر، اڈیرولال شیخ طاہر بن گئے، لالہ جسراج منگھو پیر بنے۔“

”سندھ نہ میرا ہے نہ پیر اللہ بخش جمالی کا۔ سندھ کے اصل مالک وہ ہاری ہیں، جن کے متعلق سوچنے کی تم نے آج تک ضرورت ہی نہ سمجھی ہوگی۔“

سندھ ہی سے تعلق رکھنے والی معروف لکھاری اور صحافی خاتون عینی علی خان کی انگریزی میں ایک کتاب ’سیتا انڈر دی کریسینٹ مون‘ یا ’سیتا ہلال کے سائے میں‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ عینی علی خان ’سیتا ہرن‘ کی سیتا میرچندانی سے اس قدر متاثر تھیں کہ انہوں نے اپنی کتاب کا نہ صرف عنوان سیتا کے نام پر رکھا بلکہ اپنی اس کتاب کا انتساب بھی قرة العین حیدر کے نام کیا ہے۔

ولی رام ولبھ سندھی زبان کے نامور ادیب مترجم و مدیر ہیں۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں قرة العین حیدر کے ناول ’سیتا ہرن‘ کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ولی رام ولبھ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے قرة العین حیدر کے ناول ’آخرِ شب کے ہم سفر‘ کو بھی سندھی زبان کی پوشاک پہنائی ہے۔ ولی رام ولبھ نے کہا ”وہ دنیا میں نہیں رہیں لیکن ان کا تخلیقی کام امر رہے گا۔ وہ کئی زمانوں تک اپنی شاہکار تخلیقات کے حوالے سے سمجھی اور پہچانی جائیں گی۔“

جب بھی سندھی لکھاری اور شاعر بھارت کے دورے پر جاتے تو وہ تین کام ضرور کرتے تھے۔ رابندر ناتھ ٹھاکر یا ٹیگور کی شانتی نکیتن یونیورسٹی دیکھنا اور امرتا پریتم اور قرة العین سے ملنے کی کوشش کرنا۔ تو اسی طرح جب اکتوبر 1991 میں سندھ سے معرکتہ آلارا نوجوان شاعر حسن درس، نامور دانشور اور لکھاری جامی چانڈیو اور سندھی جریدہ ’پروڑ‘ کے مدیر مظفر چانڈیو بھارت گئے تو دہلی میں انہوں نے اپنے دوست اور معروف سندھی ادیب لچھمن کومل کے توسط سے قرة العین حیدر سے ملاقات کی۔ لچھمن کومل نے قرة العین حیدر کو فون پر کہا تھا، ”سندھ سے مہمان آئے ہیں، سندھی ہیں، غیر روایتی ہیں۔“ لچھمن کومل نے ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے قرة العین حیدر کے افسانوں کا مجموعہ ’پت جھڑ کی آواز‘ کا سندھی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔

دوسرے روز صبح سندھ سے آئے ہوئے یہ تینوں دوست قرة العین حیدر کے ذاکر باغ دہلی کے فلیٹ پر پہنچے۔ یہ وہ دن تھا، جب اردو کی صف اول کی افسانہ نگار عصمت چغتائی کا انتقال ہوا تھا اور وہ وصیت کر گئی تھیں کہ انہیں دفنانے کے بجائے ان کی میت سوزی کی جائے۔

”تم سندھی یہاں کیا کر رہے ہو دلی میں؟“ قرة العین حیدر نے اپنے مہمانوں سے پوچھا۔

”ہمارے لیے دلی آپ ہیں۔“ سندھی مہمانوں کا قرة العین حیدر کو جواب تھا

جامی چانڈیو اس ملاقات کو کچھ اس طرح یاد کرتے ہیں:
”ملاقات بہت ہی خوشگوار انداز میں ہوئی۔ ایک گھنٹے کا وقت تھا لیکن یہ ملاقات پونے تین گھنٹے پر محیط رہی۔ وہ کہتی تھیں، لوگ مجھے کہتے ہیں آپ پاکستان میں کیوں نہیں رہیں؟ اس عمر میں پاکستان میں رہ کر میں کیا کرتی؟ یہاں ’ساہتیہ اکیڈمی‘ مجھے ایک لاکھ روپیہ ماہانہ دیتی ہے۔“ جامی چانڈیو کہتے ہیں، ”قرة العین سے مل کر ایک عجیب نشہ محسوس ہوتا تھا کہ زندگی میں ہم قرة العین حیدر سے ملے۔ ان سے مل کر لگتا نہیں تھا کہ ہمارے اور ان کے درمیان عمر کا کوئی فاصلہ ہے۔ یہ ایک لطیف تجربہ تھا۔ رائٹر اکثر بخیل ہوتے ہیں لیکن یہاں بہت ہنسی مذاق بھی چلتا رہا۔ چائے بسکٹ بھی چلتے رہے۔ جب اٹھنے لگے تو انہوں نے کہا نہیں ذرا رکیں، اب عصمت کی وصیت پر تکرار اور تصفیہ کے لئے اردو ادیبوں کا وفد آنے والا ہے۔ ان سے ملتے جائیے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ادیب بھی آ گئے۔ قرة العین ان سے کہنے لگیں: ’دیکھئے عصمت کا ہم سے ادبی رشتہ تھا۔ ہم ان کے ادبی وارث ہیں۔ جسمانی رشتہ ان کا ان کے خاندان والوں سے تھا۔ وہ ان کو جلاتے ہیں کہ دفن کرتے ہیں، یہ ان پر چھوڑ دیجئے۔‘ جب اردو ادیبوں کا وفد چلاگیا تو قرة العین حیدر کہنے لگیں، عصمت میری دوست تھیں لیکن اسے پنگے لینے کا شوق تھا۔ زندگی میں بھی حیرت چھوڑتی تھیں اور مرتے بھی یہ ایسی وصیت کی حیرت چھوڑ گئیں۔“

نصیر مرزا سندھ کے ایک ایسے شاعر اور اپنی طرز کے نثر نگار ہیں جن کو جدید سندھی ادب اور شاعری میں نئے رجحان متعارف کرانے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نصیر مرزا کے نقاد ان کی تحریروں کو قرة العین حیدر کی نثر کی گہری چھاپ سے تعبیر کرتے ہیں، جس سے نصیر مرزا بھی انکار نہیں کرتے۔ وہ قرة العین حیدر کی تصانیف و تحاریر اور ان کے سندھی ادب پر اثرات کو یوں بیان کرتے ہیں:
”عجب اتفاق ہے کہ پہلی جو کتاب میں نے قرة العین حیدر کی پڑھی وہ ’آگ کا دریا‘ تھی۔ میں نے اس کی بے پناہ تعریف سنی تھی اور یہ سال 1974-75 کا تھا۔ میں بارہویں جماعت میں تھا۔ ’آگ کا دریا‘ ناول جو میں نے پڑھا تو پہلی ہی سطر نے مجھے جکڑ لیا۔ جو دوسری کتاب ان کی پڑھی، وہ ’سیتاہرن‘ تھی۔ سیتاہرن تو ہماری اپنی تھی۔ حیدرآباد میرا پیشن ہے۔ میروں کے مقبرے، دنیا میں ان سے حسین کوئی چیز نہیں۔ میروں کے مقابر اور عامل کالونی کے علاوہ اور کیا ہے دنیا میں۔۔ ’سیتاہرن‘ جب میں نے پڑھی تو مجھے لگا یہیں کہیں شوخ و چنچل حسینہ سیتا، یہی کہیں دادی لیلا (سندھ کی معروف تعلیم دان) کے گھر کے پاس ہی رہتی ہوگی۔ پھر اس میں سادھ بیلو ہے۔ سادھ بیلو میں جو کیسو پھل کے درخت ہیں، اس کے اندر جو جزیرہ ہے، ودیارتیوں کی لائبریری تو میں آنکھوں دیکھ کر آیا۔“

لیکن جب سندھی ادب میں لفظ پراچین داخل ہوا تو سمجھ لیں یہ سندھی زبان کے منفرد افسانہ نگار، لکھاری و مدیر مدد علی سندھی ہیں، جنہوں نے قرة العین حیدر کی نہ فقط تحریروں کو سندھی ادب میں ایک طرح سے متعارف کروایا بلکہ ان کی اپنی کہانیوں پر، نثر پر، رنگ قرة العین حیدر کا ہے۔ مدد علی سندھی اپنے ایک انٹرویو میں قرة العین حیدر کو اپنا ادبی مرشد کہتے ہیں۔ وہ قرة العین حیدر سے اتنے متاثر رہے کہ قرة العین حیدر کے منتخب افسانے ترجمہ کرنے کی وجہ سے ان کے دوستوں نے ان کو قلندر کہنا شروع کیا۔ مدد علی سندھی کے قلم سے کیے جانے والے اس سندھی ترجمے کا نام ہی ’قلندر‘ ہے۔

معروف سندھی لکھاری، شاعرہ اور خواتین کے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن امر سندھو کہتی ہیں ”قرة العین حیدر کے لئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کا قاری مخصوص مزاج کا ہے جو تاریخ، وقت اور پھر انسانی فطرت کے ساتھ سماجی رشتے کو دیکھنے والا ہے۔ آج کی سندھی نسل کے لئے کچھ نہیں کہہ سکتی کہ وہ اس کو کس طرح دیکھتی اور برتتی ہے۔ لیکن میری نسل کے قاری و ادیب جو 1980 کی دہائی میں جوان ہوئے، ان کی نسل کے لئے قرة العین حیدر خاص انسپائیرشن ہیں۔“

نوٹ: اس مضمون کی تیاری کیلئے سندھی زبان کے ممتاز مصنفین، مترجمین ولی رام ولبھ، نصیر مرزا، مدد علی سندھی، امر سندھو، اور قرة العین حیدر سے ملاقاتیں کرنے والے جامی چانڈیو اور پیر سید منیر شاہ سے مضمون نگار نے بات چیت کی ہے جبکہ قرة العین حیدر کی تصانیف آگ کا دریا، کار جہاں دراز ہے، سیتا ہرن اور قلندر کے سندھی تراجم اور ذکیہ مشہدی کے سیتا ہرن کی مرکزی کردار سیتا میرچندانی پر ایک مضمون سے بھی رجوع کیا گیا۔

بشکریہ: وائس آف امریکہ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close