کراچی اور حیدرآباد میں کووڈ-19 کے بڑھتے کیسز: کیا کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ پہلے سے موجود اینٹی باڈیز کو دھوکا دے رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں مسلسل دوسرے دن کورونا وائرس کے 400 سے زیادہ مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں

سندھ کے دارالحکومت کراچی اور دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں کووڈ-19 کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے

کراچی میں وائرس کی مثبت شرح 21.71 فیصد ریکارڈ کی گئی جو کہ ملک میں سب سے زیادہ ہے

کورونا وائرس کے دو نئے ویرینٹ BA.4 اور BA.5 کو کراچی میں وائرس سے متاثرہ افراد کی بڑھتی ہوئی شرح کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ویرینٹ جسم میں پہلے سے موجود کورونا اینٹی باڈیز کو دھوکہ دے کر لوگوں کو اس مرض میں مبتلا کر رہے ہیں

واضح رہے کہ صوبائی دارالحکومت کراچی میں ہفتے کو کورونا مثبت کیسز کی شرح 19.65 فیصد اور حیدرآباد میں 11.54 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جس کے بعد محکمۂ صحت سندھ نے کراچی اور حیدرآباد کی انتظامیہ سے عوامی مقامات پر ماسک پہننے کی پابندی عائد کرنے کی ہدایت کی ہے

قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران ملک بھر میں 406 کورونا کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ایک روز قبل ملک میں 435 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جو 22 مارچ کے بعد مثبت کیسز کی سب سے زیادہ تعداد ہے

این آئی ایچ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 14 ہزار 437 ٹیسٹ کیے گئے جن میں مثبت شرح 2.81 فیصد ریکارڈ کی گئی، جبکہ وائرس سے متاثر ہونے والے مزید 2 افراد کی اموات بھی رپورٹ ہوئیں، اس کے علاوہ مہلک وائرس سے متاثر ہونے والے 94 مریضوں کی حالت انتہائی تشویشناک قرار دی گئی ہے جو تعداد گزشتہ روز 87 تھی

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی سے وابستہ مالیکیولر پیتھالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر سعید خان کہتے ہیں ”اومیکرون ویرینٹ کے نئے سب ویرینٹ BA.4 اور BA.5 انسانی جسم میں پہلے سے موجود کورونا کے خلاف مزاحمت کرنے والی نیوٹرلائزنگ اینٹی باڈیز کو دھوکہ دے کر جسم میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے کراچی اور حیدر آباد میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے“

ڈاکٹر سعید خان کا کہنا تھا ”ان دونوں نئے ویرینٹس میں ایسی میوٹیشن یا تبدیلیاں آ چکی ہیں، جن کی وجہ سے پہلے سے موجود اینٹی باڈیز ان کے خلاف کارگر ثابت نہیں ہو رہیں اور وہ لوگ جن کی قوت مدافعت کمزور ہے یا انہیں ویکسین لگوائے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا ہے وہ اس وقت کا کورونا انفیکشن سے متاثر ہو رہے ہیں“

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ وائرس ‘رولر کوسٹر’ کی طرح برتاؤ کر رہا ہے

ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ملک کو مزید چند برس تک اسی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، انہوں نے تجویز کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں ایک بار پھر کورونا سے متعلق پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں، پابندیاں عائد کرنے سے نہ صرف کیسز کی تعداد میں کمی ہوگی بلکہ ان کے ذریعے توانائی کے موجودہ بحران پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی

کووڈ-19سائنٹیفک ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر جاوید اکرم نے مزید کہا کہ لوگوں میں قوت مدافعت کم ہو رہی ہے اور ویکسین کی افادیت جو کبھی 95 فیصد تھی، تقریباً 80-85 فیصد تک گر گئی ہے جبکہ وائرس مسلسل تبدیل ہو رہا ہے

انہوں نے کہا کہ ‘بدقسمتی سے جب کیسز میں کمی آتی ہے تو لوگ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ وائرس ختم ہو گیا ہے اور اس وبا سے متعلق ایس او پیز پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں، میں نے خود ذاتی طور پر ایک ہزار سے زائد لوگوں کو شادی کی تقریبات میں شرکت کرتے دیکھا جن میں سے کوئی بھی ماسک نہیں پہنے ہوئے تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ ان تقریبات کے دوران اگر کسی نے ماسک پہنا ہوا تھا بھی تو وہ صرف اس شخص کے گلے میں لٹکا ہوا ہوگا

یو ایچ ایس کے وائس چانسلر نے کہا کہ ان کی سمجھ کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کی 3 سے 5 اقسام موجود ہیں

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ویکسینز کی افادیت میں کمی ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ کورونا کے خلاف واحد ڈھال اور بچاؤ کا ذریعہ ہیں

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ان دنوں توانائی کے شدید بحران کی لپیٹ میں ہے لہٰذا اگر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو ملک نہ صرف وبائی مرض پر قابو پاسکے گا بلکہ توانائی کے بحران پر بھی قابو پاسکے گا

انہوں نے کہا کہ پابندیاں عائد کیے جانے سے کئی بازار اور دکانیں بند ہو جائیں گی اور نقل و حمل کی لاگت کم ہو جائے گی

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی کووِڈ 19 کے خلاف مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس کے خلاف قوت مدافعت کو بھی بڑھاتا ہے

دوسری جانب اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ ڈاکٹر جمن کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند روز سے کراچی میں کورونا کیسز مثبت آنے کی شرح 10 فیصد سے زیادہ ہے، جس کے بعد کراچی کے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کو اسکریننگ ٹیسٹ کی تعداد بڑھانے کی ہدایت جاری کی گئیں ہیں۔ اس سال جنوری میں کراچی میں کورونا مثبت کیسز کی شرح 40 فیصد تک پہنچ گئی تھی جس کے بعد اب جون کے مہینے میں یہ شرح دوبارہ بڑھتی جا رہی ہے

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ کا مزید کہنا تھا کہ کمشنر کراچی اور حیدرآباد کو محکمہ صحت سندھ کی جانب سے مراسلے لکھے گئے ہیں جن میں ان دونوں شہروں میں عوامی مقامات، پبلک ٹرانسپورٹ اور شاپنگ مالز میں ماسک پہننے کی پابندی پر سختی کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔اسی طریقے سے ان دونوں شہروں میں شادیوں میں مہمانوں کی تعداد بند جگہوں پر تین سو اور کھلے مقامات پر پانچ سو افراد تک محدود کرنے کی بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں

ڈاکٹر جمن کا کہنا تھا کہ کراچی اور حیدرآباد کی انتظامیہ کو شاپنگ مالز، مزاروں اور دیگر مقامات پر ویکسینیشن کارڈ چیک کرنے کی بھی ہدایت جاری کی گئی ہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں 70 فیصد سے زیادہ افراد کو نہ بٹھانے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں

انہوں نے کہا کہ اگرچہ کراچی میں کورونا کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن ہسپتالوں میں مریضوں کے داخل ہونے کی شرح نہایت ہی کم ہے، اس وقت زیادہ تر ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر اور بیڈز خالی پڑے ہیں جب کہ ابھی تک کئی ہفتوں سے کورونا وائرس انفیکشن کی وجہ سے کسی ہلاکت کی بھی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان حالات میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن لوگوں کو چاہیے کہ وہ احتیاط کا مظاہرہ کریں

دوسری جانب ماہر متعدی امراض اور آغا خان ہسپتال کراچی سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فیصل محمود کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے اومیکرون ویرینٹ کے دو زیلی ویرینٹ BA.4 اور BA.5 کراچی میں کورونا انفیکشن کے بڑھتے ہوئے کیسز کے ذمہ دار ہیں

ان کے مطابق ’ان ذیلی ویرینٹ کی انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کافی زیادہ ہے

قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے حکام کا بھی کہنا تھا کہ کراچی میں کورونا وائرس انفیکشن کے بڑھتے ہوئے کیسز پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور جلد ہی کورونا ایس او پیز کے حوالے سے نئی ہدایات جاری کرنے جا رہے ہیں

قومی ادارہ برائے صحت کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا کہ ایک دو دن میں ملکی پروازوں میں ماسک پہننے کی پابندی کی ہدایت جاری کر دی جائیں گی تاکہ وائرس کی ملک کے دیگر حصوں میں منتقلی کو کم کیا جا سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close