یہ جمعرات کا دن تھا اور ساٹھ سالہ جنت جلبانی اور ان کے شوہر اللہ داد ابھی مشکل سے گھر کے کام سے فارغ ہو کر کچھ دیر آرام کرنے بیٹھے تھے۔۔ اسی اثناء میں اچانک وردی میں ملبوس رینجرز اہلکار ان کے گھر میں گھس آئے۔ رینجرز کی اچانک آمد سے پیدا ہونے والی حیرت سے وہ نکل ہی نہیں پائی تھیں کہ ان کے تینوں بیٹوں کو اہلکار گھر سے باہر لے گئے
جنت جلبانی کا تعلق ضلع نواب شاہ کی تحصیل سکرنڈ میں کچے کے علاقے کے قریب واقع ماڑی جلبانی گوٹھ سے ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سندھی اور سرائیکی زبان میں بات کرتی مائی جنت جلبانی نے بتاتی ہیں کہ انہوں نے رینجرز اہلکاروں کی منت سماجت کی کہ ان کے بیٹوں کو کچھ نہ کہو مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں پر فائرنگ کی گئی
گذشتہ ہفتے ہونے والے اس واقعے کے بارے میں چار بچوں کی والدہ جنت جلبانی نے کہا کہ اس دن شام کے تین بجے کا وقت تھا، جب گاؤں کے کچھ افراد اور ان کے دو بیٹے کھیتی باڑی سے واپس لوٹے تھے اور گھر میں پڑی گھاس کاٹنے والی مشین پر مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ رہے تھے کہ اچانک بہت سے باوردی اہلکار گھر میں گھس آئے
جنت جلبانی نے کہا، ”اتنی بڑی تعداد میں باوردی اہلکاروں کو اچانک گھر میں دیکھ کر ہم خواتین ڈر کر رونے لگیں۔ اہلکاروں نے میرے تین بیٹوں 30 سالہ امام الدین، 26 سالہ نظام الدین اور 24 سالہ امام بخش کو پکڑ لیا۔ ہم نے اہلکاروں کے سامنے ہاتھ باندھے، جھولی پھیلائی، مگر انہوں نے نہیں سنا۔“
”اہلکاروں نے تینوں بھائیوں کو گھر کے صحن کے باہر نیچے بٹھا دیا۔ ہم ان کا قصور پوچھ رہے تھے کہ اہلکاروں نے میری نظروں کے سامنے اچانک فائر کھول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرے گھر کا آنگن میرے ہی بیٹوں کے خون سے لال ہوگیا۔ اہلکاروں نے میرے تڑپتے بیٹے نظام الدین کو بوٹ سے پلٹا کر ایک اور گولی ماری۔“
ان کا کہنا تھا کہ ان کے دو بیٹے نظام الدین اور امام بخش وہیں جان سے چلے گئے، جب کہ شدید زخمی شوہر اللہ داد اور تیسرے بیٹے امام الدین کو نازک حالت میں سول ہسپتال نواب شاہ لے جایا گیا
ان کے بقول، ”میرے دونوں بیٹے کبھی اسکول نہیں گئے، وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ہماری اپنی زرعی زمین نہیں ہے۔ میرے شوہر نے کرایے پر دو ایکڑ لیے ہیں۔ ان دو ایکڑ پر میرے بیٹوں نے کپاس کاشت کی ہے۔ دونوں بے زمین ہاری (کسان) تھے۔ کپاس کی فصل تیار تھی کہ یہ سانحہ ہوگیا۔“
”میرے بیٹوں اور شوہر پر کوئی مقدمہ تو دور کی بات ہے، تھانے پر کوئی شکایت تک نہیں ہے۔ میرے بیٹوں کی آج تک کسی سے لڑائی نہیں ہوئی۔ میرے بیٹے نظام الدین کی 12 اکتوبر کو شادی ہونی تھی۔ ہم نے شادی کا سامان، دلہے کا سہرا، کپڑے اور دیگر چیزیں خرید لیں تھی۔ اب ان چیزوں کو دیکھتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔۔“
زخمی ہونے والے لیاقت جلبانی کے والد شہمیر جلبانی نے بتایا، ”میرا بیٹا لیاقت، شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینیمل سائنسز سکرنڈ کا طالب علم ہے۔ لیاقت کو صبح 11 بجے یونیورسٹی کے قریب سے حراست میں لیا گیا اور جب اہلکار ہمارے گاؤں میں آئے تو لیاقت کو زخمی حالت میں چھوڑ گئے“
شہمیر جلبانی کے مطابق اللہ داد ان کے بھائی ہیں اور قتل ہونے والے پینتیس سالہ سجاول ان کے ماموں کے بیٹے ہیں
سکرنڈ کے گوٹھ ماڑی جلبانی میں جمعرات 31 ستمبر کو پیش آنے والے اس واقعے میں مجموعی طور پر چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ گاؤں میں کی گئی کارروائی میں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا، جن کے خلاف کوئی الزام نہیں تھا اور وہ غیر مسلح تھے
تحقیقاتی کمیٹی پر عدم اعتماد
مبینہ طور پر سندھ رینجرز کے اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ انکوائری کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے
متاثرہ خاندان کی نمائندگی کرنے والے آچر جلبانی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ سرکٹ ہاؤس میں کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے یونین کونسل چئیرمین عمران جلبانی اور دیگر علاقہ معززین نے کہا ہے کہ انہیں انکوائری کمیٹی کی کارروائی پر کوئی اعتماد نہیں
قتل ہونے والے چاروں افراد کے اہلِ خانہ میں سے کوئی بھی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ البتہ علاقہ معززین نے واقعے کی شفاف عدالتی تحقیقات اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے
دوسری جانب کمشنر حیدرآباد ڈویژن خالد حیدر شاہ کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیٹی اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ کمیٹی نے اب تک انچارج سی آئی اے نواب شاہ مقصود رضا منگنھار، ایس ایچ او بی سیکشن طفیل بھٹو اور ایس ایچ او وومن تھانہ مریم بھُٹ کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے
جس تھانے کی حدود میں یہ واقعہ پیش آیا، اس تھانے کی پولیس رینجرز کے مذکورہ آپریشن سے لاعلم تھی۔ انکوائری کمیٹی نے اسی ہفتے رپورٹ مکمل کرکے وزیر اعلیٰ کو پیش کرنا ہے۔
سکرنڈ واقعے پر سرکاری مؤقف میں تبدیلی
پولیس کا مؤقف دیہاتیوں کے مؤقف سے یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے۔ پولیس نے انچارج سی آئی اے مقصود منگنھار کی مدعیت میں اس واقعے کی ایک اور ایف آئی آر درج کر لی ہے
نئی ایف آئی آر میں لیاقت جلبانی، رجب جلبانی، غلام رسول اور دیگر نامزد ملزمان سمیت 250 افراد کو اس میں شامل کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ رینجرز اور پولیس نے خفیہ اطلاع پر ماڑی جلبانی گوٹھ میں آپریشن کیا تھا
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن کالعدم تنظیم سے وابستہ افراد کی موجودگی کی اطلاع اور لیاقت جلبانی نامی شخص کے پاس دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کی اطلاع پر کیا گیا تھا، جو دہشت گردی کی کسی بڑی واردات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ابھی لیاقت جلبانی کے گھر کی تلاشی جاری تھی کہ دو ڈھائی سو کے قریب دیہاتیوں نے آ کر پولیس اور رینجرز کو گھیر لیا۔ جن کے ہاتھوں میں کلاشنکوف، سلاخیں اور لاٹھیاں تھیں
پولیس کے بقول گاؤں والوں نے بعض رینجرز اہلکاروں کو موبائل وین سے اتار کر پکڑ لیا۔ اس دوران غلام رسول، موریو جلبانی، منیر جلبانی اور دو نامعلوم افراد کے ہاتھوں میں کلاشنکوف موجود تھیں اور انہوں نے رینجرز اہلکاروں کو قتل کرنے کی غرض سے فائرنگ کی، جس سے وہاں موجود افراد انہی کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے اور اس میں رینجرز کے بعض جوان زخمی بھی ہوئے
ایف آئی آر کے مطابق رینجرز نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی اور وہاں موجود ایک شخص کی ٹانگ میں گولی لگی
علاوہ ازیں رینجرز ترجمان کا دعویٰ تھا کہ رینجرز اور پولیس کو دیکھتے ہی شرپسند عناصر نے حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں رینجرز کے چار جوان زخمی ہو گئے
جبکہ پیپلز میڈیکل کالج ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عقیل قریشی نے بتایا تھا کہ پانچ افراد کو زخمی ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جبکہ ہسپتال میں کسی زخمی رینجرز یا پولیس اہلکار کو نہیں لایا گیا
ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پولیس اور رینجرز اپنے جن زخمی اہلکاروں کا دعویٰ کر رہے تھیں، وہ کہاں ہیں؟
واضح رہے کہ واقعے پر سرکار کے مؤقف میں کئی بار تبدیلی آ چکی ہے۔ پہلے صوبائی وزیرِ داخلہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ یہاں خودکش بمبار کی اطلاع پر کارروائی کی گئی اور اس دوران مقابلے میں چار افراد مارے گئے۔ کچھ ہی دیر کے بعد وزیر داخلہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ حارث نواز نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ آپریشن کے دوران رینجرز پر حملہ کیا گیا اور انہوں نے اپنے بچاؤ میں فائرنگ کی جس سے ہلاکتیں ہوئیں
تاہم اب پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ’مطلوب‘ ساٹھ سالہ رجب جلبانی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ فروری 2019 میں بھی گرفتار ہو کر ضمانت پر رہا ہوا تھا
رینجرز لیاقت جلبانی اور رجب جلبانی کو دوبارہ گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ تاہم اس میں کامیابی نہ مل سکی
پولیس اور رینجرز جس ’ہائی ویلیو‘ ملزم کو گرفتار کرنے پہنچی تھی، وہ ماڑی جلبانی گاؤں کے لگ بھگ ستر سالہ بزرگ سیاسی اور سماجی کارکن رجب جلبانی ہیں
رجب جلبانی کا کہنا ہے کہ وہ ایک کسان ہیں۔ ”میں ہمیشہ سماجی برائیوں کے خلاف جدوجہد کرتا رہا ہوں اور ان سندھ کی عدم تشدد کی قومپرست فکر سے وابستہ ہوں“
رجب جلبانی بتاتے ہیں کہ ان کے خلاف 2019 میں غلط طور پر ایک مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا تھا ”بعد ازاں مجھ سے میری گاڑی اور لاکھوں روپے چھین کر مجھے رہا کیا گیا۔۔ یہ کسی ادارے کا قانونی طریقہ نہیں تھا بلکہ دراصل ایک اغوا کی واردات تھی۔ اس کے بعد بھی میرے گھر پر مسلسل چھاپے مارکر مجھے ہراساں کیے جانے کا سلسلہ چلتا رہا“
انہوں نے بتایا ”چونکہ میری سیاست سندھ میں ہمیشہ برسر اقتدار رہنے والی پیپلز پارٹی کی مخالفت میں رہی ہے۔ رواں ماہ 8 تاریخ کو بھی میرے گھر پر پولیس وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور ہم سے ہمارے موبائل فون اور نقد رقم بھی چھین لی۔ بعد ازاں مزاحمت پر وہ لوگ چلے گئے۔ جبکہ پولیس سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا“
انہوں نے کہا کہ جرائم پیشہ لوگوں، پولیس اور ڈاکووں کی سرپرستی کرنے والے وڈیروں کی وجہ سے ہم معمول کی زندگی گزارنے سے بھی قاصر ہیں
انہوں نے اعلیٰ عدلیہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر اداروں سے اپیل کی کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے
دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے اپنے ایک بیان میں سکرنڈ میں سیکیورٹی آپریشن کے دوران ہلاکتوں کی آزادانہ طور پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے
کمیشن کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کو صوبے میں امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا چاہئیں، لیکن کسی بھی طرح ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں دی جاسکتی
واضح رہے کہ جب نگران صوبائی وزیر داخلہ سے پوچھا گیا کہ اس کارروائی کے دوران خود کش جیکٹ یا کوئی ہتھیار برآمد کیا گیا؟ اس کے جواب میں بریگیڈیئر حارث نواز نے کہا: ’گاؤں والوں کی مزاحمت اور فوسرز پر حملے کے باعث کوئی ہتھیار یا کوئی چیز برآمد نہیں کر سکے۔ ’گاؤں کا ایک رہائشی کلہاڑی سے صوبیدار پر حملہ آور ہوا‘ ایسے میں جوانوں کو نقصان سے بچانے کے لیے مزید کارروائی کے بجائے فورسز وہاں سے نکل آئیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ مرنے والے افراد کے خلاف جرائم کا ریکارڈ تو بظاہر نہیں ہے، تو جواب میں بریگیڈیئر حارث نواز نے عجیب منطق جھاڑتے ہوئے کہا ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ نئے لوگوں کو حملے کے لیے تیار کیا گیا ہو اور ان پر کوئی کیس نہیں تھا
گاؤں ماڑی جلبانی کہاں واقع ہے؟
ضلع شہید بے نظیر آباد کے شہر سکرنڈ سے مغرب کی جانب تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ واقع ہے۔ دریائے سندھ کے حفاظتی بند اور جنگل کے درمیان گاؤں ماڑی جلبانی ہے۔ دریا کی دوسری جانب مغرب میں معروف سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کا آبائی گاؤں سن واقع ہے۔
ماڑی جلبانی گاؤں کے رہائشی عزیز جبانی کے مطابق: ’یہ ایک بڑی آبادی والا گاؤں ہے جس میں پانچ ہزار گھرانے اور تقریباً 25 ہزار آبادی ہے۔ ‘
عزیز جلبانی کے مطابق ماضی میں اس گاؤں کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا جس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا ہے۔ گاؤں میں دو ہائی اسکولز، سول ہسپتال اور تھانہ ہیں۔ آبادی کی اکثریت کھیتی باڑی اور مویشی پالتی ہے۔
’گاؤں کی 80 فیصد آباد جلبانی برادری کی ہے۔ جب دیگر برادریاں بشمول ملاح، سومرو، راہو اور دیگر رہائش پذیر ہیں۔‘