سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط59)

شہزاد احمد حمید

سُوریءَ تے سو وار، ڈیھاڑیو چنگ چڑھِیں
جِم وِرچی چھڈئَیں، سِکَنڑ جی پچار
پِرت نہ پَسیں پار، نِینھں جئائین نِگئو
(شاہ عبدلطیف بھٹائیؒ)

منظوم ترجمہ: عاشق سولی چڑھتے ہیں دن میں سو سو بار
پریت کی ریت کو بھول نہ جانا، دیکھ کے نیزے، دار
جا تو اب اس پار، پنپ رہی ہے پریت جہاں پہ۔۔

سندھ کی دھرتی۔۔ وادی تہذیب کا مرکز۔۔۔ یہ کشمور ہے۔ گیٹ وے ٹو سندھ اور بلوچستان۔ برصغیر میں اسلام کا دروازہ، ”بابِ اسلام“۔

قرمزی آفتاب ریت کے میدانوں سے سمندر میں غوطہ لگاتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی ہلکی شعاعوں نے آسمان کو ایک سنہری چادر سے ڈھانپ رکھا ہے اور پہاڑ گنگا جمنی رنگوں سے مزین نظر آ رہے ہیں۔

یہ دھرتی شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، لال شہباز قلندرؒ، عبداللہ شاہ غازیؒ، سچل سرمستؒ جیسی روحانی ہستیوں کی سر زمین۔ محبت اور امن کا خطہ۔ یہ صوبہ سندھو کے نام سے ہی منسوب ہے۔ دنیا میں کوئی اور خطہ ایسا نہیں، جو کسی دریا کے نام سے منسوب ہو۔ یہ اعزاز بھی میرے دوست سندھو کو ہی حاصل ہے۔ پرانی انڈس ویلی تہذیب کا اہم ترین مرکز سندھ۔ موئن جو دڑو، کوٹ ڈیجی، اماڑہ، اروڑ کی سرزمین۔ یہ دھرتی اپنے سینے پہ دنیا کے سب سے کم عمر جرنیل اور فاتح محمد بن قاسم کے قدموں کے نشان سجائے ہے۔ 2800 سے1750 قبل مسیح کے درمیان جنم لینے والی سلطنتوں (فارس، چندر گپت موریا) کا اہم حصہ رہی ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، حضرت لال شہباز قلندرؒ، حضرت سچل سرمستؒ، حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ ایسے اولیاء کرام، صوفی شعراء، محبت کرنے والے سادہ سندھیوں، بانی پاکستان قائد اعظم ؒ اور شہید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہیدکی دھرتی۔ وہی دھرتی، جس کے بارے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا:
”پاکستان کی تحریک اسی روز شروع ہو گئی تھی جب سندھ میں پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا۔“

سندھ، برصغیر اور اسلام۔ یہ وہ تکون ہے جو اس خطے میں اسلام کی سربلندی اور آمد کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ ”رورکا“ roruka آج کا ”اروڑ یا روہڑی“ سوریا سلطنت کا درالحکومت تھا۔ اس کا ذکر بدھ ادب میں بھی ملتا ہے۔ ’بھارت ورسا‘ کے حوالے سے مہابھارت میں سندھ کا ذکر ہے۔ یہ علاقہ 6 قبل مسیح میں فارس کی سلطنت کا بھی حصہ رہا۔ وادیِ سندھ کی تہذیب کا یہ مرکز تھا۔ شمال میں بحیرہ عرب ہے تو تھر کا صحرا مشرقی سمت اور اسی سمت بھارتی صوبے گجرات اور راجستھان ہیں۔ کھیرتھر (سندھی زبان میں کیرٿر جبل) کا پہاڑی سلسلہ مغرب میں ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کو جدا کرتا ہے۔ اس میں کھیرتھر نیشنل پارک بھی شامل ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ بحیرہ عرب سے شروع ہو کر کوہ سلیمان تک پھیلا ہے۔ اس سلسلے کی سب سے اونچی چوٹی ’زرداک پیک‘ بلوچستان میں ہے۔ ’دریائے گج‘ اور ’دریائے حب‘ اسی پہاڑی سلسلے سے بہنا شروع کرتے ہیں۔ ’گجی پاس‘ اس سلسلے کا اہم درہ ہے جو خضدار اور جھالاوان سے ملاتا ہے۔ سندھ کا زرخیز میدان سندھو کی لائی ہوئی سیلابی مٹی سے تشکیل پاتا ہے۔

سندھو بتاتا ہے، ”تمہارا دوست سندھو ہی صوبہ سندھ کو اُس کا نام دیتا ہے۔سندھ کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے جس کا اقرار دنیا کے نامور مورخ اور محقق کر چکے ہیں۔ موئن جو دڑو ہو یا کوٹ ڈیجی کا قلعہ ہو، صحرائے تھر ہو یا کھیرتھر کا پہاڑی سلسلہ ہو، رنی کوٹ (بعض لوگ اسے رانی کوٹ بھی کہتے ہیں، میں اسے رنی کوٹ ہی لکھوں گا) کا قلعہ ہو یا جامشورو کی پہاڑیاں، سبھی گواہ ہیں کہ سندھ کی تاریخ اور ثقافت بہت قدیم ہے۔ عدم توجہی، عدم دلچسپی کے باعث قیمتی تاریخی اور ثقافتی ورثہ تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے۔ ستم ظرفی تو یہ ہے کہ خود پاکستان اور خاص طور پر سندھ کے رہنے والے بھی نہیں جانتے کہ یہاں ’دیوارِ چین‘ جیسی دیوار بھی ہے، جو شاید دیوارِ چین سے بھی زیادہ لمبی ہے۔ کراچی سے تین سو (300) کلومیٹر دور جامشورو کے پہاڑی صحرا میں واقع رنی کوٹ قلعہ کی دیوار، جسے ’عظیم دیوار سندھ‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچنے کے لئے راستہ جامشورو شہر سے ایک سو بیس (120) کلو میٹر کی مسافت پر ’سَن‘ قصبہ سے جاتا ہے۔ رنی کوٹ قلعہ کا شمار دنیا کے بڑے قلعوں میں ہوتا ہے اور روایت کے مطابق یہ دنیا کا شاید سب سے بڑا قلعہ ہے۔“

”سنو؛“ تمہیں چند سطور میں سندھی ثقافت کے بارے بتاتا چلوں۔۔ جس طرح پنجاب کی ثقافت کے حوالے سے بتایا ہے۔“ داستان گو کہنے لگا، ”سندھی ثقافت کی جڑیں وادیِ سندھ کی تہذیب سے ملتی ہیں۔ یہ صحرائی خطہ زیادہ تر غیر ممالک کے زیر اثر رہا ہے۔ سندھو نے بھی اس صوبے کی ثقافت پر اپنا اثر اور رنگ چھوڑا ہے۔ یہاں کے گرم موسم نے سندھیوں کے مزاج پر ہی اثر نہیں ڈالا بلکہ ان کی زبان، لوک گیتوں، روایات اور رسوم پر بھی اثر انداز ہوا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہونے والی کھدائی نے سندھی تہذیب و ثقافت، معاشرتی زندگی کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ کہنے کو اس ثقافت کا شمار دنیا کی قدیم ترین ثقافتوں میں ہوتا ہے۔ سیاح ’جانیا چانکیا‘ (jaina chikna) سندھ کی ثقافت کے حوالے سے لکھتا ہے؛
‘شائستگی، جاندار، نرم اور خرام طرز۔ سندھی ghadiharvas (گندھاروی) آرٹ یعنی ناچ، گانے، موسیقی کے شوقین اور وطن پرست ہیں۔‘ ہر سال دسمبر کی پہلی اتوار کو سندھی ثقافت کادن منایا جاتا ہے، جس میں سندھی زبان، ٹوپی، ثقافت اور اجرک کو اجا گر کیا جاتا ہے۔“

”میں (سندھو) گڈو سے جنوبی سمت بہتا ہوں۔ سکھر کے بیچ، لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے ہوتا سیہون کی پہاڑیوں تک چلا گیا ہوں۔ حیدرآباد کے پہلو سے گزر کر ٹھٹہ کے مشرق سے کیٹی بندر کے مقام پر چھوٹی چھوٹی ندیوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں اتر جاتا ہوں۔ رگ وید میں میرے حوالے سے دیو مالائی کہانیاں بیان ہوئی ہیں۔ بر صغیر کا میں دوسرا دریا ہوں، جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں۔ میرے کنارے دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب ’موئن جو دڑو‘ نے جنم لیا۔ سندھی مجھے ’اڈیرولال اور جھولے لال‘ بھی کہتے ہیں۔ تم سندھ کو جغرافیائی لحاظ سے 3 حصوں میں تقسیم کر سکتے ہو۔“
کھیرتھر رینج khirthar range اس میں چٹانیں، خشک اور چٹیل زمین اور کچھ قابل کاشت زمین شامل ہے۔
انڈس پلین رینج indus plain range اس میں سندھ کی سب سے زرخیز زمین شامل ہے۔
اچھڑو تھر achhrro thar سندھ کا تھر (سفید ریت کاصحرا) سخت گرم مرطوب علاقہ، جہاں درجہ حرارت 50 (پچاس) ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔

انڈس پلین کے علاوہ باقی صوبہ خشک اور یہاں سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سندھو کے کنارے جابل کے جنگلات ہیں۔ امرود اور مالٹا یہاں کے پھل ہیں جبکہ کھجور اور آم یہاں کی سوغات ہیں۔“

”دوست سنو؛“ داستان گو کہانی جاری رکھے ہے؛ ”کھجور سندھ کا خاص تحفہ ہے۔ پاکستان کی کل پیداوار کا ساٹھ (60) فی صد کھجور صرف خیرپور سے حاصل ہوتی ہے۔ سڑک کنارے وسیع رقبے پر کھجور کے باغات میلوں میں پھیلے ہیں۔ جون جولائی کے مہینوں میں جب سورج سندھ کی دھرتی کو تپش سے جھلسا دیتا ہے، لوگ سائے کی تلاش میں ہوتے ہیں مگر یہ شدید گرم موسم کھجور کے پھل کو تیار کر دیتا ہے اور قطار در قطار لگے کھجور کے اونچے درخت اپنی خوشبو سے اطراف کو مہکا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ امرود اور آم کے درخت بھی سندھ کی دھرتی کو قدرتی رنگوں سے سجاتے ہیں۔ کھجور کے پکنے کا موسم آتے ہی بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور پنجاب سے مزدور سندھ کا رخ کرتے ہیں۔ ان پھلوں کو درختوں سے اتار کر ڈبوں اور پیٹیوں میں پیک کر کے اپنی جیبیں پیسوں سے بھر جاتے ہیں۔ یہ وقت مون سون سیزن کا بھی ہے۔ اگر وقت سے پہلے بارشیں شروع ہو جائیں تو کھجور کی پیداوار متاثر ہوتی ہے اور اس کا پھل ضائع ہونے کا اندیشہ بھی۔“

”کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن بین الاقوامی طور پر ہم پیچھے ہیں۔ نہ کوئی قابل ذکر کھجور کی قسم متعارف کروا سکے اور نہ پیکنگ کی صنعت کو بین الاقوامی معیار کے مطابق۔ یوں ہماری کھجور کو بین الاقوامی طور پر وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی، جو اسے ملنی چا ہیے۔ اس کی بڑی وجوہات میں اس سے وابستہ افراد کی سستی، عدم توجہی اور حکومت کی نالائقی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کھجور کو برآمد کرنے کے لئے مناسب بندوبست کریں۔یقیناً ہم کھجور اور دیگر پھلوں کی برآمد سے کافی زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔“

”سندھ پھلوں کے بادشاہ (آم) کا بھی گھر ہے۔ سندھڑی، میرپور خاص، سانگھڑ، ٹنڈو الہ یار، عمرکوٹ، حیدرآباد کے اضلاع آم کی پیداوار کے لئے مشہور ہیں۔ان اضلاع میں وسیع رقبے پر پھیلے آم کے باغات علاقے کے لینڈ اسکیپ کو نیا انداز دیتے ہیں۔ سندھڑی، انور رٹول، دوسہری اور چونسہ آم کی اہم قسمیں اور سندھ کی پہچان ہیں۔ آم کا پھل تیار ہوتے ہی باغات مزدوروں سے اور قرب و جوار انور رٹول اور چونسہ کی خوشبو سے معطر ہو جاتے ہیں۔ شدید گرم موسم اور گرم ہوا (لو) پھلوں کے بادشاہ کی فصل تیار کرنے میں انتہائی مدد گار ہیں۔ پاکستان اور خاص طور پر سندھ کے آم کی مانگ دنیا بھر میں ہے۔ مجھے اس روز زیادہ خوشی ہوگی جب یہ پھل دنیا بھر ’یہ پاکستانی آم ہے‘ کے نام سے فروخت ہو کر پاکستان کی پہچان ہوگا۔“ سندھو لگی لپٹی بغیر حق بات کہنے سے ڈرتا نہیں ہے۔سندھو یہاں تک کہانی سنا کر خاموش ہو گیا ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close