”خدارا ملیر کو بچایا جائے!“

ڈاکٹر ابوبکر بلوچ

لفظی اعتبار سے ملیر کا مطلب ہے سرسبز و شاداب، شہرِ کراچی کا یہ علاقہ چونکہ بہت سرسبز وشاداب تھا، اس لیے اس نے ملیر کے نام سے شہرت حاصل کی۔
مشہورِ زمانہ مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ مصر دریائے نیل کا اور شہرِ کراچی دریائے ملیر (ملیر ندی) کا تحفہ ہے۔

ملیر کی غیرمعمولی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح گاہ بہ گاہ ملیر کے شاداب ماحول سے فیض یاب ہونے کے لیے ملیر تشریف لایا کرتے تھے، ان کو ملیر کا صحت بخش ماحول بہت پسند تھا اور ملیر کے پھل خاص طور پر پپیتے بے حد مرغوب تھے، قائد اعظم کی قیام گاہ آج بھی ’ملیر بنگلو‘ کے نام سے قائم ہے، جو میمن گوٹ کے عقب میں ڈملوٹی روڈ پر واقع ہے۔

انگریز سرکار نے 1881ع میں ملیر کے میٹھے پانی کے ذخائر سے شہر کراچی کو مستفید کرنے کے لیے ڈملوٹی روڈ پر متعدد ٹیوب ویلز تعمیر کروائے تھے جو آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہیں اور فنِ تعمیر کا دلکش شاہکار ہیں، ان ٹیوب ویلز سے لائنز ایریا کے علاقے تک کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔

ملیر کے صحت بخش اور خوبصورت ماحول کے باعث ایک زمانے میں ملیر ہی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کا سوچا جا رہا تھا۔ شہر کے لوگ تفریح کے لیے ملیر کا رخ کر لیا کرتے تھے، ڈاکٹر حضرات آب و ہوا کی تبدیلی اور صحت کی بحالی کے لیے مریضوں کو ملیر میں کچھ وقت قیام کا مشورہ دیتے تھے۔ ملیر، کراچی کو تازہ پھل اور سبزیاں فراہم کرنے کا آسان اور سستا ذریعہ تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ ملیر ایک خوبصورت گلدان تھا مگر افسوس کہ بولہوسوں کی نہ ختم ہونے والی حرص نے ریاستی اداروں کی سرپرستی میں اس خوبصورت گلدان کو ایک متعفن اگالدان میں تبدیل کر دیا ہے۔ ساٹھ کی دہائی سے ملیر ندی سے وسیع پیمانے پر ریتی بجری کے اخراج کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

چیف جسٹس مقبول باقر نے ریتی بجری اٹھانے کے اس عمل کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردی تھی، اب وہ وزیراعلیٰ ہیں اور انتظامی سربراہ کی حیثیت سے ان کو اپنے اس فیصلے اور حکم پر عمل درآمد کا جائزہ لینا چاہیے، جس کی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔

ریتی بجری کے غیر قانونی اخراج اور چوری کے باعث زیرِ زمین میٹھے پانی کے ذخائر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور سمندر کے کھارے پانی کا غلبہ ہو گیا، جس کے باعث زرخیز زمینیں بنجر ہونا شروع ہو گئیں، زمینیں بنجر ہونے کے باعث بلڈر مافیا کی چاندی ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شاداب ملیر کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ملیر کو ایک طرف حیدرآباد اور دوسری طرف ٹھٹہ سے ملایا جا رہا ہے، جو نہ صرف شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی منافی ہے۔

شاداب ملیر کی تباہی کے انتہائی منفی اثرات ملیر اور کراچی پر مرتب ہو رہے ہیں، درجہِ حرارت میں اضافہ اور ہیٹ اسٹروک جیسے مساٸل اسی امر کا نوحہ ہیں۔

پورے پاکستان کو ملیر میں بسانے اور آبادی کی غیر فطری پیوندکاری کے باعث ملیر کی زرعی، تہذیبی، تاریخی، ماحولیاتی اور جغرافیائی شناخت شدید خطرے سے دوچار ہے، اس بھیانک عمل سے وسائل (پانی، بجلی، گیس، قبرستان، سڑک وغیرہ) کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور علاقے میں جرائم کے ساتھ منشیات کی لعنت بھی تیزی کے ساتھ عام ہوتی جا رہی ہے۔

ملیر کی تباہی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں Wiers ویرز (اسمال ڈیمز) کی تعمیر پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ موجودہ ویرز (اسمال ڈیمز) کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے اقدامات کیے گئے، جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 2020 میں شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باعث ٹوٹنے والا ویر ون کی تعمیر کا کام تمام تر وعدوں کے باوجود آج تک شروع نہیں کیا جا سکا۔ ویرز تباہ ہونے کے باعث بارشوں کے نتیجے میں ندی میں آنے والا بارانی پانی اسٹور نہیں ہو پا رہا ہے اور سمندر میں ضائع ہو رہا ہے۔ یہ ویرز جب صحیح تھے تو پانی اسٹور ہونے کے باعث زیرِ زمین سطح بلند ہو جاتی، جس کا فائدہ ملیر کی زمینوں کو پہنچتا تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف پانی کی سطح دن بدن گرتی جا رہی ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی تبدیل ہو رہا ہے، اس طرف اگر توجہ دی جائے تو شاداب ملیر کی عظمتِ رفتہ کو بحال کیا جا سکتا ہے بلکہ انگریز دور کے ڈملوٹی ٹیوب ویلز کو بحال اور موثر بنا کر قلتِ آب کے بحران پر قابو بھی پایا جا سکتا ہے۔ (یہ امر خوش آٸند ہے کہ ورلڈ بنک کی جانب سے ویر ون، ٹو اور تھری کی مرمت اور بحالی کے کام کا آغاز کردیا گیا)

ندی کو مینٹین رکھنے کے لیے 75 برسوں میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا، ہر سال بارشوں کے باعث ندی میں پانی کا بہاؤ ہوتا ہے تو یہ پانی ریتی بجری کے ساتھ مٹی بھی لاتا ہے، صورتحال یہ ہے کہ ملیر ندی میں مختلف مقامات پر مٹی کی ایک تہہ جم گئی ہے جس کا سائز تقریبا 15 فٹ ہے۔ مٹی کی یہ تہہ پانی کو زمین کے اندر جذب کرنے اور ٹیوب ویلز تک اس کی رسائی کو ممکن بنانے میں رکاوٹ ہے۔

شاداب ملیر کی تباہی میں رہی سہی کسر زرعی علاقے میں مسلّمہ ماحولیاتی اصولوں اور قوانین کے پرخچے اڑاتی، غیر قانونی طور پر قائم صنعتوں نے پوری کر دی ہے، جن کے زہریلے فضلہ جات بڑی بے رحمی کے ساتھ ندی میں گرائے جا رہے ہیں، جس سے جگر، معدہ اور جلد کی خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ صنعتیں ماحولیاتی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ زہریلے دھوئیں کے ذریعے ملیر کی صحت بخش فضا اور شاداب ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں، جس سے علاقے میں سانس کی بیماریاں پروان چڑھ رہی ہیں۔

ناگوری بھینس باڑوں کا گند بھی ملیر ندی میں پھینکا جا رہا ہے، جس کے خلاف ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے مگر انتظامیہ عمل درآمد سے گریزاں ہے۔

بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے سٹی سمیت مختلف ہاؤسنگ پروجیکٹس اور دیگر علاقوں کے سیوریج کا پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے ملیر ندی اور ملحقہ ندیوں میں پھینکا جا رہا ہے، جس کے انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سنگین صورتحال میں سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کا کردار انتہائی شرمناک اور مجرمانہ ہے اور اس کا عمل یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ انوائرمنٹل پروٹیکشن نہیں بلکہ انوائرمنٹل ڈسٹرکشن کا ادارہ ہے۔

ملیر ایکسپریس وے کا منصوبہ تیزی سے روبہ عمل ہے، اس کی تعمیر پر ملیر کے لوگوں اور خاص طور پر کاشتکاروں کو شدید تحفظات ہیں۔ اس منصوبے پر عمل درآمد سے پہلے ضروری قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، نہ اس ضمن میں کسی اسٹڈی یا ریسرچ کی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ انوائرمنٹل اسیسمنٹ کا اہتمام کیا گیا۔

کہا جا رہا ہے کہ مقامی لوگوں اور کاشتکاروں کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اس کے نقشے میں ترمیم کی گئی ہے مگر اس کا حتمی نقشہ نامعمولی وجوہات کی بنا پر ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آ سکا ہے، جس پر صدیوں سے آباد مقامی لوگوں اور ماحول دوست حلقوں کو شدید تشویش لاحق ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایشین بینک نے ملیر ایکسپریس وے کے اس منصوبے کو ماحول دشمن قرار دے کر سندھ حکومت کو فنڈز کے اجرا سے انکار کر دیا ہے۔

مذکورہ بالا تمام عوامل نے ایکو سسٹم اور لائف سائیکل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، زراعت کی تباہی کے باعث ملیر سے قسم قسم کے پرندوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے اور نایاب نسل کے جاندار خاتمے کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں اور سلسلہِ حیات کا یہ فطری نظام بری طرح مسخ ہو ہو رہا ہے۔

یہ سائیکل ایک تسبیح کی طرح ہے جس کا ایک ایک دانہ اہم ہوتا ہے اگر ایک دانہ بھی ٹوٹ جائے تو تسبیح کے سب دانے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ:

1.ترجیحی بنیادوں پر ویرز کی تعمیرِ نو اور بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

2. ملیر ندی میں ویر 1، ویر 2 اور ویر 3 کے درمیان مصنوعی جھیل بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

3. ملیر ندی کے مختلف مقامات موجود مٹی کی دبیز تہہ کو صاف کر دیا جائے۔

4. ریتی بجری کی چوری پر پابندی کے موثر نفاذ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔

5. ملیر ندی میں گرنے والے سیورج کے پانی کو ماحولیاتی اصولوں کے مطابق پہلے ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جائے۔

6. زرعی علاقے میں قائم غیر قانونی صنعتوں پر پابندی عائد کی جائے۔

7. ملیر کو قانونی طور پر زرعی علاقہ قرار دے کر مزید ہاؤسنگ پروجیکٹس پر پابندی عائد کی جائے۔

8. زرعی زمینوں کی 30 سالہ لیز کی تجدید کرتے ہوئے باقی سندھ کی طرح ملیر کے کاشتکاروں کو مالکانہ حقوق دیے جائیں اور لیز کی حامل زرعی زمینوں کو قبضہ گیروں اور بلڈر مافیا کی نذر ہونے سے بچایا جائے۔

خدارا اس اہم ترین مسٸلے پر آواز بلند کیجیے۔۔۔۔یہ صرف ملیر میں بسنے والوں یا صرف کاشتکاروں کا مسٸلہ نہیں ہے بلکہ یہ شہرِ کراچی میں رہنے والے ہر اس شخص کا مسٸلہ ہے، جس کی دھڑکنوں کے لبوں پر زندگی کا نغمہ رقصاں ہے۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close