اکبر الہ آبادی، جو دل میں تو آتے ہیں سمجھ میں نہیں آتے

راحِل مرزا (نئی دہلی)

میری عمر اس وقت تقریباً نو دس برس رہی ہوگی جب والدہ ہر رات یہ اشعار گنگناتی رہتیں اور حسب عادت ایک درد کی کیفیت میں اشعار کا مطلب سمجھاتیں۔
عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزا بھول گئے۔۔

ہر سال عید کے روز میں اور میری بہن یوں ہی یہ اشعار گنگناتے رہتے جیسے اس کے بغیر ہماری عید ہی نہ ہو۔ خیر اپنے گھر سے نکل کر جب ذرا سن شعور کو پہنچے تو شعر میں مذکورہ ’عشرتی‘ کو پہچانا۔ آئیے عشرت حسین کے گھر ان کے والد محترم یعنی ان اشعار کے خالق اکبر الہ آبادی کے گھر چلتے ہیں۔

سید اکبر حسین رضوی یعنی اکبر الہ آبادی آج ہی کے روز 1846 میں الہ آباد میں پیدا ہوئے۔

’لسان العصر‘ اور ’خان بہادر‘ جیسے القاب کے مالک اکبر نے 11 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ اکبر کے چچا سید وارث علی کو جب یہ معلوم ہوا کے اکبر شعر کہنے لگے ہیں تو انھوں نے اکبر کے شعر کہنے کی صلاحیت کو پرکھنے کے لیے ان کو ایک مصرعہ دیا ’ہاں جی اس پر دوسرا مصرعہ لگاؤ‘:
بتوں کا عشق ہے عشقِ مجازی بھی حقیقت میں
اکبر نے فوراً دوسرا مصرعہ یوں لگایا:
یہ مصرعہ چاہیے لکھنا بیاض چشم وحدت میں

چچا کو اکبر کی صلاحیت دیکھ کر حیرت اور خوشی دونوں ہوئیں۔ اب اکبر باقاعدہ شاعری کرنے لگے اور الہ آباد کے مشہور شاعر غلام حسین وحید سے اصلاح لینے لگے اور مشاعروں میں ان کے ساتھ شرکت کرنے لگے۔ انھوں نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی نوجوانی کا زمانہ طبیعت میں رنگینی ارباب نشاط میں دلچسپی تھی سو غزل کا سہارا لیا اکبر کے اس زمانے کے کلام میں شوخی اور رنگینی ہے اور غزل کے روایتی لب ولہجہ میں محبوب کے ہجر وصال کا بیان ہے مثلاً یہ شعر
الٰہی کیسی کیسی صورتیں تو نے بنائی ہیں
کہ ہر صورت کلیجے سے لگا لینے کے قابل ہے
اس کے بعد اکبر نے طنز و مزاح کا سہار لیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
خیر اس کے بعد طنز مزاح نے اکبر کو وہ مقبولیت بخشی جو ان کی موت کے سو سال بعد بھی قائم ہے۔

اکبر مستقبل شناس تھے ان کے کلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اشعار سو سال بعد بھی حسب حال ہیں اور زمانے پر فٹ بیٹھتے ہیں۔

آپ اکبر الٰہ آبادی کی نظم ’نئی تہذیب‘ پڑھیں تو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں، لیکن جب اس کو سامنے رکھ کر اپنا اور موجودہ وقت کا محاسبہ کرتے ہیں تو شرمندہ بھی ہوتے ہیں:
نظم نئی تہذیب کے اشعار
نئے عنوان سے زینت دکھائیں گے حسیں اپنی
نہ ایسا پیچ زلفوں میں نہ گیسو میں یہ خم ہوں گے
نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی یہ پابندی
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے
نہ پیدا ہوگی خط نسخ سے شان ادب آگیں
نہ نستعلیق حرف اس طور سے زیب رقم ہوں گے

اکبر نے اس میں جس طرح مغربی تقلید کے برے اثرات کی نشاندہی کی تھی، وہ آج نمایاں ہے۔ ایسے ہی اکبر کو مستقبل شناس نہیں کہتے۔

عشرت کدہ اور آنند بھون

انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے والد اور پہلی خاتون وزیراعظم اندرا گاندھی کے دادا موتی لال نہرو اور اکبر دونوں الہ آباد سے تھے اور ہم عصر تھے۔ اکبر نے اپنے بیٹے عشرت حسین کے نام پر اپنے دولت کدے کا نام ’عشرت کدہ‘ رکھا تھا۔

موتی لال نہرو کو یہ نام بہت پسند آیا۔ انھوں نے اپنی پسند کا اکبر سے اظہار کیا تو اکبر نے کہا آپ کو پسند ہے تو آپ اپنے گھر کے نام بھی یہی رکھ لیجیئے۔ موتی لال نہرو نے تکلفانہ کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک ہی شہر میں دو عشرت کدہ تو اکبر نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ارے ’عشرت کدہ‘ نہیں آپ ’آنند بھون‘ نام رکھ لیں۔ موتی لال کو یہ نام پسند آیا انھوں نے اپنے گھر کا نام آنند بھون رکھ لیا۔ اور ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں آنند بھون کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ’آنند بھون‘ در اصل ’عشرت کدہ‘ کا متبادل نام ہے۔

اکبر الہ آبادی جس طرح اپنے کلام میں طنز و مزاح سے لوگوں کو حیران کرتے تھے زندگی میں بھی وہ اپنے جملوں سے مزاح پیھا کرتے کبھی حرفوں میں الفاظ کا الٹ پھیر کر دیتے۔

ان کی کتاب ’اکبر الہ آبادی کے لطیفے‘ جس کو نادم سیتاپوری نے مرتب کیا ہے اس میں اکبر کے ایسے لطیفے ملتے ہیں۔ ایسے ہی اپنے ایک مصرعہ کی تشریح کرنے لگے
پہلے بی اے تھے اور اب بیمار ہیں
فرمایا اگر ’بیمار‘ بی کو Bee یعنی شہد کی مکھی سمجھ لو اور مار کو مار ہی رہنے دو تو مصرعہ کے معنی بالکل صاف سمجھ میں آ سکتے ہیں یعنی بی اے پاس کرنے کے بعد آج کل کے نو جوان بیچارے مکھی مارتے رہتے ہیں۔

اکبر الہ آبادی کو مغربی تہذیب اور ان کے عادات و اطوار سے بلا کی کراہت تھی اور یہ ان کے بیشتر کلام میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے جن میں وہ طنز کرتے ہوئے معاشرے کو بیدار کرنا چاہتے ہیں۔

وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھاؤ تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو
خواص خشک و تر سیکھو علوم بحر و بر سیکھو

سر سید احمد خان سے ان کا اختلاف بھی اسی سلسلے میں تھا۔ یہ اختلاف شخصی نہیں بلکہ نظریاتی تھا۔ زندگی کے آخری دور میں اکبر نے سر سید کے کام کی تعریف بھی کی ہے:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے
نہ بھولو فرق ہے جو کہنے والے اور کرنے والے میں

اس بارے میں مشہور نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی کتاب معاصر ادب میں لکھتے ہیں:
’اکبر کی شاعری اور ان کا تہذیبی زاویہ نظر ہمیں آج بھی دعوت فکر دیتا ہے۔۔۔اکبر کی آواز وہ آواز ہے جو نہ صرف پاکستان و ہندوستان کو بلکہ سارے ایشیا کو زندہ رہنے اور خود کو از سر نو دریافت کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اکبر جیسا شاعر ایشیا کی کسی بھی دوسری زبان میں مجھے نظر نہیں آتا۔ جس نے مغربی تہذیب کے غلبے سے بچنے کے لیے جس دلچسپ اور دلکش انداز میں اپنی جڑوں سے پیوستہ رہنے کی تلقین کی ہو۔ اور قوموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو زندہ و باقی رکھنے کا گر سکھایا ہو۔اس لیے میں اکبر کو صرف مزاحیہ شاعر نہیں بلکہ جدید فلسفی شاعر سمجھتا ہوں۔‘

ان کے حسب حال ہونے کی مثال یہ ہے کہ بالی وڈ فلم امر اکبر اینتھونی میں ایک پورا گیت ان پر ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’میں شاعر ہوں حسینوں کا میں عاشق مہ جبینوں کا۔‘

اسی طرح سلمان خان کی موجودہ صدی میں آنے والی فلم ’کک‘ میں ایک مکالمہ بہت مشہور ہوا جو کہ اکبر کے ایک شعر سے لیا گيا ہے۔ سلمان خان کہتے ہیں کہ ’میرے بارے میں اتنا مت سوچنا، میں دل میں آتا ہوں سمجھ میں نہیں آتا‘۔ یہ اکبر کے اس شعر سے مشتق ہے۔

بشکریہ: اردو نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close