بحریہ ٹاؤن معاہدے سے زیادہ زمین پر قابض ہے۔۔ ادائیگی کے حوالے سے بحریہ ٹاؤن کی درخواست مسترد

ویب ڈیسک

پاکستان کی سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی سے متعلق 2019 کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے رقم ادائیگی کے شیڈول میں ترمیم کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ چھ گھنٹے کی سماعت کے اختتام پر عدالت نے تفصیلی حکمنامہ لکھوایا

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح ہے۔ سپریم کورٹ کے 2019 کے فیصلے کی خلاف ورزی پر اگر بحریہ ٹاؤن ڈیفالٹ ہوا تو ڈیفالٹ تصور کیا جائے گا

عدالت نے حکم دیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے اب تک اقساط کی صورت 30 ارب روپے دیے وہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ سے سندھ حکومت کو منتقل کیے جائیں

حکمنامے کے مطابق بیرون ملک سے آئے 35 ارب روپے (190 ملین پاؤنڈ) سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ سے نکال کر نیشنل بینک (حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ) میں منتقل کیے جائیں

عدالتی آرڈر میں لکھا گیا کہ سروے رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کا 16896ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ ہے۔ جبکہ بحریہ ٹاؤن نے یکطرفہ طور پر اقساط کی ادائیگی روک دی اور اضافی زمین پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔

حکمنامے کے مطابق متعلقہ حکام کی مدد کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا تھا، سرکاری حکام نے عوام اور صوبائی کے مفاد کو سرنڈر کیا۔ سرکاری حکام نے اپنے عہدوں کا غلط استعمال کیا

حکمنامے میں کہا گیا کہ سرکاری حکام کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے

سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل یقین دہانی کروائی کہ غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ لوگ زمین کا ایک ٹکڑا خریدنے کے لیے عمر بھر کی جمع پونجی لگاتے ہیں، سب خرچ کرنے کے بعد لینڈ ڈویلپرز کے رحم کرم پر ہوتے ہیں۔ صرف بحریہ ٹاؤن یا سندھ حکومت سے متعلق یہ ابزرویشن نہیں۔ توقع ہے تمام حکومتیں الاٹیز کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات کریں گی

ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ حکومت کے پاس الاٹیز کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ عدالت کے سامنے آیا ہے۔ حکومتی سطح پر الاٹیز کا ریکارڈ نہ رکھے جانے پر لوگوں کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے

حکومتی سطح پر ریکارڈ رکھنے سے ایک ہی پلاٹ کئی لوگوں کو آلاٹ کرنے کی مشق بی ختم ہو گی۔ حکومت سندھ پہل کر کے مشعل راہ بن سکتی ہے

کمشنر کراچی کی رپورٹ

قبل ازیں کمشنر کراچی کی سربراہی میں 10 رکنی سروے ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ہے۔ رپورٹ میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے معاہدے سے زائد زمین پر قبضے کا انکشاف کیا گیا ہے

پاکستان کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی نے منصوبے کے لیے خریدی گئی زمین سے تین ہزار ایکڑ زائد پر قبضہ کر رکھا ہے

جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بینچ کے سامنے بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کی رپورٹ سروے آف پاکستان نے پیش کی

سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں رپورٹ پڑھتے ہوئے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے پاس 16 ہزار 896 ایکڑ زمین ہونی چاہیے تاہم سروے کے دوران معلوم ہوا کہ منصوبے کے لیے 19 ہزار 931 ایکڑ پر قبضہ ہے

عدالت کو ملیر کے ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن نے عام شہریوں کی 37 ایکڑ اراضی پر بھی قبضہ کیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ڈپٹی کمشنر ہوتے ہوئے آپ نے اس پر کیا کارروائی کی؟

عدالت کو بتایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کی زمین کی پیمائش کے لیے تین دن مسلسل سروے کر کے رپورٹ مرتب کی گئی، اس میں سروے آف پاکستان اور سپارکو سمیت دس محکموں سے مدد لی گئی، جن کے حکام نے اس رپورٹ پر دستخط کر رکھے ہیں

عدالت کو بتایا گیا کہ سروے کے موقع پر بحریہ ٹاؤن کے نمائندے بھی موجود تھے۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ اُن کو اس رپورٹ پر اعتراض ہے اور تحریری اعتراضات دائر کرنے کے لیے مہلت دی جائے

چیف جسٹس نے کہا کہ مہلت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ سروے بحریہ ٹاؤن کی درخواست پر کیا گیا، جن کی استدعا ہے کہ ادائیگی اس لیے نہیں کر رہے کیونکہ زمین پوری نہیں ملی

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے دعوے کے برعکس سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ زمین زیادہ قبضہ کی گئی ہے

بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا کہ وہ اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ عدالتی احکامات کے مطابق نہیں جس میں ہماری زمین پوری کرن کا کہا گیا تھا

عدالت کے پوچھنے پر بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے بتایا کہ کراچی منصوبے کی زمین کی کُل رقم 460 ارب روپے ہے جس میں سے اب تک 65 ارب ادا کر چکے ہیں

چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالت کو سات سال میں رقم کی مکمل ادائیگی کی جانی تھی، آج کے دن تک کتنی رقم قابلِ اد ہے؟

بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے تسلیم کیا کہ آج کی تاریخ تک 96 ارب روپے کی ادائیگی کی جانی تھی

سپریم کورٹ نے ایک شہری کی جانب سے اس مقدمے میں برطانیہ سے لائی گئی 190 ملین پاؤنڈ کی رقم کے حوالے سے دائر درخواست خارج کر دی اور قرار دیا کہ یہ معاملہ نیب کے پاس ہے اس لیے سماعت نہیں کر سکتے

سپریم کورٹ نے ساٹھے چار گھنٹے سے زائد دیر تک مقدمے کی سماعت کے بعد حکمنامے میں لکھا کہ عدالت عظمیٰ کے بینک اکاؤنٹ میں بیرون ملک سے بھجوائے گئے 35 ارب روپے نیشنل بینک کے حکومتِ پاکستان کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے زمین کی ادائیگی کی مد میں جمع کرائی گئی 30 ارب روپے کی رقم سندھ حکومت کو منتقل کی جائے۔

رپورٹ کی تفصیلات

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی کا 16 ہزار 896 ایکڑ زمین کا معاہدہ ہوا، جبکہ اس وقت بحریہ ٹاؤن 19 ہزار 931 ایکڑ زمین کا قبضہ رکھتا ہے۔ اس طرح بحریہ ٹاؤن معاہدے سے تین ہزار 31 ایکڑ زائد زمین پر قابض ہے

رپورٹ کے مطابق ڈسٹرکٹ ملیر میں 813 ایکڑ جبکہ جامشورو میں 2222 ایکڑ زائد زمین بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے محفوظ کیے گئے جنگل کی زمین پر قبضہ کیا گیا ہے

یہ رپوٹ سپارکو، سروے آف پاکستان، فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے تیار کی گئی ہے

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ زمین کا سروے کرانے کا حکم دیا تھا

ادائیگی کے حوالے سے بحریہ ٹاؤن کی استدعا

دوسری جانب سپریم کورٹ میں جمعرات کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہونے سے قبل چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ملک ریاض حسین نے استدعا کی ہے کہ بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ (بی ٹی پی ایل) کو بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم سپریم کورٹ کے سامنے زیر التوا موجودہ کیس کے دائرہ کار سے باہر ہے

درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس کے قانونی حقوق سے متعلق کوئی تعصب نہ برتا جائے، خاص طور پر ان حالات میں جب کہ قومی احتساب بیورو (نیب) مختلف الزامات پر ان کے ادارے کے خلاف انکوائری کر رہا ہے

اپنے وکیل سلمان اسلم بٹ کے توسط سے دائر کی گئی نئی درخواست میں یاد دلایا گیا کہ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ (بی ٹی پی ایل) کے فائدے کے لیے بیرون ملک سے بھیجی گئی رقم کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے

یاد رہے کہ 8 نومبر کو گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جنگلات اور نجی زمین پر تجاوزات کے الزامات کا تعین کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کے سروے کا حکم دیا تھا

سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے 2019 کے اوائل میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں 16ہزار 896 ایکڑ اراضی کی خریداری کے لیے ڈویلپر کی جانب سے 460 ارب روپے ادا کرنے کی پیشکش کو قبول کیا تھا لیکن کچھ شرائط و ضوابط کے ساتھ رواں سال 20 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ 460 ارب روپے میں سے صرف 60.72 ارب روپے ادا کیے گئے اور اس ادائیگی میں سے بھی بحریہ ٹاؤن نے صرف 24.26 بلین روپے ادا کیے

دائر نئی درخواست میں ملک ریاض نے کہا ہے کہ نیب اس کیس کے مختلف پہلوؤں سے بھجوائی گئی رقوم اور بحریہ ٹاؤن کے فائدے کے لیے اس کے استعمال کے حوالے سے تحقیقات کر رہا ہے

اس سلسلے میں نیب کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ اس کے سی ای او ملک ریاض کو پہلے ہی مختلف نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں، جواب میں وضاحت کی گئی کہ ان نوٹسز کا جواب قانون کے ساتھ ساتھ آئین کے تحت دیے گئے حقوق کے مطابق دیا جا رہا ہے

بحریہ ٹاؤن کے فائدے کے لیے بیرون ملک سے ارسال گئی رقوم کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ موجودہ کارروائی کے دائرہ کار سے باہر ہے

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سوموٹو دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کسی معاملے میں تفتیش کے عمل یا عدالتی فورمز کے اختیار کو مجروح نہ کیا جائے جب کہ ایسا کرنا متعلقہ فریقوں کے حقوق کو متعصب کرنے کے مترادف ہوگا

درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ یہ اصول طے شدہ قوانین اور بنیادی حقوق میں شامل ہیں کہ ملزم کو قانون کا پسندیدہ بچہ اور جرم ثابت ہونے تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے اور کسی شخص کو اپنے خلاف گواہ بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

قبل ازیں بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں 190 ملین پاؤنڈ ادائیگی سے متعلق متعلقہ بینک نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس سے متعلق سپریم کورٹ میں دستاویزات جمع کروائیں

دستاویزات کے مطابق ادائیگی ذاتی ہدایات اور رضامندی سے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی۔ بحریہ ٹاؤن کےلیے رقم بینک اکاؤنٹ کے مالک ملک ریاض کی براہ راست ہدایات پر بھیجی گئی تھی

دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ این سی اے اور متعلقہ بینک کی دستاویزات برطانیہ کے قوانین کے مطابق ہیں، اس پر قانونی کارروائی کا حق بھی برطانیہ کی متعلقہ عدالتوں کے خصوصی دائرہ اختیار میں ہے

دستاویزات میں برطانیہ کے این سی اے کا ایک خط بھی شامل ہے، جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ اکاؤنٹ منجمد کرنے کا حکم متعلقہ عدالت نے خود خارج کر دیا تھا

دستاویزات کے مطابق اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسی کوئی بھی رقم حکومت پاکستان کے لیے ضبط نہیں کی گئی تھی۔ اس کا مقصد بحریہ ٹاؤن کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close