سفید فام نسل پرستی کی تاریخ

ڈاکٹر مبارک علی

قوموں کے درمیان فرق کو قائم رکھنے کے لیے کبھی تہذیب کا سہارا لیا جاتا ہے، کبھی جسمانی خوبصورتی اور صحت اور کبھی جلد کے رنگ کو۔

ابنِ خلدون نے اپنے مقدمے میں لکھا ہے کہ وہ قومیں جو بہت سرد یا گرم علاقوں میں رہتی ہیں، وہ کوئی بڑی تہذیب پیدا نہیں کر سکتیں۔ لیکن جو قومیں معتدل آب و ہوا میں رہتی ہیں، وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی ہیں۔ قوموں کے درمیان نسلی فرق اور برتری کو قائم رکھنے کے لیے سیاسی اور سماجی تسلط کا مفاد ہوتا ہے۔

سفید فام نسل پرستی کی ابتداء عہدِ وسطیٰ میں غلامی کے ذریعے ہوئی۔ اس عہد میں جب وائی کنگ نے اپنے علاقوں سے حملے کر کے یورپ کے لوگوں کو پکڑ کر غلام بنایا تو غلاموں کی تجارت یورپ میں پھیل گئی۔

جگہ جگہ غلاموں کی منڈیاں تھیں، جہاں غلاموں کے تاجر انہیں فروخت کر کے منافع کماتے تھے۔ آئرلینڈ کا شہر ڈبلن غلاموں کی سب سے بڑی منڈی تھا۔ اس نے یورپ کے معاشرے کو مالک اور غلام میں تقسیم کر دیا۔

سفید فام غلامی کا یہ سلسلہ رومی سلطنت میں بھی جاری رہا۔ جب جولیس سیزر نے جرمن قبائل اور فرانس کے گال سے جنگیں کی، تو شکست دینے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں غلام بنا کر روم میں لے آیا۔

سیزر نے ان جنگوں کے حالات پر اپنی کمنٹری دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ قبائل بہادری اور شجاعت میں بڑھ کر تھے، ان کی زندگی سادہ تھی، سردیوں میں یہ بدن پر کھال لپیٹ لیتے تھے، جبکہ ان کے ٹانگوں کے لیے کوئی لباس نہیں ہوتا تھا۔ سردیوں میں بھی یہ نہر کے ٹھنڈے پانی میں نہاتے تھے۔

ان کے قبائل میں اتحاد تھا، اور شادی بیاہ بھی یہ آپس ہی میں کرتے تھے۔ اس طرح یہ لوگ اپنی نسل کو خالص رکھتے تھے۔ ان کی تعریف کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ یہ لمبے قد کے تھے، جسمانی طور پر یہ طاقتور تھے، لڑنے میں نڈر تھے، لیکن انہیں شکست اس لیے ہوئی کہ رومی فوج ان کے مقابلے میں تربیت یافتہ تھی اور اس کے جنگی حربوں کے سامنے یہ ناکام ہوئے۔

ٹاسیٹُس Tacitus نے جرمن قبائل پر ایک کتاب لکھی تھی، اِس میں اُس نے ان کی رہائش، روزمرّہ کی زندگی اور ان کی عادات کے بارے میں لکھا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ یہ جرمن قبائل جب جنگ کا وقت آتا تھا تو میدان جنگ میں برہنہ ہو کر جاتے تھے، اپنے جسم کی حفاظت کے لیے کوئی طریقہ اختیار نہیں کرتے تھے، ان کے گھر چھوٹی جھونپڑیاں ہوتیں تھیں، ان کی عورتیں گھریلو کام کرتی تھیں اور جب امن کا زمانہ ہوتا تھا تو مرد سو کر یا بیکار رہتے ہوئے اپنا وقت گزارتے تھے۔

ٹاسیٹُس کی یہ کتاب جدید جرمنی میں قوم پرستی کا نظریہ بنانے میں مددگار ہوئی کیونکہ اس میں خالص جرمن نسل کا تصور ہے، جس میں کسی دوسری نسل سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ان کی بہادری اور جنگ سے بے خوفی جدید جرمن قوم کے لیے راہنمائی کا باعث بنی۔

جب 1492ء میں اندلس سے مسلمانوں کو نکالا گیا تو انہوں نے شمالی افریقہ میں مراکش، الجزائر اور تیونس میں پناہ لی۔ ان میں سے ایک گروہ نے اِنتقام لینے کے لیے سمندر میں قذاقی شروع کی۔

یہ اسپین، فرانس، اٹلی اور یونان کے ساحلی علاقوں پر حملہ کر کے وہاں کے باشندوں کو غلام بنا کر لے آتا تھا۔ تیونس ان کا مرکز تھا۔ یا تو انہیں فروخت کر دیا جاتا تھا یا تاوان دے کر انہیں رہائی مل جاتی تھی۔

سفید فام نسل کی تاریخ میں اس وقت تبدیلی آئی، جب یورپ میں ریناساں اور ریفارمیشن نے سیاسی اور سماجی طور پر یورپی معاشرے کو بدلا۔ یورپی تاجرانہ کمپنیوں نے ایشیا اور افریقہ میں تجارت شروع کی، جنہوں نے بعد میں ان ملکوں میں سیاسی تسلط کی بنیاد ڈالی۔

لہٰذا یہ نظریہ سترھویں صدی کی پیداوار ہے۔ یورپی دانشوروں اور سیاستدانوں نے یہ ثابت کیا کہ سفید فام نسل دوسروں سے برتر ہے۔ اس کی تہذیب میں نئے افکار اور خیالات کو پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔ اس مرحلے پر مفکرین اور اسکالرز نے نسلوں کو رنگ کے حساب سے تقسیم کر دیا۔ سب سے افضل سفید فام تھے، اس کے بعد گندمی زرد اور سیاہ فام تھے۔

ہر نسل کی اپنی عادات تھیں۔ ان کی تہذیب اور کلچر تھا جو سفید فام دانشوروں کے لیے پسماندہ تھا۔ اس مرحلے پر سفید فام نسل کو یورپ تک ہی محدود نہیں رکھا گیا بلکہ اس میں کوہِ قاف کے لوگوں کو خاص طور پر عورتوں کو شامل کیا گیا۔

ہمارے ہاں بھی کوہِ قاف کی پریاں مشہور ہیں۔ اب سفید فام خوبصورتی کو مصوّری کے ذریعے شہرت دی گئی۔ کوہِ قاف کی عورتوں کی خوبصورتی کو مصوروں نے پینٹ کر کے سفید نسل کی برتری کو بڑھایا۔

مصوروں نے عثمانی سلطنت کے حرم کو بھی سفید فام عورتوں کی خوبصورتی کے لیے استعمال کیا، کیونکہ ان کے حرم میں زیادہ تر خواتین بلقان کی ریاستوں سے آتی تھیں، لہٰذا ایسی بہت سی پینٹنگز ہیں، جن میں عثمانی حرم کو سفید فام نسل کے معیار پر لا کر پیش کیا گیا ہے۔

سفید فام نسل کی خوبصورتی کو ایک اور نئی شکل دی گئی، جب جرمنی کے ایک آرٹ کے ماہر ونکل مان (Winkel Mann) نے، جو مجسموں کو دیکھ کر ان کے بارے میں اپنی رائے دے دیتا تھا کہ یہ کس عہد کے ہیں اور کس نے انہیں تراشا ہے، پوپ نے اسے ویٹیکن میں مجسموں کا انچارج بنا دیا تھا۔

ان مجسموں کی بنیاد پر اس نے اس نظریے کا اظہار کیا کہ خوبصورتی کا معیار یونان ہے۔ یونان میں جو مجسمے مردوں اور عورتوں کے ہیں، ان سے خوبصورتی کے تصور کا اندازہ ہوتا ہے۔

ونکل مان کے اس نظریے سے جرمن شاعر گوئیٹے اور ڈرامہ نگار شیلر بھی متاثر ہوئے۔ لہٰذا اب دوسری نسلوں کی خوبصورتی کو یونان کی خوبصورتی سے مقابلہ کر کے دیکھا گیا۔

سفید فام نسل پرستی نے سائنس کا بھی سہارا لیا۔ اول اسکالرز نے قوموں کے درمیان نسل پرستی پر تحقیق کی اور یہ ثابت کیا کہ سفید فام نسل کے مقابلے میں دوسری اقوام کم تر ہیں، لہٰذا ان میں عدم مساوات ہے۔

نسل پرستی کو مزید تقویّت دینے کے لیے سائنسدانوں نے انسانی کھوپڑیوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ کھوپڑی کے سائز اس کا چہرہ، اس کے ہونٹ، ان کا تجزیہ کر کے یہ رائے قائم کی کہ کون سی نسل تہذیب کے کس مرحلے پر ہے اور تہذیب کس درجے پر ہے۔

جرمنی کی گؤٹینگن یونیورسٹی اس تحقیق کا مرکز تھی۔ جرمن سائنسدانوں اور علم بشریات کے ماہروں نے یہ نتیجہ نکالا کہ سفید فام نسل اگرچہ برتر ہے مگر سب سے زیادہ برتر جرمن نسل ہے۔ نسل پرستی کے اس نظریے نے جرمن میں فاشزم کو پیدا کیا اور جرمن قوم دوسری اقوام سے بھی برتر ہو کر علیحدہ ہو گئی۔

نسل پرستی کا یہ نظریہ امریکہ میں بھی پھیلا۔ یہاں اینگلوسیکسن نسل کو سب سے افضل قرار دیا گیا۔ امریکی صدر تھامس جیفرسن، شاعر ایمرسن اور امریکی صدر روزویلٹ نے اینگلوسیکسن کی حمایت میں مضامین بھی لکھے اور تقاریر بھی کیں۔

لیکن اینگلوسیکسن کے اس نظریے نے ان مفلس غریب اور بے گھر سفید فام لوگوں کو اپنے میں شامل نہیں کیا۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر پسماندہ ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں اشرافیہ میں شامل کیا جائے۔

امریکہ میں اینگلوسیکسن کی برتری کو قائم رکھنے کے لے مشرقی یورپ، جرمنی، اسپین اور اٹلی کے سفید فام مہاجرین کو بھی اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ مزید اپنے تسلّط کو برقرار رکھنے کے لیے امیگریشن پر پابندیاں لگائی گئیں، تاکہ دوسرے ملکوں کے لوگ نہ آ سکیں۔

سفید فام نسل پرستی کا نظریہ آج بھی موجود ہے۔ امریکہ میں اس کو اُس وقت چیلنج کیا گیا، جب افریقہ سے غلاموں کو یہاں لا کر ان سے محنت اور مشقت کرائی گئی۔ اس نسلی تضاد نے امریکی معاشرے کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔

اگرچہ وقت کے ساتھ صورتِ حال بدل رہی ہے کیونکہ ایک بڑی تعداد میں ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے مہاجرین امریکہ میں آباد ہو چکے ہیں، اور اینگلوسیکسن کا نظریہ اگرچہ موجود ہے، مگر اس میں وہ توانائی نہیں کہ جو دوسری اقوام کو اپنا ماتحت بنا سکے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close