سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط73)

شہزاد احمد حمید

کھانا کھانے کے بعد میں جھیل کے کنارے اکیلا ہی چلا آیا ہوں، گہری اور وسیع جھیل میں ہلکی ہلکی موجیں دھیمے سروں میں گنگناتی محسوس ہو رہی ہیں۔ کشتیاں سطح آب پر بگلوں کی طرح سر اٹھائے محو سفر ہیں، دور مچھلیاں پکڑنے والے مچھیرے اپنے جال تھامے اونچے سروں میں گا رہے ہیں۔ ہوا کے دوش پر بکھرے ان کے میٹھے گیت ساحل پر موجود لوگوں کی سماعتوں سے ٹکراتے لبوں پر تبسم بکھیر رہے ہیں۔ کس قدر دل نواز اور تسکین آمیز ماحول ہے۔ کبھی کبھی تنہائی بھی گنگناتی ہے دوست۔۔ کبھی اپنی تنہائی کو محسوس کر و لطف آ جائے گا۔

واپس ’بھوت بنگلے‘ آیا، سب میرے منتظر تھے۔ چاچا دنیو کو ڈراپ کیا تو وہ بضد ہوا کہ چائے پئے بغیر جانے نہیں دوں گا۔ جب تک چائے آتی باس بولے؛ ”چاچا دینو! کچھ یہاں کا حال احوال بتاؤ۔“ وہ کہنے لگا؛ ”سائیں! کیا بتاؤں۔ چلو اسکولوں سے شروع کرتا ہوں۔ سندھ کے اسکولوں کا بھی عجیب حال ہے۔ وڈیروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ دل کیا تو اسکول کی کلاسز چلنے دیں اور نہ کیا تو کسی مہمان کو یہاں ٹھہرا دیا۔ شادی کے لئے جگہ کی ضرورت پڑ ی تو یہاں باراتیں اتار دیں۔ محکمہ تعلیم کی بجائے وڈیرے کا حکم مقدم ہے۔ لڑکے اسکول جاتے ہیں لیکن بے چاری لڑکیاں سارا دن اپنی نازک کمر پر پانی ڈھوتی دکھائی دیتی ہیں۔ سندھی مرد آج بھی گھر سے باہر اتنی دور چلا جائے کہ رات کو گھر واپس نہ جا سکے تو یہی کہے گا؛ ’سائیں! پردیسی تھی ویو آھیاں۔‘ یہ اکیسویں صدی کا حال ہے پچھلے زمانوں میں کیا ہوتا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ہم اب ایسی زندگی کے عادی ہو گئے ہیں۔“ گدیلے سے پیالوں میں آئی چائے کب کی ختم ہو چکی ہے پر اس کی باتیں نہیں۔ وہ بولے جا رہا ہے؛ ”سائیں! غربت ہے یہاں، مفلسی ہے، غلامی ہے۔ غریب، مفلس اور غلام کی بھی بھلا کوئی عزت ہوتی ہے بابا۔ ہم عزت نام کے لفظ سے ناواقف ہیں۔ اوپر آسمان نیچے وڈیرہ۔ جو کہا حکم۔ نہ مانو تو سزا اور مانو بھی تو سزا۔ عجیب بات نہیں مان کر بھی سزا اور نہ مان کر بھی؟ حکم بھی سردار کا، اناج بھی سردار کا اور بابا ووٹ بھی سردار کا۔ ہماری تو جان بھی اپنی نہیں ہے بابا! بس یہ سندھو ہے جو ہمیں دیتا بہت کچھ ہے، پر ہم سے لیتا کچھ نہیں۔“

چاچا دینو کے دل کا بوجھ شاید ہلکا ہو چکا ہے لیکن اس کی باتوں نے ہم پر بڑا بوجھ ڈال دیا ہے۔ ہم بھاری دل سے اٹھے اُسے باری باری گلے لگایا۔ اس کی جیب میں کچھ روپے ڈالے اور چاچا دینو کی دنیا اور اس ’بھوت بنگلے‘ سے چلے آئے ہیں۔ ہمیشہ کے لئے۔۔ مجھے سندھو کی آواز نے متوجہ کیا ہے؛ ”دیکھی اور سنی تم نے میرے ایک غریب ہاری کی داستان۔ سندھ کے امیروں کی کہانی، غریب کی زبانی۔ ان کی امارت کے پیچھے ایسے لاکھوں غریبوں کی کہانیاں ہیں۔ ناقابلِ یقین۔محنت والے ہاتھ غریب رہ گئے اور۔۔۔ چلو چھوڑو یار! اس ملک کا آوا ہی باوا ہے۔ بگڑا، تگڑا، مطلبی۔“

سندھ کے بعض دیہات تو اتنے غریب ہیں کہ یہاں کے رہنے والے لوگ کھانے کے دانے اور پینے کے پانی کی بوند کو ترس جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے دیہاتوں کی گلیاں سفید، بے داغ چادر کی طرح صاف ستھری ہیں۔ نہ کہیں کسی کاغذ کا ٹکڑا، نہ کوڑا نہ کرکٹ۔ بھائی جب پیٹ ہی خالی ہے تو کوڑا کرکٹ کہاں سے آئے گا۔ نہ کچھ خریدا جاتا ہے اور نہ ہی خارج (dispose) کیا جاتا ہے۔ کیا بتاؤں رات چاچا دینو کے گھر جو چائے پی تھی، تھی تو وہ میٹھی مگر دودھ کے بغیر تھی۔ عورتیں اور بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں تو جوان مایوسی کا۔ ان کے چہروں پر وقت سے پہلے اترا بڑھاپا ہے۔ ہاری کمزور اور محکوم ہیں مگر یہ پس ماندہ اور غریب لوگ ایک شے کے بہت امیر ہیں، مہمان نوازی اور خلوص۔۔ واہ میرے مولا! کھانے کو کچھ نہیں مگر دل کتنا بڑا دے دیا ہے تو نے انہیں۔ مہمان آ جائے تو یوں آنکھیں بچھاتے ہیں، جیسے سب کچھ انہی کے پاس ہے۔ نہ جانے وہ زمانہ کہاں کھو گیا ہے جب صاحبِ ثروت لوگ اپنے ارد گرد کے سفید پوشوں اور تنگ دستوں کا خیال رکھتے تھے۔ مجھے ایک سندھی کی سنائی کہاوت یاد آ گئی ہے؛ ”بابا سائیں! ہماری ایک کہاوت مشہور ہے۔ کہتے ہیں پرانے وقتوں میں ایک بادشاہ شکار کو نکلا۔ ایک کسان کو اپنے کھیت میں ہل چلاتے دیکھا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا؛ ”اے کسان! دن میں کتنے پیسے کما لیتے ہو۔“ کسان نے جواب دیا؛ ”جناب! چار روپے۔“ بادشاہ نے پوچھا؛ ”خرچ کیسے کرتے ہو؟“ اس نے جواب دیا؛ ”سبھی خرچ کر دیتا ہوں۔ ایک روپیہ خود پر خرچ کرتا ہوں۔ ایک روپیہ قرض دیتا ہوں۔ ایک روپے کا قرض اتارتا ہوں اور ایک روپیہ دریا میں بہا دیتا ہوں۔“ بادشاہ جواب سن کر حیران ہوا اور پوچھا؛ ”کسان! تمھاری بات سمجھ نہیں آئی ہے۔“ کسان نے جواب دیا؛ ”بادشاہ سلامت! بڑی آسان بات ہے۔ میں سمجھاتا ہوں آپ کو۔ ایک روپیہ خود پر اور اپنی بیوی پر خرچ کرتا ہوں۔ ایک روپیہ اپنی اولاد پر، یعنی قرض دیتا ہوں تاکہ بڑھاپے میں وہ مجھے لوٹا سکیں۔ ایک روپیہ والدین پر خرچ کر کے اپنا قرض اتارتا ہوں جو انہوں نے مجھ پر خرچ کیا تھا۔ ایک روپیہ غریب کو دیتا ہوں یعنی دریا میں بہا دیتا ہوں۔ اس کا اجر مجھے اس دنیا میں نہیں چاہیے۔“ بادشاہ جواب سن کر حیران ہوا اور کہا؛ ”کسان! بڑی دانائی کی بات کی ہے۔ تم واقعی بہت امیر شخص ہو میں تو تمھارے مقابلے میں غریب ہوں۔ بابا! اصل کمائی وہ ہے جو دوسروں پر خرچ کی جائے۔“

مقامی لوگ آج بھی انگریز کا دور یاد کرتے ہیں۔ جب انصاف سستا، تیز اور قانون کی پکڑ سخت تھی۔ خلوص تھا، محبت تھی، بھائی چارہ تھا، روز مرہ کی اشیاء معیاری اور سستے داموں دستیاب تھیں۔ دکھ درد سانجھے تھے۔ نہ جانے وہ دور اور لوگ کہاں کھو گئے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ہی برباد ہو گیا ہے۔ اب بہت کچھ پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ سندھو بھی ویسا نہیں رہا اور اس کے کنارے آباد بستیاں بھی ویسی نہیں رہیں۔ سندھو بھی خوب بہتا تھا پانی سے بھرا۔۔ مئی جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں دریا کا پانی کناروں سے باہر نکل کر دور دور تک تباہی پھیلا دیتا تھا اور جب ستمبر اکتوبر سے معمول میں بہنے لگتا تو سندھو کی لائی ہوئی مٹی زمینوں کو سونا بنا دیتی تھی۔ فصلیں خوب ہوتی تھیں، زمین کی نئی زرخیزی چہروں پر مسکراہٹ لا دیتی تھی۔ اب سندھو تباہی زیادہ مچاتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا؛ ”دوست! ایسا کیوں کرتے ہو؟“ کہنے لگا؛ ”پہلے زمانے میں نہ کوئی ڈیم تھا نہ نہری نظام۔ میں اپنی مرضی سے بہتا تھا۔ لوگ مجھ سے اور میں ان سے خوش تھا مگر اب تم نے مجھے قید کر کے میرے پر کاٹ دئیے ہیں۔ میری دریائی تجارت ختم کر دی ہے۔ تم نے مجھے تنگ کیا ہے یوں ہر سال غصے میں خوب تباہی مچاتا ہوں۔ تم ویسے خوش تھے میں ایسے خوش ہوں۔ دیکھو اب سندھی ایسا شکوہ عام کرتے ہیں ’پنجابی ہمارے حصے کا پانی استعمال کر جاتے ہیں۔‘ ایسا شکوہ ماضی میں کبھی سنا تھا تم نے؟“

”سنو تمھیں دکھ کی ایک اور بات بتاتا ہوں؛ “سندھو کہنے لگا؛ ”تالپور حکمرانوں کے دور میں میرے قریب کی زرخیز زمین کو جان بوجھ کر خالی چھوڑا جاتا تھا تاکہ حکمران آسانی سے یہاں شکار کھیل سکیں اور بے چارہ غریب ہاری بے شک بھوک سے مر جائے، کوئی پرواہ نہ تھی۔ 1843ء میں تالپور انگریز سے شکست کھا گئے۔ باندھی بنا کے انہیں پنشن کا حقدار قرار دے دیا گیا۔ وہ خود تو مٹی میں مل گئے مگر ان کے مزارات بیتے دنوں کی عظمت بیان کرتے اس دھرتی پر سر اٹھائے ہم سب کا منہ چڑاتے ہیں۔ ایک ہاری ہیں، چلتی پھرتی مٹی کی مورتیاں۔ میں گلگت بلتستان، خیبر پختون خوا، پنجاب اور سندھ کے بڑے حصے میں زمین کی زرخیزی میں کئی گناہ اضافہ کرتا ہوں۔ زرعی خوشحالی کا پاکستان کی معاشیات میں بڑا اہم کردار ہے۔ میں اس خوشحالی کا سب سے اہم مددگار اور معاون ہوں۔ زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ بھی بے چارے ہاری اور غریب کسان کی قسمت نہیں بدل سکا۔ نہ ہی ان پر ظلم کم ہوئے اور نہ ہی انہیں آزادی ملی ہے۔ آج بھی وڈیرہ ازم ان غریب ہاریوں کی کمزور گردنوں کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑے ہے“

”کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ سندھیوں کے 2 بڑے اور اہم قبیلے ہیں۔ ’سومرو‘ اور ’سماں‘۔ دونوں کا حسب ایک ہی ہے اور دونوں ہی اس دھرتی کے حکمران رہے ہیں۔ سومرو نے 970 ء تا 1351ء تک حکومت کی جبکہ سماں حکومت 1351ء تا 1521ء تک رہی۔ ان کے علاوہ راجپوت قبیلے کی مختلف شاخوں میں بھٹو، کمبوہ، داھر، مہر، جونیجو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ بلوچ قبائل میں لغاری، مزاری، رند، چانڈیو، کھوسو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ماہی گیر قبیلوں میں میرانی، میر بہار، سانگی، سولنگی، ماچھی، ملاح وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان قبائل میں بہت سے بلوچستان اور پنجاب سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے ہیں۔ ان مہاجر قبائل نے مقامی خاندان کے افراد سے شادیاں کیں اور یوں یہ بھی سندھی ثقافت کا ہی حصہ بن گئے ہیں۔ اپنے آبائی علاقوں سے ان کا ناطہ یا تو ختم ہو گیا ہے یا نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔ یہ ملاپ یقیناً سندھی ثقافت میں نیا اضافہ ہے۔ میرے ڈیلٹا کے ساتھ جاٹ آباد ہیں لیکن ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ ڈیرل مکلین کے مطابق؛ ’عرب اور سندھ کا تعلق بھی بہت پرانا ہے در حقیقت یہ حضرت علی ؓ کا دور تھا جب حکیم ابن جبیل مکران کے ساحل تک آیا‘ ہندو بھی سندھ میں آباد ہیں اور 2017ء کی مردم شماری کے مطابق یہ سندھ کی آبادی کا تقریباً نو (9) فی صد ہیں۔ ان کی زیادہ تعداد مٹھی، عمر کوٹ، سکھر، حیدرآباد اور میر پور خاص کے اضلاع میں آباد ہے۔ سندھی زبان آریائی زبان کی ہی ایک قسم ہے۔ یہ قدیم تاریخی زبان وقت کے ساتھ ساتھ موجودہ شکل میں ہم تک پہنچی ہے۔ کہتے ہیں علاقائی زبانوں میں قران کریم کا ترجمہ بھی سب سے پہلے اسی زبان ہوا۔ اس میں مختلف زبانوں جیسے پالی، عربی، سنسکرت وغیرہ کے الفاظ شامل ہیں۔ ایک خیال کے مطابق سنسکرت زبان کا ماخذ بھی سندھی زبان ہی ہے۔ ان دونوں زبانوں کے 70 فی صد الفاظ ملتے ہیں۔ یہ عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ مشہور مورخ ابو ریحان البرونی کے مطابق ”سندھی تین طرز سے لکھی جاتی ہے اردھانگری ، مہاجنی اور خداآبادی۔(Ardhanagari, Mahajani, Khudabadi)۔“

گہری شام کی طرح اس کی باتوں میں بھی گھنیری اداسی ہے۔ ہم واپس دادو ڈاک بنگلہ پہنچے ہیں۔

رات دادو میں ہی بسر کر کے صبح سندھو کے ڈیلٹا کے باقی حصہ کی سیر کو جائیں گے۔ دن کی کوکھ ایک نئی شام جنم دے چکی ہے۔ آسمان صاف اور موسم خوشگوار ہے۔ کرموں بابا بولا؛ ”سائیں! اکثر گرمی کے موسم میں شام بھی گرم ہی ہوتی ہے لیکن یہ سندھو کا کمال ہے کہ اس نے اپنے دوستوں کے لئے شام کو خوشگوار کر دیا ہے۔“ دادو گھوم پھر کر واپس ڈاک بنگلے آئے تو رات اتر چکی ہے۔ بڑے دنوں بعد آسمان پرطلائی چاند اور نقرئی تارے تازگی کا احساس دلا رہے ہیں، فضاء میں راحت اور ہوا میں بھی تسکین ہے۔ بستر پر گرتے ہی دن بھر کی تھکن نے نیند کی وادی میں پہنچا دیا ہے۔ رات کے ابتدائی 2 پہر گزر چکے ہیں۔ تیسرا جاری ہے کہ میری آنکھ کھلی گئی ہے۔ رات کے اس پہر چرند پرند اور انسان سبھی گہری نیند کی وادی میں اتر چکے ہوتے ہیں۔ سناٹے کو صرف ان جانوروں کی آواز درہم برہم کرتی ہے جو رات کو جاگتے ہیں۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close