ملیر وادی: پانیوں اور قافلوں کی قدیم گزرگاہ

ابوبکر شیخ

اس وسیع دنیا میں ان حقیقتوں کی تعداد زیادہ ہے جو ہمیں دھوکا دیتی ہیں۔ خود آپ کا وجود آپ کا نہیں ہے۔ نہ جانے کس پل سانس کی وہ ڈوری بے وفائی کر جائے جس کی تیمارداری میں ہم ہر پل جُٹے رہتے ہیں۔ مگر اس کو آپ کی پرواہ نہیں ہوتی، اسے جب جانا ہوتا ہے، اپنا پلو جھاڑتی ہے اور آپ کے جسم کو ٹھنڈک کے حوالے کرکے چلی جاتی ہے۔

سانس کی اس بے بقا ڈوری سے تو وہ برگد کا پیڑ اچھا جو آپ کو گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں کا یقین دیتا ہے۔ اس کے بعد اگر اس جہاں میں سب سے زیادہ بھروسے والی چیز ہے تو گھر کے آنگن سے نکلنے والی وہ پگڈنڈی ہے۔ آپ جہاں چاہیں آپ کو لے جائے گی، دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک۔

یہ پگڈنڈیوں اور راستوں کی دوستی انسانوں جیسی نہیں ہوتی کہ آج ہے کل نہیں ہے۔ یہ بس ایک بار آپس میں جڑ جائیں تو ہزاروں برسوں تک ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑتیں۔ اگر کبھی آپ گھر سے نکلنے والے راستے پر یقین کرکے نکل پڑیں تو وہ آپ کو ساری دنیا گھما کر آپ کو اپنے گھر کے دروازے پر واپس لے آئے گا۔

مارچ کے ابھی ابتدائی دن تھے۔ ٹھنڈک کا احساس اب فقط رات کے پہروں تک ہی رہ گیا تھا۔ دن کے ابتدائی پہروں میں گرمی ابھی پریشان نہیں کرتی تھی۔ ہم صبح 10 بجے کے قریب کراچی کے علاقے صدر سے نکلے تھے، اور جب ڈملوٹی 3، امام بخش بروہی گاؤں پہنچے تو سورج کی تیز روشنی اور دھوپ سارے منظرنامے پر چاندی کی پرت کی طرح بچھی ہوئی تھی۔ ڈملوٹی کے پرانے برباد ہوتے کنوؤں کے اطراف میں برگد اور نیم کے گھنے پیڑ کھڑے ہیں جو نہ جانے کتنے برسوں سے ٹھنڈی چھاؤں دے رہے ہیں۔

میرے سامنے راستے کے ایک طرف کھیتوں کی ہریالی ہے۔ اس کے بعد دُور بحریہ ٹاؤن کی عمارتیں نظر آتی ہیں جو نہ جانے یہاں کی کتنی قدیم بستیوں کا گلہ گھونٹ کر ان کو مارنے کے بعد ان کے قبرستان پر بنا ہے۔ اس کے جنوب میں کوئی ڈیری فارم ہے جس کا گاڑھا اور بدبودار فضلہ اب ملیر کی برساتی گزرگاہوں میں بہتا ہے کہ جتنا ہوسکے ماحولیات کو بربادی کی گہری اندھیری کھائی میں دھکیلتے جاؤ، اس سوچ کی بنیاد پر کہ اپنا بھلا ہو۔ آنے والا وقت جانے، آنے والی نسل جانے!

دھوپ تیز ہے اور ساتھ میں ہلکی پیلے رنگ کی مٹی اُڑ رہی ہے، اس لیے کچھ صاف نظر نہیں آتا۔ میرے ساتھ حاجی لال محمد بروہی بیٹھے ہیں۔ یہ چھوٹا سا گاؤں اس کے والد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حاجی لال محمد کا جنم چونکہ یہیں ہی ہوا ہے اس لیے ایک زمانہ بستا ہے لال محمد کے دل، دماغ اور آنکھوں میں۔ جب اس نے بارشوں کے موسم کی بات کی تو میں نے اس کے چہرے اور آنکھوں کو غور سے دیکھا۔

ملیر کا ایک کھیت — گل حسن کلمتی

 

ملیر، کراچی (2011)— اسد امان

 

ملیر، کراچی (2011)— اسد امان

اس نے جس کیفیت میں باتیں کی
اس نے جس کیفیت میں باتیں کی اور جو الفاظ اس کی زبان سے ادا ہوتے گئے وہ ان کیفیتوں کے رنگوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہرے، گلابی، بینگنی، خاکستری، آبی، لال، پیلے اور نیلے۔ زندگی کے سارے رنگ اور موسم تھے اس کی یادوں میں اور قند کی مٹھاس کی طرح گھلتے تھے۔ تپتی گرم دوپہریں، گرم دنوں کی ٹھنڈی شامیں، شمال سے آتی پہاڑیوں سے باتیں کرتی جاڑوں کی ٹھنڈی ہوائیں، ہاتھ سینکنے کے لیے الاؤ کی گرمی، پھر ساون بھادوں اور ساون کی جھڑی اور پھر دُور تک پھیلی ہریالی۔ نظر کی حد ختم ہوجائے پر ہریالی کی چادر جیسے زمین کے آخری کونے تک کھینچ دی گئی ہو۔

‘ملیر کا مطلب کیا؟ کوئی نام ہے؟’، میں نے پوچھا۔

‘یہ ایک مشاہداتی اعزاز کی طرح ہے۔ جیسے اگر کوئی پہلوان آدمی ہو اور میدان میں اترنے کے بعد سامنے والے کو پچھاڑ کر رکھ دے، تو ہم دیکھنے والے کہتے ہیں کیا شاندار پہلوان ہے، ہم اس کی طاقت کو ‘پہلوانی’ کا اعزاز دیتے ہیں، تو ملیر بھی اس حوالے سے ایک اعزازی نام ہے۔

‘ہم خاص کر اس زمینی خطے یا حصے کو ملیر کہتے ہیں، جہاں ہریالی اور شادابی زیادہ نظر آئے، تو ہم اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ‘ملک ملیر لگو پیو آہے’ (مطلب یہ علاقہ تو ہریالی سے بھرا اور شاندار ہے)۔ یہاں سندھ میں آپ کو 3 ملیر نامی علاقے ملیں گے، ایک تھر میں ‘مارئی’ والا ملیر، دوسرا بدین کی طرف ولاسو میں، اور تیسرا یہ۔

‘ان علاقوں کو یکسانیت کی جو رسی باندھتی ہے وہ بارش ہے۔ جب بارش پڑتی ہے تو ان تینوں علاقوں میں گہری ہریالی کی ایک چادر بچھ جاتی ہے۔ ہزاروں نباتات اُگ پڑتے ہیں، جن کے بیج ان زمینوں پر بارشوں کا انتظار کرتے ہیں۔ مگر ایک بات جو اس ملیر کو ان دونوں ملیروں سے الگ کرتی ہے وہ ایک تو زمینی حالات ہیں، ذریعہ آب اور یہاں کی مہندی ہے۔

ملیر کا ایک کسان—گل حسن کلمتی

 

ملیر، کراچی (2011)—اسد امان

 

ملیر، کراچی (2011)—اسد امان

‘ملیر میں اُگتی مہندی کا رنگ انتہائی شاندار ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ملیر وادی قافلوں کی قدیم گزرگاہ رہی ہے تو یہاں کی مہندی کے چرچے بڑی دُور تک گئے ہیں۔ ‘دھنک’ نامی راجستھانی ثقافت پر مبنی آرٹ فلم میں ایک لوک گیت ہے، جس میں اس ملیر کی مہندی اور اس کے رنگ کا ذکر بڑی محبت اور گہرائی سے کیا گیا ہے کیونکہ تھر والے اور بدین والے ملیر میں مہندی کا درخت نہیں ہوتا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی (1689ء سے 1752ء) نے بھی اپنی شاعری میں ملیر کی مہندی کا ذکر ‘سسئی’ کے کردار سے بیان کرواتے ہیں، جو پنھوں کے عشق میں، بھنبھور سے کیچ مکران کے لیے نکلی تھی، لطیف سائیں کہتے ہیں:

اديون ڪا ايندي، چپَر مُون سڱ ٿيو،

لائينديس لڱن کي، مَليران مينڌي،

وندر آئون ويندي، آري ڄام آجهو ڪري

ترجمہ:

کوئی میری سہیلی میرے ساتھ چلے گی، کہ اب تو پہاڑوں سے ہی میرا رشتہ ہے،

میں اپنے ہاتھوں اور پیروں پر، ملیر کی مہندی لگاؤں گی کہ یہ پنہوں کے راستے کی نشانی ہے،

میں وندر (جگہ کا نام) ضرور جاؤں گی، کیونکہ آری جام (پنھوں) ہی میرا سب کچھ ہے

‘ملیر کی مہندی کا ذکر آپ کو ڈیلٹا کے گاؤں میں شادیوں کے مواقع پر لوک گیتوں کی صورت میں بھی ضرور سُننے کو ملے گا۔ ان لوک گیتوں میں ملیر کی مہندی لے آنے، دولہے کو لگانے اور پھر اس کے رنگ اور خوشبو کا بڑی محبت اور شیرینی سے ذکر شامل ہوتا ہے’۔

ملیر میں کھڑے درخت—گل حسن کلمتی

 

ملیر، کراچی (2011)—اسد امان

 

ملیر، کراچی (2011)—اسد امان

ملیر وادی کی قدامت ڈھونڈنے کے لیے اگر ہم تھوڑی کوشش کریں تو آثارِ قدیمہ کی تحقیقی رپورٹس ہمیں مل جاتی ہیں اور کمال یہ ہے کہ وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ، ملیر کی برساتی گزرگاہوں (Paths of Rain) کے کناروں پر ان کو قدیم انسان کی بستیوں کے آثار ملے ہیں۔

1970ء کے عشرے میں کراچی کے 40 کلومیٹر کے دائرے میں پروفیسر عبدالرؤف خان نے انسان کی قدیم آبادیوں پر تحقیق کی تھی۔ اس کے بعد کی تمام تحقیقات کی بنیاد وہی تحقیق رہی۔ اس تحقیق سے ڈاکٹر صاحب کو ‘میسولتھک’ (Mesolithic Age: 12000 and 8000 bp) یعنی درمیانی سنگی زمانے کی بستیوں کے نشان ملے تھے، یہ زمانہ ‘پالیولتھک’ اور ‘نیولتھک’ کے درمیان کا زمانہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ‘شمال سے جنوب کی طرف بہنے والی برساتی گزرگاہوں کے کناروں پر ایسی کئی بستیوں کے نشان ملے ہیں۔ ان میں سے 6 وقتی پڑاؤ ہیں اور کچھ مستقل بستیاں بھی ہیں۔ ان اوائلی بستیوں سے آخری پالیوتھک زمانے کے کئی اوزار بھی ملے ہیں۔ یہاں مائیکرو بلیڈ اور درانتی شکل جیسے کئی اوزار موجود ہیں’۔

آثارِ قدیمہ پر تحقیق کرنے والوں کے مطابق، سندھ اور بلوچستان کے میسولتھک لوگ یقینی طور پر مچھلی اور جانوروں کا شکار کرتے ہوں گے، اور وہ گہرے پانیوں سے مچھلیاں بھی پکڑتے ہوں گے، وہ اچھے شکاری تھے۔ وہ زیادہ ترقی کی راہ پر مسلسل گامزن تھے۔ سندھ میں آخری پالیوتھک زمانے سے متعلق، ڈاکٹر خان کہتے ہیں، ‘ملیر وادی کی مختلف برساتی گزرگاہوں کے کناروں جیسے کھدیجی، حب ندی کنارے، کونکر اور ریڑھی میان کے قریب واگھوڈر سے جو اوزار ملے ہیں وہ مُڑے ہوئے اور انتہائی تیز کاٹ کرنے والے ہیں۔ کچھ اوزار تو ان زمانوں سے بھی قدیم ہیں’۔

ڈاکٹر خان کو ملیر کی برساتی گزرگاہوں کے کناروں پر درمیانی سنگی زمانے کی بستیوں کے نشان ملے تھے

 

برساتی گزرگاہوں کے کناروں پر مائیکرو بلیڈ اور درانتی شکل جیسے کئی اوزار پائے گئے

ڈاکٹر خان کو ملیر کی برساتی گزرگاہوں کے کناروں پر درمیانی سنگی زمانے کی بستیوں کے نشان ملے تھے
برساتی گزرگاہوں کے کناروں پر مائیکرو بلیڈ اور درانتی شکل جیسے کئی اوزار پائے گئے
ہمارے نصیب شاید اچھے تھے کہ، نزدیک ایک قدیم سائٹ جو ‘بازار نئے’ (جس کو ‘لنگھیجی نئے’ بھی کہتے ہیں، ‘نئے’ کے لیے انگریزی میں Path of Rain کہنا مناسب ہوگا) کے کنارے ‘الھڈنو گوٹھ’ کے نام سے موجود تھی، جس سے متعلق گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ ‘ملیر کی قدامت کا اندازہ یہاں کے قدیم آثاروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ میمن گوٹھ سے ڈملوٹی جاتے ہوئے ایک قدیم سائٹ آتی ہے، یہ سائٹ گوٹھ الھڈنو جوکھیو کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں 1973ء میں کھدائی ہوئی تھی، جہاں دیگر نوادرات کے ساتھ، ایک سینگ والے یوٹوپیائی جانور ‘یونیکورن’ (Unicorn) کے نشان والی مہریں بھی ملی تھیں’۔

مجھے جب محترم لال محمد نے بتایا کہ وہ قدیم سائٹ (گوٹھ الھڈنو جوکھیو) یہاں سے نزدیک ہے تو آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ مجھ پر حیرانی اور خوشی کی کتنی بدلیاں برس پڑی تھیں۔ آپ تصور کریں کہ آپ وہ جگہ دیکھنے جا رہے ہیں جہاں ہزاروں برس پہلے ارتقائی انسان رہتا تھا، اور ان کی خوراک مچھلی تھی۔ وہ کیسے دکھتے ہوں گے؟ جب تیز دھوپ میں وہ دُور دیکھنے کے لیے آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا بناتے ہوں گے تب کیسے لگتے ہوں گے؟ وہ محدود زبان میں جو باتیں یا اشارے کرتے ہوں گے وہ الفاظ یا اشارے کیسے ہوں گے؟ یہ وہ گزرے دنوں کا سحر ہے جو آپ کو اپنی مضبوط آغوش میں لے لیتا ہے۔ آپ خود بھی اس جادو میں جکڑے رہنا چاہتے ہیں۔

ہم نکل پڑے۔ ملیر وادی کے کھیت تھے جن میں ہریالی تھی، پھر ایک شاندار پپیتوں کا باغ آیا اور پھر ایک آدھے کلومیٹر کے بعد وہ سائٹ آئی جہاں ہم انسانوں نے ترقی کی منازل طے کی تھیں۔

پپیتوں کا باغ—گل حسن کلمتی

 

ملیر میں چلتے چلتے—گل حسن کلمتی

 

میرے سامنے ایک چھوٹا سا ٹیلہ تھا جس کے اوپر کچھ سولر پلیٹیں لگی ہوئی تھیں، ایک پانی کا تالاب تھا اور حکومتِ سندھ کے ایک ڈرپ ایریگیشن پراجیکٹ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس ٹیلے کے گرد فصلیں آباد تھیں۔ خود حاجی لال محمد بھی پریشان تھے جو 2، 3 برس بعد یہاں آئے ہیں۔ جب وہ یہاں آیا تھا تب یہ آثار وسیع رقبے پر تھے۔ مگر اب بھوک کی کوئی سرحد نہیں رہی ہے۔ جہاں چاہو قبضہ کرلو۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ آثارِ قدیمہ کی ایک سائٹ کی ان لوگوں کے سامنے کیا اہمیت ہے جو قبضہ کرتے ہیں۔ آپ چیزوں کو تب بچاتے ہیں یا تب تحفظ فراہم کرتے ہیں جب آپ اس کی اہمیت کو جانتے ہوں۔ مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔

جب آثارِ قدیمہ کے محکمہ ایک اہم سائٹ کی حدود واضح کرتے ہوئے اسے محفوظ مقام نہیں بناسکتی تو عام لوگوں سے کیا شکایت کی جائے؟ اس سائٹ سے متعلق جو میں نے جو سوچا تھا ان میں سے وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ 5 برس کے بعد یہ مختصر سا ٹیلہ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی سائٹ دیکھنے آئے گا بھی تو لوگ بتائیں گے کہ یہ جو سامنے آپ سبزی کی فصل دیکھ رہے ہیں، وہاں کسی زمانے میں ایک ٹیلہ ہوا کرتا تھا۔ اب تو کب کا ختم ہوچکا۔

ان قدیم بستیوں کو آباد کرنے والی نئے جو ضلع جامشورو کے شہر مول سے 15 کلومیٹر شمالی کھیرتھر پہاڑی سلسلے سے بہتی ہوئی آتی ہے، ابتدا میں اس کو ’مول نئے‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، پھر یہ جیسے ملیر کی وادی میں داخل ہوتی ہے تو اس کو ملیر نئے کا نام مل جاتا ہے۔ یہ جیسے جنوب کی طرف اپنا سفر جاری رکھتی ہے تو اس سے ‘کھدیجی نئے’ آکر ملتی ہے۔ پھر آگے برساتی بہاؤ جن میں تھدھو، جرندو، لنگھیجی (بازار) اور سکن نئے شامل ہیں، اس ملیر کے مرکزی بہاؤ میں ملتے ہیں۔ یہ آگے چل کر کسی زمانے میں گزری کھاری میں جاکر اپنا سفر ختم کرتی تھی، مگر بعد میں اس کا قدرتی بہاؤ تبدیل کرکے کورنگی کھاری میں کردیا گیا ہے۔

ملیر ندی کا بیسن

 

ملیر کی برساتی گزرگاہیں

 

برساتی بہاؤ جرندو—گل حسن کلمتی

 

ملیر کا کھدیجی نئے

ملیر وادی اس جگہ پر واقع ہے جو ماضی میں مغرب اور شمال سے آنے والے بیوپاری قافلوں کی قدیم گزرگاہ رہی ہے۔ ایران، مکران اور افغانستان کے بیوپاری قافلوں کی بھی یہ گزرگاہ رہی، چونکہ سمندری کنارے پر قائم اس زمانے کی اہم بندرگاہیں جیسے بنبھور، ٹھٹہ، دیبل، لاڑی اور دوسرے بندر اس طرف تھے اور گجرات، کچھ، کاٹھیاواڑ، راجستھان کے لیے بھی قافلوں کو یہاں سے ہی گزرنا پڑتا تھا، اس لیے اس وادی سے آوت جاوت کا سلسلہ لگا رہتا تھا۔

سکندر بھی اسی راستے ایران کی طرف پیدل گیا تھا اور ‘سسئی پنھوں’ کے عشقیہ داستان کے کرداروں کا گزر بھی اسی ملیر وادی سے ہوا تھا۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ‘موکھی متارا’ کی داستان جس کا ایک سرا ‘مومل رانو’ کے عشقیہ داستان سے جُڑا ہوا ہے اور جب مومل، ‘رانو’ کی بے رُخی سہہ نہ سکی اور خود کو آگ کے شعلوں میں بھسم کردیا تو اس کے پاس کام کرنے والی ایک ملازمہ یہاں آ نکلی اور کلال خانہ کھولا جس کو چلانے والی اس کی بیٹی موکھی تھی جو مدھ یا شراب بنانے کی کاریگر تھی۔ یہ چونکہ قافلوں کا راستہ بھی تھا اس لیے یہ بیوپار چل نکلا، مگر پھر اس کلال خانے کے دن بھی اس ‘موکھی متارا’ کے داستان پر آکر پورے ہوئے۔ کبھی وقت ملا تو یہ لوک داستان میں آپ کو ضرور سناؤں گا۔

ملیر وادی کے قدیم راستوں سے متعلق جب میں نے محقق گل حسن کلمتی صاحب سے پوچھا تو جواب بڑی تفصیل کے ساتھ آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ٹھٹہ اور بھنبھور سے سمندر کے کنارے کنارے ایک قدیم راستہ، کوکری، گگھوٹ، وٹیجی، پپری اور باکران سے ہو کر دڑبے کی طرف جاتا تھا۔ اسی راستے سے ایک راستہ نکلتا تھا جو ملیر کی طرف آتا تھا اور ملیر سے ہوتا ہوا، مہران، صفوران، گجھڑو، لَکی سے ہوتا منگھو پیر پہنچتا، وہاں سے بند مراد سے ہوکر حب سے کچ مکران تک چلا جاتا۔ ایک اور راستہ پپری سے نکلتا، جو ریجی، کورٹیڑو سے ہوتا، ملیر نئے کو پار کرتا، کھرکھری، کونکر اور گڈاپ سے ہوتا ہوا اپکانے پہنچتا وہاں سے لنگھ لوہار والی جگہ سے حب کو پار کرتا، وندر اور اتھل طرف جاتا تھا۔ ایک دوسرا راستہ گڈاپ کے نارا تھر جبل سے نکلتا اور لکی شاہ صدر سے ہوتا ہوا سیہون شریف پہنچتا، اس راستے کو ‘سیہوانی واٹ (راستہ)’ کے نام سے جانا جاتا ہے’۔

گڈاپ میں کھڑی گندم کی فصل

ان میں سے کسی ایک راستے سے پنھوں کے بھائیوں کا قافلہ بھنبھور آیا ہوگا اور پھر انہی راستوں سے بے چاری سسئی، پنھوں کی محبت میں کچ مکران کی طرف گئی ہوگی کہ لوگ بے وفائی کرجاتے ہیں پر راستے آپ سے کبھی بے وفائی نہیں کرتے۔

ملیر وادی میں بستیاں وہاں وہاں آباد ہوئیں جہاں سے یہ برساتی پانی کے بہاؤ گزرے۔ بارشوں کے 3، 4 ماہ کا موسم اس وادی کے لیے فطرت کا صدیوں سے ملتا ہوا تحفہ ہے۔ اس تحفے کی وجہ سے یہاں انسانی بستیاں آباد ہوئیں۔ بستیوں کے بسنے کے لیے جن اہم چیزوں کی ضرورت تھی وہ یہاں موجود تھیں۔ سمندر کا کنارا، مویشیوں کے لیے اُگتا ہوا بے تحاشا چارا، کھیتی باڑی کرنے کے لیے ذرخیز زمین اور قافلوں کے آنے جانے کے راستے بھی تھے جن کی وجہ سے یہاں کارواں سرائے بھی بنے، اور یوں مرغیوں، بکریوں، اناج، دودھ اور مکھن کی فروخت سے مقامیوں کی اچھی آمدنی بھی ہوجاتی تھی۔ سو لوگوں کا گزر بسر اچھا ہوجاتا تھا۔ پھر جو دڑبو (کراچی) بندر کے بخت جاگے تو یہاں کی فصلوں کے لیے ایک مارکیٹ نے جنم لیا اور اسی طرح سے یہ کھیتوں کی وادی بن گئی۔

کلمتی صاحب لکھتے ہیں، ‘ان کناروں پر لوگوں نے اپنے گاؤں بسائے اور ندی کے پانی اور اس کے آس پاس کنویں کھود کر کھیت آباد کیے۔ اس طرح یہاں کھیتوں کی صورت میں ہریالی کی چادر بچھ گئی، اس ہریالی اور شادابی کی وجہ سے اس پر ملیر کا نام پڑگیا جو یقیناً اس پر جچتا بھی ہے۔ یہاں کی مشہور گائے کی نسل بھی اسی نام سے مشہور ہے، اسے ملیر ریڈ کاؤ (Malir Red Cow) پکارا جاتا ہے۔ ملیر کی اس لال رنگ کی گائے کی یہ نسل جو دیکھنے میں خوبصورت اور دودھ دینے میں لاجواب ہے وہ فقط اسی ملیر وادی میں پائی جاتی ہے۔ اس کی خوراک تمر کے پتے ہیں۔ اس گائے کی نسل کے آسٹریلیا میں فارم ہیں جہاں ان کی افزائشِ نسل کا انتظام موجود ہے۔ تاہم وہاں بھی اسے ‘ملیر کی لال سندھی گائے’ کہا جاتا ہے’۔

سندھ گزیٹیئر کے مطابق، ‘بارشوں کے موسم میں یہ برساتی بہاؤ پانی سے بھرپور ہوتے ہیں اور گزری خلیج میں جاکر سمندر میں گرتے ہیں۔ بارش کے بعد یہ بہاؤ ختم ہوجاتے ہیں مگر ان کی زمین سے پانی کسی بھی وقت آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کی زمین میں وافر مقدار میں موجود پانی کو مختلف طریقوں سے حاصل کرکے اس پر باجرے، جوئر (Sorghum)، مکئی، گنے کی فصل کے علاوہ کئی سبزیاں بھی اُگائی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی یہاں بہت سارے میوہ جات بھی ہوتے ہیں جیسے سیب، آم، امرود، انگور، نارنگی، لیموں، انجیر، تربوز وغیرہ’۔

ہیوز لکھتے ہیں کہ ‘ملیر میں کپاس کی شاندار فصل بھی ہوتی ہے، جس کا معیار بمبئی پریزیڈنسی کے دوسرے علاقوں میں ہونے والی کپاس جیسا معیاری ہے۔1861ء میں محترم جیکب بیتھکم نے ملیر میں 22 ایکڑ پر پھیلا فارم لیا تھا اور اس زمین پر امریکی اور مصری کپاس کی جنسوں کی کامیاب فصل اُگائی تھی جس کے انعام کے طور پر اسے بمبئی سرکار نے 500 روپے بھی دیے تھے۔ 1868ء میں بھی اس نے اپنے فارم پر معیاری جنسوں کی شاندار فصل حاصل کی تھی، اس لیے 1869ء میں کراچی میں ہونے والی ‘صنعتی نمائش’ (Kurrachee Fair and Exhibition of 1869) میں بھی اس کو انعامات ملے تھے۔

‘ملیر کی زمین ذرخیز ہے، یہاں کے کنوؤں سے پانی آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ یہاں پانی 10 سے 12 فٹ کی کھدائی کے بعد آسانی سے مل جاتا ہے۔ اس وقت (1875ء) لوگ یہاں سبزیاں اور میوہ جات کراچی کی مارکیٹ کے لیے اُگاتے تھے۔ اس کے علاوہ ‘مانکجی فرمجی نامی ایک پارسی وہ واحد بڑا کاشتکار ہے جس نے مارکیٹ کی مانگ کو ذہن میں رکھ کر کپاس، سبزیوں، میوہ جات اور دوسرے فصلوں کی نئی جنسیں متعارف کروائی ہیں۔’

1869ء میں کراچی میں ہونے والی ‘صنعتی نمائش’ کا ریکارڈ

اگر آپ نے ‘لی مارکیٹ’ سے متعلق ہماری تحریر کا مطالعہ کیا ہوگا تو یقیناً آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ لی مارکیٹ کے بازار میں، سبزیوں، میوہ جات کے علاوہ دودھ، گھی بھی زیادہ مقدار میں ملیر سے آتا تھا، حتیٰ کہ کھانوں میں ‘سواد’ بھی ملیر سے آتا تھا کہ کھانا چاہے لاکھوں کا بنالو، اگر اس میں نمک کی چٹکی نہ پڑے تو کھانے میں سواد کی نہریں کہاں سے پھوٹیں گی؟ ملیر کے جنوب میں سمندری کناروں پر نمک کے ذخیرے ہیں اس لیے اب تو یہ کہنے کا بھی جواز بنتا ہے کہ خوراک میں لذت بھی ملیر وادی انڈیلتی رہی ہے۔

آپ تھوڑا دھیان تو دیں، تھوڑا غور تو کریں کہ فطرت نے کس طرح جڑیں ایک دوسرے سے ملادی ہیں۔ یہ فطرت کا ایک وسیع کینواس ہے جس پر صدیوں سے انسان اور فطرت مل کر اس پر رنگ بھر رہے ہیں۔ روایتوں اور کیفیتوں کو بُن رہے ہیں کہ یہاں کی مہندی کبھی یہ نہیں پوچھتی کہ یہ ہاتھ کس کا ہے؟ ہاتھ گورا ہے یا کالا؟ مہندی کا وجود فطرت نے پیدا ہی ہاتھوں کو لال کرنے کے لیے کیا ہے اس لیے وہ کبھی فطرت کی دی ہوئی ہدایت کو نہیں بھولتی۔ وہ نہ کبھی پرندوں کی طرح سرحد دیکھتی ہے، بس جہاں چلی گئی بس اپنا کام کرتی ہے۔

کنڈ جنگ

 

ملیر، کراچی (2011)—اسد امان

 

دیھ ملھ میمن

‘نوح ہراری’ انسانوں کے لیے لکھتے ہیں کہ ‘ٹھیک ہے چند دہائیوں میں ہم نے کچھ ترقی کی ہے، قحط، طاعون اور جنگ میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن دوسری طرف جنگلی حیات کو ہم نے ابتر کرکے رکھ دیا ہے۔ مگر ایک بے یقینی کی کیفیت ہماری رگوں میں بہتی ہے، ہم اپنے آرام اور تفریح کی خاطر، اپنے ہم عصر حیات کو اجاڑ رہے ہیں، یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ہمیں سکون نہیں ہے۔ غیر مطمئن وجود سے زیادہ کیا خطرناک ہوسکتا ہے؟ جسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کیا چاہتا ہے؟’، بالکل یہی کہانی اس ملیر وادی میں بھی دہرائی گئی۔

ملیر وادی کے وہ شاندار دن کب کے گزر گئے ہیں جن کا ہم ابھی ذکر کرکے آئے ہیں کہ یہاں سے پانی 10 سے 13 فٹ کی کھدائی کے بعد مل جاتا تھا، لیکن اب 400 سے 500 فٹ کی گہرائی پر بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ اتنی گہرائی کی وجہ سے پانی میں 1000 سے 1800 پی پی ایم نمکیات کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ کیفیت درسانو چھنو، کاٹھوڑ، گڈاپ اور ملیر میں اس لیے ہے کہ یہاں سے بارشوں کی ان گزرگاہوں سے اندھا دھند ریتی بجری اٹھائی گئی ہے۔

اس حوالے سے کلمتی صاحب کہتے ہیں کہ ‘ملیر وادی میں جو یہ ماحولیاتی بربادی آئی ہے وہ انسان کی لالچ کا نتیجہ ہے۔ 30 برس پہلے یہاں پانی 30 فٹ تک کی کھدائی کرنے پر مل جاتا تھا مگر اب چونکہ ہمیں ترقی کرنی ہے، بڑی عمارتیں تعمیر کرنی ہیں جن کو بیچ کر پیسے کمانے ہیں لہٰذا ریتی بجری اٹھائی گئی، بغیر یہ سوچے کہ ایک قدرتی سیٹ اپ کو چھیڑنے سے کیا منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی یہاں کوئی یہ سوچنے کی زحمت کرتا بھی نہیں ہے۔ بجری اور ریتی اٹھاتے رہنے کے باعث زمین کی بالائی تہہ برباد ہوگئی اور پانی کا ذخیرہ نیچے چلا گیا۔ لوگ ریتی بجری تب تک نکالتے رہے جب تک ان کو ملتی رہی، جب ریتی بجری کی تہہ اپنے اختتام کو پہنچی تو کہانی ختم ہوگئی’۔

زمین کے اندر جو میٹھے پانی کے ذخیرے تھے وہ نیچے ہوتے چلے گئے یہ ایک natural phenomena ہے۔ چنانچہ سارا نظام جو چل رہا تھا اس کو برباد تو ہونا ہی تھا۔ ماہرین کے مطابق ان برساتی بہاؤں سے 61 ارب کیوبک فٹ ریتی بجری نکالی گئی ہے۔ آپ یہ سمجھیں کی ملیر وادی کے فطری لینڈ اسکیپ کو برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ پروفیسر محمد رضا مہدی کی تحقیق اور تجزیے کے مطابق یہاں سے جو ریتی نکالی گئی ہے اس کو دوبارہ بھرنے کے لیے ہزاروں برس چاہئیں اس کے بعد جاکر ماحولیات کا بگڑا ہوا توازن بحال ہوگا۔

ملیر وادی کی کہانی ابھی باقی ہے کہ یہاں کے سمندری کنارے پر جو قدیم زمانے سے ماہی گیری ہو رہی ہے اس کے گزرے زمانے اور روایات، ان کے مچھلی پکڑنے کے طریقے، لوک کہانیاں اور ملیر وادی میں بنے کئی شاندار قدیم قبرستان جن کو ہم چوکنڈی طرز کے قبرستان کے نام سے پکارتے ہیں، ان سب کی قدیم تاریخ پر ہم آنے والے وقتوں میں ضرور بات کریں گے کہ اس ذکر کے سوا، ملیر وادی کی کہانی میں تشنگی کا عنصر رہے گا۔

حوالہ جات:

۔ ‘کراچی سندھ جی مارئی’، گل حسن کلمتی، 2014، نئوں نیاپو پبلیکیشن، کراچی

۔ ‘سندھ گزیٹیئر ۔ای۔ڈبلیو ہیوز’، 2017ء، روشنی پبلیکیشن، حیدرآباد

Record of the Kurrachee Fair and Exhibition of 1869, Sindian Press, Kurrachee

Shahid Hussain: Malir how green was my Valley, Daily News, 1999, Karachi

Studies in Geomorphology and Pre-history of Sindh, Prof- A-R-Khan, 1970

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔
بشکریہ ڈان نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close