روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) دسویں قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

فرائیڈے کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا ’’ماسٹر کرائے کے سپاہی جمع کر کے فوج بنانے کا خیال دل سے نکال لو. میرے خیال میں ہمیں ایک بڑی کشتی بنا کر سمندر میں نکل پڑنا چا ہیے. کہیں نہ کہیں تو کوئی جہاز مل ہی جائے گا اور یوں آپ کو اس جزیرے سے آزادی مل سکتی ہے.“
اس کی یہ بات میرے دل کو لگی، میں نے کہا ”ٹھیک ہے.. تو ہم کل سے ہی کشتی بنانا شروع کر تے ہیں.‘‘
’’میں ہر طرح سے تیار ہوں..“ فرائیڈے نے جواب دیا

اس رات ہم طرح طرح کے منصوبے بناتے سو گئے۔ میں نے ایک دلچسپ خواب دیکھا.. میں نے خواب میں دیکھا کہ میں لندن پہنچ گیا ہوں. میرے پاس سونے سے بھرے ہوئے بڑے بڑے صندوق ہیں، جو جہاز سے اتارے جا رہے ہیں. لوگ خوشی کے نعرے لگاتے ہوئے میرا استقبال کر رہے ہیں. اخباروں کے نمائندے جمع ہیں. میرے والد میرے پاس کھڑے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے.. وہ بار بار مجھے سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اتنے برسوں کی جدائی کے بعد اتنی زیادہ دولت لے کر کامیاب لوٹا ہوں..
پھر میری آنکھ کھل گئی..
صبح ہو رہی تھی، فرائیڈے گہری نیند سو رہا تھا. میں نے اسے جگا کر کہا، ”فرائیڈے، میں ابھی کچھ دیر اور سوؤں گا، تم کیبن سے کلہاڑا لے کر جنگل میں چلے جاؤ اور کوئی ایسا درخت چنو، جس سے ہم ایک بڑی کشتی بنا کر اس جزیرے سے روانہ ہو سکیں“

جب فرائیڈے کلہاڑا اٹھا کر کیبن سے باہر نکل گیا، تو میں پھر سوگیا، میں پھر وہی سہانا خواب دیکھنا چاہتا تھا….

❖ سمندری ڈاکو

فرائیڈے کے جانے کے بعد میں تھوڑی دیر ہی سویا ہوں گا کہ اچانک گولیوں کے دھماکے ہوئے اور میری آنکھ کھل گئی. میں نے سب سے پہلے اپنے پستول اور بندوق کو دیکھا، دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر موجود تھیں.. میں حیران ہوا کہ اس جزیرے میں پھر کس نے گولیاں چلائی ہیں.. کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی فوج یہاں آ گئی ہے…

یہ خیال آتے ہی میں خوشی سے اچھلا.. اب میں اس منحوس جزیرے سے جا سکتا تھا..

میں باہر نکلنے کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ فرائیڈے ہانپتا کانپتا اوپر آ گیا.
اس نے جلدی جلدی بتایا، ”ماسٹر، ماسٹر، دو کشتیوں پر سمندری ڈاکو جزیرے میں آئے تھے.. انہوں نے گورے ملاحوں کو ساحل پر لا کر گولیوں سے اڑا دیا اور پھر واپس چلے گئے.“

میں تیزی سے بھاگنے لگا..
فرائیڈے بھی میرے پیچھے بھاگ رہا تھا. ہم دونوں ساحل پر پہنچے. سب سے پہلے میں نے ایک سیاہ بادبانوں والا جہاز دیکھا جو ساحل سے کافی فاصلے پر سمندر میں کھڑا تھا.. اس کے اونچے مستول پر انسانی کھوپڑی والا سمندری ڈاکوؤں کا سیاہ جھنڈا لہراتا ہوا صاف دکھائی دے رہا تھا.

دو کشتیاں ساحل کو چھوڑ کر تیزی سے جہاز کی طرف جاتی دکھائی دیں۔ ان کشتیوں میں سمندری ڈاکو بیٹھے ہوئے تھے. انہوں نے اپنے سروں پر لال رنگ کے رومال باندھ رکھے تھے اور کانوں میں بڑے مندرے پہنے ہوئے تھے جو دھوپ میں لشکارے مار رہے تھے. اس منحوس جزیرے سے نکلنے کی زبردست خواہش نے مجھے بے چین کر دیا۔ مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ بحری ڈاکو کسی اجنبی کو ایک لمحے کے لئے بھی اپنے جہاز پر آنے کی اجازت نہیں دیتے اور اجنبی کو قتل کر دیتے ہیں..  میں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر زور زور سے چلاتے ہوئے سمندر کی طرف بھا گنا شروع کر دیا…

میں مدد مدد پکارنے لگا.. حالانکہ ڈاکوؤں کی کشتیاں ساحل سے بہت دور نکل گئی تھیں. فرائیڈے بھی میرے پیچھے بھاگ رہا تھا. ڈاکوؤں نے ہم دونوں کو جنگلی انسان سمجھا ہوگا اور ریت پر بھاگتے دیکھ لیا تھا. انہوں نے ہم پر فائرنگ شروع کر دی.. فرائیڈے نے مجھے دھکا دیا اور ریت پر گرا دیا..

ڈاکوؤں کی گولیاں ہمارے سروں کے اوپر سے سنساتے ہوئے گزر رہی تھیں.. میرے اندر آزاد ہونے کی آرزو، اس جزیرے سے نجات حاصل کرنے کی تڑپ اتنی شدید تھی کہ میں نے فرائیڈے کو پیچھے ہٹایا، ریت سے اٹھا اور پھر سمندر کی طرف بھاگنا شروع کر دیا.. سمندر کا پانی اب میرے گھٹنوں تک پہنچ گیا تھا.
میں زور سے ہاتھ ہلا کر چیخ رہا تھا ’’خدا کے لئے مجھے اس دوزخ سے لے چلو… میں تیس برسوں سے یہاں سڑ رہا ہوں…. مجھے اپنے ساتھ لے چلو…. مجھے جہاز پر گولی مار دینا، لیکن خدا کے لئے اس جزیرے سے لے چلو…. مجھے ایک بار اپنے جہاز پر سوار کر لو…..‘‘

سمندری ڈاکو قہقہے لگاتے دکھائی دیے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ہم پر گولیاں چلا دیں، جو میرے آس پاس اِدھر اُدھر گرنے لگیں.. پھر وہ کشتیوں سے اترے، جہاز پر سوار ہوئے اور کشتیوں کو رسوں کے ذریعے اوپر اٹھا لیا گیا.. اور پھر… میری سوگوار آنکھوں نے جہاز کو لنگر اٹھاتے دیکھا… جہاز چل دیا اور میں کھڑا دیکھتا کا دیکھتا ہی رہ گیا….

میں وہیں کھڑا رہا، جہاز دور ہوتا چلا گیا ۔حتیٰ کہ وہ ایک دھبہ سا بن کر رہ گیا اور پھر آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا.

فرائیڈے نے مجھے ہوش میں آ نے کے لئے کہا اور یاد دلایا کہ تین گورے ملاح سمندر کے کنارے پر پڑے ہیں، جنہیں ان ڈاکوؤں نے سمندر کے کنارے پر لا کر گولی ماری تھی.

میں تیز تیز چلتا ساحل پر ان تینوں لاشوں کے قریب پہنچا، وہ تینوں سفید فام تھے. ان میں سے دو مر چکے تھے. گولیاں ان کے دل کے پار ہوگئی تھیں.
البتہ ایک شخص میں ابھی کچھ سانس باقی رہ گئے تھے. میں اس پر جھکا، اس سے پوچھا
”کون ہو تم، انگریز ہو؟‘‘
مرنے والا ملاح چند گھڑیوں کا مہمان تھا.. اس کے بال سرخ اور ناک مڑی ہوئی تھی. اس نے کپتان کی وردی پہنی ہوئی تھی، جو خون میں بھیگی ہوئی تھی. اس نے رک رک کر لڑکھڑاتی زبان میں مجھے بتایا کہ وہ فرانسیسی جہاز کا کپتان ہے. جہاز پر سمندری ڈاکوؤں نے حملہ کیا اور اسے غرق کر دیا. سارا مال لوٹ کر اپنے جہاز پر لے گئے. تمام مسافروں کو جہاز کے ساتھ ہی ڈبو دیا..

وہ مر رہا تھا۔
میں نے چلا کر پو چھا،
”یہ جزیرہ  کس خلیج میں ہے…. کیا یہ ٹرینیڈیڈ کی خلیج ہے؟‘‘
فرانسیسی کپتان نے آہستہ سے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا۔ پھر اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی، وہ مر گیا. مرتے مرتے اس نے اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ یہ ٹرینیڈیڈ کی خلیج ہی تھی. اس کا مطلب تھا کہ اگر میں حوصلہ کر کے سمندر میں نکل پڑتا تو ایک نہ ایک دن ٹرینیڈیڈ پہنچ ہی سکتا تھا…

میں نے فرائیڈے سے کہا۔
’’ان لاشوں کی تلاشی لو، شاید کوئی کام کی چیز نکل آئے. ان تینوں سے ہمیں پستول ملے. گولیوں کی پٹیاں بھی مل گئیں. جو ان کے جسموں کے ساتھ بندھی تھیں. حیرت ہے کہ ڈاکوؤں نے ان کے پستولوں اور گولیوں کو کیوں نہ لیا تھا۔ ہم نے ان کی جیبوں کی تلاشی لی. ایک پنسل، ایک چاقو، سگریٹوں کا ایک پیکٹ اور ایک بڑی دیا سلائی کی ڈبیہ ملی..

ساری چیزیں ہم نے قبضے میں لے لیں اور پھر انہیں وہیں گڑھے کھود کر وردیوں سمیت دفنا دیا اور قبروں پر لکڑی کی صلیبیں بھی گاڑ دیں.

کیبن میں واپس آ کر میں نے گولیاں اور تینوں پستول سنبھال کر رکھے. گولیاں بہت بڑی تعداد میں تھیں. ہم نے ایک ایک سگریٹ سلگایا. سگریٹ بہت عمدہ تھے. کش لگاتے ہی مجھے لندن یاد آگیا تو دل اداس ہو گیا۔

میں نے کش لگاتے ہوئے فرائیڈے سے کہا۔
”میرا اندازه درست نکلا. اگر ہم بڑی کشتی میں سوار ہو کر یہاں سے نکلیں تو کسی دن ٹرینڈیڈ ضرور پہنچ سکتے ہیں.
فرائیڈے نے جواب دیا ”میں نے ایک ایسے درخت کو تلاش کر کے نشان لگا دیا ہے، جس سے ایک مضبوط اور بڑی کشتی بن سکتی ہے.‘‘

❖ فرائیڈے کا اغوا

دوسرے دن سے ہم نے اس درخت کو کاٹ کر زمین پر گرا دیا اس کے بعد ہمیں اس کے تختے کاٹ کر ایک مضبوط کشتی تیار کرنی تھی. ہم اس جزیرے سے نکلنے کا پختہ عزم کر چکے تھے۔ ہم پورا پورا دن کشتی کی تیاری پر کام کر نے لگے۔ ہمارا کام بہت مشکل تھا۔ لوہے کے کیل تھے نہ میخیں، اس لئے ہمیں لکڑی کی میخیں بنانی پڑیں اور انہیں ٹھونک کر ہی تختوں کو جوڑتے تھے۔

پورا ایک ہفتہ گزر گیا اور ہم نے آدھی کشتی بنائی۔ فرائیڈے کشتی بنانے میں میرا بڑھ چڑھ کر ساتھ دے رہا تھا۔ شاید وہ بھی اس جزیرے سے آزادی حاصل کر کے کسی بڑے جدید شہر کو دیکھنے کے لئے بے چین تھا۔ وہ سارا سارا دن میرے ساتھ کام میں لگا رہتا۔

ایک مہینے میں کشتی نصف سے زیادہ مکمل ہو چکی تھی۔ ہم نے کشتی میں ڈھلوانی چھت کا سائبان بھی بنایا تھا۔ کیونکہ اس طرح ہم بارش سے محفوظ رہ سکتے تھے اور دھوپ سے بھی۔ وہ لوگ جنہوں نے ایسے سمندروں کا سفر کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ سمندر کی دھوپ کتنی گرم اور ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ پانی سے بھاپ اڑنے لگتی ہے، اگر سایہ نہ ہو تو دھوپ جھلسا دیتی ہے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ جب میں صبح اٹھا تو اپنے آپ کو بہت تھکا ہوا پایا۔ رات میں نے جزیرے کا چکر بھی لگایا تھا اور سارا دن کشتی پر کام بھی کرتا رہا تھا۔ اس لئے میں بہت تھکا ماندہ تھا۔ فرائیڈے نے اونچی آواز میں مجھے صبح کا سلام کیا تو میں نے اسے ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ نیند سے میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ فرائیڈے مسکراتا ہوا کشتی پر کام کر نے کے لئے چلا گیا اور رسی کی سیڑھی اوپر اچھال دی۔ میں پھر سوگیا.

میرا خیال ہے کہ میں کوئی گھنٹہ بھر سویا ہوں گا کہ طوطے کے شور کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں آنکھیں ملتا اٹھا۔ طوطا ٹیں ٹیں کرتا رہا۔ میں سمجھ گیا کہ اسے بھوک لگی ہے۔ اس لئے جب میں نے اسے کھانے کو روٹی اور انگور دیئے تو وہ رغبت سے کھانے لگا اور خاموش ہو گیا۔ میں نے کتے کو بھی روٹی اور دودھ دیا۔ خود بھی تھوڑا بہت ناشتہ کیا۔ پھر پستول اور دور بین لے کر کیبن سے نکل آیا ۔ باہر آتے ہی میں نے رسی کی سیڑھی کو ایک درخت سے باندھ دیا.

اب بھی میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور کام کرنے کو دل نہ چاہتا تھا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ فرائیڈے وہاں میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ میں اسے جا کر بتادوں گا کہ آج میرا کام کرنے کا موڈ نہیں۔ وہ اکیلا ہی کام کرے۔
یوں میں چلتا ہوا اس گھنے درخت کی طرف چل دیا جس کے سائے میں ہم کشتی بنار ہے تھے۔

فرائیڈے وہاں نہیں تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر موجود تھی۔ میں نے سوچا فرائیڈے چشمے پر پانی پینے چلا گیا ہوگا اور لکڑی میں میخیں ٹھوکنے لگا۔ جب لگ بھگ ایک گھنٹہ گزر گیا اور فرائیڈے واپس نہیں آیا تو میں پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ آخر فرائیڈے کہاں چلا گیا ہے.. ابھی تک واپس کیوں نہیں آیا..

میں تیز تیز چلتا ہوا چشمے پر پہنچا لیکن فرائیڈے وہاں نہیں تھا!
یہ سوچ کر، کہ وہ کیبن سے کوئی چیز لینے نہ گیا ہو، میں نے کیبن کا رخ کیا، مگر کیبن میں بھی وہ نہ ملا تو میری پریشانی بڑھ گئی..
میں نے پورے جزیرے میں اسے تلاش کیا۔ اونچی اونچی آواز میں اسے بار بار پکارا۔ مگر جنگل میں میری آواز ہی گونجتی رہ گئی، کوئی جواب نہیں مل سکا..

یاخدا، فرائیڈے کہاں چلا گیا؟ کیا ہوا اسے؟
اسے تلاش کرتا جب میں جزیرے کے مغربی کنارے کی طرف گیا تو وہاں تازہ قدموں کے نشان دیکھ کر میرا دل دھک سے رہ گیا…. یہ چھ سات آدمیوں کے قدموں کے نشان تھے اور بالکل تازہ تھے۔ قدموں کے یہ نشان جنگل کی طرف جارہے تھے

میں ان کے پیچھے پیچھے چلا، پھر یہ نشان سمندر کے کنارے تک آ گئے..
اور پھر اچانک مجھے ایک خیال آیا اور میں کانپ کر رہ گیا…
کہیں فرائیڈے کو آدم خور اغوا کر کے تو نہیں لے گئے!!؟؟
قدموں کے نشانات نے میرے شبے کو یقین میں بدل دیا۔ قدموں کے نشانات میں فرائیڈے کے قدموں کے نشان بھی دکھائی دے رہے تھے۔ قدموں کے نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ فرائیڈے کو گھسیٹ کر لے جایا گیا تھا۔

دل میں خیال آیا کہ فرائیڈے نے چیخ کر مجھے پکارا کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب بھی خود ہی مل گیا کہ آدم خوروں نے یقیناً اس کا منہ بند کر دیا ہوگا۔
ساحل پر کشتی گھسیٹنے کے نشان بھی صاف دکھائی دے رہے تھے…
فرائیڈے کو اغوا کرلیا گیا تھا….!
(جاری ہے)

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close