دو بیل (اُردو ادب سے منتخب افسانہ)

پریم چند

جانوروں میں گدھا سب سے بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔ جب ہم کسی شخص کو پرلے درجہ کا احمق کہنا چاہتے ہیں تو اسے گدھا کہتے ہیں۔ گدھا واقعی بیوقوف ہے یا اس کی سادہ لوحی اور انتہا درجہ کی قوتِ برداشت نے اسے یہ خطاب دلوایا ہے۔ اس کا تصفیہ نہیں ہو سکتا۔

گائے شریف جانور ہے مگر سینگ مارتی ہے۔ کتّا بھی غریب جانور ہے لیکن کبھی کبھی اسے غصّہ بھی آ جاتا ہے۔۔ مگر گدھے کو کبھی غصّہ نہیں آتا، جتنا جی چاہے مار لو۔چاہے جیسی خراب سڑی ہوئی گھاس سامنے ڈال دو، اس کے چہرے پر ناراضگی کے آثار کبھی نظر نہ آئیں گے۔ اپریل میں شاید کبھی کلیل کر لیتا ہو، پر ہم نے اسے کبھی خوش ہوتے نہیں دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک مستقل مایوسی چھائی رہتی ہے سکھ دکھ، نفع نقصان سے کبھی اسے شاد ہوتے نہیں دیکھا۔ رشی منیوں کی جس قدر خوبیاں ہیں، سب اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن آدمی اسے بیوقوف کہتا ہے۔ اعلیٰ خصلتوں کی ایسی توہین ہم نے اور کہیں نہیں دیکھی۔ ممکن ہے دنیا میں سیدھے پن کے لیے جگہ نہ ہو۔

لیکن گدھے کا ایک بھائی اور بھی ہے۔ جو اس سے کچھ کم ہی گدھا ہے اور وہ ہے بیل۔ جن معنوں میں ہم گدھے کا لفظ استعمال کرتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو بیل کو بیوقوفوں کا سردار کہنے کو تیار ہیں، مگر ہمارا خیال ایسا نہیں۔ بیل کبھی کبھی مارتا، کبھی کبھی اڑیل بیل بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔۔ اور کبھی کئی طریقوں سے وہ اپنی ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کر دیتا ہے۔ لہذٰ اس کا درجہ گدھے سے نیچے ہے۔

جھوری کاچھی کے پاس دو بیل تھے۔ ایک کا نام ہیرا تھا دوسرے کا موتی۔ دونوں پچھائیں نسل کے تھے۔ دیکھنے میں خوبصورت، کام میں چوکس، ڈیل ڈول میں اونچے۔ بہت دنوں سے ایک ساتھ رہتے رہتے دونوں میں محبت سی ہو گئی۔ دونوں آمنے سامنے یا ایک دوسرے کے پاس بیٹھے زبانِ خاموش میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے دل کی بات کیوں کر سمجھ جاتے تھے، یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ ضرور ان میں کوئی نہ کوئی ناقابلِ فہم قوت تھی۔ جس کے سمجھنے سے اشرف المخلوقات ہونے کا مدعی انسان محروم ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو چاٹ کر اور سونگھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ کبھی دونوں سینگ ملا لیا کرتے تھے، عناد سے نہیں محض زندہ دلی سے محض ہنسی مذاق سے، جیسے یار دوستوں میں کبھی کبھی دھول دھپّا ہو جاتا ہے۔ اس کے بغیر دوستی کچھ پھیکی اور ہلکی سی رہتی ہے، جس پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

جس وقت یہ دونوں بیل ہل یا گاڑی میں جوتے جاتے اور گردنیں ہلاہلا کر چلتے تو ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ بوجھ میر ی ہی گردن پر رہے۔ کام کے بعد دوپہر یا شام کو کھلتے، تو ایک دوسرے کو چوم چاٹ کر اپنی تھکان اتار لیتے ۔ ناند میں کھلی بھوسا پڑجانے کے بعد دونوں ایک ساتھ اٹھتے۔ ایک ساتھ ناند میں منہ ڈالتے اور ایک ہی ساتھ بیٹھتے ایک منہ ہٹا لیتا تو دوسرا بھی ہٹا لیتا تھا۔

ایک مرتبہ جھوری نے دونوں بیل چند دنوں کے لیے اپنے سسرال بھیجے، بیلوں کو کیا معلوم وہ کیوں بھیجے جاتے ہیں، سمجھے مالک نے ہمیں بیچ دیا۔۔ کون جانے بیلوں کو اپنا بیچا جانا پسند آیا یا نہیں، لیکن جھوری کے سالے کو انھیں اپنےگاؤں تک لے جانے میں دانتوں پسینہ آ گیا۔ پیچھے سے ہانکتا تو دونوں دائیں بائیں بھاگتے۔ آگے سے پکڑکر کھینچتا تو دونوں پیچھے کو زور لگاتے۔ مارتا تو دونوں سینگ نیچے کرکے پھنکارتے۔ اگر ان بے زبانوں کے زبان ہوتی تو جھوری سے پوچھتے تم نے ہم غریبوں کو کیوں نکال دیا۔ ہم نے تمہاری خدمت کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اگر اتنی محنت سے کام نہ چلتا تھا تو اور کام لے لیتے۔ ہم کو انکار نہ تھا۔ ہمیں تمہاری خدمت میں مرجانا قبول تھا۔ ہم نے کبھی دانے چارے کی شکایت نہیں کی۔ تم نے جو کچھ کھلایا، سر جھکا کر کھا لیا۔ پھر تم نے ہمیں اس ظالم کے ہاتھ کیوں بیچ دیا؟

شام کے وقت دونوں بیل گیاکے گاؤں میں جا پہنچے۔ دن بھر بھوکے تھے، لیکن جب ناند میں لگائے تو کسی نے بھی اس میں منہ نہ ڈالا۔ دونوں کا دل بھاری ہو رہا تھا۔جسے انہوں نے اپنا گھر سمجھا تھا، وہ آج ان سے چھوٹ گیا۔۔ یہ نیا گھر، نیا گاؤں، نئے آدمی سب انہیں بے گانے لگتے تھے۔ دونوں نے چپ کی زبان میں کچھ باتیں کیں۔ ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھا اور لیٹ گئے۔

جب گاؤں میں سوتا پڑ گیا تو دونوں نے زور مار کر پگہتے تڑا لیے اور گھر کی طرف چلے۔ پگہے مضبوط تھے کسی کو شبہہ بھی نہ ہوسکتا تھا کہ بیل انہیں توڑ سکیں گے، پر ان دونوں میں اس وقت دگنی طاقت آ گئی تھی۔ ایک جھٹکے میں رسیاں ٹوٹ گئیں۔

جھوری نے صبح اٹھ کر دیکھا کہ دونوں بیل چرنی پر کھڑے تھے دونوں کی گردنوں میں آدھا آدھارسّہ لٹک رہا تھا۔ گھٹنوں تک پاؤں کیچڑ میں بھرے ہوئے تھے اور دونوں کی آنکھوں میں محبت اور ناراضگی جھلک رہی تھی۔جھوری ان کو دیکھ کر محبت سے باؤلا ہوگیا۔۔ اور دوڑ کر ان کے گلے سے لپٹ گیا۔ انسان اور حیوان کی محبت کا یہ منظر نہایت دلکش تھا۔

گھر اور گاؤں کے لڑکے جمع ہوگئے اور تالیاں بجا بجا کر ان کا خیر مقدم کرنے لگے۔گاؤں کی تاریخ میں یہ واقعہ اپنی قسم کا پہلا نہ تھا، مگر اہم ضرور تھا۔ بال سبھا نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں بہادروں کا ایڈریس دیا جائے۔ کوئی اپنے گھر سے روٹیاں لایا، کوئی گُڑ چوکر، کوئی بھوسی۔

ایک لڑکے نے کہا، ’’ایسے بیل اور کسی کے پاس نہ ہوں گے۔‘‘

دوسرے نے تائید کی، ’’اتنی دور سے دونوں اکیلے چلے آئے۔‘‘

تیسرا بولا: ’’پچھلے جنم میں ضرور آدمی ہوں گے۔‘‘

اس کی تردید کرنے کی کسی میں جرأت نہ تھی۔ سب نے کہا، ’’ہاں بھائی ضرور ہوں گے۔‘‘

جھوری کی بیوی نے بیلوں کو دروازہ پر دیکھا تو جل اٹھی اور بولی، ’’کیسے نمک حرام بیل ہیں، ایک دن بھی وہاں کام نہ کیا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔‘‘

جھوری اپنے بیلوں پر یہ الزام برداشت نہ کر سکا۔ بولا، ’’نمک حرام کیوں ہیں، چارہ دانہ نہ دیا ہوگا کیا کرتے؟‘‘

عورت نے تنگ آ کر کہا،’’بس تم ہی بیلوں کو کھلانا جانتے ہو اور تو سبھی پانی پلا پلا کر رکھتے ہیں۔‘‘

جھوری نے چڑھایا، ’’چارہ ملتا تو کیوں بھاگتے؟‘‘

عورت چڑھی، ’’بھاگے اس لیے کہ وہ لوگ تم جیسے بدھوؤں کی طرح بیلوں کو سہلاتے نہیں، کھلاتے ہیں تو، توڑ کر جوتتے بھی ہیں، یہ دونوں ٹھہرے کام چور۔۔ بھاگ نکلے۔ اب دیکھتی ہوں کہاں سے کھلی اور چوکر آتا ہے، خشک بھوسے کے سوا کچھ نہ دوں گی، کھائیں چاہے مریں۔‘‘

وہی ہوا، مزدور کو تاکید کردی گئی کہ بیلوں کوصرف خشک بھوسا دیا جائے، بیلوں نے ناند میں منہ ڈالا تو پھیکا پھیکا، نہ چکناہٹ نہ رس کیا کھائیں؟ پُر امید نگاہوں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔

جھوری نے مزدور سے کہا، ’’تھوڑی سی کھلی کیوں نہیں ڈال دیتا ہے؟‘‘

مزدور: ’’مالکن مجھے مار ہی ڈالے گی۔‘‘

جھوری: ’’ڈال دے تھوڑی سی۔‘‘

مزدور: ’’نہ دادا۔ بعد میں تم بھی انہیں کی سی کہو گے۔‘‘

دوسرے دن جھوری کا سالا پھر آیا اور بیلوں کو لے چلا۔ اب کے اس نے دونوں کو گاڑی میں جوتا۔ دوچار مرتبہ موتی نے گاڑی کو کھائی میں گرانا چاہا مگر ہیرا نے سنبھال لیا۔اس وقت دونوں میں قوتِ برداشت زیادہ تھی۔ شام کے وقت گھر پہنچ کر گیا نے دونوں کو موٹی رسیوں سے باندھا اور کل کی شرارت کا مزہ چکھایا پھر وہی خشک بھوسہ ڈال دیا۔ اپنے بیلوں کو کھلی چونی سب کچھ کھلایا۔

ہیرا اور موتی اس برتاؤ کے عادی نہ تھے۔ جھوری انہیں پھول کی چھڑی سے بھی نہ مارتا تھا، اس کی آواز پر دونوں اڑنے لگتے تھے۔ یہاں مار پڑی اس پر خشک بھوسہ۔ ناند کی طرف آنکھ بھی نہ اٹھائی۔

دوسرے دن گیا نے بیلوں کو ہل میں جوتا پر ان دونوں نے جیسے پاؤں اٹھانے کی قسم کھا لی تھی۔ وہ مارتے مارے تھک گیا، مگر انہوں نے قدم نہ اٹھایا۔ ایک مرتبہ جب اس ظالم نے ہیرا کی ناک پر ڈنڈا جمایا تو موتی غصّہ کے مارے آپے سے باہر ہو گیا۔ ہل لے بھاگا، ہل رسی اور جوا جوت سب ٹوٹ کر برابر ہو گئے۔ گلے میں بڑی بڑی رسیاں نہ ہوتیں، تو دونوں نکل گئے تھے۔ ہیرا نے زبان خاموش سے کہا، ’’بھاگنا مشکل ہے۔‘‘

موتی نے بھی نگاہوں سے جواب دیا، ’’تمکاری تو اس نے جان لے لی تھی۔ اب کے بڑی مار پڑے گی۔‘‘

ہیرا: ’’پڑنے دو۔ بیل کا جنم لیا ہے تو مار سے کہاں بچیں گے۔‘‘

گیا دو آدمیوں کے ساتھ دوڑا آ رہا ہے۔ دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں۔

موتی: ’’کہو تو میں بھی دکھادوں کچھ مزا؟“

ہیرا: ’’نہیں بھائی۔۔ کھڑے ہو جاؤ۔‘‘

موتی: ’’مجھے مارے گا، تو میں ایک آدھ کو گرا دوں گا۔‘‘

ہیرا: ’’یہ ہمارا دھرم نہیں ہے۔‘‘

موتی دل میں اینٹھ کر رہ گیا۔ اتنے میں گیا آ پہنچا اور دونوں کو پکڑ کر لے چلا۔خیریت ہوئی کہ اس نے اس وقت مارپیٹ نہ کی، نہیں تو موتی بھی تیار تھا۔ اس کے تیور دیکھ کر سہم گیا اور اس کے ساتھی سمجھ گئے کہ اس وقت ٹال جانا ہی مصلحت ہے۔

آج دونوں کے سامنے پھر وہی خشک بھوسا لایا گیا۔ دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔ گھر کے لوگ کھانا کھانے لگے۔ اسی وقت ایک چھوٹی سی لڑکی دو روٹیاں لیے نکلی اور دونوں کے منہ میں دے کر چلی گئی۔ اس ایک ایک روٹی سے ان کی بھوک تو کیا مٹتی مگر دونوں کے دل کو کھانا مل گیا۔ معلوم ہوا، یہاں بھی کوئی صاحبِ دل رہتا ہے۔ یہ لڑکی گیا کی تھی، اس کی ماں مر چکی تھی، سوتیلی ماں اسے مارتی تھی، اس لیے ان بیلوں سے اسے ہمدردی تھی۔

دونوں دن بھر جوتے جاتے۔ اڑتے، ڈنڈے کھاتے، شام کو تھان پر باندھ دیے جاتے اور رات کو وہی لڑکی انہیں ایک ایک روٹی دے جاتی۔ محبت کے اس کھانے کی یہ برکت تھی، کہ دوچار خشک بھوسے کے لقمے کھا کر بھی دونوں کمزور نہ ہوتے تھے۔ دونوں کی آنکھوں کی نس نس میں سرکشی بھری تھی۔

ایک دن چپ کی زبان میں موتی نے کہا، ’’اب تو نہیں سہا جاتا ہیرا۔‘‘

ہیرا؛ ’’کیا کرنا چاہیے؟‘‘

موتی: ’’گیا کو سینگ پر اٹھا کر پھینک دوں؟‘‘

ہیرا: ’’مگر وہ لڑکی اس کی بیٹی ہے، اسے مار کر گراؤ گے تو وہ یتیم ہو جائے گی۔‘‘

موتی: ’’تو مالکن کو پھینک دوں، وہ لڑکی کو ہر روز مارتی ہے۔‘‘

ہیرا: ’’عورت کو مارو گے!؟ بڑے بہادر ہو۔۔!‘‘

موتی: ’’تم کسی طرح نکلنے ہی نہیں دیتے تو آؤ آج رسّا تڑا کر بھاگ چلیں۔‘‘

ہیرا: ’’ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن ایسی موٹی رسّی ٹوٹے گی کیونکر۔‘‘

موتی: ’’پہلے رسّی کو چبالو پھر جھٹکا دے کر تڑالو۔‘‘

رات کو جب لڑکی روٹیاں دے کر چلی گئی، دونوں رسّیاں چبانے لگے۔ پر موٹی رسّی منہ میں نہ آتی تھی۔ بچارے بار بار زور لگا کر رہ جاتے۔

معاً گھر کا دروازہ کھلا اور وہی لڑکی نکلی دونوں سر جھکا کر اس کے ہاتھ چاٹنے لگے۔ دونوں کی دُمیں کھڑی ہو گئیں۔ اس نے ان کی پیشانی سہلائی اور بولی، ’’کھول دیتی ہوں۔ بھاگ جاؤ۔ نہیں تو یہ لوگ تمہیں مارڈالیں گے۔ آج گھر میں مشہور ہو رہا ہے کہ تمہاری ناک میں ناتھ ڈال دی جائیں۔‘‘

اس نے دونوں کے رسّے کھول دیے، پر دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔

موتی نے اپنی زبان میں پوچھا، ’’اب چلتے کیوں نہیں؟‘‘

ہیرا نے جواب دیا، ’’اس غریب پر آفت آ جائے گی۔ سب اسی پر شبہہ کریں گے۔‘‘

یکایک لڑکی چلّائی ”او دادا۔اودادا۔ دونوں پھوپھا والے بیل بھاگے جارہے ہیں۔ دوڑو۔ دونوں بیل بھاگے جا رہے ہیں۔‘‘

گیا گھبرا کر باہر نکلا اور بیلوں کو پکڑنے چلا۔ بیل بھاگے، گیا نے پیچھا کیا۔۔ وہ اور بھی تیز ہو گئے۔ گیا نے شور مچایا، پھر گاؤں کے کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لانے کے لیے لوٹا۔ دونوں بیلوں کو بھاگنے کا موقع مل گیا۔ سیدھے دوڑے چلے گئے، یہاں تک کہ راستہ کا خیال نہ رہا۔ جس راہ سے یہاں آئے تھے، اس کا پتہ نہ تھا، نئے نئےگاؤں ملنے لگے۔ تب دونوں ایک کھیت کے کنارے کھڑے ہوکر سوچنے لگے۔ کہ اب کیا کرنا چاہیے؟

ہیرا نے اپنی زبان میں کہا، ’’معلوم ہوتا ہے راستہ بھول گئے۔‘‘

موتی: ’’تم بھی بے تحاشا بھاگے، وہیں اسے مار گراتے۔‘‘

ہیرا: ’’اسے مار گراتے تو دنیا کیا کہتی۔۔ وہ اپنا دھرم چھوڑ دے لیکن ہم اپنا دھرم کیونکر چھوڑدیں۔‘‘

دونوں بھوک سے بے حال ہو رہے تھے۔ کھیت میں مٹر کھڑی تھی، چرنے لگے۔ رہ رہ کر آہٹ لے رہے تھے کہ کوئی آ تو نہیں رہا۔ جب پیٹ بھر گیا اور دونوں کو آزادی کا احساس ہوا تو اچھلنے کودنے لگے۔ پہلے ڈکار لی پھر سینگ ملائے اور ایک دوسرے کو دھکیلنے لگے۔ موتی نے ہیرا کو کئی قدم پیچھے ہٹا دیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک کھائی میں گر گیا۔ تب اسے بھی غصّہ آیا سنبھل کر اٹھا اور پھر موتی سے لڑنے لگا۔ موتی نے دیکھا کہ کھیل میں جھگڑا ہوا چاہتا ہے تو ایک طرف ہٹ گیا۔

ارے یہ کیا کوئی سانڈ ڈونکتا چلا آتا ہے۔ ہاں سانڈ ہی تو ہے، وہ سامنے آ پہنچا، دونوں دوست تذبذب میں پڑ گئے۔ سانڈ بھی پورا ہاتھی۔ اس سے لڑنا جان سے ہاتھ دھونا تھا لیکن نہ لڑنے سے بھی جان بچتی نظر نہ آتی تھی۔ انہی کی طرف آ رہا تھا، کتنا جسیم تھا۔

موتی نے کہا، ’’بُرے پھسے۔۔ جان کیسے بچے گی؟ کوئی طریقہ سوچو۔‘‘

ہیرا نے کہا، ’’غرور سے اندھا ہو رہا ہے۔۔ منّت سماجت کبھی نہ سنے گا۔‘‘

موتی: ’’بھاگ کیوں نہ چلیں؟‘‘

ہیرا: ’’بھاگنا پست ہمتی ہے۔‘‘

موتی: ’’تو تم یہیں مرو، بندہ نو دو گیارہ ہوتا ہے۔‘‘

ہیرا: ’’اور جو دوڑ آئے تو پھر؟‘‘

موتی: ’’کوئی طریقہ بتاؤ، لیکن ذرا جلدی۔۔ وہ تو آ پہنچا۔‘‘

ہیرا: ’’ طریقہ یہی ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ حملہ کر دیں۔ میں آگے سے اس کو دھکیلوں تم پیچھے سے دھکیلو۔ دیکھتے دیکھتے بھاگ کھڑا ہوگا۔ جوں ہی مجھ پر حملہ کرے تم پیٹ میں سینگ چبھو دینا۔ جان جوکھوں کا کام ہے، لیکن دوسرا کوئی طریقہ نہیں۔‘‘

دونوں دوست جان ہتھیلیوں پر لے کر آگے بڑھے۔ سانڈ کو کبھی منظّم دشمن سے لڑنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ وہ انفرادی جنگ کا عادی تھا۔ جوں ہی ہیرا پر جھپٹا، موتی نے پیچھے سے ہلّہ بول دیا۔ سانڈ اس کی طرف مڑا تو ہیرا نے دھکیلنا شروع کیا۔ سانڈ چاہتا تھا ایک ایک کر کے دونوں کر گرا لے۔ پھر یہ بھی استاد تھے، اسے یہ موقعہ ہی نہ دیتے تھے۔ ایک مرتبہ سانڈ جھلّا کر ہیرا کو ہلاک کرنے چلا۔ تو موتی نے بغل سے آ کر اس کے پیٹ میں سینگ رکھ دیے۔ بے چارہ زخمی ہو کر بھاگا اور دونوں فتحیاب دوستوں نے دور تک اس کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ سانڈ بے دم ہو کر گر پڑا۔ تب دونوں نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا۔

دونوں بیل فتح کے نشہ میں جھومتے چلے جاتے تھے۔ موتی نے اپنے اشاروں کی زبان میں کہا، ’’میرا جی تو چاہتا تھا کہ ہتچہ جی کو مار ہی ڈالوں۔‘‘

ہیرا: ’’گرے ہوئے دشمن پر سینگ چلانا نا مناسب ہے۔‘‘

موتی: ’’یہ سب فضول ہے۔۔ اگر اس کا داؤ چلتا تو کبھی نہ چھوڑتا۔‘‘

ہیرا: ’’اب کیسے گھر پہنچو گے، یہ سوچو۔‘‘

موتی: ’’پہلے کچھ کھا لیں تو سوچیں، ابھی عقل کام نہیں کرتی۔‘‘

یہ کہ کر موتی مڑ کے کھیت میں گھس گیا۔ ہیرا منع کرتا ہی رہ گیا لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ ابھی دو ہی چار منہ مارے تھے کہ دو آدمی لاٹھیاں لیے آ گئے اور دونوں بیلوں کو گھیر لیا۔ ہیرا تو مینڈ پر تھا، نکل گیا، موتی کھیت میں تھا، اس کے کُھر کیچڑ میں دھنسنے لگے، نہ بھاگ سکا، پکڑا گیا۔ ہیرا نے دیکھا دوست تکلیف میں ہے تو لوٹ پڑا۔ پھنسیں گے، تو اکٹھے۔رکھوالوں نے اسے بھی پکڑ لیا۔ دوسرے دن دونوں دوست کانجی ہاؤس میں تھے۔

ان کی زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ سارا دن گذر گیا اور کھانے کو ایک تنکا بھی نہ ملا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا یہ کیسا مالک ہے، اس سے تو گیا ہی اچھا تھا۔ وہاں کئی بھینسیں تھیں، کئی بکریاں، کئی گھوڑے، کئی گدھے۔۔ چارہ کسی کے سامنے بھی نہ تھا، سب زمین پر مردے کی طرح پڑے تھے۔ کئی تو اس قدر کمزور ہو گئے تھے کہ کھڑے بھی نہ ہو سکتے تھے۔ سارا دن دروازہ کی طرف دیکھتے رہے، مگر چارہ لے کر نہ آیا تب غریبوں نے دیوار کی نمکین مٹّی چاٹنی شروع کی، مگر اس سے کیا تسکین ہو سکتی تھی؟

جب رات کو بھی کھانا نہ ملا، تو ہیرا کے دل میں سرکشی کے خیالات پیدا ہوئے۔ موتی سے بولا۔ ”مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان نکل رہی ہے۔‘‘

موتی۔’’اتنی جلدی ہمت نہ ہارو بھائی۔ یہاں سے بھاگنے کا طریقہ سوچو۔‘‘

ہیرا: ’’آؤ دیوار توڑ ڈالیں۔‘‘

موتی: ’’مجھ سے تو اب کچھ نہ ہوگا۔‘‘

ہیرا: ’’بس اسی بوتے پر اکڑتے تھے۔‘‘

موتی: ’’ساری اکڑ نکل گئی بھائی۔‘‘

باڑے کی دیوار کچی تھی۔ ہیرا نے اپنے نوکیلے سینگ دیوار میں گاڑ دیے اور زور سے مارا تو مٹّی کا ایک چیڑ نکل آیا۔ اس سے اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے دوڑ دوڑ کر دیوار سے ٹکّریں ماریں۔ ہر ٹکّر میں تھوڑی تھوڑی مٹی گرنے لگی۔

اتنے میں کانجی ہاؤس کا چوکیدار لالٹین لے کر جانوروں کی حاضری لینے آ نکلا۔ ہیرا کی وحشت دیکھ کر اس نے اسے کئی ڈنڈے رسید کیے اور موٹی سی رسّی سے باندھ دیا۔

موتی نے پڑے پڑے اس کی طرف دیکھا، گویا زبان ِحال سے کہا، ”آخر مار کھائی، کیا ملا۔“

ہیرا: ’’زور تو آزما لیا۔‘‘

موتی: ’’ایسا زور کس کام کا۔۔اور بندھن میں پڑ گئے۔‘‘

ہیرا: ’’اس سے باز نہ آؤں گا، خواہ بندھن بڑھتے جائیں۔‘‘

موتی: ’’جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔‘‘

ہیرا: ’’اس کی مجھے پرواہ نہیں، یوں بھی مرنا ہے۔۔ ذرا سوچو اگر دیوار گر جاتی، تو کتنی جانیں بچ جاتیں۔ اتنے بھائی یہاں بند ہیں، کسی کے جسم میں جان بھی نہیں۔ دو چار دن یہی حال رہا تو سب مر جائیں گے۔‘‘

موتی نے بھی دیوار میں اسی جگہ سینگ مارا۔ تھوڑی سی مٹّی گری اور ہمّت بڑھی تو دیوار میں سینگ لگا کر اس طرح زور کرنے لگا، جیسے کسی سے لڑ رہا ہو۔ آخر کوئی دو گھنٹہ کی زور آزمائی کے بعد دیوار کا کچھ حصّہ گر گیا۔ اس نے دوگنی طاقت سے دوسرا دھکّا لگایا تو آدھی دیوار گر پڑی۔

دیوار کا گرنا تھا کہ نیم جان جانور اُٹھ کھڑے ہوئے۔ تینوں گھوڑیاں بھاگ نکلیں۔ بھیڑ بکریاں نکلیں۔ اس کے بعد بھینسیں بھی کھسک گئیں پر گدھے ابھی کھڑے تھے۔

ہیرا نے پوچھا۔ ’’تم کیوں نہیں جاتے؟‘‘

ایک گدھے نے کہا، ’’کہیں پھر پکڑ لیے جائیں تو؟‘‘

ہیرا: ’’پکڑ لیے جاؤ پھر دیکھا جائے گا، اس وقت تو موقعہ ہے۔‘‘

گدھا: ’’ہمیں ڈر لگتا ہے، ہم نہ بھاگیں گے۔‘‘

آدھی رات گذر چکی تھی۔ دونوں گدھے کھڑے سوچ رہے تھے، بھاگیں یا نہ بھاگیں۔۔ موتی اپنے دوست کی رسّی کاٹنے میں مصروف تھا، جب وہ ہار گیا تو ہیرانے کہا، ”تم جاؤ، مجھے یہیں رہنے دو۔ شاید کبھی ملاقات ہو جائے۔“

موتی نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا، ’’تم مجھے خود غرض سمجھتے ہو ہیرا، ہم اور تم اتنے دنوں ساتھ رہے۔ آج تم مصیبت میں پھنسے تو میں چھوڑ کر بھاگ جاؤں۔‘‘

ہیرا: ’’بہت مار پڑے گی۔م سمجھ جائیں گے یہ تمہاری شرارت ہے۔‘‘

موتی: ’’جس قصور کے لیے تُمہارے گلے میں رسّا پڑا، اس کے لیے اگر مجھ پر مار پڑے گی تو کیا بات ہے۔۔ اتنا تو ہو گیا کہ نو دس جانوروں کی جان بچ گئی۔‘‘ یہ کہہ کر موتی نے دونوں گدھوں کو سینگ مار مار کر باہر نکال دیا اور اپنے دوست کے پاس آ کر سو گیا۔

صبح ہوتے ہوتے منشیوں، چوکیداروں اور دوسرے ملازموں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس کے بعد موتی کی مرمت ہوئی اور اسے بھی موٹی رسّی سے باندھ دیا گیا۔

ایک ہفتہ تک دونوں بیل بندھے پڑے رہے۔ خدا جانے اس کانجی ہاؤس کے آدمی کیسے بے درد تھے، کہ کسی نے چارے کو ایک تنکا تک نہ ڈالا۔ ہاں ایک مرتبہ پانی دکھادیا جاتا تھا۔ یہی ان کی خوراک تھی۔ دونوں اتنے کمزور ہوگئے کہ اٹھا تک نہ جاتا تھا، ہڈیاں نکل آئیں۔

ایک دن باڑے کے سامنے ڈگڈگی بجنے لگی اور دوپہر ہوتے ہوتے پچاس ساٹھ آدمی جمع ہو گئے۔ تب دونوں بیل نکالے گئے اور ان کی دیکھ بھال ہونے لگی۔ لوگ آ آ کر ان کی صورت دیکھتے اور چلے جاتے تھے۔ ایسے نیم جان بیلوں کو کون خریدتا؟

معاً ایک آدمی، جس کی آنکھیں سرخ تھیں اور جس کے چہرہ پرسخت دلی کے آثار نمایاں تھے، آیا اور منشی جی سے باتیں کرنے لگا۔ اس کی شکل دیکھ کر کسی نامعلوم احساس سے دونوں بیل کانپ اٹھے۔ وہ کون ہے اور انہیں کیوں خریدتا ہے؟ اس کے متعلق انہیں کوئی شبہہ نہ رہا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔

ہیرا نے کہا: ’’گیا کے گھر سے ناحق بھاگے۔ اب جان نہ بچے گی۔‘‘

موتی نے جواب دیا، ’’کہتے ہیں، بھگوان سب پر مہربانی کرتے ہیں۔ انہیں ہماری حالت پر رحم کیوں نہیں آتا؟‘‘

ہیرا: ’’بھگوان کے لیے ہمارا مرنا جینا دونوں برابر ہیں۔‘‘

موتی: ’’چلو اچھا ہے کچھ دن ان کے پاس رہیں گے۔‘‘

ہیرا: ’’ایک مرتبہ بھگوان نے اس لڑکی کے روپ میں بچایا تھا، کیا اب نہ بچائیں گے۔‘‘

موتی: ’’یہ آدمی چُھری چلائے گا، دیکھ لینا۔‘‘

ہیرا: ’’معمولی بات ہے، مر کر ان دکھوں سے چھوٹ جائیں گے۔‘‘

نیلام ہوجانے کے بعد دونوں بیل اس آدمی کے ساتھ چلے۔ دونوں کی بوٹی بوٹی کانپ رہی تھی۔ بچارے پاؤں تک نہ اٹھا سکتے تھے، مگر ڈر کے مارے چلے جاتے تھے۔ ذرا بھی آہستہ چلتے تو ڈنڈا جما دیتا تھا۔

راہ میں گائے بیلوں کا ایک ریوڑ مرغزالہ میں چرتا نظر آیا۔ سبھی جانور خوش تھے کوئی اچھلتا تھا کوئی بیٹھا جگالی کرتا تھا۔ کیسی پر مسرت زندگی تھی، لیکن وہ کیسے خود غرض تھے، کسی کو ان کی پرواہ نہ تھی۔ کسی کو خیال نہ تھا، کہ ان کے دو بھائی موت کے پنجہ میں گرفتار ہیں۔

معاً انہیں ایسا معلوم ہوا کہ یہ راستہ دیکھا ہوا ہے۔ ہاں ادھر ہی تو سے گیا ان کو اپنے گاؤں لے گیا تھا۔ وہی کھیت ہیں، وہی باغ، وہی گاؤں۔۔ اب ان کی رفتار تیز ہونے لگی۔ ساری تھکان، ساری کمزوری، ساری مایوسی رفع ہو گئی۔ ارے یہ تو اپنا کھیت آ گیا۔ یہ اپنا کنواں ہے، جہاں ہر روز پانی پیا کرتے تھے۔

موتی نے کہا، ’’ہمارا گھر نزدیک آ گیا۔‘‘

ہیرا بولا، ’’بھگوان کی مہربانی ہے۔‘‘

موتی: ’’میں تو اب گھر بھاگتا ہوں۔‘‘

ہیرا: ’’یہ جانے بھی دے گا، اتنا سوچ لو۔‘‘

موتی: ’’اسے مار گراتا ہوں۔ جب تک سنبھلے، تب تک گھر جا پہنچیں گے۔‘‘

ہیرا: ’’نہیں۔۔ دوڑ کر تھان تک چلو، وہاں سے آگے نہ چلیں گے۔‘‘

دونوں مست ہو کر بچھڑوں کی طرح کلیلیں کرتے ہوئے گھر کی طرف دوڑے اور اپنے تھان پر جا کر کھڑے ہو گئے۔ وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے دوڑا آتا تھا۔

جھوری دروازہ پر بیٹھا دھوپ کھا رہا تھا، بیلوں کو دیکھتے ہی دوڑا اور انہیں پیار کرنے لگا۔ بیلوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک جھوری کا ہاتھ چاٹ رہا تھا، دوسرا پیر۔۔

اس آدمی نے آ کر بیلوں کی رسّیاں پکڑ لیں۔ جھوری نے کہا، ’’یہ بیل میرے ہیں۔‘‘

’’تمہارے کیسے ہیں۔۔ میں نے نیلام میں لیے ہیں۔‘‘

جھوری: ’’میرا خیال ہے چرا کر لائے ہو۔۔ چپکے سے چلے جاؤ، بیل میرے ہیں۔۔ بیچوں گا تو بکیں گے، کسی کو میرے بیل کو بیچنے کا کیا حق ہے؟‘‘

’’میں نے تو خرید ے ہیں۔‘‘

’’خریدے ہوں گے۔‘‘

اس پر وہ آدمی زبردستی بیلوں کو لے جانے کے لیے آگے بڑھا۔ اسی وقت موتی نے سینگ چلایا۔ وہ آدمی پیچھے ہٹا، موتی نے تعاقب کیا اور اسے ریلتا ہوا گاؤں کے باہر تک لے گیا۔۔ اور تب اس کا راستہ روک کھڑا ہو گیا۔ وہ آدمی دور کھڑا دھمکیاں دیتا تھا، گالیاں دیتا تھا، پتھر پھینکتا تھا اور موتی اس کا راستہ روکے ہوئے تھا۔۔ گاؤں کے لوگ یہ تماشہ دیکھتے تھے اور ہنستے تھے۔

جب وہ آدمی ہار کے چلا گیا تو موتی اکڑتا ہوا لوٹ آیا۔ ہیرا نے کہا، ’’میں ڈر رہا تھا کہ کہیں تم اسے مار نہ بیٹھو۔‘‘

موتی: ’’اگر نزدیک آتا تو ضرور مارتا۔‘‘

ہیرا: ’’اب نہ آئے گا۔‘‘

موتی: ’’آئے گا تو دور ہی سے خبر لوں گا۔۔ دیکھوں کیسے لے جاتا ہے۔‘‘

ذرا دیر میں ناند میں کھلی بھوسہ چوکر دانہ سب کچھ بھر دیا گیا، دونوں بیل کھانے لگے۔

جھوری کھڑا ان کی طرف دیکھتا اور خوش ہوتا تھا۔ بیسیوں لڑکے تماشہ دیکھ رہے تھے، سارا گاؤں مسکراتا معلوم ہوتا تھا۔

اسی وقت مالکن نے آ کر اپنے دونوں بیلوں کے ماتھے چوم لیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close