بے نظیر بھٹو: چند یادیں چند باتیں

مجاہد بریلوی

یہ 1978ء کی بات ہے، جب یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جو پہلی نوکری ملی، وہ ہفت روزہ معیار کی تھی، جس کے مدیر محمود شام تھے۔ وہ صحافت میں بھٹو صاحب کے بڑے حامی سمجھے جاتے تھے۔ ایک دن شام صاحب نے کہا کہ ’آج آپ کو بی بی سے ملواتے ہیں‘

چار دہائیاں گزر گئیں مگر آج تک اس پہلی ملاقات کی یاد تازہ ہے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ ہم پہنچے تو افطار کا وقت ہوا ہی چاہتا تھا۔ بڑی سی میز پر افطاری کے سارے لوازمات سجے تھے۔ بے نظیر بھٹو شام صاحب کا بڑا احترام کرتی تھیں۔ اب اس وقت ہم میں کوئی ایسی بات تو تھی نہیں کہ بی بی توجہ سے دیکھیں مگر جب شام صاحب نے کہا کہ یہ کابل میں افغان صدر نور محمد ترہ کئی کا انٹرویو لینے جا رہے ہیں، تو بی بی نے بڑے تجسس سے کہا ’میر (مرتضٰی بھٹو) بھی وہاں ہوگا۔۔۔ آپ اگر افغان صدر سے ملیں تو بھٹو صاحب کی رہائی کے لیے ان سے اپیل کرنے کا بھی کہیں‘

افطاری کے بعد چائے کا دور چلا تو ماحول کافی پُرسکون ہو چکا تھا۔ 70 کلفٹن کا منشی جب ہفتے بھر کا حساب لے کر آیا تو بی بی نے سرزنش کی کہ دو ماچس ایک دن میں کیسے خرچ ہوئیں؟ اگلے دن کے سودا سلف کا بھی پوچھا اور پھر شام صاحب سے بھٹو صاحب کی رہائی کی مہم کے لیے تبادلہ خیال کرنے لگیں۔

کابل سے واپسی کے بعد پہلی بار جیل جانا ہوا، جس سے فکر و نظر کے بے شمار دریچے وا ہوئے۔ جیل سے نکلے تو معیار بند ہوچکا تھا اور ایک طویل بے روز گاری انتظار کر رہی تھی۔ یوں دن رات کا اوڑھنا بچھونا کراچی پریس کلب میں ہی ہوتا جو ضیا الحق کے خلاف جمہوری تحریک کا سب سے بڑا گڑھ تھا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو کی طویل نظر بندیوں اور پھر جلاوطنی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اپریل 1986ء میں بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد جب کراچی میں پہلی بار ملاقات ہوئی تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ اس بے نظیر بھٹو، جن سے مارچ 1978ء میں پہلی بار ملاقات ہوئی تھی اور جلاوطنی و نظر بندیوں کے مصائب سے کندن بن کر نکلنے والی بے نظیر بھٹو میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اگست 1988ء میں جنرل ضیا الحق کی 11 سالہ آمریت ایک حادثے میں اپنے انجام کو پہنچی۔

دسمبر 1989ء میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بی بی سے پہلی ملاقات آسٹرین قونصل خانے میں یکم جنوری کو ہوئی۔ اس زمانے میں ہر سال یکم جنوری کی صبح نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے یہ بڑی شاندار رنگارنگ تقریب ہوتی تھی۔ شہر بھر کے تاجروں، سیاستدانوں، سفارتکاروں کا ایک ہجوم تھا جو بی بی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ٹوٹا پڑا تھا۔

مجھے قطعی امید نہیں تھی کہ شہر کے اشرافیہ کے اس بے پناہ ہجوم میں میرا سامنا ان سے ہوسکے گا مگر اچانک مجھے پیچھے سے آواز آئی ’ہیلو مجاہد کیسے ہو‘۔

اس ملاقات میں بی بی نے مجھے اسلام آباد آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں میڈیا میں آپ کی ضرورت ہے۔ میں نے بڑی انکساری سے چند الفاظ میں شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے کہا کہ میں کراچی میں ہی خاصا خوش و خرم ہوں۔ بی بی رخصت ہوئیں تو ممتاز صحافی اور اس وقت کے کراچی پریس کلب کے صدر عبدالحمید چھاپرا نے مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا کہ ’اگر تم اسلام آباد جانے پر ہامی بھر لیتے تو میں تم سے ساری زندگی بات نہیں کرتا‘۔

بی بی کا پہلا دور پلک جھپکتے گزر گیا۔ 11 سال سے اقتدار کے پیاسے جیالے دنوں اور ہفتوں میں، برسوں کی قربانیوں کو کیش کروانے پر تلے تھے۔ ایک آدھ بار اسلام آباد جانا ہوا مگر کوئی ایسا در نظر نہیں آیا جس کے راستے بی بی سے ملاقات کی راہ کھلتی۔

اگست 1991ء میں بی بی کی حکومت ختم کردی گئی۔ میں نے اس زمانے میں شاعر عوام حبیب جالب پر ایک کتاب مرتب کی تھی جس کی رونمائی کی تیاریاں کر رہا تھا۔ بی بی کراچی آچکی تھیں۔ بلاول ہاؤس اب چونکہ وزیرِاعظم ہاؤس نہیں رہا تھا اس لیے میری انہیں دعوت بھی پہنچ گئی اور اس کی منظوری بھی آگئی۔

کراچی پریس کلب میں ہزاروں کا مجمع تھا، حبیب جالب کی اپنے انتقال سے پہلے کراچی میں یہ آخری تقریب تھی۔ ٹوٹتے، ڈوبتے ترنم سے حبیب جالب نے جب بی بی پر اپنی مشہور نظم کا یہ بند پڑھا کہ

ڈرے ہوئے ہیں مرے ہوئے ہیں
لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملا، تاجر، جنرل، جیالے ایک نہتی لڑکی سے
تو بی بی سمیت سارے ہجوم نے کھڑے ہوکر حبیب جالب کو خراج عقیدت پیش کیا۔

اکتوبر 1994ء میں بی بی دوسری بار اقتدار میں آئیں۔ وزیرِاعظم ہوئے تیسرا یا چوتھا دن ہوا تھا کہ علی الصبح پی ایم ہاؤس سے فون آیا ’آج شام 7 بجے آپ کی وزیرِاعظم سے ملاقات ہے‘۔

بھاگم بھاگ اسلام آباد کا ٹکٹ لیا مگر ایئر پورٹ پہنچنے پر علم ہوا کہ جہاز لیٹ ہے یوں جب وزیرِاعظم ہاؤس پہنچا تو 8 بج چکے تھے۔ وسیع و عریض وزیرِاعظم ہاؤس کے دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک صوفے پر ڈھیروں فائلیں لیے ناہید خان نظر آئیں جنہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وزیرِاعظم ڈنر پر چلی گئی ہیں اب تو اگلے ہفتے ہی آپ کو وقت ملے گا۔ اس وقت ان سے سب سے قریب ناہید خان نظر آئیں۔

ناہید خان کے پہلو میں کھڑے سفید وردی میں ملبوس ایک اے ڈی سی کو نہ جانے کیا خیال آیا کہ اس نے کہا کہ آپ چند منٹ انتظار کریں میں وزیراعظم کو اطلاع دیتا ہوں۔ کچھ ہی دیر میں اے ڈی سی مجھے اطلاع دیتے ہیں کہ میں صبح 10 بجے پہنچ جاؤں، وزیرِاعظم کل جہاں جا رہی ہیں آپ ان کے ساتھ ہیلی کاپٹر ’اے‘ میں ہوں گے۔

اگلی صبح وزیرِاعظم ہاؤس کے ہیلی پیڈ پر پہنچا تو ناہید خان نے اطلاع دی کہ آپ میڈیا ٹیم کے ساتھ ہیلی کاپٹر ’بی‘ میں ہوں گے کیونکہ ’اے‘ ہیلی کاپٹر میں نصیر اللہ بابر اور میں پی ایم کے ساتھ ہوں گے۔

پشاور کے قریب کسی فیکٹری کا افتتاح تھا۔ حسبِ روایت وزیرِاعظم کے پہنچتے ہی سیکڑوں جیالوں نے انہیں گھیر لیا حتیٰ کہ وزیرِ اعلیٰ سرحد آفتاب شیرپاؤ بھی ان کے قریب نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر میں نے آخری صف میں بیٹھنے پر عافیت سمجھی۔ ابھی بیٹھے چند منٹ ہوئے تھے کہ فوجی وردی میں ملبوس ایک اہلکار کی مجھے آواز سنائی دی جو مجھے تلاش کر رہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر تعارف کروایا تو انہوں نے بڑی گھبرائی ہوئی آواز میں کہا آپ ہیلی کاپٹر ’اے‘ میں کیوں نہیں تھے، وزیرِاعظم سخت ناراض ہیں۔

تقریب کے ختم ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ ذرا فاصلے سے ایک صوفہ رکھا تھا جس پر وزیرِاعظم بیٹھی تھیں۔ گورنر، وزیرِ اعلیٰ، ناہید خان اور دیگر عہدیدار چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ وزیرِاعظم کے ملٹری سیکرٹری جنرل قیوم جو برسوں میں ہم سے قریب ہوئے، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ہوئے اور اب قائدین میں سے ہیں، مجھے اپنے جلو میں لے کر آگے بڑھے اور وزیرِاعظم کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔ وزیرِاعظم نے رسمی الفاظ میں پریس کلب کی تقریب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آپ کے لیے کیا کر سکتی ہوں؟‘

پھر جنرل قیوم سے کہا کہ اگلے ہفتے ایران اور ترکی کے دورے میں، مجھے شامل کریں ساتھ میں یہ بھی کہا کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام لینا ہے جس پر سفر کے دوران بات ہوگی۔

سربراہانِ مملکت کے ساتھ سفر میں جو شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور مراعات ہوتی ہیں اس کا صحافت کی دشت نوردی میں قدم رکھنے کے 20 سال بعد پہلی بار ادراک ہوا۔

ایران کے سفر میں تہران سے مشہد جاتے مجھے وزیرِاعظم سے گفتگو کا موقع ملا۔ انہوں نے بڑی شستہ زبان میں مجھے کہا کہ ’کمٹمنٹ‘ اپنی جگہ مگر اب ہمیں ’میڈیا منیجرز‘ کی ضرورت ہوگی کیونکہ سندھ میں اس وقت دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ بی بی نے جن 2 بڑے مسائل کا ذکر کیا اسے سن کر مجھے جھر جھری آگئی۔ میں نے کہا کہ آپ نے اپنی پہلی حکومت میں مجھے جو پیش کش کی تھی، وہ میں کسی معاوضے اور مراعات کے بغیر آپ کے ساتھ کرنے کے لیے تیار ہوں۔

مجھے ایسا لگا کہ وزیرِاعظم میری اس بات سے زیادہ متفق نظر نہیں آئیں۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ وہ مجھے ایسی ملازمت دینے کی نیک نیتی سے خواہشمند تھیں جس سے میری مالی حالت میں بہتری آئے مگر برسوں پہلے ہمارے سر میں کمٹمنٹ کا جو سودا سما دیا گیا تھا وہ اس وقت اپنی جولانی پر تھا۔

ایران کے بعد ترکی میں جب آفیشل ڈنر پر وزیرِاعظم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرے ہاتھ میں نقرئی گلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’مجاہد انجوائے کر رہے ہو‘۔ بی بی کی دونوں حکومتوں میں میرا یہ پہلا اور آخری سفر تھا۔

بی بی کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد میاں نواز شریف کو اقتدار میں آئے سال بھر ہوچکا تھا۔ بی بی اور ان کے شوہر آصف زرداری پر مقدمات کی بھرمار تھی۔ ان کے ملکی اور بین الاقوامی اکاؤنٹ سیز کردیے گئے تھے۔ اپنی جلاوطنی سے چند دن پہلے بی بی نے بلاول ہاؤس میں چند صحافیوں کو آخری ملاقات کے لیے بلایا۔ اس وقت ملکی سیاست سے وہ سخت بیزار تھیں۔ بی بی نے اپنے پاس رکھے بیگ کو اٹھاتے ہوئے کہا ’میرے پاس بچوں کی فیس دینے کے پیسے نہیں۔ نواز شریف میرے خاندان کو تباہ کردینا چاہتا ہے‘۔

بی بی نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ’کس خاندان نے پاکستان کے لیے اتنی قربانی دی ہے۔ نوابزادہ نصر اللہ، ولی خان، پگاڑا، جتوئی، لغاری کس کا بیٹا، بھائی باپ اس طرح مارا گیا۔ یہ ’بھٹوز‘ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میں ابھی جا تو ضرور رہی ہوں مگر ایک ’فاتح‘ کی حیثیت سے واپس آؤں گی‘۔

بی بی نے یہ بات کچھ اتنی جذباتی اور بھرائی ہوئی آواز میں کہی کہ کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ اس کے بعد نہ کوئی سوال ہوا نہ جواب۔ بوجھل قدموں سے جب میں بلاول ہاؤس سے نکلا تو مجھے احساس تھا کہ اب برسوں بی بی سے ملاقات نہیں ہوسکے گی۔

اور پھر اکتوبر 2007ء آگیا۔ اس دوران میں ایک نجی چینل سی این بی سی میں آواز لگایا کرتا تھا۔ بی بی کی آمد سے قبل میں نے ٹیلی فون پر ان کا لندن سے انٹرویو لیا اور ان کی پاکستان آمد کے حوالے سے 18 کی جگہ میرے سوال میں 22 اکتوبر آگیا۔ بی بی نے ’قطع کلامی معاف‘ کی مشکل اردو کا جملہ استعمال کرتے ہوئے کہا ’مجھے تو آنے کی جلدی ہے آپ چاہتے ہیں میں دیر سے آؤں؟‘

اپریل 1986ء کی طرح بی بی کی کراچی آمد پر لاکھوں کا ہجوم تھا جس نے ان کے مخالفین کو پریشان اور ساری دنیا کو حیران کر دیا۔

جولائی2007ء میں لال مسجد کا واقع ہوچکا تھا۔ خلافِ معمول بی بی کے جو بیان آرہے تھے ان میں مذہبی انتہا پسندوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ بی بی یہ اچھی طرح جان گئی تھیں کہ مذہبی شدت پسند پاکستان واپسی پر ان کی جان کے درپے ہوں گے اسی لیے واشنگٹن، جی ایچ کیو اور متحدہ عرب مارات سے طویل اور اپنی سیاسی زندگی کی مشکل ترین مشاورت کے بعد بی بی کا خیال تھا کہ وہ ایک پاپولر حمایت اور ریاست کے مضبوط ستونوں کی مدد سے اپنا اقتدار قائم کرلیں گی۔

تاہم طویل غیر حاضری کے بعد وہ اس بات سے شاید پوری طرح آگاہ نہیں تھیں کہ مذہبی انتہا پسندوں کی جڑیں وطنِ عزیز میں کتنی مضبوط اور گہری ہوچکی ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف پر ہونے والے دونوں حملوں میں اس بات کے واضح شواہد سامنے آئے کہ اس میں فضائیہ سے تعلق رکھنے والے نچلے درجے کے اہلکار ’القاعدہ‘ کے معاون بنے تھے۔

18 اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کا استقبال اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت تھا کہ وطن عزیز سے ایک دہائی کی غیر موجودگی کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ میں ملکی غیر ملکی میڈیا کی ٹیم کے ساتھ سارا دن بی بی کے ساتھ رہا۔ کئی بار انہوں نے اپنی دمکتی چمکتی مسکراہٹ اور ہاتھ ملا کر مجھے وِش کیا۔ سارے راستے ایک عجیب والہانہ پن تھا۔ ناچتے، گاتے لاکھوں عوام بی بی کے ٹرک کے ساتھ اس طرح چل رہے تھے جیسے ساری رعایا اپنی فاتح ملکہ کے استقبال کے لیے اُمڈ آئی ہو۔

رات کو مجھے اپنے اسٹوڈیو سے لائیو شو کرنا تھا، اس لیے شام 7 بجے میں ایک لمبا راستہ لے کر 4 گھنٹے میں اپنے آفس پہنچا۔ سارے چینلوں پر بی بی کے جلوس کی لائیو کوریج ہو رہی تھی۔ اندازہ یہی تھا کہ رات 2 یا 3 بجے یہ جلوس مزارِ قائد پہنچے گا۔ اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ کیا وقت تھا لیکن اچانک سارے دفتر میں ٹیلی فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور پہلے دھماکے کی خبر سن کر میں دہل گیا۔ میں نے سب سے پہلے اپنی دوست اور پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی فوزیہ وہاب کو فون کیا۔ فون مسلسل انگیج جا رہا تھا۔ تمام چینلوں پر خودکش حملے کے مناظر آنے لگے تھے۔ فوزیہ سے جیسے ہی رابطہ ہوا مجھے ایسا لگا کہ فوزیہ کی روتی بلکتی آواز ’کربلا‘ سے آرہی ہو۔

’مجاہد، بی بی پر خودکش حملہ ہوگیا‘۔ فوزیہ کی مزید بات سننے کی مجھ میں تاب نہیں تھی۔ خبر آگئی کہ بی بی دونوں خودکش حملوں سے بچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ سارا میڈیا بلاول ہاؤس دوڑ پڑا اگلے دن ہمارا خیال تھا کہ شام کو کوئی پریس کانفرنس ہوگی، بی بی بریفنگ دیں گی۔ میں آغا خان اسپتال میں تھا کہ خبر آئی کہ محترمہ لیاری سے جناح ہسپتال ہوتی ہوئی اب بلاول ہاؤس میں ان کارکنوں کے اہل خانہ سے مل رہی ہیں جو رات کو ہونے والے دھماکوں میں ہلاک ہوئے تھے۔

اگلے دن جب میڈیا سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو بی بی کے پریس سیکریٹری نے 2 دن بعد شام کو ملاقات کے لیے وقت دیا۔ بلاول ہاؤس کے اندر اس وقت جانا جان جوکھم کا کام تھا کہ ایک تو باہر بے پناہ میڈیا اور پارٹی کے حامیوں کا ہجوم پھر سیکیورٹی کا سخت انتظام۔ بی بی سے کوئی 6 سال بعد ملاقات ہو رہی تھی۔

سفید کپڑوں میں کئی دن کی جاگی ہوئی بی بی سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ ان پر یہ حملہ بڑی پلاننگ کے بعد کیا گیا ہے اور مذہبی شدت پسند جو حکومت کے اندر اور باہر ہیں طویل عرصے سے اس کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ انٹرویو کے بعد انہوں نے اپنی روایتی محبت سے بھرپور دھیمی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا ’جلد تفصیلی ملاقات ہوگی‘

جنوری الیکشن کی ہنگامہ خیز انتخابی مہم جاری تھی۔ ایک دن میں کئی کئی شہروں میں دن رات بی بی کے جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری تھا۔ بی بی کی تقریروں میں اب کھل کر کہا جا رہا تھا کہ مشرف حکومت میں شامل چند بڑے، قبائلی علاقوں کے شدت پسندوں کی مدد سے انہیں مارنا چاہتے ہیں۔

ممتاز سفارت کار ظفر ہلالی جو بی بی اور افغان صدر حامد کرزئی کی آخری ملاقات میں موجود تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’افغان صدر نے بی بی کو تفصیل سے آگاہ کیا تھا کہ کس طرح خودکش حملے ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف اب ایک کاروبار کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔ پہلے فون آتا ہے کہ اتنے ملین دے دو ورنہ کل 10 خودکش حملہ آور مقررہ مقامات پر خود کو اڑا دیں گے۔ باقاعدہ ثابت کرنے کے لیے اگلے دن ایک خودکش حملہ آور خود کو اڑا بھی دیتا‘۔

افغان صدر اپنی گفتگو سے بی بی کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ اس وقت سب سے بڑا ٹارگٹ ہیں۔ افغان صدر سے ملاقات کے بعد بی بی کو لیاقت باغ کے جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ بی بی کا خطاب اور پھر رخصتی آج ساری دنیا کے کیمروں میں محفوظ ہے۔ جلسے سے خطاب کے بعد ایک عجیب جوش و خروش سرمستی و سرشاری ان کی چال میں تھی۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس وقت پارٹی میں شامل سارے مرکزی رہنما جو ان کی گاڑی یا ان کی سیکیورٹی کرنے والی پجیرو وین سے چند فٹ کے فاصلے پر تھے ان کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔

بی بی کی شہادت نے بی بی کو اپنی سیاسی زندگی سے بڑا بنا دیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اتنی طویل جدوجہد اور پھر اس طرح کی شہادت کا رتبہ نہ کسی کو ملا ہے اور شاید نہ کسی اور کو ملے گا۔

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے،
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں۔

بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close