تاریخ نہ سہی، کیلنڈر ہی سیدھا کر لو

وسعت اللہ خان

1950 کی دہائی کے پاکستان میں 23 گزیٹڈ چھٹیاں (ہالیڈیز) ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سے دو سیکولر چھٹیاں یکم جنوری، بینک ہالیڈے تھیں۔

دس مسلم تہواروں (شبِ معراج، شبِ برات، جمعۃ الوداع، عیدالفطر، حج، عید الضحٰی، یکم محرم، عاشورہ، آخری چہارشنبہ، عیدِ میلاد النبی) کی چھٹیاں تھیں۔

پانچ ہندو سکھ تہواروں (بسنت، ہولی، بیساکھی، دسہرہ، دیوالی) کی اور دو کرسچن تہواروں ایسٹر اور کرسمس کی چھٹیاں منائی جاتی تھیں۔

چار قومی تعطیلات تھیں۔ (یومِ اقبال 21 اپریل، یومِ پاکستان 14 اگست، یومِ وفاتِ قائدِ اعظم 11 ستمبر اور یومِ پیدائش قائدِ اعظم 25 دسمبر)۔

مگر یہ تب کی بات ہے، جب متحدہ پاکستان (مشرقی و مغربی) میں مسلمان 77 فیصد اور غیر مسلم اقلیتوں کا تناسب 23 فیصد تھا۔

2024 کے پاکستان میں اقلیتوں کا تناسب ساڑھے تین فیصد کے لگ بھگ ہے۔ گزیٹڈ قومی چھٹیوں کی تعداد بھی اب کم ہوتے ہوتے 11 رہ گئی ہے۔

2024 کے وفاقی کیلنڈر میں پانچ قومی تعطیلات (یومِ کشمیر، یومِ پاکستان، یومِ آزادی، یومِ اقبال اور یومِ پیدائشِ قائد اعظم) شامل ہیں۔ چار مسلم مذہبی تعطیلات تسلیم کی گئی ہیں (عید الفطر کی تین، عیدالضحٰی کی تین، عاشورہ کی دو اور عیدِ میلاد کی ایک چھٹی)۔

موجودہ قومی تعطیلاتی کیلنڈر میں کسی ہندو سکھ تہوار کی چھٹی شامل نہیں۔ کرسمس کو یومِ پیدائشِ قائدِ اعظم میں ضم کر دیا گیا اور 26 دسمبر کو صرف کرسچن کمیونٹی چھٹی لے سکتی ہے۔

موجودہ کیلنڈر میں یکم مئی بطور عالمی یومِ محنت واحد سیکولر چھٹی ہے۔

گذشتہ روز یومِ پاکستان (23 مارچ) منایا گیا۔ آزادی کے 11 برس بعد تک یہ دن قومی کیلنڈر کا حصہ نہیں تھا۔ جب 23 مارچ 1956 کو ملک کا پہلا آئین نافذ ہوا تو قومی تعطیلات میں 23 مارچ کا بطور یومِ جمہوریہ اضافہ ہو گیا۔ بے چارہ یومِ جمہوریہ محض اپنی زندگی کی دو بہاریں ہی دیکھ سکا۔

اکتوبر 1958 میں مارشل لا لگنے کے سبب آئین ہی منسوخ ہو گیا۔ چنانچہ کسی افلاطون نے مارشل لائی صدر کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ 23 مارچ کو برقرار رکھتے ہوئے اس کا نام یومِ جمہوریہ سے بدل کے یومِ پاکستان کر دیا جائے جس دن لاہور کے منٹو پارک میں قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔

نہ تجویز دینے والے نے اور نہ ہی اس تجویز پر فوری عمل کرنے والے نے تاریخی ماخذوں یا منٹو پارک کے جلسے میں شامل تب تک زندہ رہنماؤں سے پوچھنے کی زحمت کی کہ قرار دادِ پاکستان واقعی 23 مارچ کو ہی منظور ہوئی تھی؟

اگر زرا سی چھان پھٹک کر لی جاتی تو محض 19 برس پرانی حقیقت کی تصدیق ہو سکتی تھی کہ قرار دادِ لاہور 22 مارچ 1940 کو ایک کمیٹی نے مرتب کر کے 23 مارچ کو عام بحث کے لیے پیش کی۔ یہ بحث 24 مارچ کی رات تک جاری رہی اور پھر اسے منظور کر لیا گیا۔

مگر چونکہ مقصد یہ تھا کہ کسی طرح 23 مارچ 1956 کو نافذ کردہ آئین کے تابوت پر سے یومِ جمہوریہ کا کپڑا اتار کے کوئی نیا کپڑا چڑھایا جائے، لہٰذا بیچاری 24 مارچ 1940 کو منظور ہونے والی قرار دادِ لاہور کو کھینچ کھانچ کے 23 مارچ کی تاریخ میں سی دیا گیا۔ تب سے ہر آنے والے نے اسے بطور حقیقت آمنا و صدقناً مان لیا۔

تاہم یہ کوئی انہونی نہیں۔ اس واقعہ سے دس برس پہلے ایسا ہی قصہ یومِ آزادی کے ساتھ بھی ہو چکا تھا۔ شاہِ برطانیہ نے برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے جس انڈین انڈیپینڈنس ایکٹ کی جولائی 1947 میں منظوری دی، اس ایکٹ کا نفاذ 15 اگست سے ہونا تھا۔ قائدِ اعظم نے یومِ آزادی پر جو پہلا ریڈیو پیغام ریکارڈ کروایا، اس میں وہ قوم کو 15 اگست کے یومِ آزادی کی مبارک باد دے رہے ہیں۔

پھر اللہ جانے کیا ہوا کہ جون 1948 میں لیاقت کابینہ نے فیصلہ کیا کہ اب سے ہم اپنا یومِ آزادی ایک دن پہلے یعنی 14 اگست کو منائیں گے۔

یوں ہم نے ایک برس کے اندر اندر 15 اگست کے تاریخی چنگل سے اپنا یومِ آزادی چھڑوا لیا۔ حرج کیا تھا اور فائدہ کیا ہوا؟ کس سے پوچھیں؟

سب سے زیادہ ترس علامہ اقبال پر آتا ہے۔ ان کے اشعار و افکار کے ساتھ ہر شخص نے غریب کی جورو جیسا سلوک جو کیا سو کیا مگر آج تک یہ بھی نہیں طے ہو سکا کہ اقبال کا کرنا کیا ہے؟

کبھی ان کا یومِ وفات (21 اپریل) قومی چھٹی قرار دیا گیا کبھی ان کا یومِ پیدائش (نو نومبر) تعطیلی خانے میں رکھ دیا گیا۔

کبھی ان تاریخوں کو صوبائی چھٹیوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ آج اس وقت تک یومِ اقبال وفاقی تعطیلات میں شامل ہے۔

شکر ہے کہ کم ازکم اسی بات پر قومی اتفاق ہے کہ لاہور کی بادشاہی مسجد کے پہلو میں جو مزار ہے، وہ حضرتِ اقبال کا ہی ہے۔

کچھ اور تاریخوں کے ساتھ بھی کام دکھانے کی کوشش ہوئی۔ مثلاً، کشمیر کی ملکیت کا تنازعہ 27 اکتوبر 1947 سے جاری ہے۔ بیشتر کشمیری اس تاریخ کو بطور یومِ سیاہ مناتے چلے آ رہے ہیں۔

مگر پہلا یومِ یکجہتی کشمیر باضابطہ طور پر پانچ فروری 1975 کو وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے قومی پہیہ جام کی اپیل کے ساتھ منایا گیا۔ تب سے آج تلک یہ دن قومی تعطیلاتی کیلنڈر کا حصہ ہے۔

مگر پانچ فروری کا ہی انتخاب کیوں ہوا؟ کیا اس دن کشمیر کی تاریخ میں کوئی غیرمعمولی واقعہ ہوا تھا؟ کوئی نہیں جانتا۔ بس پانچ فروری یومِ یکجہتیِ کشمیر ہے تو ہے۔

لیکن اب یہ کہانی بھی بذریعہ وکی پیڈیا نئی پود کے دماغ میں ڈالی جا رہی ہے کہ پہلا یومِ کشمیر دراصل امیرِ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی تجویز پر 1990 میں پنجاب کے وزیرِ اعلٰی نواز شریف نے صوبائی تعطیل قرار دے کر منانے کی داغ بیل ڈالی۔

موجودہ آئین 12 اپریل 1973 کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے منظور کیا اور یہ 14 اگست 1973 کو باضابطہ نافذ ہو گیا۔

مگر آئین سازوں سے لے کے آج تک 51 برس میں آنے والے کسی حکمران کے ذہن میں نہیں آیا کہ جو یومِ جمہوریہ اس قوم سے 1950 کی دہائی میں بزورِ بندوق چھین لیا گیا، اسے 73 کے آئین کے ساتھ بحال کیا جا سکتا تھا۔ بارہ اپریل یومِ جمہوریہ قرار پا سکتا تھا۔

البتہ جس معیار کی جمہوریت ہمیں آج تھما دی گئی ہے، اس کے ہوتے ایسی تجویز پیش کرنا میرا بنتا نہیں ہے۔ لہٰذا میں پیش کرنے سے پہلے ہی اسے واپس لے رہا ہوں۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close