بری الذمہ

امر جلیل

آپ اس بات کو چھوڑیئے کہ میں کون ہوں، کس ملک کا باسی ہوں، میں کیا کرتا ہوں اور آج تک کیا کرتا رہاہوں۔ آپ تحمل سے کہانی سنئے اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔

میں جانتا ہوں کہ ساس بہو جیسے موضوع پر ڈرامے دیکھنےوالے کھوجی دماغ کے مالک ہوتے ہیں۔ آپ اللہ سائیں کا نام لیجئے اور تحمل سے کہانی سنئے اور کھوج لگا ئیے۔

ہاں، ایک اور بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ اس کہانی میں بلانے والوں نے مجھے سابقہ سرکار کے نام سے بلایا ہے۔ سابقہ سرکار میری ذات ہے اور میری پہچان ہے۔ یہ پہچان مجھے اپنے باپ دادا سے ملی ہے۔ یہی پہچان میرے باپ داداؤں کو ان کے باپ داداؤں سے ملی تھی۔ آپ جب تک سرکار نہ رہ چکے ہوں، تب تک آپ سابقہ سرکار کہلوانے کا قانونی اور غیر قانونی حق نہیں رکھتے۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ ہم پشت در پشت کسی ملک کی سرکار نامدار رہتے آئے ہیں۔ سابقہ سرکار کا لقب مفت میں نہیں ملتا۔ آپ کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو سابقہ سرکار نہیں کہہ سکتے۔ سابقہ سرکار کہلوانے کے لئے آپ کو کچھ غیر معمولی کرنا پڑتا ہے۔ اس موضوع پر پھر کبھی بات ہوگی۔ فی الحال آپ کہانی سنئے۔ اگر آپ چاہیں تو اس کو افسانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

حال ہی کی بات ہے، ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ میرے ہیلو ہائے کہنے سے پہلے کسی نے کچھ اچھی زبان یا اچھے لہجے کی بجائے کرخت لہجے میں کہا، ’’تم سابقہ سرکار بول رہے ہو یا پھر سابقہ سرکار کے ہم زلف بنام زلف پریشاں بول رہے ہو؟‘‘

اس طرح میرے ساتھ پہلی مرتبہ ہو رہا تھا۔ مجھے تعجب ہوا۔ میں جانتا تھا، اور جانتا ہوں کہ روایتاً ہمارےملک میں کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا ایسی کرخت آواز اور دبدبے والے لہجے میں بات نہیں کرتا۔ مجھے اس بات کا یقین اس لئے ہے کہ بغیر کسی کارکردگی اور ووٹ دینے والوں کی دلجمعی کے ہم سابقہ سرکار ہر بار الیکشن میں سرخرو ہوتے آئے ہیں۔ وہ تو اتفاق کی بات ہوتی ہے کہ ہم کسی منصوبہ بندی کے تحت سابقہ سرکار بنا دیئے جاتے ہیں۔۔ اور ہماری جگہ کوئی دوسرا بازی گر بازی مارنے کے بعد سرکار نامدار بنا دیا جاتا ہے۔ لوگ سابقہ سرکار سے اس لئے بھی بدتمیزی نہیں کرتے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ جانے والے جاتے نہیں، ہاتھ پیر مارتے ہیں اور کبھی بھی سابقہ سرکار سے سرکار نامدار بن سکتے ہیں۔

فون پر بات کرنے والے سے میں نے کہا، ’’میں سابقہ سرکار بول رہا ہوں۔‘‘

پھٹے ہوئے ڈھول جیسی آواز اور کرخت لہجہ میں اس نے کہا، ’’سرکار نامدار نے تمہیں بلایا ہے۔ ہم تمہیں لینے آ رہے ہیں۔‘‘

اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا، اس نے فون بند کر دیا۔ اس کی پھٹے ہوئے ڈھول جیسی آواز اور کرخت لہجہ شناسا لگا۔ کچھ دیر کے بعد چند مشٹنڈے آئے۔ ان میں پھٹے ہوئے ڈھول جیسی آواز اور کرخت لہجے والا مشٹنڈا سب سے آگے تھا۔ اسے دیکھتے ہی میں نے پہچان لیا۔ ہم جب سرکار نامدار تھے، تب وہ مشٹنڈا ہمارے خاص کارندوں میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ تب وہ جونیئر تھا، اس لئے آگے آگے نہیں رہتا تھا۔ لوگوں کو چَھٹی کا دودھ یاد دلوانے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ پُرتپاک لہجہ میں اس کا نام لیتے ہوئے میں نے کہا، ’’لگتا ہے صدیوں بعد تمہیں دیکھ رہا ہوں۔ کیسے ہو؟‘‘

اس نے کرخت لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا، ’’تم بھول رہے ہو۔۔ میں وہ نہیں ہوں، جسے تم سمجھ رہے ہو۔‘‘

تب مجھے یاد آیا کہ مشٹنڈوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ سرکار نامدار کے سوا کسی کو نہ جانیں اور نہ پہچانیں۔

کرخت مشٹنڈا، جب تک میں سرکار نامدار ہوا کرتا تھا، میرا نمک خوار ماتحت رہ چکا تھا۔ اب جب کہ میں سابقہ سرکار بن چکا ہوں، اس نے مجھے کرخت لہجہ میں کہا، ’’سب سابقہ سرکاریں مجھے پہچاننے میں غلطی کر بیٹھتی ہیں۔ تم بھی مجھے پہچاننے میں غلطی کر رہے ہو۔‘‘

جواباً میں کچھ کہتا، کرخت لہجے والے مشٹنڈے نے کہا، ’’اٹھو…. ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔ سرکار نامدار نے تمہیں بلایا ہے۔‘‘

مشٹنڈوں نے مجھے اٹھا لیا اور لاکر مجھے سرکار نامدار کے آگے پیش کر دیا۔ سرکار نامدار نے ایک پھٹیچر قسم کے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اس کے جرائم کی فہرست لمبی ہے۔ اسے عمر قید یا موت کی سزا مل سکتی ہے۔۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ اس کی سزا تم کو دوں۔ عمر بھر سڑنے کے لئے میں تمہیں جیل میں ڈال دوں، یا پھانسی کے پھندے سے لٹکا دوں۔ خس کم جہاں پاک۔‘‘

میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا، ’’مگر اس کےجرائم کی سزا آپ مجھے کیوں دینا چاہتے ہیں؟‘‘

’’غور سے اس کی طرف دیکھو۔ کیا تم اسے نہیں پہچانتے۔‘‘ سرکار نامدار نے کہا، ’’یہ ایک نہیں انیک ہیں۔‘‘

میں نے غور سے پھٹیچر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’میں نے آج سے پہلے اس کو کبھی نہیں دیکھا ہے۔ یہ نہ جانے کون ہے۔‘‘

سرکار نامدار نے کہا، ”سابقہ سرکار، تم جب سرکار نامدار تھے، تب یہ مجرم چھوٹا سا، معصوم سا لاوارث بچہ تھا۔ کوڑے کرکٹ سے روزی روٹی تلاش کرتا تھا۔۔ تب یہ ایک نہیں، انیک تھا۔ تم نے اس کے سرپر ہاتھ نہیں رکھا۔ اس کے رہن سہن، تعلیم و تربیت کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اسے عزت کی زندگی گزارنے کے گر نہیں سکھائے۔ تم نے اسے نظرانداز کر دیا۔ اسے جرائم پیشہ والوں کے ساتھ پرورش پانے کے لئے چھوڑ دیا۔‘‘

میں نے تعجب سے کہا، ’’سرکار نامدار، یہ سب پچھلے 75 برس سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ آپ کے دور میں بھی لاوارث بچے کوڑے کرکٹ سے روزی روٹی تلاش کرتے رہتے ہیں۔‘‘

سرکار نامدار نے کہا، ’’یہ سوال تم ہم سے نہیں کر سکتے۔ جب ہم سابقہ سرکار بن جائیں گے، تب کے دور کی سرکار نامدار ہم سے یہ سوال پوچھ سکتی ہے۔‘‘

’’تب تک؟‘‘

’’تب تک لاوارث بچے کوڑے کرکٹ سے روزی روٹی تلاش کرتے رہیں گے۔۔ اور ہر سرکارِ نامدار اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرتی رہے گی۔‘‘

بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close