اپنے شہر سے کبھی باہر نہ نکلنے والا ایک شخص، جس نے 15ویں صدی میں حیران کن طور پر دنیا کا درست نقشہ بنایا

ویب ڈیسک

پندرہویں صدی میں اٹلی کی وینیزیا جھیل کے قریب ایک چھوٹے سے جزیرے پر رہنے والے شخص نے نہ جانے کس طرح دنیا کا ایک حیران کن حد تک درست نقشہ تیار کیا۔

آج کل یہ نقشہ وینس میں سینٹ مارکس لائبریری کی دوسری منزل پر آویزاں ہے، جو اپنی تاریخی اہمیت کے پیشِ نظر ایک پورے کمرے پر محیط ہے۔ یہ نقشہ دو میٹر چالیس سینٹی میٹر لمبا ہے۔

یہ نقشہ 1459ع میں مکمل ہوا اور اسے ’مپا منڈی‘ Mappa Mundi کا نام دیا جاتا ہے۔ اس نقشے میں اس زمانے تک دستیاب تمام جغرافیائی علم شامل ہیں اور اسے قرونِ وسطیٰ میں اب تک کا سب سے بڑا نقشہ سمجھا جا سکتا ہے۔

اس نقشے کا رقبہ مشہور نقشے ’مپا منڈی ہیر فورڈ – جو تقریباً 1300 عیسوی میں بنایا گیا‘ کے رقبے سے دوگنا ہے۔ اس نقشے میں یورپ، ایشیا اور افریقہ شامل ہیں اور اسے وینس کے قریب واقع ’سان میخیل‘ جزیرے پر رہنے والے پادری فرا مورو نے بنایا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ پادری اپنی زندگی میں کبھی وینس سے باہر نہیں گیا، لیکن اس نے جو نقشہ کھینچا ہے، اس میں شہروں، صوبوں اور دریاؤں کی تصویر کشی بہت درست ہے۔ اس میں امریکہ نہیں ہے کیونکہ یہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا تھا۔ کرسٹوفر کولمبس نے یہ نقشہ کھینچنے کے تینتیس سال بعد اپنی مہم کا آغاز کیا تھا۔

آسٹریلیا وجود میں نہیں آیا تھا مگر جاپان نقشے پر موجود ہے اور مورو نے اسے ’سیبانگو‘ کہا ہے۔ یہ جاپان کو دکھانے والا پہلا مغربی نقشہ تھا۔

اور سنہ 1488 میں کیپ آف گڈ ہوپ کی تلاش میں آئے پرتگالیوں کے چکر لگانے سے بھی بہت پہلے، اس نقشے میں افریقی براعظم کو اس کی بحری صلاحیتوں کے حوالے سے انتہائی درستی کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔

یہ نقشہ قرونِ وسطٰی کا سب سے قدیم نقشہ ہے، جیسا کہ ’Here Begins the Black Sea‘ کتاب کی مصنفہ فرانسسکا میریڈیتھ تصدیق کرتے ہوئے اس نقشے کو قرونِ وسطٰی کا سب سے مکمل اور جدید نقشوں کے قریب ترین بیان کرتی ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں ’یہ پہلا نقشہ ہے جو مذہب سے زیادہ سائنس پر انحصار کرتا ہے۔ ہیرفورڈ نقشہ مذہبی پروپیگنڈا تھا۔‘

روحانی نقشہ

ہیرفورڈ کے نقشے میں جنت اور جہنم کی تصویر کشی کی گئی تھی اور اسے روحانی نقطہِ نظر سے علم کا خلاصہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

تاہم مورو نے اپنا نقشہ بنانے میں سائنسی نقطہِ نظر کی پیروی کی۔ ان کا کہنا تھا ”میں عملی تجربے کے ساتھ الفاظ کی تصدیق بھی کروں گا، میں کئی سالوں تک تحقیق کروں گا اور قابلِ بھروسہ لوگوں سے سوال پوچھوں گا، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے جگہیں دیکھ رکھی ہیں تاکہ وہ میری رہنمائی کر سکیں کہ میں یہاں کیا بنا رہا ہوں۔“

لیکن تاریخ اور سائنس سے بڑھ کر اس نقشے میں اور بہت کچھ ہے۔

جس لائبریری میں اسے رکھا گیا ہے، وہاں اور بھی تاریخی نوادرات موجود ہیں مگر سنگِ مرمر کی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد جیسے ہی آپ کی نظر نقشے پر پڑتی ہے تو آپ تاریخ دان پیرالویز زورزی کی اس بات سے متفق ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت بڑا، شاندار اور خوبصورتی سے تیار کیا گیا نقشہ ہے۔‘

برِاعظموں اور ملکوں کی سرحدوں سے قطعِ نظر، فرا مورو نے شاندار محلات، پلوں، نیلی لہروں اور سمندری مخلوق کے بیچ تیرتے بحری جہازوں کو سنہرے اور نیلے رنگ میں پینٹ کیا۔

اس کے علاوہ اس نے قدیم وینیشین زبان میں تین ہزار صفحات پرانے زانے کے افسانوں اور کہانیوں سے متعلق لکھے ہیں۔ مثال کے طور پر، ناروے کا صفحہ بتاتا ہے، کہ کیسے وینیشین ملاح پیٹرو کوئرینی اپنے جہاز کے تباہ ہونے کے بعد زندہ بچ گیا۔

پیٹرو کے متعلق افسانہ یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ ناصرف اس حادثے میں بچ گیا، بلکہ اپنے ساتھ خشک خوراک بھی اس ملک لے کر آیا، اس طرح ’بیکلوریٹ‘ خشک مچھلی کی ڈش کی شروعات ہوئی جو آج وہاں کے ہر ریستوران میں ملتی ہے۔

ایک اور صفحہ تھرس کی بادشاہی کے متعلق ہے، جہاں سے ’جادو کرنے والے‘ آئے اور خیال کیا جاتا تھا کہ یہ چین اور منگولیا کے درمیان واقع ہے۔

ان تمام چیزوں کا آج آسانی سے ترجمہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ قدیم زبان آج کل کے وینس کے لوگوں کی زبان سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔

گیلیلیو انسٹیٹیوٹ کی جانب سے ایک انٹرایکٹو نقشے پر انگریزی ترجمہ بھی موجود ہے اور اسے فلورنس کے تاریخی میوزیم کے ذریعے ایک بڑی فلیٹ اسکرین پر دکھایا گیا ہے

یہ نقشہ ہمیں قرون وسطٰی کے پادری فرا مورو کے ذہن میں لے جاتا ہے کہ اس نے دنیا کو کیسے دیکھا۔ اگرچہ وہ اپنی پوری زندگی وینس شہر میں ہی رہا، لیکن دنیا اس کی نظر میں چھوٹی نہیں تھی۔ فرا مورو نے ان مسافروں اور تاجروں کی تفصیل سے بہت زیادہ علم حاصل کیا، جن سے وہ وینس میں قیام کے باعث ملتے تھے۔ اس زمانے میں یہ تجارتی شہر پھل پھول رہا تھا۔

سینٹ مارک کی ایک لائبریرین مارگریٹا وینچریلی کے مطابق ”وینس اس وقت نقش نگاری کا ’دارالحکومت‘ تھا۔“

مورخ پیرالویز زورزی کہتے ہیں ”نقشے تجارت کے لیے ضروری تھے کیونکہ اگر آپ کے پاس اچھا نقشہ ہوتا تو آپ کہیں بھی جا سکتے تھے۔ نقش و نگاری میں ہر اختراع کا وینس میں خیرمقدم کیا گیا اور اسے اچھی قیمت دی گئی۔“

ایشیا کے حوالے سے مورو کی معلومات کا ماخذ ایک مشہور وینیشین تاجر اور سیاح مارکو پولو تھا، جس نے نقشے کے تیار ہونے سے تقریباً ڈیڑھ سو برس قبل اپنے ذاتی سفر کے بارے میں یاداشتیں شائع کیں، اور اس نقشے پر ڈیڑھ سو مقامات ایسے ہیں، جن کا سراغ براہِ راست مارکو پولو کی کتاب سے لگایا جا سکتا ہے

مثال کے طور پر کوہِ آدم، جو سیلون کے جزیرے پر واقع ہے اور اب سری لنکا کے نام سے جانا جاتا ہے، افسانوی روایات کے مطابق یہ وہ جگہ ہے، جہاں پہلے انسان کو اس کے دانتوں اور آنتوں کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔

یورپ میں رہنے والوں کو مورو کا نقشہ الٹا نظر آتا ہے کیونکہ اس میں جنوب سب سے اوپر دکھائی دیتا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مورو قدیم عرب نقشوں سے متاثر تھا، خاص طور پر شنیا کے اس نقشے سے، جسے بارہویں صدی میں مراکشی دانشور محمد الادریسی نے بنایا تھا۔

جن نمبروں کا ذکر فرا مورو نے ’آسمانوں کے بیچ فاصلہ‘ کے طور پر کیا ہے وہ ریاضی دان اور ماہر فلکیات کیمپانس دی نووارا سے لیے گئے ہیں۔

مورو نے نقشے کے اوپر بائیں کونے میں اس چیز کی نشاندہی کی ہے کہ زمین کے مرکز اور اس کی سطح کے درمیان فاصلہ 3245 میل ہے، جب کہ زمین اور چاند کے مرکز کے درمیان فاصلہ تقریباً 108000 میل ہے۔

لیکن مورو نے اپنے خدشات کو محدود نہیں رکھا اور تنقید کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس نے بعض اوقات اس جغرافیہ پر بھی انحصار کیا، جو مصر کے سکندریہ میں 150 عیسوی میں کلاڈیئس بطلیمی نے لکھا تھا اور جو کئی صدیوں تک مغربی دنیا کے سامنے نہیں آیا تھا۔ پانچویں صدی میں اسے دریافت کرنے کے بعد اس کا دوبارہ لاطینی میں ترجمہ کیا گیا۔

اس نے نشاۃِ ثانیہ کے دور سے منسوب جغرافیہ دان کا انداز اپنایا کہ کس طرح اس نے باغِ عدن میں آدم اور حوا کے مقام کا تعین کیا، اس کام کے دوران انہوں نے اس بات کا خیال بھی رکھا کہ جنت کا محلِ وقوع نقشے پر ظاہر نہیں ہو سکتا اور یہ کہ باغِ عدن زمین پر کوئی ایک مخصوص مقام نہیں ہے۔ انہوں نے مذہب اور جغرافیہ سے الگ ایک ترقی پسند ذہنی نقطہ نظر کی پیروی کی، جس کا مطلب ہے کہ اس زمانے کے پادریوں کے لحاظ سے مورو ایک منفرد ذہنیت کے مالک تھے۔

مورو کے کام کو دیکھتے ہوئے اور یہ کہ اس نے کرسٹوفر کولمبس کے امریکہ کے سفر سے کئی دہائیوں پہلے نقشے پر کام مکمل کر لیا تھا، ’مپا منڈی‘ کا نقشہ، یا ’دنیا کا نقشہ‘ قرون وسطیٰ اور نشاۃ ثانیہ کے درمیان ایک عبوری ربط کی نمائندگی کرتا ہے۔

دیکھنے والوں کے لیے یہ نقشہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ یہ نہ صرف عملی طریقوں سے تیار کیا گیا نقشہ تھا، بلکہ یہ جمالیات کا معاملہ بھی تھا اور انتہائی غیر معمولی کہانیاں سنانے کا ایک طریقہ بھی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close