حکومت سے ٹکر لینے والے چینی طالب علم کی کہانی

سنگت میگ اسپیشل

یہ ستمبر 2013ع کی بات ہے، جب تئیس سالہ طالب علم گو بوجیان لوزہی دریا کی وادی میں پہنچا

دریائے سرخ (Red River) چین کے صوبے ، یوننان سے نکلتا اور ویت نام کے سینے پہ بہتا ہوا بحرالکاہل میں جا گرتا ہے۔یہ دریا اپنے آغاز میں پچاس ساٹھ میل دور تک لوزہی دریا کہلاتا ہے۔ اس دریا کی وادی میں مختلف اقسام کے درختوں اور پودوں کی کثرت ہے۔

گو بوجیان علم نباتیات میں ایم اے کر رہا تھا اور انہی نباتات کا مطالعہ کرنے وہاں پہنچا تھا۔

اب مقامی نباتات پر تحقیق کر کے اس نے ایم اے کا اپنا مقالہ تیار کرنا تھا، جس کے بعد وہ ڈگری کا اہل قرار پاتا

گو 1990 میں ننگزیا کے غریب ، اندرونی علاقے میں پیدا ہوا ، جہاں کے باشندے سخت گیر ہونے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ آسانی سے مسکرانے اور حیرت انگیز تاثرات والے چہرے کے مالک گو نے جو کارنامہ سرانجام دیا، وہ یقیناً حیران کر دینے والا ہے

پہاڑوں کے دامن میں ہونے کے سبب وہ علاقہ الگ تھلگ واقع ہے۔ وہاں چند سو کسان گھرانے آباد ہیں جو کھیتوں اور باغات میں کام کرتے ۔گو بوجیان نے یہاں پہنچ کر ایک دیہاتی کے گھر میں قیام کیا۔ وہ ایک پُرجوش طیّور بین بھی تھا، یعنی دوربین سے پرندوں کی حرکات وسکنات کا مشاہدہ کرنے والا۔ اسے پرندے بہت پسند تھے جو میٹھی بولیاں بولتے اور اپنی معصوم حرکتوں سے دیکھنے والوں کا دل بہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گو بوجیان کو شہر میں رہنے کی نسبت ایسے علاقوں میں رہنا زیادہ پسند تھا جہاں وہ فطرت کے قریب رہ سکے… انواع و اقسام کی نباتات، فضاؤں میں اڑتے، درختوں کی ٹہنیوں پر جھولتے اور میٹھی بولیاں بولتے پرندوں سے اسے محبت تھی..

وہ جس علاقے میں آیا تھا، وہاں پرندے کثیر تعداد میں موجود تھے۔ یہ دیکھ کر گو بوجیان خوش بہت خوش تھا

یوننان میں ویسے بھی پہاڑوں کی کثرت ہے۔ ان سے نکلنے والے دریا بھی دھرتی پہ جا بجا پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے بیچ سرسبز وادیاں واقع ہیں، جن کے دامن میں ہر قسم کے درختوں اور پودوں پہ مشتمل جنگلوں کا تحفہ ہے۔ ان جنگلوں میں رنگ برنگ چرند پرند ملتے اور اللہ تعالی کی عظمت و حقانیت عیاں کرتے ہیں

دریائے لوزہی کے کنارے بھی اسّی کلومیٹر طویل ایک گھنا جنگل موجود تھا، بوجیان کو اسی جنگل میں گھومتے پھرتے منفرد نباتات پہ تحقیق کر کے اپنا مقالہ تیار کرنا تھا

جب مسرت آمیز حیرانی نے گوبوجیان کو گھیر لیا..

وہ اپنا کام کرنے کے بعد طیّور بینی میں مشغول ہو جاتا جو رب کائنات کی حمد وثنا کر رہے ہوتے۔ ان کی حرکات تھکے محقق کو تروتازہ کر دیتیں۔ اتفاق سے گھر کا مالک دیہاتی بھی طیور بین تھا۔ وہ صحن میں باقاعدگی سے دانہ ڈالتا تاکہ پرندے وہاں آ جا سکیں۔ وہ فطرت کے نزدیک رہنا پسند کرتا تھا۔ ایک دن اس نے نوجوان مہمان کو بتایا کہ علاقے کے جنگل میں سبز مور (Green peafowl) بھی ملتا ہے۔ یہ سن کر گو بوجیان کی آنکھیں حیرت و استعجاب سے پھیل گئیں۔ بہ حیثیت ماہر طیور بین وہ یہ سچائی جانتا تھا کہ چین کے جنگلوں سے سبز مور غائب ہو چکے ہیں۔ مگر دیہاتی دعویٰ کر رہا تھا کہ اس وادی کے جنگل میں یہ پرندا بستا ہے…
یہ جان کر اس کی مسرت آمیز حیرانی کی انتہا نہ رہی!

گو بوجیان نے اپنے میزبان سے کہا کہ اسے اس بات پہ یقین نہیں آ رہا۔ البتہ وہ سبز مور کا پر لا دے تو پھر یہ دعویٰ برحق ہو گا۔ دیہاتی نے ہامی بھر لی

صرف ایک ہی دن بعد اس نے مطلوبہ پر لا کر نوجوان طالب علم کے ہاتھوں میں تھما دیا جو دم بخود اسے دیکھنے لگا

میزبان نے بتایا کہ جنگل کے اندرون جایا جائے تو تھوڑی سی کوشش پہ سبز موروں کے اترے پر مل جاتے ہیں۔ اب گو بوجیان کو یقین ہو گیا، کہ دیہاتی سچ بول رہا ہے۔دریائے لوزہی کی وادی کا جنگل سبز مور کی قیام گاہ ہو سکتا ہے

گو بوجیان صبح سویرے اپنے ساتھی کے ہمراہ جنگل میں موروں کی تلاش میں

اور پھر سبز مور جنگلوں سے غائب اور ذہنوں سے محو ہو گئے..

یہ ذکر یقیناً دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مور بیشتر عرصہ زمین پہ رہنے والے مخصوص پرندوں کے خاندان ’’فیسیا نائڈیا‘‘ (Phasianidae) سے تعلق رکھتا ہے۔ اس خاندان میں مور کے علاوہ تیتر، بٹیر، جنگلی مرغ اور پالتو مرغ شامل ہیں۔مور کی تین اقسام ہیں: ہندوستانی نیلا مور، سبز مور اور افریقی مور جو صرف دریائے کانگو کی وادی کے جنگلوں میں ملتاہے۔ ہندوستانی مور اب دنیا کے کئی علاقوں میں آباد ہے۔ سبز مور جنوب مشرقی ایشیا کے علاقوں کا باسی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ چین کے بیشتر جنگلوں میں مل جاتا تھا، لیکن پھر جنگل کٹ گئے اور وہاں انسانی تعمیرات نمودار ہو گئیں تو وہ اپنا مسکن کھو بیٹھا

جب گو بوجیان دریائے لوزہی کی وادی میں پہنچا تو چین کے سبھی ماہرین حیوانیات میں مشہور ہو چکا تھا کہ سبز مور شاید ہی کسی جنگل میں موجود ہو۔یہ ایک مقبول عام خیال تھا، جو یقین میں بدل چکا تھا. اکثریت کو یقین تھا کہ یہ پرندہ اب چین میں زندہ نہیں رہا۔ یہ فطرت سے محبت رکھنے والے چینیوں کے لیے دکھ اور ندامت کی بات تھی۔ کیونکہ  تاریخی طور پہ سبز مور ہمیشہ سے چین کی تہذیب وتمدن میں اہم مقام کا حامل رہا ہے

جنگل میں موجود سبز مور

قدیم چینی باشندے خوبصورت پروں والے خوشنما سبز مور کو خوش بختی کی علامت سمجھتے تھے۔ اسی لیے چینی مصّور سبز مور کی دلکش تصاویر بناتے جنہیں ہاتھوں ہاتھ خرید لیا جاتا۔ لوگ خوش بختی کے لیے ان تصویروں کو اپنے گھروں اور دکانوں میں لٹکاتے۔ چینی بادشاہ بھی سبز مور کو مقدس پرندہ مانتے۔ شاہی تخت کے بازو اکثر مور کی شکل کے بنائے جاتے۔ یا پھر جب درباریوں کو عزت و شان عطا کرنا مقصود ہوتی، تو انہیں اجازت مل جاتی کہ وہ اپنی ٹوپیوں میں سبز مور کے پر لگا لیں۔ اس پر کے حامل درباری عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے

چین سے 1912ع میں بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا لیکن جلد ہی محتلف طاقتور گروہوں کے درمیان اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ خانہ جنگی کی یہ آگ 1949ع تک سلگتی رہی اور مملکت میں قانونی نظام کا ڈھانچا جلا کر راکھ کر دیا، اس عرصے میں لوگوں کو من مانی کرنے کی جیسے چھوٹ حاصل تھی۔ چناں چہ شکاریوں نے جنگلوں میں سبز مور کا بے دریغ شکار کیا۔ وجہ یہ کہ لوگ نہ صرف مور کے پر خریدتے، بلکہ اس کا گوشت بھی شوق سے کھاتے تھے۔ اندھا دھند شکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی جنگلوں سے سبز مور کا نام و نشان مٹ گیا۔ معدومی کی اس کگار کے بعد ایک مقام ایسا بھی آیا کہ رفتہ رفتہ چین کی نئی نسل یہ بھول بھال گئی کہ کبھی سبز مور کو چینی معاشرے میں اہمیت حاصل تھی.. اور یہ کہ ملک میں سبز مور نامی خوبصورت پرندہ پایا بھی جاتا تھا! صرف طیور بین اور فطرت پسندوں نے اس انوکھے پرندے کو یاد رکھا۔جب وہ کسی جنگل میں جاتے تو اس پرندے کو ضرور تلاش کرتے، نہ پاتے تو اداسی اور غم میں گِھر جاتے

تمہیں خبر ملنے تک خاک نہ ہوئے…

اب گوبوجیان کو پتہ چلا کہ دریائے لوزہی کی وادی میں سبز مور بستا ہے، تو اس کا فرط مسرت سے یوں سرشار ہونا فطری تھا۔ وی پر ملتے ہی اندرون جنگل پہنچا تاکہ اپنی آنکھوں سے قدرت کی اس حسین تخلیق کا دیکھ سکے۔ کچھ تلاش بسیار کے بعد ایک جگہ اسے سبز موروں کا جوڑا نظر آ ہی گیا۔ خوشی سے اس کا دل دھڑکنے لگا.. اس نے ان کی تصاویر بھی اتاریں۔ جب گوبوجیان نے یہ تصویریں اپنے طیور بین دوستوں کو بھجوائیں تو وہ بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ سبز مور چین کے کسی جنگل میں موجود ہوں گے۔ گوبوجیان کو حیرت اس بات پر بھی تھی کہ آخر ماہرین حیوانیات اس بات سے بے خبر کیوں ہیں کہ دریائے لوزہی کی وادی میں سبز مور پائے جاتے ہیں؟

اس نے سوچ بچار کی تو اسے وجوہ معلوم ہو گئیں..

دراصل دریائے لوزہی کی وادی دور دراز واقع ہے۔ وہاں سڑکیں ہیں، نہ بجلی اور گیس۔ علاقے میں ناخواندہ کسان رہتے ہیں۔ وہ اپنے کھیتوں میں اجناس اُگا کر اور مویشی پال کر گذارہ کرتے ہیں۔ جنہیں پیٹ کے لیے اناج کی فکر تھی، انہیں اس بات سے کیا غرض ، کہ مقامی جنگل میں کون سے چرند پرند ملتے ہیں اور ان کی کیا اہمیت ہے۔ البتہ مقامی باشندے ان حیوانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ انہیں تحفظ دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنگلی حیات بھی انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے

بہرحال… جنگل میں سبز موروں کی موجودگی نے گو بوجیان کو مسّرت سے بھر دیا۔ جب اس کا کام ختم ہوتا، وہ دوربین اور کیمرا اٹھائے پسندیدہ پرندوں کے پاس جا پہنچتا۔ سبز مور بھی جلد اس کے شناسا بن گئے۔ وہ ان کے قریب جا کر خوبصورت تصاویر اتار لیتا۔ یہ تصویریں پھر اس کے قریبی حلقے میں گردش کرتی رہتیں۔ چین میں نئی نسل نیلے مور ہی سے واقف ہے، جو بھارت سے لائی گئی۔ ان کی اکثریت نہیں جانتی کہ سبز مور چین کا اپنا پرند ہے، مگر وہ چینی جنگلوں سے ناپید ہو چکا ہے۔ گوبوجیان نے اب مقامی باشندوں کے تعاون سے دریائے لوزہی کی وادی میں اسے دریافت کر کے اہم کارنامہ انجام دیا تھا۔ یوں چینی عوام کو اپنا محبوب پرندہ واپس ملنے کا امکان پیدا ہو گیا۔ گو بوجیان نے تحقیق کر کے جانا کہ سبز مور کا مسکن جنگل تقریباً ’’190‘‘مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہے۔

جنگل میں مور ناچے، گو بوجیان نے دیکھے

فطرت سے عشق رکھنے والے گو بوجیان  نے اندازہ لگایا کہ جنگل میں پانچ سو سبز مور موجود ہیں۔ یہ چین میں اس حسین پرندے کی واحد اور سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔ سڑکوں کی عدم موجودگی کے سبب انسان کے کثیر تعداد میں اس جنگل کا رخ نہ کرنے کی وجہ سے ہی شاید سبز مور نے وادی کے اس جنگل میں اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ ان کی پہلی پناہ گاہیں تو کب کی انسانوں کی حرص و ہوس کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں

ہم یہاں پہلے بھی ذکر کر آئے ہیں کہ سبز مور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی ملتا ہے، لیکن سبھی ملکوں میں نت نئی تعمیرات کی وجہ سے ان کے مسکن ختم ہو رہے ہیں اور سبز مور دور دراز مقامات میں محصور ہو چکے ہیں ۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں صرف دس ہزار سبز مور رہ گئے ہیں

گویا فطرت کا نمائدہ یہ خوبصورت پرندہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر اس کی بقیہ پناہ گاہوں کو محفوظ نہ کیا گیا، تو سبز مور جنگل سے مٹ جائے گا۔لوگ پھر اسے صرف چڑیا گھروں میں دیکھ سکیں گے، جہاں پنجروں میں قید یہ خوبصورت پرندہ اپنی خوبصورتی اور انسانی لالچ کو کوستا ہوا نظر آئے گا۔ کرہ ارض پہ حیوان انسان کے پڑوسی ہیں۔انسانوں کا فرض ہے کہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر انہیں نقصان نہ پہنچائیں، ان کے گھر نہ اجاڑیں۔ خدا کی دی ہوئی زندگی جینے کا، انہیں بھی پورا حق ہے

گو بوجیان ایک ماہ قیام کرنے وادی آیا تھا۔وہ اپنی تحقیق مکمل کر کے واپس اپنے سرکاری ادارے (Xishuangbanna Tropical Botanical Garden) چلا گیا۔وہ اس سرکاری ادارے میں بطور نباتیات داں ملازمت کرتا تھا۔ یہ ادارہ چین کی اکیڈمی آف سائنسز کا ذیلی ادارہ ہے۔ تاہم وہ سبز موروں کی اٹکھیلیاں اور ان کی معصومانہ حرکات فراموش نہ کر سکا۔ لہٰذا ہر مہینے ایک دو دن گذارنے، وہ اس وادی میں پہنچ جاتا اور خوشگوار وقت گذارتا

چند ماہ بعد وہ معمول کے مطابق وادی پہنچا، تو اسے وہاں بسنے والے کسان فکرمند نظر آئے۔ تشویش کا سبب پوچھا تو پتہ چلا کہ حکومت نے علاقے میں دریا پر ڈیم بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہاں واقع جنگل کا بڑا حصہ ڈیم کے پانی میں ڈوب جائے گا۔ کسان اب کسی دوسری جگہ نقل مکانی کا سوچ رہے تھے۔ اس خبر نے گو بوجیان پہ گویا بجلی گرا دی۔ اسے معلوم تھا کہ اگر ڈیم بنا، تو سبز مور اپنی آخری پناہ گاہ سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
وہ بیچارے پھر کہاں جاتے؟

ریڈ رور پر وادی کے درمیان ڈیم کی مجوزہ جگہ

گوبو جیان دل تھام کر رہ گیا، وہ عجب مخمصے میں پھنس گیا.. کیونکہ چین میں یک جماعتی حکومت ہے، وہ کوئی فیصلہ کر لے، تو اسے تبدیل کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی حکومت کا فیصلہ تھا، جو معاشی ترقی کے لیے ہر اقدام بجا سمجھتی تھی۔ لہٰذا ا کسی منصوبے سے ماحولیات یا جنگلی حیات کی قیام گاہ متاثر ہوتی ہے، تو ہوتی رہے.. چینی سرکار کو اس سے کچھ سروکار نہ تھا.. اس کے لیے اس مسئلے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ حکومت چین ہر حال میں اپنی مملکت کو معاشی سپرپاور بنانا چاہتی تھی۔

پریشان حال گو بوجیان اس جگہ پہنچا، جہاں ڈیم بن رہا تھا۔ دیکھا کہ ڈیم بنانے کی مشینری پہنچ چکی ہے۔ مزدور درخت کاٹنے اور پتھر جمع کرنے میں مصروف ہیں، تاکہ دریا میں ابتدائی پشتہ بن سکے۔ایک جگہ زمین صاف کر کے عارضی قیام گاہیں تعمیر ہو رہی تھیں۔ غرض وہاں میلا لگ گیا تھا، جو جانے کتنی جنگلی حیات کی تباہی کی بنیاد بننے والا تھا۔ حکومت ڈیم بنانے کا تہیہ کر چکی تھی اور بظاہر کوئی نہ تھا جو اسے روک پاتا

نوجوان گو بوجیان ریڈ رور کے اس مقام پر، جہاں ڈیم بنایا جا رہا تھا

گو بوجیان کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ اس نے محنت کی ، دل لگا کر پڑھا اور اچھی سرکاری ملازمت پانے میں کامیاب رہا۔ جانتا تھا کہ اگر ڈیم کی مخالفت کی تو عمدہ ملازمت جا سکتی ہے۔ مگر اس کے ضمیر نے خاموش رہنا گوارا نہ کیا۔ وہ سبز مور کی پناہ گاہ مٹنے کا تماشا چپ چاپ کیسے دیکھتا ؟ وہ واپس گھر پہنچا اور دوست احباب سے مشورہ کیا۔ بیشتر کا یہی صلاح دی کہ وہ حکومت سے پنگا نہ لے۔ اگر اس نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی تو صرف اسے ہی نقصان ہو گا

جنگ نہیں پیار

صورت حال حوصلہ شکن تھی… مگر گو بوجیان نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے ڈیم سے متعلق معلومات جمع کیں۔ یہ ڈیم پن بجلی کی خاطر بن رہا تھا۔ وفاقی حکومت کے علاوہ صوبائی حکومت بھی اس کی منظوری دے چکی تھی۔ ڈیم 3.7 ارب یوان کی لاگت سے بننا تھا۔ حکومتوں نے کثیر رقم مختص کر دی تھی۔ وہ پانچ چھ سال میں مکمل ہو جاتا۔ اسے بنانے کا ٹھیکہ سرکاری کمپنیوں کو ملا تھا۔ یہ معلومات پا کر گو بوجیان غور و فکر کرتے پریشانی کے سمندر میں غرق ہو گیا، جہاں صرف مایوسی کی لہریں تھیں۔ وہ ہر قیمت پر سبز مور کی پناہ گاہ، اس جنگل کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ اسے نہ صرف بطور طیّور بین پرندوں سے عشق تھا، بلکہ وہ چینی تہذیب کی اس اہم نشانی کو تحفظ دینے کا متمنی تھا۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ حکومت کو کیسے قائل کیا جائے کہ یہ ڈیم نہیں بننا چاہیے تاکہ ایک قومی اور معدومی کی کگار پر کھڑے پرندے کی پناہ گاہ بچ سکے؟

ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ حکومت کے خلاف دھواں دار پریس کانفرنس کرتا۔ماحولیاتی تنظیموں کی مدد سے شہروں اور قصبات میں حکومت کے خلاف مظاہرے کراتا، کہ ڈیم کی تعمیر روکنے کے لیے اس پہ دباؤ ڈالا جا سکے۔ اخبارات اور ویب سائٹس میں مضامین لکھ کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتا۔ گویا وہ حکمران طبقے کے خلاف جنگ چھیڑ دیتا۔ گوبوجیان کو علم تھا کہ مناقشے اور تصادم کی راہ اپنانے پر اس کی نوکری جاسکتی ہے۔ اسے اگرچہ اپنی ملازمت کی زیادہ پروا نہیں تھی، اس اگر  فکر تھی، تو یہ تھی کہ اس پناہ گاہ کو بچایا جائے… لیکن وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ کیا حکومت سے تصادم کے بعد ڈیم کی تعمیر رک جائے گی؟

کافی سوچ بچار کے بعد گو بوجیان اس نتیجے پر پہنچا کہ حکومت سے جنگ کا راستہ منفی اور شرانگیز ہے۔ اس راہ پر چل کر جیت کا امکان بھی بہت کم تھا۔ لہٰذا اس نے مثبت راہ اپنا کر ڈیم کی تعمیر رکوانے کا فیصلہ کیا۔ وہ دلائل اور شواہد کی قوت سے حکمران طبقے کو قائل کرنا چاہتا تھا کہ سبز مور کی آخری پناہ گاہ محفوظ رکھنے کی خاطر ڈیم منصوبہ ختم کرنا ضروری ہے۔ گو بوجیان کو اُمید تھی کہ مثبت راستہ اپنا کر فتح کا امکان روشن ہو جائے گا۔

جدوجہد کا ابتدا

نباتیات میں پی ایچ ڈی کرنے والے اس طالب علم کی حکمت عملی اچھوتی نہ تھی، چین میں عام لوگ عموماً لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرتے ہیں، وہ ایک ایسے معاشرے کا حصہ تھا، جہاں بسنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ بات چیت اور افہام و تفہیم سے مسئلہ حل ہو جائے۔ خصوصاً حکومت سے اختلاف ہو جائے تو ہر فریق صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ چینی سمجھتے ہیں، اگر وہ آپس میں لڑنے لگے تو بیرون ممالک ان کا مذاق اڑایا جائے گا، دوسرا سبب حکومت کا سخت گیر رویہ بھی ہے. لہٰذا وہ مذاکرات سے مسئلے کا حل نکالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس حکمت عملی کی رو سے گو بوجیان نے طے کیا کہ چین کی طاقتور حکومت سے تصادم کی راہ اختیار نہیں کرنی بلکہ ہر ممکن طریقے سے اسے اپنی بات سمجھانی ہوگی

وہ پھر ہر ماہ وادی میں آنے جانے لگا۔ اس نے سبز موروں کی تازہ تصاویر لیں۔ وادی میں مقیم کسانوں سے انٹرویو لیے۔ موروں کے پَر جمع کیے۔ یوں اس نے چھ ماہ میں یہ دستاویزی ثبوت اکھٹے کر لیے کہ دریائے لوزہی کی وادی میں سبز مور رہائش رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ ان کی آخری پناہ گاہ ہے۔ یہ دستاویز مرتب کرنے کے بعد گو بوجیان نے ایک رپورٹ بنائی اور اسے ڈیم سے منسلک تمام وفاقی محکموں اور سرکاری کمپنیوں کے دفاتر بھجوا دیا۔ ڈیم بنانے میں محو کمپنیوں کو بھی دستاویزی ثبوت بھجوائے گئے، جن کا لب لباب یہ تھا کہ ڈیم بننے سے سبز مور جیسا قیمتی پرندہ بے گھر ہو جائے گا۔ لہٰذا اس کی تعمیر روک دی جائے۔ اتنی تگ و دو کے بعد گو بوجیان کو صرف ایک محکمے سے یہ جواب موصول ہوا کہ وہ معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی..

عوام کی عدالت میں

ڈیم کی تعمیر جاری رہی…
دریا پر پشتہ بنایا جانے لگا۔ کمپنیوں نے بھاری مشینری سائٹ پر پہنچا دی۔ اس صورت حال نے گو بوجیان کو مایوس کر دیا۔
وہ بتاتا ہے: ’’یونیورسٹی میں میرے سپروائزر مشہور ماہر نباتیات تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیم کی تعمیر سے حکومت کو معاشی فوائد ملیں گے۔ اس لیے حکومت کبھی یہ منصوبہ ختم نہیں کرے گی۔‘‘

گو بوجیان نے مگر ہمت نہ ہاری ۔ کہتا ہے: ’’ہمارے ہاں یہ کہاوت مشہور ہے کہ پہاڑ پہ یقنناً شیر رہتا ہے، لیکن ہم اس پر چڑھ کر ہی دم لیں گے۔‘‘
اس نے دوبارہ اپنی تحقیقی رپورٹ مع تازہ ثبوتوں کے متعلقہ وزارتوں کو بھجوا دی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے پات نکلا۔ آخرکار جھنجھلا کر گو بوجیان نے اپنی داستانِ الم لکھی اور مارچ 2017ع میں اسے چین کی ممتاز سوشل میڈیا سائٹ ”وی چیٹ“ پر پوسٹ کر دی۔ گویا اس نے اپنی داستان جدوجہد چینی عوام کے سامنے عیاں کر ڈالی۔ یہ قدم انقلاب انگیز ثابت ہوا!

اس کی داستان شی زینونگ (Xi Zhinong) نے بھی پڑھی جو چین میں جنگلی حیات پر فلمیں بنانے والا مشہور فلمساز ہے۔ اس کو ’’چین کا ڈیوڈ ایٹن برو‘‘ کہا جاتا ہے۔ 2001ع میں بی بی سی نے اسے سال کے بہترین وائلڈ لائف فوٹوگرافر کا اعزاز دیا تھا۔ شی زینونگ نے نایاب پرندوں پر ایک خوبصورت فلم بنائی تھی جو ایمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔ اب اس نے گو بوجیان کی کہانی پڑھی، تو بہت متاثر ہوا۔ وہ داستان جہد اس نے اپنے وائبو اور اپنی کمپنی، ”وائلڈ چائنا“ فلم کے اکائونٹ پر شئیر کر دی۔ بیس لاکھ چینی ان اکاؤنٹس کے فالوور تھے۔

وائلڈ لائف فلم میکر ژی زینونگ

گو بوجیان کی داستان چین کے سوشل میڈیا میں چکر کھانے لگی۔ لاکھوں لوگ سبز مور کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ انہیں یہ جان کر ازحد مسّرت ہوئی کہ چین کے ایک جنگل میں آج بھی یہ حسین پرندہ موجود ہے۔ رفتہ رفتہ اس پُرزور عوامی مطالبے نے جنم لیا کہ ڈیم کی تعمیر روک دی جائے تاکہ قومی تہذیب وثقافت کی نشانی ایک پرند اپنی آخری پناہ گاہ میں محفوظ رہ سکے۔ غرض پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میں اجاگر ہونے سے سبز مور پورے چین میں موضوعِ گفتگو بن گیا۔ حتیٰ کہ چینی حکومت کی سرکاری نیوز ایجنسی، Xinhua نے بھی اس پر ایک مضمون شائع کیا۔

قانون سے مدد

چین میں ’’فطرت کے دوست‘‘ (Friends of Nature) تحفظ ماحولیات کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ وہ ماحول دشمن منصوبے روکنے کے لیے اکثر مغربی تنظیموں کی طرح عدلیہ کا سہارا لیتی ہے۔ چناں چہ یہ تنظیم ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لیے عدالت پہنچ گئی۔ یہ جولائی 2017ع ء کی بات ہے۔ اس کا استدلال تھا کہ ڈیم کی تعمیر سبز مور کی پناہ گاہ تباہ کر دے گی۔ چینی پرند کی خوش قسمتی ہے کہ تب تک حکمران طبقے کی سوچ بھی تبدیل ہو چکی تھی۔

دراصل یہ وہ وقت تھا جب بیجنگ اور دیگر چینی شہروں میں ماحولیاتی آلودگی نے سانس تک لینا دوبھر کر رکھا تھا ۔ تب حکومت کو احساس ہوا کہ اس آلودگی پر قابو پانا ضروری ہے۔  2015ع میں ’’تحفظ ماحولیات قانون‘‘ وجود میں آ چکا تھا۔ اس قانون کے ذریعے قرار پایا کہ اب جو بھی سرکاری یا نجی کمپنی کوئی تعمیراتی منصوبہ بنائے گی، اسے پہلے ماہرین سے یہ تحقیق کرانا ہوگی کہ منصوبہ ماحول کو نقصان نہیں پہنچا رہا۔اگر منصوبے سے ماحول کو کسی قسم کا نقصان پہنچتا، تو اسے ختم کر دیا جاتا۔

سبز مور کی پناہ گاہ بچانے میں اسی قانون نے اہم کردار ادا کیا۔ ’’فطرت کے دوست‘‘کی وکیل ، لیو جیمنی ایک متحرک اور ذہین خاتون ہیں۔ ہر مقدمے کی تحقیق وتفتیش گہرائی وگیرائی سے کرتی ہیں۔ ہوا یہ کہ گو بوجیان کی معیت میں تحقیق کرتے ہوئے ان کے ہاتھ ایک اہم رپورٹ لگ گئی۔ یہ ڈیم تعمیر کرنے والی سرکاری کمپنی کے بارے میں تھی

اس کمپنی نے بھی ماہرین ماحولیات کی خدمات حاصل کی تھیں تاکہ وہ دریائے لوزہی کی وادی کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ تیار کر سکیں۔ انکشاف یہ ہوا کہ ماہرین ایسی کمپنی سے تعلق رکھتے تھے، جس سے ڈیم بنانے والی کمپنی کے قریبی کاروباری تعلقات تھے۔ چناں چہ ماہرین نے ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دی اور”جانے دیوس“ کا سگنل دے دیا.. ماہرین نے جان بوجھ کر یہ حقیقت نمایاں نہیں کی کہ ڈیم کے تعمیر سے مقامی جنگل کا بڑا حصہ جھیل برد ہو جائے گا… اور جنگل بھی ایسا قیمتی، جس میں معدومیت کے خطرے سے دوچار سبز مور رہ رہے تھے

بالآخر جیت مل گئی!

مقدمہ  چلتے لیو جیمنی، گو بوجیان اور دیگر نے اسی رپورٹ کو نشانہ بنایا۔ بلکہ وہ یہ معاملہ دستاویزی شہادتوں کے ساتھ چین کی وفاقی وزرات ماحولیات میں لے گئے۔ وہاں اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ ثابت ہو گیا کہ ڈیم بنانے والی کمپنیوں نے دھوکا دہی اور فراڈ سے کام لیا ہے، لہٰذا ڈیم کی تعمیر رکوا دی گئی۔ کمپنیوں کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری ہو گیا۔ یوں سبز مور اور ماحولیات کے دوستوں… خاص طور پر نوجوان گو بوجیان کو پہلی فتح مل گئی۔

وادی میں اب پھر کاشتکاری شروع کر دی گئی ہے

2018ع کے وسط سے یوننان کے صدر مقام، قنمنگ کی زیریں عدالت میں مقدمہ چلنے لگا۔ عدالت میں تمام دستاویزی ثبوت پیش کیے گئے، جن کی رو سے ڈیم بننے کا مطلب جنگل کی تباہی تھا۔ ججوں نے ماہرین ماحولیات کے نکات سے اتفاق کرتے ہوئے مارچ 2020ع میں ڈیم کی تعمیر پر پابندی لگا دی۔ تعمیراتی کمپنیوں کو مگر ڈیم پہ خرچ ہوئے اپنے کروڑوں یوآن کا غم کھائے جارہا تھا۔ انہوں نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

اب سبز مور و ماحولیات کے پرستار سب سے اعلیٰ چینی کورٹ میں تعمیراتی کمپنیوں سے نبردآزما ہوئے۔ وہاں ججوں نے فیصلہ دیا کہ حکومت ڈیم تعمیر کر سکتی ہے… مگر سبز مور کی پناہ گاہ کو کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہیے۔ یہ واضح طور پر گو بوجیان اور دیگر ماحول دوستوں کی فتح تھی۔ ڈیم بنانے سے لازماً جنگل زیرِ آب آ جاتا۔ اسی لیے سرکاری کمپنیاں آخر کار منصوبہ ترک کرنے پر مجبور ہو گئیں

اب….

جس جگہ ڈیم تعمیر ہونا تھا، آج وہاں بھاری مشینری کا نام ونشان نہیں۔ پشتے کو بھی دریا کی تیز وتند لہریں بہا لے گئیں۔ یہ عیاں ہے کہ ترقی کو سب سے مقدم رکھنے والی حکومتِ چین نے تسلیم کر لیا کہ سبز مور کی آخری پناہ گاہ برقرار رکھنا معاشی فوائد پانے سے زیادہ اہم ہے۔ایک منصوبے کا مادی فائدہ ہمیشہ اہم ترین نہیں ہوتا، اس کے غیر مادی پہلو بھی مدنظر رکھنا پڑتے ہیں

اس طرح ایک عام سے نوجوان طالب علم، گو بوجیان نے اپنی ہمت، استقلال، فہم اور فطرت سے اپنی محبت کے بل بوتے پر چین کے انتہائی طاقتور نظام کو اپنے سامنے سرنگوں ہونے پہ مجبور کر دیا۔ سبز مور کا گھر بچانے کے لیے اسے سات سال سرکاری سسٹم سے لڑنا پڑا۔ اپنی توانائی اور پیسا بھی خرچ کیا، مگر اسے میٹھا پھل ملا۔ اب دریائے لوزہی کی وادی میں سبز مور آرام و اطمینان سے رہتے نشوونما پا رہے ہیں۔ ان کو سرکاری طور پہ تحفظ حاصل ہو چکا ہے. گو بوجیان بھی چین میں قومی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے۔

پاکستان میں بھی جنگلی حیات کے کئی بیش قیمت ارکان انسانی سرگرمیوں کی نذر ہو چکے۔ مثلاً 1846ء میں آخری شیر ببر کوٹ ڈیجی میں مارا گیا۔ جبکہ بلوچستان کا سیاہ ریچھ، سندھ میں آئیبکس، خیبر پختون خواہ میں اڑیال، بلتستان میں برفانی چیتا اور اندھی ڈولفن، چکور، مارخور وغیرہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی اور ڈی ایچ اے جیسے منصوبوں کی وجہ سے کھیرتھر نیشنل پارک تباہی سے دوچار ہے، جو جنگلی حیات کی بڑی پناہ گاہ ہے… پاکستانی حکومت، عدلیہ اور عوام، دونوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی جنگلی حیات، اپنے پڑوسیوں کی ہر ممکن حفاظت کریں اور انھیں مٹنے نہ دیں۔ یہ ہماری تہذیب وتمدن کا سرمایہ اور پاکستان کی پہچان ہیں…

کیا آپ انہیں معدوم ہونے دیں گے!؟ گو بوجیان کی یہ داستان پڑھ کر صرف اس کی توصیف کرنا ہی کافی نہیں، کیا آپ گو بوجیان بنیں گے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close