بھولنا دراصل ’سیکھنے‘ ہی کی ایک صورت ہے، نیا نظریہ

ویب ڈیسک

ٹورانٹو – دماغ کے دو ماہرین نے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے جس کے مطابق بھولنا دراصل کچھ نیا سیکھنے ہی کی ایک صورت ہے

آئرلینڈ کے ڈاکٹر ٹوماس ریان اور کینیڈا کے ڈاکٹر پال فرینکلینڈ کا یہ نیا نظریہ ’نیچر ریویوز نیورو سائنس‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے انسانی یادداشت اور سیکھنے کے عمل کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا ہے

اپنی تحقیق میں ان دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ یہ بھی سیکھتا ہے کہ مختلف حالات کے تحت کون کون سی معلومات اہم ہیں اور کونسی نظرانداز کرنے کے قابل ہیں

بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ ’ضروری‘ یا ’اہم‘ معلومات کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور ہمارا دماغ ایسی پرانی معلومات پر توجہ نہیں دیتا، جو موجودہ حالات سے مطابقت نہ رکھتی ہوں

اعصابیات (نیوروسائنس) میں کسی خاص علم یا مہارت سے متعلق یادداشت محفوظ کرنے والے دماغی خلیوں کے مجموعے’اینگرامز‘ (engrams) کہلاتے ہیں۔ جب ہم اس بارے میں کوئی بات یا واقعہ یاد کرتے ہیں تو اس سے متعلق اینگرامز میں سرگرمی پیدا ہوتی ہے، اور یوں وہ یادداشت ہمارے ذہن میں ’تازہ‘ ہوجاتی ہے

ڈاکٹر ریان اور ڈاکٹر پال کا کہنا ہے کہ ’بھولنے‘ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ یاد ہمارے ذہن سے غائب ہوجائے، بلکہ ہم ضرورت پڑنے پر اس یاد سے متعلق اینگرامز میں سرگرمی پیدا نہیں کر پاتے

بظاہر یہ ایک خرابی ہے لیکن درحقیقت اس کا بہت بڑا فائدہ ہے، کیونکہ جیسے جیسے ہمارے سیکھنے کا عمل آگے بڑھتا ہے، ویسے ویسے پرانی باتوں کا زیادہ تعداد میں یاد رہ جانا ہمارے اکتساب اور آموزش کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے

لہٰذا ، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دراصل پرانی باتیں بھول کر ہم نئی چیزیں اور مہارتیں سیکھنے کا عمل بہتر بناتے ہیں

یعنی صحت مند انسانی دماغ باقاعدہ طور پر یہ بھی سیکھتا ہے کہ ’بھلایا‘ کیسے جائے، تاکہ وہ بدلتے ہوئے ماحول اور حالات سے بہتر طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے تیار کرتا رہے

اس دوران دماغ کے خلیے تو ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں مگر اِن میں سرگرمی/ تحریک میں تبدیلی آجاتی ہے، جسے ہم ’بھول جانا‘ قرار دیتے ہیں

غرض کہ نیا کچھ سیکھنے کے دوران ہمارا دماغ مختلف اینگرامز کو تحریک دینا اور مختلف یادوں کو تازہ کرنا سیکھتا ہے، وہ یادیں، جو اس کے کام کی ہوتی ہیں

غیر متعلقہ یادوں کو وہ نظرانداز کردیتا ہے، تاہم یہ کہنا غلط ہے کہ ہم انہیں بھول جاتے ہیں۔ وہ یادیں ہمارے ذہن میں ہوتی ہیں، لیکن بے حس و حرکت رہتی ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close